AD Banner

{ads}

سیدنا سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت

 سیدنا سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت 

سید رکن الدین اور سید جمال الدین جو ملک عرب سے آکر قصبہ رود ولی ضلع بارہ انکی میں متوطن ہو گئے تھے۔ ان میں سے سید رکن الدین کے دولڑ کے تھے اور سید جمال الدین کی ایک لڑکی بارہ سال کی جن کا نام زہرہ تھا، بہت ہی خوبصورت اور حسین و جمیل تھی۔ لیکن دونوں آنکھوں سے معذور تھی ۔ گھر میں خدا کی دی ہوئی دولت، ہر طرح کی آسائش مہیا ہونے کے باوجود نا بینا صاحبزادی کا علاج ممکن نہیں تھا۔ والدین اور اہل خاندان بچی کی مجبوریاں دیکھ کر تڑپ جاتے۔

عرس غازی کے موقع پر جب چند دیوانے بہرائچ سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ جو بھی حاجت مند سالار مسعود کے مزار پر جاتا ہے تو بفضلہ تعالیٰ اس کا خالی دامن گو ہر مراد سے بھر جاتا ہے۔ ہمارے سامنے چند اندھوں نے جب آستانہ پاک کی خاک آنکھوں میں لگائی تو سرکار غازی کے فیضان کرم سے فوراً اندھی آنکھیں روشن ہو گئیں۔ نیز دوسرے امراض والوں نے بھی شفاء کی پائی۔ یہ وہ آستانہ ہے کہ جن کے وسیلے سے دعا مانگو تو رحمت الہی جھوم جھوم کر برسنے لگتی ہے۔ سید جمال الدین یہ واقعہ سن کر بہت خوش ہوئے ۔ انھیں مایوسیوں کے اندھیرے میں امید کی ایک کرن نظر آئی۔ کہنے لگے کہ اگر ہماری بیٹی کی آنکھیں اچھی ہو گئیں تو ہم بھی بہرائچ حاضر ہو کر آپ کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کریں گے اور اپنے ہاتھوں سے مزار شریف پر روضہ تعمیر کریں گے۔ گھر میں آکر یہ حال زہرہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عزم مصم کر لیا کہ اگر میری بینائی واپس آگئی تو آخری دم تک مزار شریف پر جاروب کشی کی خدمت انجام دوں گی۔ آپ کی کرامات و تصرفات اور روحانی عظمت کا تذکرہ سن کر بغیر دیکھے عشق میں مبتلا ہو گئیں ۔ صرف آپ کا نام سن کر دل و جان سے فدا ہو گئیں ۔ رفتہ رفتہ یہ عالم ہو گیا کہ دن ہے تو انھیں کی باتیں ، رات ہے تو انھیں کی یادیں ۔ اپنے یوسف کی چاہ میں زلیخا کی طرح روتی تھیں ۔ صرف مسعود مسعود کہ پکارتی تھیں ۔ ایک روز روتے روتے سو گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ حضرت سرکار غازی ان کے آگے کھڑے ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ ائے زہرہ تو جس شخص کی مشتاق ہے وہ تیری نگاہوں کے سامنے کھڑا ہے، کیوں نہیں دیکھتی ہے؟ بی بی زہرہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کیا ائے پروردگار عالم اگر میں سرکار غازی کے عشق میں بچی ہوں تو میری آنکھوں میں روشنی عطا فرما دے تا کہ میں اپنے محبوب کا جمال دیکھوں نہیں تو موت دے دے تا کہ محبوب کی جدائی سے نجات پا جاؤں۔ پروردگار عالم نے غلبہ عشق کے سبب ان کی آنکھوں میں روشنی عطا فرمادی۔

آنکھیں روشن ہونے کے بعد سب سے پہلے جو چیز ان کو نظر آئی وہ حضرت سید سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کا جمال جہاں آرا تھا۔ حضرت کو دیکھ کر اس طرح بے قرار ہوئیں کہ پیچھے دوڑنے لگیں۔ اتنے میں سالار مسعود نظروں سے غائب ہو گئے ۔ آنکھ کھلی تو کچھ نہ پایا۔ خواب کا خیال آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ والدین گھبرا کر دوڑے ہوئے آئے ، بیٹی کی آنکھوں میں کرامت کا جلوہ دیکھ کر فرط مسرت سے جھوم اٹھے۔ مگر زہرہ کا صدمہ فراق سے عجیب حال تھا۔ کھانا پینا چھوڑ کر آرام سے منھ موڑ لیا۔ آپ کی یاد میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگیں۔ جب بے قراری حد سے زیادہ بڑھ گئی تو ایک رات خواب میں پھر حضرت سالار مسعود کی زیارت ہوئی اور بہرائچ آنے کی بشارت ملی۔

صبح کو زہرا نے والدین سے رات کا خواب بیان کیا اور روضہ بنانے کی منت کو پوری کرنے کی تاکید کی۔ فورا سید جمال الدین نے سید رکن الدین کے بیٹے کو زہرہ کے حقیقی ماموں کے ساتھ بہت زیادہ مال و دولت دے کر بہرائچی روانہ کر دیا۔ جب زہرا نے محبوب کی چوکھٹ کو بوسہ دیا اور اپنے خوابوں کے شہزادے کے قدموں میں سر رکھا تو حضرت نے زہرہ کے آئینہ دل کو علم باطنی سے منور کر کے نور ولایت سے بھر دیا۔ بی بی زہرہ نے سرکار کا روضہ تعمیر کرایا اور جاروب کشی کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ سورج کنڈ پر گنج شہیداں کی تعمیر اور سالا رسیف الدین کے قبہ کی تعمیر آپ ہی نے کروائی ۔ اس کے بعد آپ نے اپنے لئے حضرت کی آرام گاہ کے پچھم کی طرف اپنا مقبرہ تعمیر کرایا اور وصیت کر دی کہ میرے انتقال کے بعد مجھے اسی میں دفن کیا جائے ، چنانچہ حسب وصیت آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ اس زمانے میں غیر ملکی معمار ہندوستان میں نہیں آئے تھے اور ہندوستان کے معمار اس سے بہتر روضہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ چوں کہ بی بی زہرہ نے اپنی محبت کے شوق میں اس عمارت کو بنوایا تھا اس لئے سرکار غازی نے ان کی محبت کے باعث اسی عمارت کو قبول کیا جو آج تک موجود ہے۔ گذشتہ زمانے میں بہت سے مسلم بادشاہوں اور سلاطین نے چاہا تھا کہ اس قدیم طرز کے گنبد کو توڑ کر آپ کے شایان شان گنبد تعمیر کریں۔ مگر جس نے بھی ایسی نیت کی اسے خواب میں آگاہ کر دیا گیا کہ خبر دار میرے لئے میری زہرہ کا بنوایا ہو ا مقبرہ ہی کافی ہے۔ اسے توڑ کر دوسرا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بادشاہ اور امراء اپنی دولت کی فراوانی کی وجہ سے سر بہ فلک عمارت تو ضرور کھڑی کر سکتے تھے مگر جذ بہ صادق ، دلی خلوص اور قلبی محبت کی وہ اثر انگیزی کہاں سے لا سکتے تھے جو بی بی زہرہ نے ایک ایک اینٹ میں پیوست کی تھی۔ جب بی بی زہرہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو ۱۴؍ رجب ۴۳۳ ھ بروز اتوار اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف رحلت فرما گئیں۔ سبحان اللہ ۔ ایک ہی عمر ، تاریخ، دن اور مہینے میں سالارمسعود کی شہادت اور بی بی زہرہ کی وفات ہے مگر دونوں میں کافی فاصلہ ہے۔(سوانح مسعود غازی ص۔ ۹۶ تا ۹۹)

طالب دعا محمد ابرارالقادری



مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner