(مسئلہ علم غیب)
استفتاء:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب سے متعلق ہر جگہ گفتگو ہو رہی ہے دیوبندی لوگ اس کے انکار میں بہت مبالغہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی کے لئے غیب کا علم ثابت کرنا شرک ہے اور اپنی تائید میں قرآن پاک کی آیتیں اور حدیثیں بیان کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ جواب مدلل ارشاد فرمایئے۔ بینوا توجروا۔
المستفتی: سیّد عبدالماجد دہلی
۱۵؍محرم ۱۳۵۸ھ
الجواب بعون الملک الوھاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم و علی اٰلہ و اصحابہ اجمعین۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو رب العزت تبارک و تعالیٰ نے جمیع اشیاء کا علم عطا فرمایا حاضرہ ہوں یا غائبہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ قرآن کریم اور احادیث شریفہ سے یہ خوب اچھی طرح ثابت ہے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں ہر شے کا واضح بیان ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور کو جمیع اشیاء کا علم ہے اور قرآن پاک میں ان سب کا بیان‘ اور بالاتفاق حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے عالم ہیں۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوا: وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ۔ وَکَانَ فَضْلُ االلہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا‘ اور اللہ تعالیٰ نے تعلیم فرمایا آپ کو جو آپ نہ جانتے تھے‘ اور اللہ تعالیٰ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے تیسری آیت میں ارشاد ہوا: مَاکَانَ االلہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰـکِنَّ االلہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ’’اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ اے عام لوگو! تمہیں علم غیب دے۔ ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے‘‘۔ چوتھی آیت یہ ہے: عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ۔ ’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اپنے غیب پر کسی کو ظاہر و مسلط نہیں فرماتا‘ مگر جس کو وہ چاہے اپنے رسولوں میں سے‘‘۔ ان کے علاوہ بہت کثیر آیات ہیں جن سے یہ مضمون ثابت ہے۔ اب چند حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں۔
حدیث (۱)بخاری شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقاما فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذالک من حفظ و نسیہ من نسیہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مجلس میں قیام فرما کر ابتداء آفرینش سے اہل جنت اور اہل نار کے اپنی اپنی منزلوں میں داخل ہونے کی خبر دی جسے یاد رہا یاد رہا اور جو بھول گیا بھول گیا۔ بخاری شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس صحابہ میں ابتداء آفرینش سے دخول جنت و نار تک ہونے والے جملہ وقائع و حوادث اور تمام حالات و مکنونات کی خبر دی۔
حدیث (۲)بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقاما ما ترک شیئا یکون فی مقامہ ذالک الی قیام الساعۃ الاحدث بہ۔ یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مجلس میں قیام فرمایا اور قیامت تک ہونے والی کوئی چیز نہ چھوڑی جن کا بیان نہ فرمایا ہو‘‘۔
بخاری و مسلم کی اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قیامت تک ہونے والی ہر چیز کا بیان فرما دیا کوئی چیز نہ چھوڑی۔
حدیث (۳) مسلم شریف میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقھا ومغاربھا۔ ’’یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹا پس میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھا‘‘۔ یعنی تمام زمین کو ملاحظہ فرمایا۔
مرقاۃ المفاتیح میں اس حدیث کی شرح میں فرمایا: معناہ ان الارض زویت لی جملتھا مرۃ واحدۃ فرایت مشارقھا و مغاربھا۔ ’’یعنی میرے لئے تمام زمین یکبارگی سمیٹی گئی پس میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھا‘‘۔
حدیث (۴)مواہب لدنیہ میں طبرانی سے بروایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ تعالٰی قد رفع لی الدنیا فانا اانظر الیھا والی ماھو کائن فیھا الی یوم القیٰمۃ کانھا انظر الی کفی ھٰذہ۔ ’’حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے دنیا اٹھائی میں نے اس کو اور اس میں جو کچھ قیامت تک ہونے والے ہیں سب کو ایسا ملاحظہ فرمایا جیسا اپنے اس کف دست کو‘‘۔
حدیث (۵)امام احمد و ترمذی نے ایک حدیث روایت کی اور اس کو حسن و صحیح بتایا‘ اور ترمذی نے کہا: میں نے امام بخاری سے اس حدیث کو دریافت کیا انہوں نے فرمایا: صحیح ہے اس حدیث میں ہے: فتجلی لی کل شی و عرفت پس مجھے ہر چیز روشن ہو گئں اور میں نے پہچان لی۔
ان آیات و احادیث سے خوب ظاہر و روشن ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جمیع اشیاء کے علوم عطا فرمائے اور کائنات کا کوئی ذرہ اور قیامت تک ہونے والا کوئی واقعہ حادثہ ایسا نہ رہا جس کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم نہ دیا گیا ہو۔
اب جو شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا انکار کرتا ہے وہ باطل پر ہے اور آیات و احادیث میں یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ علوم عطا نہیں فرمائے۔ چنانچہ علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: ان المنفی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ علیہ باعلام اللہ تعالٰی فامر متحقق قال اللہ تعالٰی عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ۔ یعنی نفی علم ذاتی کی گئی ہے اور ثبوت علم بتعلیم الٰہی کا ہے جو امر ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو ظاہر و مسلط نہیں کرتا مگر جس کو رسولوں میں سے چنے۔ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت نے فیصلہ کر دیا کہ عبارات نفی میں علم ذاتی مراد ہے‘ اور عبارات اثبات میں علم عطائی دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم عطائی کے انکار میں آیات و احادیث پیش کرنا مغالطہ اور تغلیط ہے۔
بحمد اللہ تعالیٰ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کا مسئلہ خوب واضح و روشن اور دلائل و براہین سے موشح و مزین ہو چکا۔ اب مخالفین کو جائے چون و چرا باقی نہیں۔ بیان مسطور بالا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کے لئے بتعلیم الٰہی علم غیب کا اثبات شرک نہیں‘ اور جو چیز نصوص سے ثابت ہو کس طرح شرک ہو سکتا ہے‘ اس کو شرک کہنا کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ شرک کہنے والا اس بات کا مدعی ہے کہ اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ کا علم بھی معاذ اللہ عطائی اور بتعلیم غیر ہے۔ ایسا کہے تو یقینا کافر اور نہ کہے تو اثبات علم عطائی پر شرک کا حکم لگانا کذب و باطل اور جہالت و ضلالت ہے۔ تمام عالم کے وہابی مل کر کوشش کریں تو بھی علم عطائی کو شرک ثابت نہیں کر سکتے۔ واللہ تعالٰی سبحانہٗ اعلم۔
کتبہ: المعتصم بحبل اللہ المتین
محمد نعیم الدین غفرلہ‘
۱۰؍ صفر المظفر ۱۳۵۱ھ
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔