(کیا اعلیٰ حضرت نےحسام الحرمین میں عبارت کاٹ کر فتوی لگوایا ہے)
استفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین کہ دیوبندی علماء کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے کتاب حسام الحرمین میں بہت سی عبارتیں کاٹ چھانٹ کر نقل کر کے علمائے حرمین شریفین سے کفر کا فتویٰ لکھوا لیا ہے چنانچہ ایک کتاب ’’التصدیقات لدفع التلبیسات‘‘ معروف بہ مہند جس کو مولوی خلیل احمد صاحب انبیٹھوی نے مرتب کر کے شائع کیا ہے جس پر علمائے حرمین شریفین اور ہند کے علماء کی مہریں اور تصدیقیں موجود ہیں جس سے سند لاتے ہیں کہ علمائے دیوبند کے عقائد پر علماء حرمین شریفین تصدیق فرما رہے ہیں لہٰذا استفسار ہے کہ کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ حق ہے یا کتاب ’’التصدیقات‘‘ ہمارے سنی علماء کرام کا عمل کس پر ہے؟ اور دیوبندی عقائد والوں کو تو بڑا ناز ہے کہ ہم لوگ حق پر ہیں‘ اور بریلوی عقائد والے مفتری اور کاذب کہ ان کے یہاں کفر کا کارخانہ ہے۔ جس کو چاہتے ہیں مسلمان کہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں کفر کا فتویٰ دے کر دوزخ میں ڈال دیتے ہیں تو آیا یہ صحیح ہے یا غلط براہ کرم دلائل کی روشنی میں مسئلہ واضح فرمائیں۔ بینوا توجروا۔
المستفتی:سید مظاہر حسین مظفر پور
۱۸؍ جمادی الاول ۱۳۶۲ھ
الجواب بعون الملک الوھاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم۔
یہ بات قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے کہ حسام الحرمین کی عبارات میں قطع و برید کر کے کفری معنی پیدا کئے گئے ہیں۔ ساری عبارتیں بعینہٖ و بلفظہٖ نقل کی گئی ہیں اور انہیں پر علمائے حق سے فتویٰ لیا گیا ہے‘ انہیں کو علماء حرمین طیبین نے کفر فرمایا ہے۔ البتہ ایک مضمون کی چند عبارتیں ایک کتاب میں تھیں تو ان کو اختصار کے لئے یکجا کر کے لکھ دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک عبارت وہ کفری معنی رکھتی ہے۔ مجموعہ کے ملانے سے کوئی جدید معنی پیدا نہیں کئے گئے یہ محض افتراء ہے اور ہر شخص حسام الحرمین کے نقول کو اصل کتابوں سے ملا کر اطمینان کر سکتا ہے۔ البتہ وہابیہ کی کتاب ’’التلبیسات لدفع التصدیقات‘‘ یقینا اسم بہ مسمٰی ہے۔ اس میں تلبیس کی گئی ہے اور چالاکیوں سے کام لیا گیا ہے علمائے مکہ مکرمہ کو طرح طرح کے دھوکے دیئے ہیں اپنا مذہب کچھ کا کچھ بتایا ہے عقیدے برخلاف اپنی تصنیفات کے ظاہر کئے ہیں۔ نمونہ کے طور پر چند فریب کاریاں اس کی نقل کی جاتی ہیں۔
۱- وہابی ہندوستان میں کس کو کہا جاتا ہے اس کی تفصیل میں لکھا ہے: ’’بلکہ جو سود کی حرمت ظاہر کرے وہ بھی وہابی ہے گو کتنا ہی بڑا مسلمان کیوں نہ ہو‘‘۔(التلبیسات صفحہ نمبر ۳)
دیکھئے کتنا بڑا دھوکہ ہے۔ ہندوستان میں سود کے حرام کہنے والے کو کون وہابی کہتا ہے۔ سود کو تمام علمائے اہلسنّت حرام فرماتے ہیں: وہابی کے یہ معنی بتانا کتنا بڑا خدع و مکر ہے۔
۲- روضۂ طاہرہ کی زیارت کے لئے لکھا ہے کہ اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے۔ بلکہ واجب کے قریب ہے گو شدر حال اور بذل جان و مال سے نصیب ہو۔ (التلبیسات صفحہ ۵) پر زیارت شریف کی نیت سے سفر کو منع نہ کرنا وہابیہ کا قول بتایا۔ دیکھئے کیسے خالص سنی بن رہے ہیں گویا وہابی ان کے سوا کوئی اور ہے۔ اب ذرا ’’تقویۃ الایمان‘‘ دیکھئے کہ وہاں سلسلۂ شرکیات میں کیا ہے۔ ’’اس کے گھر کی طرف اور دور‘ دور سے قصد کر کے سفر کرنا‘‘۔ (تقویۃ الایمان) دوسری جگہ لکھا ہے: ’’اور کسی کی قبر پر یا چلہ پر یا کسی کے تھان پر جانا‘ دور سے قصد کرنا‘‘۔ (تقویۃ الایمان مطبوعہ مرکنٹائل پریس دہلی صفحہ ۴۵) اس میں صاف بتایا گیا ہے کہ کسی کے گھر یا کسی کی قبر کی طرف قصد کر کے سفر کرنا شرک ہے‘ اور تقویۃ الایمان کے مصنف اسمٰعیل کی تعریف اسی التلبیسات کے صفحہ ۳ میں مرقوم ہے۔ جب وہ ان کا پیشوا ہے اس کی کتاب پر ساری جماعت کا ایمان‘ اور اس میں بقصد زیارت سفر کو شرک کہا۔ اسی سفر کو التلبیسات میں قربت اور واجب کہنا اور اس کے لئے جان و مال کا خرچ روا رکھنے کا اظہار کتنا بڑا کید اور کیسا کھلا ہوا فریب ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہابیہ کے دین میں تقیہ بھی درست ہے کہ اپنے مذہب کو چھپا کر کچھ اور ظاہر کرے۔
۳- ’’تقویۃ الایمان‘‘ میں حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر کے لکھا ہے کہ میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ جانتے ہیں۔ معاذ االلہ‘ مگر التلبیسات میں ظاہر کیا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے۔ بلامکلف ہونے کے‘ اور یہ حیات مخصوص ہے۔ آنحضرت اور تمام انبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے۔ (التلبیسات صفحہ ۷) دیکھئے کیسا کھرا سنی بن رہا ہے۔
۴- تقویۃ الایمان۔ صفحہ ۴۷ میں ہے: ’’جس کا نام محمدیا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں‘‘۔ اسی کتاب کے صفحہ ۳۳ میں اولیاء کی نسبت لکھا: ’’کسی کام میں نہ بالفعل ان کو دخل ہے نہ اس کی طاقت رکھتے ہیں‘‘ اور التلبیسات میں اولیاء کرام کی نسبت اپنا یہ عقیدہ ظاہر کیا ہے کہ ’’ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض کا پہنچنا بیشک صحیح ہے‘‘۔ (التلبیسات صفحہ ۱۱)
۵- التلبیسات صفحہ ۱۲ میں محمدابن عبدالوہاب نجدی اور اس کے تابعین کو خارجی بتایا ہے اور ان کا یہ عقیدہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے فرقہ کے سوا تمام عالم کے مسلمانوں کو مشرک جانتے ہیں اور اہل سنت و علمائے اہلسنّت کا قتل ان کے نزدیک مباح ہے‘ مگر فتاویٰ رشیدیہ میں اچھا بتایا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رشیدیہ جلد اوّل صفحہ ۸ میں ہے: ’’محمد ابن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں‘ ان کے عقائد عمدہ تھے اور مذہب ان کا حنبلی تھا‘‘۔ جلد ۱ صفحہ ۹۶ میں لکھا ہے: ’’محمد ابن عبدالوہاب کو لوگ وہابی کہتے ہیں۔ وہ اچھا آدمی تھا۔ سنا ہے کہ مذہب حنبلی رکھتا تھا اور عامل بالحدیث تھا‘ بدعت و شرک سے روکتا تھا‘‘۔
عقیدہ تو یہ ہے مگر التلبیسات میں سنی بننے کے لئے ظاہر کیا کہ ہم اس کو خارجی مانتے ہیں۔ کیا مکاری ہے۔
۶- ختم نبوت کے متعلق التلبیسات میں سنی بننے کے لئے اپنا یہ عقیدہ ظاہر کیا کہ ’’آپ کے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’و لیکن محمداللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں‘‘ اور یہی ثابت ہے بکثرت حدیثوں سے جو معناً حد تواتر تک پہنچ گئیں اور نیزا جماع امت سے۔ ’’سو حاشاہم میں سے کوئی اس کے خلاف کیوں جو اس کا منکر ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اسی لئے کہ منکر ہے نص صریح کا‘‘۔ (التلبیسات صفحہ ۱۴-۱۵)
یہاں تو صاف اعلان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخر الانبیاء ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ آیت اور احادیث متواترہ المعنی اور اجماع سے ثابت بتایا اور نص قرآنی کو اس معنی میں صریح و قطعی اور اپنے آپ کو خالص سنی ظاہر کیا‘ اور تخذیرالناس میں دیکھئے تو اس میں صفحہ ۲ پر لکھا ہے: عوام کے خیال میں تو رسول کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔
۷- التلبیسات میں تو اپنا یہ عقیدہ ظاہر کیا ’’البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالیٰ کے لئے ہم جائز نہیں سمجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ جہت و مکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ و عالی ہے‘‘۔ (التلبیسات صفحہ ۱۳) مگر واقعہ میں وہابیہ کا عقیدہ اس کے خلاف ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے جہت و مکان سے منزہ جاننے کے عقیدہ کو بدعت کہتے ہیں چنانچہ امام الوہابیہ مولوی اسمٰعیل دہلوی نے ’’ایضاح الحق‘‘ صفحہ ۳۵‘ ۳۶ میں لکھا ہے: ’’تنزیہ او تعالیٰ از زمان و مکان جہت وماہیت ترکیب عقلی و مبحث عیفیت و زیادت صفات و تاویل متشابہات و اثبات روئیت‘ بلا جہت و محاذات و اثبات جوہر ذد و ابطال ہیولی وصوری و نفوس و عقول یا بالعکس و کلام در مسئلہ تقدیر و کلام و قول بصدور و عالم و امثال آں از مباحث فن کلام و الٰہیات و فلسفہ ہمہ از قبیل بدعات حقیقیہ است اگر صاحب آں اعتقادات مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ می شمارد‘‘۔ یہ عیاری ہے کہ عقیدہ کچھ ہے اور ظاہر کرتے ہیں اس کے خلاف۔
۸- التلبیسات صفحہ ۱۷ میں لکھا ہے کہ ’’جو اس کا قائل ہو کہ نبی کریم علیہ السلام کو ہم پر بس اتنی فضیلت ہے کہ جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے تو اس کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ایمان سے خارج ہے‘‘۔ یہاں تو یہ ظاہر کیا اور پردہ اٹھا کر دیکھئے تو۔ حقیقت یہ ہے کہ جس عقیدہ پر دائرۂ ایمان سے خارج ہونے کا حکم دیا ہے وہ عقیدہ خود ان کا اپنا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو تقویۃ الایمان مطبوعہ مرکنٹائل پریس دہلی صفحہ ۶۸ میں لکھا ہے: ’’انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہے وہ بڑا بھائی سو اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجئے‘‘۔ دوسری کتاب براہین قاطعہ جس کے مصنف بظاہر یہی مولوی خلیل احمد ہیں جنہوں نے التلبیسات میں مذکورہ بالا عبارت لکھی وہ براہین قاطعہ صفحہ ۳ میں لکھتے ہیں: ’’اگر کسی نے بوجہ بنی آدم ہونے کے آپ کو بھائی کہا تو کیا خلاف نص کہہ دیا وہ جو خود نص کے موافق ہی کہتا ہے‘‘۔ اس مکاری کی کیا انتہا ہے۔ جو عقیدہ بار بار لکھ کر چھاپ چکے التلبیسات میں اس کا صریح انکار کر دیا۔
۹- التلبیسات صفحہ ۱۸ میں ہے: ’’ہم زبان سے قائل اور قلب سے معتقد ہیں کہ سیّدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمامی مخلوقات سے زیادہ علوم عطا ہوئے ہیں جن کو ذات و صفات اور تشریحات یعنی احکام عملیہ و حکم نظریہ اور حقیقت ہائے حقہ و اسرار مخفیہ وغیرہ سے تعلق ہے کہ مخلوق میں سے کوئی بھی انکے پاس تک نہیں پہنچ سکتا۔ نہ مقرب فرشتہ اور نہ نبی رسول‘ اور بیشک آپ کو اولین و آخرین کا علم عطا ہوا‘ اور آپ پر حق تعالیٰ کا فضل عظیم ہے‘‘۔
اس عبارت کو ملاحظہ کیجئے کیا مسلمان بنے ہوئے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کی وسعت اور حضور کا تمام خلق سے اعلم ہونا بیان کر رہے ہیں اور عقیدہ دیکھئے تو نہایت ناپاک کہ معاذ اللہ حضور کو اپنے خاتمہ اور انجام کا بھی علم نہیں اور دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں۔ (تقویۃ الایمان مطبوعہ مرکنٹائل پریس دہلی ص ۳۱) میں لکھا ہے:’’جو کچھ اللہ اپنے بندوں سے معاملہ کرے گا خواہ دنیا میں خواہ قبر میں خواہ آخرت میں سو اس کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں نہ نبی کو نہ ولی کو نہ اپنا حال نہ دوسرے کا‘‘ اور براہین قاطعہ ص ۴۶ میں لکھا ہے: ’’اور شیخ عبدالحق روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں‘‘۔ حقیقۃً عقیدہ تو یہ ہے اور دھوکہ دینے کے لئے التلبیسات میں ظاہر وہ ہے۔
۱۰- التلبیسات صفحہ ۱۹ میں لکھا ہے: ’’اور ہمارا یقین ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں شخص نبی علیہ السلام سے اعلم ہے وہ کافر ہے اور ہمارے حضرات اس شخص کے کافر ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں۔ جو یوں کہے کہ شیطان ملعون کا علم نبی علیہ السلام سے زیادہ ہے۔ یہاں تو لکھا اور براہین قاطعہ میں خود ہی شیطان لعین کے لئے وسعت علم کو ثابت کیا ہے اور حضور کے حق میں اس کے ثبوت کا انکار کیا۔ یہاں جس چیز کو کفر بتایا اس کے قائل خود آپ ہی ہیں۔ براہین قاطعہ صفحہ ۴۷ میں لکھتے ہیں: ’’شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی‘ فخر عالم کی وسعت کی کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرنا ہے‘‘۔ دیکھئے عقیدہ تو یہ ہے اور التلبیسات میں اس کا صاف انکار ہے‘ اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کو کافر بتایا ہے۔ کیا عیاری ہے۔
۱۱- التلبیسات صفحہ ۴۴ میں جو شخص نبی علیہ السلام کے علم کو زید و بکر بہائم و مجانین کے علم کے برابر سمجھے‘ یا کہے وہ قطعاً کافر ہے۔
علمائے حرمین کے سامنے تو اپنا عقیدہ یہ ظاہر کیا اب یہ دیکھئے کہ ایسا سمجھنے اور کہنے والا کون جس کو کفر کہہ رہے ہیں وہ فعل کس کا ہے۔ ملاحظہ کیجئے ’’حفظ الایمان‘‘ مطبوعہ مجتبائی مصنفہ مولوی اشرف علی تھانوی صفحہ ۸۷۷ میں ہے: پھر یہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ مراد اس سے بعض غیب ہے یا کل غیب اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے ایسا علم تو زید و بکر بلکہ ہر صبی ومجنوں بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کو بھی حاصل ہے۔ دیکھئے وہ کفری قول جس کے قائل کو التلبیسات میں کافر کہہ رہے ہیں خود ان کے پیشوا مولوی اشرف علی کا ہے۔
اس کے علاوہ دوسری عیاری یہ ہے کہ التلبیسات میں اشرفعلی کی عبارت پیش کی تو اس میں قطع و برید کر لی کہ حفظ الایمان
میں تو ’’علم غیب کا حکم کیا جانا‘‘ لکھا ہے اور التلبیسات میں علم غیب کا اطلاق لکھا ہے۔ کہاں حکم کرنا کہاں محض اطلاق اپنی عبارت میں تحریف کر ڈالی۔ اگر ان کے نزدیک حفظ الایمان والی عبارت صریح کفر نہ تھی تو التلبیسات میں اس کو کیوں بدلا؟ کیوں دوسرے لفظوں سے بیان کیا؟ اصل لفظ کو کیوں بچایا‘ قول کچھ تھا علمائے عرب کو کچھ دکھایا۔
۱۲- مجلس میلاد شریف کی نسبت اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ دیکھو التلبیسات ص ۲۴: ’’حاشا ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں کہ آنحضرت کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ کی جوتیوں کے غبار اور آپ کی سواری کے گدھے کے پیشاب کا تذکرہ بھی قبیح و بدعت سیئہ یا حرام کہے۔ وہ جملہ حالات جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا بھی علاقہ ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ ہے اور اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے خواہ ذکر ولادت شریفہ ہو یا آپ کے بول و براز اور نشست و برخاست اور بیماری و خواب کا تذکرہ ہو‘‘۔
دیکھئے یہاں مولود شریف کو اعلیٰ درجہ کا مستحب بتایا جاتا ہے اور اس کو بدعت سیئہ کہنے سے حاشا کہہ کر انکار کیا جاتا ہے۔ یہ بڑا فریب ہے کیونکہ اس میں وہ اس کے منکر ہیں دیکھئے ذیل کے حوالے۔ فتاویٰ رشیدیہ جلد اوّل صفحہ ۵۰
سوال
مولود شریف اور عرس کہ جس میں کوئی بات خلاف نہ ہو جیسے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک جائز ہے یا نہیں؟ ’’اور شاہ صاحب واقعی مولود شریف اور عرس کرتے تھے یا نہیں؟‘‘
جواب
’’عقد مجلس مولود اگرچہ اس میں کوئی امر غیر مشروع نہ ہو مگر اہتمام تداعی اس میں بھی موجود ہے لہٰذا اس زمانہ میں درست نہیں‘‘۔
اسی فتاویٰ رشیدیہ جلد دوم ص ۱۴۵ میں ہے:
سوال
’’محفل میلاد میں جس میں روایات صحیحہ پڑھی جائیں اور لاف و گزاف اور روایات موضوعہ اور کاذبہ نہ ہوں شریک ہونا کیسا ہے؟‘‘
جواب
’’ناجائز ہے بسبب اور وجوہ کے‘‘۔
اسی فتاویٰ رشیدیہ کے جلد ۳‘ ص ۱۴۲ میں ہے: ’’کسی عرس اور مولود میں شریک ہونا درست نہیں اور کوئی سا عرس اور مولود درست نہیں‘‘۔
انصاف کیجئے کہ حقیقت میں مذہب تو یہ ہے کہ کوئی مولود شریف کسی طرح درست نہیں اور التلبیسات میں ظاہر اس کے خلاف کیا۔ یہ ہیں کیادیاں‘ یہ مکاریاں۔ استغفر االلہ۔ ان دیوبندیوں‘ وہابیوں کی تمام کتابیں ایسی مکاریوں سے لبریز ہیں چند بطور نمونہ یہاں لکھی گئیں۔ اب دوسرا انداز فریب ملاحظہ کیجئے خود سوالات لکھے خود ان کے جوابات دیئے اپنے ہی گھر کے لوگوں سے تصدیقیں کرائیں جوابوں میں وہ فریب کاریاں کیں جو اوپر بیان ہوئیں اب اس مجموعۂ فریب کو حرمین شریفین لے کر پہنچے تاکہ وہاں کے علماء کو دھوکہ دیں اور ان سے کسی طرح تصدیق کرا لیں تو کہنے کو ہو جائے کہ حسام الحرمین میں علمائے حرمین شریفین نے جن بدلگاموں پر کفر کا حکم دیا تھا انہوں نے ہی ان کا اسلام تسلیم کر لیا‘ مگر اللہ تعالیٰ علماء ربانی کا محافظ ہے۔ مکاروں کا کید نہ چلا اور حرمین طیبین کے علماء اعلام کی تصدیقیں حاصل نہ ہوئیں اگرچہ بعید نہ تھا کہ وہ حضرات ان پرفریب جوابوں سے دھوکہ کھاتے جن میں فریب کاروں نے اپنے آپ کو پکا سنی ظاہر کیا تھا مگر الحمد اللہ حرمین طیبین کے علماء کرام ان کے فریب میں نہ آئے۔
علمائے حرمین کی تصدیق کا حال
علمائے حرمین طیبین کی تصدیقات کا حال تو حسام الحرمین میں دیکھئے اور التلبیسات کی جعلی کارروائی محض فریب کاری ہے۔ عنوان میں تو لکھا ہے کہ ھٰذا خلاصۃ تصدیقات العلماء بمکۃ المکرمۃ اور اس کے ذیل میں صرف مولانا محمدسعید بابصیل کی ایک تحریر ہے اس تحریر میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ براہین قاطعہ و حفظ الایمان اور تحذیر الناس و فتاوائے گنگوہی پر جو حکم حسام الحرمین میں دیا وہ غلط ہے نہ یہ تحریر ہے کہ ان کتابوں کی کوئی عبارت کفری نہیں تو تصدیق کس بات کی ہے اور اس تحریر سے دیوبندیوں کو فائدہ کیا پہنچتا ہے۔ التلبیسات میں جو انہوں نے اپنے آپ کو سنی ظاہر کیا اور محمدابن عبدالوہاب نجدی کو وہابی خارجی بتایا‘ مولود شریف کو جائز کہا اس کی مولانا نے تصدیق فرما دی تو یہ سنیت کی تائید ہوئی۔ وہابیہ کی حیاداری ہے کہ وہ اس تحریر کو اپنی تائید میں پیش کریں۔
علاوہ بریں جو تحریر انہوں نے لکھی تھی بعینہٖ درج کرنا چاہئے تھی اس کا خلاصہ کیوں کیا گیا۔ وہ کیا مضمون مخالف تھا جس کو چھپانے کے لئے ان کی تحریر میں کانٹ چھانٹ کی اور اس تلبیسات میں خود اقرار ہے۔ چنانچہ صفحہ ۵۰ کے اوّل میں لکھا ہے: ’’یہ علماء مکہ مکرمہ زاد اللہ شرفاً و تعظیماً کے علماء کی تصدیقات کا خلاصہ ہے‘‘۔ جن علماء کی تحریر اپنی برأت کے ثبوت کے لئے پیش کی جاتی ہیں ان میں قطع و برید کیوں کی گئی۔ اس سے اہل فہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ تحریر ان کے موافق نہ تھی‘ جو باتیں خلاف اور صریح خلاف تھیں وہ نکال دیں یہ حال ان کی دیانت کا ہے۔
اس کے بعد ایک تصدیق شیخ احمد رشید کے نام سے لکھی ہے تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ یہ کوئی عرب اور علماء مکہ میں سے ہوں گے‘ مگر آخر میں یہاں دستخط ہے وہاں ’’بندہ احمد رشید خاں نواب‘‘ لکھا ہے دیکھو التلبیسات صفحہ ۵۲۔ یہ نواب اور خاں بتاتا ہے کہ یہ عرب نہیں ہیں اسی لئے اوّل میں ان کے نام کے ساتھ نواب اور خان نہیں لکھا گیا۔
تیسری تصدیق شیخ محب الدین کی ہے جن کو مہاجر لکھا ہے۔ لفظ مہاجر سے ظاہر ہے کہ وہ عرب علماء مکہ مکرمہ میں سے نہیں ہیں ان کی تحریر کو علمائے مکہ کی تحریر قرار دینا دنیا کو فریب دینا ہے یہ جرأت ہے کہ ہندوستانیوں کی تحریریں علماء مکہ کے نام سے پیش کر کے دنیا کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔
چوتھی تحریر شیخ محمدصدیق افغانی کی ہے اس کو بھی علماء مکہ کے سلسلہ میں داخل کیا ہے۔ ہندی و افغانی علماء مکہ میں بیٹھے اس دھوکہ دہی کی کچھ انتہا ہے ایسے تو جتنے حاجی ہندوستان سے گئے تھے۔ ان سبھوں سے نشان انگوٹھے لے کر علماء مکہ میں شمار کر دیتے تو کوئی کیا کرتا۔
ایک اور بڑا مکر
اسی سلسلہ میں پانچویں اور چھٹی تحریریں شیخ محمدعابد صاحب مفتی مالکیہ اور ان کے بھائی شیخ علی بن حسین مدرس حرم شریف کی بھی درج ہیں۔ یہ حضرات بیشک علماء مکہ میں سے ہیں مگر ان کے نام سے جو تحریریں التلبیسات میں درج ہیں وہ جعلی ہیں۔ چنانچہ خود التلبیسات صفحہ ۵۵ میں لکھا ہے: ’’جناب مفتی مالکیہ اور ان کے بھائی صاحب نے بعد اس کے کہ تصدیق کر دی تھی مگر مخالفین کی سعی کی وجہ سے اپنی تفریظ کو بحیلہ تقویت کلمات لے لیا اور پھر واپس نہ کیا اتفاق سے ان کی نقل کر لی گئی تھی سو ہدیۂ ناظرین ہے‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کی تحریریں وہابیہ کے پاس موجود نہیں پھر ان کے نام سے تحریر چھاپنا کس قدر بے باکی و مخادعت ہے۔ فرض کرو یہ سچے سہی اگر ان صاحبوں نے اپنی تحریر واپس لے لی اور پھر نہ دی تو وہ تحریر ان کو مقبول نہ ہوئی اس کو آپ کے سر تھوپنا کتنا بڑا مکر ہے اور مخالفین کی رعایت کی وجہ سے انہوں نے امر حق کو چھپایا تو وہ اس قابل ہی کب رہے کہ ان کی تحریر لائق اعتبار ہو۔ غرض کسی طرح سے ان کی تحریر چھاپنا اور ان کی طرف نسبت کرنا درست نہیں۔
التلبیسات میں علماء مکہ کے نام سے صرف اتنی ہی تحریریں درج ہیں ان میں قطع و برید بھی ہے۔ ہندیوں اور افغانیوں کو مکی بھی بنایا گیا۔ جعلی تحریریں بھی ہیں ایک بھی تحریر قابل اعتماد نہیں۔ کل کا کل کارخانہ دھوکے اور فریب کا ہے‘ اور اس سے ظاہر ہے کہ تمام علماء مکہ مکرمہ ان کے کفر پر متفق تھے اور کسی طرح ان کی فریب کاری نہ چل سکی۔ اس لئے انہوں نے جعلی تحریریں بنائیں اور ہندوستانیوں اور افغانیوں کو علماء مکہ مکرمہ ظاہر کر کے ان سے کچھ لکھوا لیا ایسا نہ کرتے تو تائید باطل کے لئے اور کر ہی کیا سکتے تھے۔
علمائے مدینہ کی تصدیقات کا حال
علمائے مدینہ کے نام سے التلبیسات میں عجب چال چلی ہے۔ مولانا سیّد احمد صاحب برزنجی کے کسی رسالہ کے چند
مقامات کی تھوڑی تھوڑی عبارتیں نقل کر کے اس پر جن چوبیس پچیس صاحبوں کے دستخط تھے سب نقل کر دیئے وہ دستخط التلبیسات پر نہ تھے۔ برزنجی صاحب کے رسالہ پر تھے مگر التلبیسات میں سب نقل کر دیئے تاکہ عوام دھوکہ کھائیں کہ مدینہ طیبہ کے اس قدر علماء اس سے متفق ہیں۔ چنانچہ التلبیسات کے صفحہ ۶۰ میں اس کا اقرار بھی کیا ہے۔
برزنجی صاحب کا پورا رسالہ بھی نقل نہ کیا جس کو لوگ دیکھتے کہ وہ کیا فرماتے ہیں‘ تین مقامات کی کچھ عبارتیں لکھ ڈالیں یہ کہاں کی دیانت ہے اہل عقل سمجھ سکتے ہیں کہ اس رسالہ کو بالکل نظر انداز کر دینا ضرور کسی مطلب سے ہے۔ چونکہ اگر وہ موافق ہوتا تو اس کا حرف حرف لکھا جاتا۔
مولانا شیخ احمد بن محمدخیر شنقیظی کی تحریر
علماء مدینہ کی تحریرات کے سلسلہ میں سب سے آخر مولانا شیخ احمد بن محمدخیر شنقیظی کی تحریر ہے۔ اس تحریر میں مولانا نے یہ تو نہیں فرمایا کہ تحذیر الناس‘ براہین قاطعہ‘ حفظ الایمان وغیرہ کی وہ عبارات جن پر حسام الحرمین میں کفر کا حکم دیا گیا ہے درست ہیں‘ یا کفر نہیں ہیں‘ یا ان کے مصنف مومن رہے کافر نہ ہوئے۔ بلکہ وہابیہ کا رد کیا ہے اور ان کی ناک کاٹ دی ہے کہ مولود شریف اور قیام وقت ذکر ولادت کو جائز و مستحب اور شرعاً محمود اور اکابر علماء کا قرناً بعد قرن معمول اور مسلمانوں کا شعار بتایا ہے۔ دیکھو التلبیسات صفحہ ۶۱ و ۶۲‘ اور اس سے بڑھ کر حضور کی روح مبارک کی تشریف آوری کو امر ممکن اور اس کے معتقد کو غیر خاطی بتایا ہے اور یہ تصریح کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں اور وہابی دین پر خاک ڈالنے کے لئے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ حضور باذنہ تعالیٰ جہان میں جیسے چاہتے ہیں تصرف فرماتے ہیں۔ (دیکھو التلبیسات صفحہ ۶۲) یہ وہابیہ کا رد اور اور ان کے دین کا ابطال ہے اس نے تفویۃ الایمان کو جہنم رسید کر دیا اس کے علاوہ التلبیسات کی نقل کی ہوئی اور تحریرات میں بھی وہابیہ کے کھلے ہوئے رد ہیں۔ یہ ایک مختصر نقشہ التلبیسات کا پیش کیا گیا ہے جس سے ہر عاقل منصف اس دجالی کتاب کی فریب کاری پر نفرت کرے گا۔
اب بحمد اللہ تعالیٰ روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ حسام الحرمین حق و صحیح اور التلبیسات کذب و زور و باطل و مردود ہے والحمد اللہ رب العالمین و صلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ و سیّد انبیائہ و رسلہ محمدو الہ و اصحابہ اجمعین۔
کتبہ
العبد المعتصم بحبلہ المتین
محمد نعیم الدین عفا عنہ المعین
۱۳۳۲ھ
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔