AD Banner

{ads}

شہادت کا خواب

 شہادت کا خواب

  جب محرم کا مہینہ آیا تو آپ نے آغاز سال کا جشن ترتیب دیا۔ ارکان دولت کو خلعت محتاجوں کو زرو نقد تقسیم کیا اور خود وضو کر کے حجرے میں تشریف لے گئے ۔ عبادت الہی میں سر جھکائے پڑھتے پڑھتے آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی دیر کے لئے جائے نماز ہی پر سو گئے تو خواب میں ایک حسین منظر دیکھا کہ حضرت سالار سا ہو دریائے گنگا کے کنارے لشکر کے ساتھ موجود ہیں ۔ شادی کی دھوم دھام ہے اور آپ کی والدہ حضرت ستر معلیٰ کے ہاتھوں میں پھولوں کا ہار ہے اور لخت جگر مسعود کے آنے کا انتظار ہے۔ آپ کی والدہ اپنے فرزندار جمند کو دیکھ کر سینے سے لگالیتی ہیں اور پھولوں کا ہار آپ کے گلے میں ڈال دیتی ہیں اور فرماتی ہیں بیٹا تیری شادی کا سب کچھ سامان تیار ہے۔ صرف تمہارے آنے کا انتظار ہے۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ خواب سے بیدار ہوئے ، وضو کر کے نماز سے فارغ ہو کر فقراء و علماء کو خواب سنایا۔ جواب ملا جس کو ایسا خواب نظر آئے ان شاء اللہ وہ جلد رتبہ شہادت سے سرفراز ہوگا۔ یہ سن کر آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہو گئے۔ سب رنج و ملال دور ہو گئے۔ فرمایا یقینا اللہ کا فضل عظیم شامل حال ہے کہ اب معبود حقیقی سے وصال کا وقت قریب آچکا ہے۔ پروردگار عالم ہم کو اور ہمارے سب دوستوں کو اس مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمائے اور میراث اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالب سے نوازے۔

سالار مسعود کا ۲۱ تاجداران ہند سے معرکہ آرائی 

مذکورہ بالا خواب دیکھنے کے بعد دوسرے ہی دن بہرائچ اور اطراف و جوانب کے راجاؤں کی طرف سے ایک ایلچی آپ کی خدمت میں آیا اور ایک خط لایا۔ ملک حیدر نے اسے آپ کی خدمت میں حاضر کر کے لایا ہوا خط پیش کر دیا جس میں اس طرح کا مضمون تھا کہ تم اس ولایت میں چڑھ کر تو چلے آئے مگر تیغ ہندی کا لوہا نہ پہچانا۔ للہ اپنی فوج پر رحم کرو اور اس ولایت سے سیدھے نکل جاؤ ۔ بھلائی اسی میں ہے۔ حضرت نے فوج کی تعداد کے بارے میں پوچھا تو اس نے اکیس

را جاؤں کے نام بتائے: (۱) رائے رائب (۲) رائے صائب (۳) ارجن (۴) جھکن (۵) گنگ (۶) کلیان (۷) مکرد (۸) شنکر (۹) کرن (۱۰) بیربل (۱۱) اجے پال (۱۲) سری پال (۱۳) ہر یپال (۱۴) ہر کہود (۱۵) ہر کرن (۱۶) نر ہر (۱۷) رجو (۱۸) باری (۱۹) نرائن (۲۰) دلو (۲۱) نرسنگھ

یہ سب کئی لاکھ سوار و پیادہ سے جنگ پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ حضرت سید سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ اس خط کا جواب دینے کے بجائے ملک نیک عادل کو مع سات سواروں کے اس ایلچی کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس خط کا جواب وہیں جا کر دیں گے۔ ملک نیک عادل نے ہر راجہ سے ملاقات کی اور کہا کہ حضرت سالار مسعود چند دن اس ملک میں رہ کر سیر و شکار میں دل بہلا کر واپس چلے جائیں گے۔ بہتر ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ ہو جائے ۔ ہم سب مل کر اس ملک کو آباد کریں گے اور رعایا کو شاد کریں گے ۔ ان کمینوں نے متکبرانہ انداز میں جواب دیا کہ جب تک ہمارے اور تمہارے درمیان ایک جنگ نہ ہو جائے گی ہمیں چین نہیں مل سکتا۔ رائے کرن نے کہا کہ تمہارے حق میں یہاں سے چلے جانا بہتر ہے ورنہ آمادہ جنگ ہمارا لشکر ہے۔ اور رائے کلیان جو سب سے زیادہ ہوشیار تھا اس نے کہا کہ سوچ سمجھ کر جواب دو۔ سالار مسعود ہم سے ڈر کر پیغام صلح نہیں دے رہے ہیں بلکہ ان کو فقط ہمارا آزمانہ منظور ہے ورنہ ہمارے نزدیک ان کی طرف سے پیغام صلح دور ہے۔ اگر وہ راضی ہیں تو ان سے صلح کر لو۔ ہر چند رائے کلیان نے سمجھایا مگر کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ملک نیک دل ان کے بے ڈھنگ تیور اور تلخ جواب پا کر اپنے لشکر میں واپس آگئے اور سالار مسعود کو پورا ماجرا سنایا کہ یہ سب اکیس راجے کئی لاکھ سواروں اور پیادوں کے دریائے کھتلہ کے کنارے جنگل میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تم بلا شرط چلے جاؤ ورنہ اچھا نہ ہوگا۔ اللہ کے شیر کے سامنے ان کے اس مغرورانہ جواب کی کیا اہمیت تھی ۔ آپ نے دشمنوں کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر نماز مغرب پڑھ کر لشکر کو روانگی کا حکم دے دیا۔ اور راتوں رات چل کر صبح دشمنوں کے سر پر پہونچ گئے اور فوجیں درست کیں ۔ سالار سیف الدین سرخرو کو ہر اول اور امیر نصر اللہ و سالار رجب و نصیر الدین اور بہاء الدین اور امیر خضر کو مقدمتہ الجیش بنایا اور دوسرے امیروں کو عقب میمند اور میسرہ میں مقرر کر کے خود قلاب لشکر میں آکر آگے بڑھے اور جنگ چھڑ گئی ۔ سالارسیف الدین کے ہر اول دستے سے لشکر کا بہت سخت مقابلہ رہا۔ بالآخر سالار رجب و امیر اللہ اور امیر خضر میمنہ سے گھوڑے بڑھائے اور امیر احمد وامیر محمد بلخی وا میر فتح الدین و ملک فیروز و ملک یعقوب وغیرہ میسرہ سے حملہ آور ہوئے۔ پھر تو گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ لاکھوں  مار کے ہزاروں سرا تارے۔ تھوڑی دیر میں تقریبا پچاس ہزار مسلمان شہید ہو گئے ۔ اسلام کے ان دلیروں نے ایک لاکھ افراد کو فنا کے گھاٹ اتار دیا اور ایسا جم کر مقابلہ کیا کہ ان را جاؤں کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ ہندو بھاگ کھڑے ہوئے ۔ مجاہدین اسلام نے دور دور تک تعاقب کر کے کافی مال غنیمت حاصل کیا ۔ اس جنگ میں پانچ راجے بھی زندہ گرفتار ہوئے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ایک ہفتہ تک حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ نے اس جگہ قیام کیا اور شہدائے کرام کی تجہیز وتکفین کی۔

خوبصورت باغ

پھر بہرائچ کا رخ کیا۔ چوں کہ ہوا بہت گرم تھی۔ لو چل رہی تھی۔ اس لئے سورج کنڈ کے قریب ایک مہوے کے درخت کے نیچے آرام کی غرض سے ٹھہر گئے ۔ وہاں بیٹھتے ہی آپ نے فرمایا کہ اس درخت کی چھائیں مجھے بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ لہذا حکم دیا کہ سورج کنڈ کے ارد گرد کے تمام پرانے درخت سوائے اس مہوے کے پیڑ کے جس کے نیچے میں بیٹھا ہوں سب کاٹ ڈالے جائیں اور ایک خوبصورت باغ لگایا جائے۔ چنانچہ سالار رجب کو اس کام پر مقرر کر کے خود بہرائچ تشریف لے آئے۔ سالار رجب نے لشکر کے بیلداروں کو بلایا اور کہا کہ سوائے اس درخت کے تمام جنگلی درخت ، جھاڑی، جھنڈی کاٹ ڈالو اور زمین صاف کر دو۔ چنانچہ بیلداروں نے تین چار روز میں تمام درختوں اور جنگلوں کو کاٹ کرتالاب کے ارد گرد تقریبا پانچ سو بیگھہ زمین برابر کر دی۔ پھر حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی۔ آپ نے خود ہی تشریف لا کر ملا حظہ کیا اور فرمایا کہ کچھ ایسے آدمیوں کو مقرر کر دو جو ہر قسم کے پودے باغ کے لئے مہیا کریں۔ چنانچہ بیلا، چمیلی ، گلاب ، کیوڑا، سیوتی، کیتکی ، سورج مکھی ہمسی وغیرہ ہر قسم کے پودے جمع کئے گئے اور ایک خوبصورت باغ تیار کیا گیا۔ نیز اسی مہوے کے درخت کے نیچے آپ کے بیٹھنے کے لئے ایک بڑا چبوترہ بنایا گیا۔ پھر اس کے بعد آپ بہرائچ چلے گئے ۔(سوانح مسعود غازی ص۔۶۳/ ۶۷)


طالب دعا

محمد ابرارالقادری




مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner