حضرت سالا رسا ہو رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت
جب حضرت سالار مسعود غازی اپنے والد ماجد سے جدا ہو کر بہرائچ آئے تو دوسرے مہینے کی بات ہے کہ آپ کے والد سالار سا ہو کو مفارقت فرزند نے ایسا ستایا کہ پندرہ شوال کو روتے روتے دردسر ہو گیا۔ لوگوں کو وصیت فرمایا کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے ستر کھ میں دفن کرنا۔ چنانچہ ۲۵ / شوال المکرم ۴۲۳
مطابق ۱۰۳۲ء کو دردسر کی وجہ سے اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے ۔ عبدالملک فیروز کا قاصد بہراچ آیا۔ سالا رسا ہو کے وفات کی خبر سنایا۔ پہلے تو معظم خاں وشرف الملک و نظام الملک و ظہر الملک وعین الملک وغیرہ نے مصلحتا چھپا لیا پھر باہم یکجا ہو کر اس حادثہ عظیمہ کی خبر سالار مسعود کو سنایا۔ والد ماجد کے وفات کی خبر سن کر آپ کی گریہ وزاری اور لشکر کی بے قراری لکھنے سے قلم کے جگر میں شکاف ہے۔ صریر خامہ میں صدائے آہ صاف ہے۔ ایک حشر بپا تھا۔ حضرت بار بار فرماتے تھے کہ خواجہ احمد کی شرارت سے ہم جلا وطن ہو کر گرفتار رنج و غم ہوئے کا ہیلیر میں والدہ ماجدہ نے رحلت فرمائی اور والد محترم کو ستر کھ کی زمین پسند آئی۔ ہم کو نرغہ اشرار میں، اس دشت پر خار میں چھوڑ کر خود دنیا سے منھ موڑ گئے ۔ اے کاش! اس وقت میں غزنی میں اپنے عزیز واقارب کے پاس ہوتا تو اپنی یتیمی پر آنسو نہ بہاتا۔ اب مصیبتوں میں کون میری دلداری کرے گا ۔ میرے سر پر دست شفقت کون پھیرے گا۔ اب ابو جان کہہ کر کس سے کلام کروں گا ۔ ستر کھ میں جا کر کس سے سلام کروں گا۔
غرضیکہ دس روز تک یہی کیفیت رہی۔ گیارہویں دن ارکان دولت نے سمجھایا کہ خدا کی رضا پر راضی ہو کر صبر فرمائیے اور انتظام ملک میں دل بہلائیے۔ اس عرصے میں آپ کے در دولت پر مجمع عام ہوا اور بہت سے لوگ اکٹھا ہو گئے۔ حضرت ایک بلند ممبر پر جلوہ افروز ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہارے سردار حضرت سالا رسا ہو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اب تم کو اختیار ہے کہ جس کو اس لائق پاؤ اس کو اپنا سردار بنالو۔ مجھ کو ایک گوشہ تنہائی کافی ہے۔ ریاست سے بیزار ہوں۔ صرف محبت خدا و رسول (عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم ) کا طلبگار ہوں ۔ اس لئے میری التجا قبول کر لو ۔ یہ کہہ کر زار و زار رونے لگے۔ سب لوگوں نے دس بستہ عرض کیا کہ آپ ہی ہمارے سردار ر ہیں گے ۔ ہم بھلا ایسا عادل ، خدا دوست اور کسی کو کہاں پائیں گے۔ مجبوراً آپ نے اس منصب جلیلہ کو قبول فرمایا اور اسی وقت عبد الملک فیروز کو سترکھ کا حاکم بنا کر روانہ فرمایا۔ پھر تمام امراء کے نام فرمان صادر ہوئے اور خود بہرائچ کا انتظام سنبھالا۔ آپ اکثر فرماتے تھے کہ ہم جیسے ہی ہندوستان میں آئے ہزاروں مشقتیں برداشت کرنی پڑیں اور بہرائچ میں اگر چہ جنگل و ویرانہ ہے، زاغ و بوم کا آشیانہ ہے۔ مگر طبیعت بہل جاتی ہے کیوں کہ اس سرزمین سے بوئے محبت آتی ہے ۔ حاضرین خلاصہ سمجھ گئے کہ اسی جگہ آپ کی آخری آرام گاہ بنے گی۔(سوانح مسعود غازی ص۔ ۶۲/ ۶۳)
طالب دعا
محمد ابرارالقادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔