AD Banner

{ads}

(معراج کا بیان 01)

 (معراج کا بیان 01)

روایت ہے حضرت ثابت بنانی سے وہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس براق لایا گیا ۱؎  وہ سفید دراز جانور ہے گدھے سے اونچا خچر سے نیچا اپنی ٹاپ اپنی نگاہ کی حد پر رکھتا ہے ۲؎ میں اس پر سوار ہوگیا حتی کہ میں بیت المقدس میں آیا تو میں نے اسے اس کڑے سے باندھا جس سے حضرات انبیاء باندھا کرتے تھے فرمایا۳؎ پھر میں مسجد میں داخل ہو ا تو اس میں دو رکعتیں پڑھیں ۴؎ پھر  میں نکلا تو میرے پاس جبریل علیہ السلام ایک برتن شراب کا اور ایک برتن دودھ کا لائے تو میں نے دودھ اختیار کیا ۵؎  تو جبرئیل علیہ السلام بولے کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا پھر ہم کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا اور پچھلی حدیث کے معنی بیان کیے ۶؎ فرمایا کہ ہم جناب آدم علیہ السلام کے پاس تھے انہوں نے مجھے مرحبا کہی اور مجھے دعا خیر دی فرمایا پھر تیسرے آسمان میں پہنچے تو میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس تھا انہیں دیا گیا ہے آدھا حسن ۷؎ انہوں نے مجھے مرحبا کہی اور میرے لیے دعا خیر کی اور جناب موسیٰ علیہ السلام کا رونا ذکر نہیں کیا ۸؎  اور فرمایا کہ ساتویں آسمان پر پہنچے تو ہم جناب ابراہیم علیہ السلام کے پاس تھے جو بیت المعمور سے اپنی پیٹھ لگائے تھے  ۹؎  اس میں ہر دن ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو پھر کبھی وہاں لوٹ کر نہیں آتے ۱۰؎ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے تو اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے  ۱۱؎  اور اس کے پھل مٹکوں کی طرح تو جب اسے الله کے حکم سے وہ نورانیت چھا گئی تو سدرۃ ایک دم بدل گیا۱۲؎  الله کی مخلوق میں کوئی نہیں جو اس کی خوشنمائی بیان کرسکے۱۳؎  رب نے میری طرف جو وحی کی وہ کی۱۴؎  پھر مجھ پر پچاس نمازیں ہر دن و رات میں فرض فرمائیں ۱۵؎  پھر میں موسیٰ علیہ السلام تک اتر کر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا میں نے کہا کہ ہر دن و رات میں پچاس نمازیں انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف لوٹیےاس سے ہلکا کرنے کی درخواست کیجئے کیونکہ آپ کی امت یہ طاقت نہیں رکھتی ۱۶؎  میں تو بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں ان پر تجربہ کرلیا ہے،فرمایا پھر میں اپنے رب کی طرف لوٹا میں نے عرض کیا یارب میری امت پر تخفیف فرما تو اس نے پانچ نمازیں کم کردیں ۱۷؎  پھر میں جناب موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹا میں نے کہا کہ مجھ سے پانچ کم کردیں انہوں نے کہا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی آپ اپنے رب کی طرف واپس جائیں اس سے کمی کا سوال کریں، فرماتے ہیں کہ میں اپنے رب اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان دورہ کرتا رہا حتی کہ فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہر دن و رات میں پانچ نمازیں ہیں ہر نماز کا دس گناہ ثواب تو یہ پچاس نمازیں ہی ہوئیں ۱۸؎  جو کوئی کسی نیکی کا ارادہ کرے پھر وہ کرے نہیں تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاوے گی ۱۹؎  پھر اگر وہ یہ کر بھی لے تو اس کے لیے دس لکھوں گا۲۰؎  اور جو گناہ کا ارادہ کرے پھر کرے نہیں تو اس کے لیے کچھ نہیں لکھوں گا ۲۱؎ پھر اگر وہ کرلے تو اس کے لیے ایک ہی گناہ لکھا جاوے گا۲۲؎  فرماتے ہیں کہ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف اترا میں نے انہیں یہ خبر دی تو انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس ہوجائیے اس سے کمی کا سوال کیجئے تب رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف اتنا لوٹ چکا کہ اب میں اس سے شرم کرتا ہوں۲۳؎  (مسلم)


۱؎ حضور انور براق پر سوار ہوئے مسجد حرام شریف میں پھر اسی براق پر سوار ہوئے مسجد اقصیٰ سے آسمان تک سفر میں،ساتویں آسمان سے آگے براق رہ گیا۔رفرف یعنی قدرتی تخت حضور کو اوپر لے گیا پھر عرش اعلٰی سے اوپر بغیر کسی سواری کے تشریف لے گئے،ادھر سے خطاب تھاادن یامحمد اے محبوب اور قریب آئیے،ادھر سے ایک قدم حضور آگے بڑھاتے تھے ایک قدم میں ہزارہا پردے طے ہوجاتے تھے۔


۲؎  لہذا براق ایک قدم میں آسمان پر پہنچا مگر یہ رفتار خراماں تھی حضرات انبیاءکرام براق سے پہلے اپنے اپنے مقام پر حضور کے استقبال کے لیے پہنچ چکے تھے۔


۳؎  یہ کڑا اس گنہگار نے دیکھا ہے،اب وہ زیر زمین ہے تہہ خانہ میں واقع ہے،پیتل کا ہے،بہت باریک رہ گیا ہے،ایک دیوار میں نصب ہے،وہاں لوگ برکت کے لیے نوافل پڑھتے ہیں یعنی حضرات انبیاءکرام جب بیت المقدس میں سواریوں پر آتے تھے تو اس حلقہ سے ہی باندھتے تھے۔بعض شارحین نے فرمایا کہ ہر نبی کو رب تعالٰی نے براق عطا فرمائے تھے جو اسی حلقہ سے باندھتے تھے مگر یہ شارحین یہ نہیں بتاسکے کہ وہ حضرات اپنے براقوں پر سوار کب ہوئے تھے حضور انور تو معراج میں سوار ہوئے ان حضرات کو معراج عطا نہیں ہوئی،اگر یہ معنی کرو کہ آج سارے نبی اپنے اپنے براقوں پر آئے اور انہیں نے اسی حلقہ سے باندھے تو بالکل غلط ہے کیونکہ یہاں ماضی استمراری ہے باندھتے تھے بہرحال یہ ہی معنی قوی ہیں کہ وہ حضرات اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ جس میخ سے انبیاءکرام کی سواریاں بندھا کریں وہ میخ بھی افضل ہوجاتی ہے۔


۴؎  بیت المقدس میں پڑھیں جہاں سارے نبی آپ کے انتظار میں تھے سب نے حضور کے پیچھے یہ رکعتیں ادا کیں۔حقیقت میں حضور کی یہ امامت اس عہد کا ظہور تھا جو میثاق کے دن نبیوں سے حضور کے متعلق اطاعت و فرمانبرداری کا لیا گیا،اعلٰی حضرت قدس سرہ نے کیا خوب فرمایا۔شعر


نماز اسریٰ میں تھا یہ  ہی سرعیاں  ہوںمعنی  اولآخر


کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت پہلے کر گئے تھے


۵؎ پچھلی روایت میں گزرا کہ یہ برتن بیت المعمور کے پاس پیش کیے گئے،یہاں ارشاد ہے کہ بیت المقدس کے پاس پیش ہوئے ہو سکتا ہے کہ دونوں جگہ پیش ہوئے ہوں،یا یہ دوسری معراج کا واقعہ ہے جو خواب میں ہوئی تھی۔یہاں شہد کا ذکر نہیں شہد بیت المعمور میں پیش کیا گیا تھا یہاں نہیں،یا روایت میں اجمال ہے۔


۶؎ یعنی اس حدیث کے الفاظ پچھلی حدیث کے کچھ خلاف ہیں مگر معنی ایک ہی ہیں۔


۷؎ یعنی آدھا حسن تو حضرت یوسف علیہ السلام کو تنہا ملا ہے اور آدھا حسن ساری دنیا کو تقسیم ہوا تو آپ کاحسن سارے حسینوں کے حسن کے برابر ہے۔ترمذی نے بروایت انس حدیث بیان کی کہ حضور نے فرمایا الله تعالٰی نے سارے نبی نہایت خوبصورت خوش آواز بھیجے ہیں میں ان سب میں زیادہ حسین اور خوش آواز ہوں لہذا یہاں اس حدیث میں حضور مستثنٰی ہیں۔شیخ ابن حجر مکی نے شرح شمائل میں فرمایا کہ مسلمان یہ اعتقاد رکھے کہ صورت و سیرت کا حسن الله نے سب سے بڑھ کر حضور کو عطا فرمایا، الوہیت کے سوا سارے اوصاف سارے فضل و کمال حضور میں جمع ہیں۔(اشعہ)شعر


کسے بہ حسن و ملاحت بیار مانرسد ترا دریں سخن انکار کار مانرسد


ہزار سکربہ بازار کائنات زدند یکے بخوبی صاحب عیار مانرسد (اشعۃ اللمعات)


یہاں مرقات نے فرمایا کہ حضور کے چہرے میں درودیوار ایسے نظر آتے تھے جیسے آئینہ میں اور فرمایا کہ حسن مصطفی کماحقہٗ صحابہ کو نہیں دکھایا گیا کہ کسی میں اس کے دیکھنے کی طاقت نہ تھی مگر حسن یوسفی کماحقہٗ سب کو دکھادیا گیا،یا اس فرمان کے معنے یہ ہیں کہ یوسف علیہ السلام کو میرے حسن کا آدھا عطا فرمایا گیا یعنی پورا حسن مجھے عطا ہوا مجھ سے آدھا یوسف علیہ السلام کو۔ (مرقات)؎


حسنِ یوسف سے کہیں بڑھ کر تھا حسنِ مصطفی بات یہ تھی اس کا کوئی دیکھنے والا نہ تھا


۸؎ صاحب مشکوۃ اس روایت میں اور گذشتہ روایت میں فرق رکھاہے ہیں کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کے رونے کا ذکر تھا اس روایت میں اس کا ذکر نہیں گویا یہاں اجمال ہے۔


۹؎  یعنی ابراہیم علیہ السلام اس طرح کھڑے تھے کہ ان کا منہ تو میری طرف تھا اور ان کی پیٹھ شریف بیت المعمور سے لگی ہوئی تھی۔ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ بیت المعمور خانہ کعبہ کے بالکل مقابل ہے،بعض نے فرمایا کہ یہ ہی بیت المعمور آدم علیہ السلام اپنے ساتھ لائے تھے پھر اٹھالیا گیا۔والله و رسولہ اعلم! (اشعۃ اللمعات)


۱۰؎  بیت المعمور فرشتوں کا کعبہ و قبلہ ہے کہ اس طرف رخ کرکے سجدے کرتے ہیں اور اس کی زیارت کرنے باری باری سے آتے ہیں،جو ایک بار کرجاتے ہیں وہ دوبارہ نہیں آتے،یہ زیارت فرشتوں کا حج ہے۔


۱۱؎فیلۃ کیت تانیث کی نہیں وحدت کی ہے یعنی اس بیری کے پتے ہاتھی کے کان برابر بڑے ہیں۔


۱۲؎ یعنی جب ہم سدرہ پر پہنچے تو اس پر ایک نور چھا گیا اس نور سے وہ سماں بندھا کہ اسے کوئی بیان نہیں کرسکتا۔اس گنہگار فقیر نے ایک صبح کو جالی شریف پر ایسے انوار دیکھے جو بیان نہیں ہوسکتے وہ نظارہ اب تک یاد ہے الله تعالٰی پھر دکھائے۔الٰہی ایں کرم بار دگرکن !


۱۳؎  یعنی میرے سوا کوئی اس کا حسن بیان نہیں کرسکتا اور مجھے اس کے کما حقہٗ بیان کی اجازت نہیں ایسے موقعہ پر متکلم مستثنٰی ہوتا ہے۔حضور نے تو الله تعالٰی کی ذات و صفات بیان فرمادیں،حضور ہی کے بیان سے دنیا نے خدا کو جانا مانا۔اعلٰی حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں؎


اے رضا احمد پاک کا فیض ہے ورنہ تم کیا سمجھتے خدا کون ہے


۱۴؎ یہاں وحی سے مراد وہ بالمشافہ کلام ہے جو رب نے حضور انور کو اپنی ذات اپنا جمال دکھاتے ہوئے فرمایا،فرماتاہے:"فَكَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی"۔اس کلام کی خبر نہ جبریل علیہ السلام کو ہے نہ کسی اور مخلوق کو۔خیال رہے کہ رب نے موسیٰ علیہ السلام سے جو کلام خلوت میں کیا وہ سب حضور کو بتادیا"وَمَا تِلْكَ بِیَمِیۡنِكَ یٰمُوۡسٰی"مگر جو کلام اپنے محبوب سے کیا وہ کسی کو نہ بتایا۔معلوم ہوا کہ حضور صاحب اسرار خاص ہیں۔


۱۵؎  فیصلہ الٰہی یہ ہوچکا تھا کہ نمازیں اولًا پچاس فرض کی جاویں پھر موسیٰ علیہ السلام کے عرض و معروض پر پانچ رہیں یہ پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا۔لہذاس اس پر یہ اعتراض نہیں کہ کیا رب کو خبر نہ تھی کہ نمازیں پانچ رہیں گی،رب کو یہ بھی خبرتھی کہ پانچ رہیں گی،یہ بھی خبرتھی کہ موسیٰ علیہ السلام کی مدد ان کی خواہش سے پانچ رہیں گی،یہ بھی خبرتھی کہ پانچ پانچ کم ہوں گی ۹ بار میں پینتالیس کم ہوں گی۔


۱۶؎  اس کی شرح ابھی کی جاچکی کہ یہاں طاقت نہ رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ وہ مجبور محض ہوں گے بلکہ آسانی والی طاقت مراد ہے۔علی امتك فرماکر یہ بتایا کہ حضور آپ کو پچاس نمازوں میں کوئی تکلف نہ ہوگا آپ کی عام امت پر بھاری پڑیں گی۔


۱۷؎  یہ حدیث مفصّل ہے پچھلی حدیث میں قدرے اجمال تھا پانچ پانچ نمازیں کم ہوئیں نو بار پینتالیس کی معافی پانچ باقی۔جہاں دس کی کمی کا ذکر ہے وہاں دوبار کو ایک دفعہ میں فرمایا گیا ہے اجمالًا اس کے باقی نکات ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔


۱۸؎ یعنی نماز پڑھنے میں پانچ ثواب میں پچاس ہیں ہمارا فیصلہ قائم ہے ترمیم صرف عمل میں کی گئی امت پر تخفیف کے لیے۔


۱۹؎  ھم سے مراد ہے کچا خام ارادہ یعنی جو شخص کسی نیکی کا غیر پختہ ارادہ کرے تب بھی ا س کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاوے گی اگرچہ وہ کسی شرعی عذر یا ظاہری وجہ سے نہ کرسکے جیسے کسی نے حج کا ارادہ کیا مگر قرعہ میں نام نہ نکلا تو اسے ارادہ کا ثواب مل گیا کہ نیکی کا ارادہ کرنا بھی نیکی ہے بلکہ نیکی کی آرزو اور تمنا کرنا بھی نیکی ہے۔حجاج حج کو جا رہے ہیں ایک غریب آدمی انہیں دیکھ کر اپنی محرومی پر آنسو بہارہا ہے،تمنا کر رہا ہے کہ میرے پاس پیسہ ہوتا تو میں بھی جاتا اسے ثواب مل گیا۔ایک شخص حضرات صحابہ کرام کی خوش نصیبی میں غور کررہا ہے کہ وہ کیسے خوش بخت تھے کہ حضور کے دیدار سے مشرف ہوئے اور سوچتا ہے کہ؎


جو ہم بھی واں ہوتے خاک گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن


مگر  کریں  کیا   نصیب  میں  تو   یہ   نامرادی  کے   دن   لکھے  تھے


اسے اس تمنا کا ثواب مل رہا ہے اوران شاءالله کل اسے صحابہ کرام کے ساتھ حشر نصیب ہوگا۔


۲۰؎  یعنی ارادۂ نیکی ایک نیکی ہے اور عمل نیکی دس نیکیاں ہیں یہ الله کا کرم ہے،پھر نیکی کے ہر عمل پر الگ ثواب،نماز کا ارادہ کرنا الگ نیکی،وضو کرنا  علیحدہ نیکی،مسجد کو چلنا اور نیکی بلکہ ہر قدم الگ نیکی،وہاں نماز کے انتظار میں بیٹھنا الگ نیکی،نماز کے بعد دعا مانگنا الگ نیکی،نماز تو مستقل علیحدہ نیکی ہے،ہم کام کریں اپنی حیثیت کے لائق وہ عطا فرماتا ہے اپنی شان کے شایاں۔


۲۱؎ھم اورعزم میں فرق ہے۔ھم سے مراد ہے خیال گناہ  اس پر پکڑ نہیں ،عزم کے معنی ہے گنا ہ کا پورا  ارادہ  اس پر پکڑ ہے ،کسی کے قتل یا چوری کی تاک میں رہا مگر کرنہ سکا  تو گنہگار ہوگیا  ہاں  خیال گناہ گناہ نہیں ہے بلکہ اس سے باز آجانا توبہ کرلینا نیکی ہے۔

۲۲؎ یعنی نیکی کی طرح گناہ میں اضافہ نہیں ہوتا۔خیال رہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک گناہ کا ایک لاکھ بن جانا وہ ایک ہی گناہ ہے مگر ہے اتنا بڑا کہ دوسری جگہ کے ایک لاکھ گناہوں کی برابر ہے کیونکہ اس نے حرم شریف کی زمین پاک کی توہین کی جیسے رمضان میں روزہ توڑنا دوسرے زمانہ کے اکسٹھ روزے توڑنے کے برابر ہے مگر ہے ایک ہی جرم لہذا اس حدیث پر کوئی اعتراض نہیں نہ یہ دوسری احادیث کے خلاف ہے۔

۲۳؎ اس شرم کے معنی اور اس کی وجہ ابھی پچھلی حدیث میں عرض کردی گئی کہ یہ پروگرام رب تعالٰی اور حضور صلی الله علیہ و سلم کے درمیان پہلے سے طے شدہ تھا جو کچھ ہوا پروگرام کے ماتحت ہوا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:8   حدیث نمبر:5863)

طالب دعا

فقیر تاج محمد قادری واحدی




مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner