(صاحب ترتیب پہلے قضا پڑھے یا جما عت میں شا مل ہو جا ئے ؟)
مسئلہ: کیا فرما تے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ:زید صاحب ترتیب ہے اتفاق سے اس کی نماز فجر قضا ہو گئی بعدہ ظہر کے وقت تک اس نے نہیں پڑھی اور مسجد میں اس وقت پہو نچا کہ ظہر کی جما عت کھڑی ہے لہذا ایسی صورت میں کیا حکم شرع ہے کہ پہلے فجر کی قضاپڑھے یا جما عت میں شریک ہو ؟بینواتو جروا۔
المستفتی:مسافر خاں سراوستی ۸؍ محرم الحرام ۱۴۲۸ھ
الجــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون المجیب الوھاب
صورت مسئولہ میں صاحب ترتیب جس کی نماز قضا ہو گئی ہے اگر چہ مسجد میں اس وقت پہو نچاجبکہ جما عت کھڑی ہو چکی ہے اس کے لئے حکم یہ ہے کہ فجر کی قضا پڑھ کر اگر جما عت میں شریک ہو سکتا ہے تو ایسا کر ے ورنہ جما عت چھوڑ کر پہلے قضا پڑھے بعد میں ظہر کی نماز تنہا پڑھے۔ جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے’’اذا صلی الظہرو ھو ذا کر انہ لم یصلی الفجر فسد ظھر ہ‘‘(۱۲۲)
نیز اسی میں ہے ’’اذا ذکر الفجر فی اخر وقت الظھر فوقع علی ظنہ ان الوقت لایحتمل الصلاتین فافتتح الظھر فصلا ھا وقد بقی من وقت الظھر بعضہ نظر فیہ فان کان ما بقی من وقت الظہر ماامکنہ ان یصلی فیہ الفجر ثم الظھر لم تجز ئہ التی صلی‘‘ اھ (فتاوی ہندیہ جلد اول ۱۲۲)واللہ تعا لیٰ اعلم بالصواب
العبد محمد معین الدین خاں رضوی ہیم پو ری غفرلہ القوی
کتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ
۹؍ محرم الحرام ۱۴۲۸ھ
الجواب صحیح
عبدالسبحان قادری
خادم التدریس عزیز العلوم قصبہ نانپا رہ بہرائچ
۱۰؍ محرم الحرام ۱۴۲۸ھ
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں
نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔