AD Banner

{ads}

(طرزِ استدلال)

 (طرزِ استدلال)

مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات کے سلسلے میں آپ کے جوابات نہایت متین اور سنجیدہ ہوتے تھے۔ تضحیک و تمسخر سے آپ کا جواب بالکل مبرا ہوتا تھا۔ طرز استدلال اتنا عجیب اور انوکھا ہوتا کہ اہل علم عش عش کر اٹھتے تھے‘ اور مخالفین کو ذرہ بھر مزید اعتراض و شبہ کا موقعہ نہ رہتا تھا۔ اس کے لئے آپ کی تمام تصانیف شاہد و ناطق ہیں۔ تاہم اس جگہ ہم نمونتہً آپ کا ایک مقابلہ پیش کرتے ہیں جو علم غیب مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کے اثبات میں ہے اور مخالفین و معاندین کے جس قدر شبہات اور اعتراضات آج تک ان کی جھولی میں رہے ہیں ان کا آپ نے شافی اور مسکت جواب دیا ہے۔ لطف یہ ہے کہ مختصر ہوتے ہوئے بھی اپنی جامعیت میں بے مثل ہے۔ اگر اسی ایک مقالے کو اہل علم اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں تو مزید کسی کدو کاوش کی ضرورت نہ رہے‘ اور اس مسئلہ میں یہی ایک مقالہ ان کے لئے مفید و کارآمد ثابت ہو۔

سیّدی صدر الافاضل قدس سرہ نے پہلے شبہات بیان فرمائے ہیں اس کے بعد ان کے شافی جوابات دیئے ہیں لیجئے ملاحظہ فرمایئے اور حظ حاصل کیجئے۔ واللہ یھدی من یشاء

شبہہ اول

قرآن شریف کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہ تھا قولہ تعالٰی: قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ االلہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘ (کہہ دو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں) دوسری آیت: لَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ (اگر میں غیب جانتا ہوتا تو خیر زیادہ کر لیتا) اس پر دال ہے۔
جواب ۱
ان آیتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم نہ ہونے پر دلیل لانا خود قرآن سے جاہل ہونے کی دلیل ہے۔ یہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ میں غیب جاننے کا مدعی نہیں تواضعاً ہے۔ جمل حاشیہ جلالین جلد ۲‘ ص ۲۵۸ میں تفسیر خازن سے نقل کیا ہے:’فان قلت قد اخبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن المغیبات وقد جاء ت احادیث فی الصحیح بذالک وھو من اعظم معجزاتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فکیف الجمع بینہ و بین قولہ ولو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر قلت یحتمل ان یکون قال صلی اللہ علیہ وسلم علی سبیل التواضع والادب المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی اللہ علیہ و یقدرہ لی و یحتمل ان یکون قال ذٰلک قبل ان یطلعہ اللہ عزوجل علی علم الغیب‘‘

‘‘ اس عبارت کا حاصل مضمون یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت مغیبات کی خبریں دیں اور یہ صحیح
احادیث سے ثابت ہے اور غیب کا علم حضور کے اعظم معجزات میں سے ہے پھر آیۂ کریمہ: وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ الخ کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور نے اپنی ذات جامع کمالات سے علم کی نفی تواضعاً فرمائی اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا مگر اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے اور اس کے مقدر کرنے سے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ علم غیب عطا ہونے سے پہلے لَوْکُنْتُ الآیہ فرمایا ہو‘ اور علم اس کے بعد عطا ہوا۔ غرضیکہ یہ آیات حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب نہ جاننے پر دلیل نہیں‘ یا آیت مذکورہ کا یہ مطلب ہے کہ بالذات اور بالاستقلال غیب کا علم کسی کو نہیں۔ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو بتعلیم الٰہی ہے۔ چنانچہ تفسیر نیشا پوری میں ہے: ای قل لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الا االلہ‘ خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت اس امر کی دلیل ہے کہ باستقلال کوئی غیب کا عالم نہیں سوائے خداتعالیٰ کے۔ علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: وقولہ لوکنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر فان المنفی علمہ من غیر واسطۃ داما اطلاعہ علیہ باعلامہ اللہ تعالٰی فامر متحقق قال اللہ تعالٰی عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ یعنی آیت لوکنت الخ میں اس علم کی نفی ہے جو بے واسطہ ہو لیکن بالواسطہ تعلیم الٰہی کے‘ پس بے شک ہمارے حضرت کے لئے غالب ہے۔ جیسا کہ باری تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ الآیہ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ آیت شریفہ میں لفظ لوکنت اعلم‘ اور لا ستکثرت اور مامسّنی سب صیغے ماضی کے ہیں جو زمانہ گزشتہ پر دلالت کرتے ہیں۔ آیت شریفہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر میں زمانہ گزشتہ میں غیب کو جانتا تو بہت سی خیر جمع کر لیتا اور مجھ کو برائی نہ پہنچتی‘ اگر جملہ عبارات مسطورہ بالا سے قطع نظر کر کے حسب مدعائے مخالف یہ فرض کر لیا جائے کہ اس آیۃ شریفہ سے انکار غیب معلوم ہوتا ہے تو بھی ہمیں کچھ مضر نہیں اس لئے کہ اگر بالفرض آیت میں انکار ہے تو زمانہ گزشتہ میں حاصل ہونے کا انکار ہے کہ اگر میں پہلے غیب جانتا تو بہت سی خیر جمع کر لیتا اور برائی مجھے نہ پہنچتی۔ اس آیت میں اس امر پر دلالت نہیں کہ میں اب بھی غیب نہیں جانتا یا آئندہ بھی مجھے اس کا علم نہ ہو گا‘ پس اگر آیت میں بیان ہے تو اس وقت کا بیان ہے کہ جس وقت حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب پر اطلاع نہ دی گئی تھی‘ نہ اس کے بعد کا جیسا کہ اوپر حاشیہ جمل کی عبارت سے واضح ہو چکا۔

شبہہ دوم

قرآن شریف میں ہے: وَمِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَاس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق سبحانہ‘ تعالیٰ نے ہمارے حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعضے انبیاء کا قصہ نہیں بیان کیا ہے پھر وہ تمام چیزوں کے عالم کیونکر ہوئے۔

جواب:۲

آیت شریفہ کی یہ مراد ہے کہ ہم نے بواسطہ وحی جلی کے قصہ بیان نہیں کیا یہ علم نہ ہونے کی دلیل نہیں اس لئے کہ حق سبحانہ تعالیٰ نے حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو بواسطہ وحی خفی کے اس پر مطلع فرمایا ہے۔ چنانچہ ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد نمبر ۱‘ ص ۵۰ میں فرماتے ہیں: ھذ الاینا فی قولہ تعالٰی ولقد ارسلنا رسلا من قبلک منھم من قصصنا علیک و منھم من لم نقصص علیک لان المنفی ھو التفصیل والثابت ھو الاجمال او النفی مقید بالوحی الجلی والثبوت متحقق بالوحی الخفی‘

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی ہیں اور ان میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں۔ پس ہمارے نبی کا انبیاء کی تعداد بتانا آیت کے منافی نہیں اس لئے کہ آیت میں نفی تفصیل کی ہے اور اجمال ثابت ہے یا آیت کی نفی وحی جلی کے ساتھ مقید ہے اور ثبوت وحی خفی سے متعلق ہے۔

شبہہ سوم

کلام اللہ میں ہے: لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کے حال کی خبر نہیں۔

جواب ۳

اول تو اس آیت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتعلیم الٰہی بھی منافقین کے حال کا علم نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اے محبوب! تم منافقین کے حال کو اپنی فراست اور دانائی سے نہیں جانتے۔ چنانچہ بیضاوی میں ہے: خفی علیک حالھم مع کمال فطنتک وصدق فراستک مگر حضور بتعلیم الٰہی ضرور جانتے ہیں چنانچہ جمل جلد چہارم ص ۱۷۸ میں ہے:
: معنی الاٰیۃ وانک یا محمدلتعرفن المنافقین فیما یعرضون بہ من القول من نھجین امرک وام المسلمین و تقبیہ والاستھزابہ کان بعد ھذا لا یتکلم منافق عند النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الاعرف‘ بقولہ و یستدل بفحوی کلام علی فساد باطنہ و نفاقہ‘
دوم یہ کہ یہ آیت پہلے نازل ہوئی اس کے بعد علم عطا فرمایا گیا‘ چنانچہ اسی جمل میں تحت آیۃ لا تعلمھم کے مسطور ہے:
فان قلت کیف نفی عنہ علمہ بحال المنافقین واثبت فی قولہ تعالٰی و لتعرفنھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات فلا تنافی۔پس اب ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منافقین کے حال کے بھی عالم ہیں۔

شبہہ چہارم

وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ الخ مخالفین کی خوش فہمیوں نے انہیں اس امر پر آمادہ کر دیا ہے کہ وہ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ حضرت سراپا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو روح کا علم نہ تھا۔

جواب ۴

سبحان اللہ جانب مخالف کس درجہ عقیل ہیں کہ بھلا یہ آیت کے کس لفظ کا ترجمہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روح کاعلم نہ تھا آیت کا ترجمہ یہ ہے (اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم) تم سے روح کی نسبت سوالات کرتے ہیں تم کہہ دو کہ روح میرے رب کے امر سے ہے) اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ حضور کو اس کا علم نہ تھا۔ اب محققین کا فیصلہ اس امر میں کیا ہے وہ ملاحظہ فرمایئے۔ امام محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں: ولاتظن ان ذالک لم یکن مکشوفا لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان من لم یعرف نفسہ فکیف یعرف اللہ سبحانہ ولا یبعد ان یکون ذلک مکشوفا لبعض الاولیاء والعلماء ’’یعنی گمان نہ کر کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ظاہر نہ تھا اس لئے کہ جو شخص روح کو نہیں جانتا وہ اپنے نفس کو نہیں پہچانتا اور جو اپنے نفس کو نہیں پہچانتا وہ اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ کو کیونکر پہچان سکتا ہے اور بعید نہیں ہے کہ بعض اولیاء اور علماء کو بھی اس کا علم ہو‘‘۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ جلد دوم میں فرماتے ہیں: ’’چگو نہ جرأت کند مومن عارف کہ نفی علم بحقیقت روح از سیّد المرسلین و امام العارفین صلی اللہ علیہ وسلم کند ودادہ است‘ اور احق سبحانہ‘ تعالیٰ علم ذات و صفات خود و فتح کردہ بروئے فتح مبین از علوم اولین و آخرین روح انسانی چہ باشد کہ درجنب جامعیت وے قطرہ ایست ازدر یاو ذرہ ایست از بیداء‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ روح کا علم حضور کے دریائے علم کا ایک قطرہ ہے اور حق تعالیٰ نے حضور کو مرحمت فرمایا۔

شبہہ پنجم

کافروں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت باندھی تھی۔ حضور کو نہایت رنج ہوا تھا‘ کچھ دنوں بعد جب اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ عائشہ پاک ہے کافر جھوٹے ہیں‘ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی‘ اگر آگے سے معلوم ہوتا تو کیوں غم ہوتا۔

جواب ۵

سرمایہ ناز مخالفین کا یہی شبہ ہے جو ہر چھوٹے بڑے کو یاد کرا دیا گیا‘ اور اس بے باکی سے زبان پر آتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ پھر اگر انصاف سے غور فرمایئے تو کھل جائے کہ بجزابلہ فریبی کے اور کچھ نہیں ہے۔ اللہ ہوش درست نصیب فرمائے تو یہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں ہے کہ بدنامی ہر شخص کے لئے غم کا باعث ہوتی ہے‘ اور جھوٹی بدنامی سے اگر اپنی بدنامی ہوتے دیکھیں اور لوگوں کے طعن سنیں اور یقین جانیں کہ جو ہم کو کہا جاتا ہے بالکل غلط اور سراسر بہتان ہے تو کیا حیا داروں کو رنج نہ ہو گا‘ اور جو ہو گا تو وہ ان کی بدگمانی کی دلیل ہو جائے۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ حضور سراپا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نسبت کسی قسم کی بدگمانی نہ تھی پھر غم کیوں تھا‘ صرف اس وجہ سے کہ کافروں کی یہ حرکت یعنی تہمت اور اس کی شہرت پریشانی کا باعث ہو گئی تھی یہ وجہ غم کی تھی نہ اصل واقعہ کی ناواقفیت جیسا کہ سفہائے زمانہ کا خیال ہے۔ تفسیر کبیر جلد ششم‘ مطبوعہ مصر میں ہے:: فان قیل کیف ان تکون امراء ۃ النبی کافرۃ کامرأۃ نوح و لوط ولم یجزان تکون فاجرۃ وایضا فلولم یجز ذلک لکان الرسول اعرف الناس بامتناعہ ولو عرف ذلک لماضاق قلبہ ولما سال عائشۃ کیفیۃ الواقعۃ قلنا الجواب عن الاول ان الکفرلیس من المنفرات اما کونھا فاجرۃ فمن المنفرات فالجواب عن الثانی انہ علیہ السلام کثیرا ماکان یضیق قلبہ من اقوال الکفار مع علمہ بفساد تلک الاقوال قال اللہ تعالٰی ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون فکان ھذا من ھذ الباب

ترجمہ: پس اگر کہا جائے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بیبیاں کافر تو ہوں جیسے کہ حضرت لوط اور حضرت نوح علیہما السلام کی مگر فاجر اور بدکار نہ ہوں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا کہ انبیاء علیہم السلام کی بیبیاں فاجرہ ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور معلوم ہوتا اور جب حضرت کو یہ معلوم ہوتا کہ نبیوں کی بیبیاں فاجرہ ہو ہی نہیں سکتیں تو حضور تنگدل نہ ہوتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے واقعہ کی کیفیت دریافت نہ فرماتے‘ پہلی بات کا جواب تو یہ ہے کہ کفر نفرت دینے والی چیز نہیں ہے مگر بیوی کا فاجرہ (بدکار) ہونا نفرت دلانے والی چیز ہے۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی بیبیاں فاجرہ ہوں‘ دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے اقوال سے تنگدل اور مغموم ہو جایا کرتے تھے باوجودیکہ حضور کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ کفار کے یہ اقوال بالکل فاسد ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ یعنی ہم جانتے ہیں کہ آپ ان کی بیہودہ باتوں سے تنگدل ہوتے ہیں تو یہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے یعنی حضور کا تنگدل ہونا محض کفار کی بیہودہ گوئی کی بناء پر تھا باوجودیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بیہودہ بکواس کا باطل اور جھوٹا ہونا معلوم تھا۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے مفسدانہ اقوال سے تنگدل ہوتے تھے جس کو خود حق سبحانہ‘ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ الآیۃ اور ان مفسدوں کے اقوال کے فساد کو جانتے بھی تھے۔ اسی طرح اس موقعہ پر بھی کفار کی جھوٹی تہمت سے مغموم تھے اور یہ جانتے تھے کہ کافر جھوٹے ہیں۔ صاحب تفسیر کبیر کی یہ تقریر نہایت معقول ہے ہر وہ شخص جس کو زنا وغیرہ کی تہمت سے متہم کریں اور ہر جگہ اس کا چرچا اسی کا ذکر ہو تو وہ شخص اور اس کے اقارب باوجودیکہ اس کی پاکی کا اعتقاد بھی رکھتے ہوں یا یہ کہ اس کی پاکی کے اعتقاد بھی سخت مغموم و پریشان ہوں گے۔ یہی وجہ تھی کہ حضور کو غم ہوا‘ مگر مخالف عنید و بدبخت پلید نہیں مانے گا جب تک دو الزام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ لگائے۔ ایک عدم علم کا اور ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بدگمانی کی‘ جو شرعاً جائز ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تقوے اور متہمین کے منافق ہونے کی طرف توجہ نہ فرمائی‘ چاہئے تو تھا گمان نیک اور کی بدگمانی۔ معاذ االلہ۔

تفسیر کبیر جلد ششم میں ہے: ۱؎ وثانیھا ان المعروف من حال عائشۃ قبل تلک الواقعۃ انما ھو الصون

۱؎ یعنی دوم یہ کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعہ سے پیشتر کے حالات سے ظاہر تھا کہ مقدمات فجور سے بہت دور اور پاک ہیں اور جو ایسا ہو اس کے ساتھ نیک گمان کرنا چاہئے۔ سوم یہ کہ تہمت لگانے والے منافق اور ان کے پیروکار تھے اور یہ ظاہر ہے کہ مفتری دشمن کی بات ایک ہذیان ہے پس بریں بنا جمیع قرائن کے یہ قول بدتر ازبول جس سے مخالفوں نے مدد چاہی ہے نزول وحی سے قبل معلوم الفساد تھا۔ ۱۲ منہ

والبعد عن مقدمات الفجور من کان ذلک کان اللائق احسان الظن بہ و ثالثھا ان القاذفین کانوا من المنافقین و اتباعھم وقد عرف ان کلام العدو المفتری ضرب من الھذیان فلمجموع ھذہ القرائن کان ذالک القول معلوم الفساد قبل نزول الوحی۔ 

اگرچہ تفسیر کبیر کی عبارتوں سے یہ بات یقینی ہو چکی ہے کہ اس قصہ افک سے عدم علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر استدلال کرنا سخت بے حیائی ہے اور حضور کو قبل از نزول وحی علم تھا کہ صدیقہ پاک ہیں پھر حضرت کا ظاہر نہ فرمانا بالکل عقل کے موافق تھا کہ کوئی اپنے قضیہ اور معاملہ کا ازخود فیصلہ نہیں کر لیتا۔ دوسرے وحی کا انتظار کہ فضیلت اور برأت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قرآن پاک سے ثابت ہوتا کہ اس تہمت کا جتنا رنج ہوا ہے وہ سب کالعدم ہو کر مسرت تازہ حاصل ہو‘ مگر اب ہم ایک ایسی مضبوط دلیل لائیں گے جس کے بعد محال گفتگو نہ ہو۔ حدیث افک جو بخاری کی کتاب الشہادات باب تعدیل النساء بعضھن عن بعض میں ہے: ’’فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من یعذرنی من رجل بلغنی اذاہ فی اھلی فواللہ ماعلمت علی اھلی الاخیر اوقد ذکرو ارجلا ما علمت علیہ الاخیرا‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی پر یقین تھا اور کفار کی تہمت سے شبہہ تک نہیں ہوا اسی واسطے آپ نے قسم کھا کر فرمایا کہ خدا کی قسم! مجھے اپنے اہل خیر پر خیر کا یقین ہے اب بھی اگر کوئی انکار کرے اور کہے کہ نہیں حضرت کو علم نہ تھا تو اس منکر متعصب کا دنیا میں تو کیا علاج مگر میدان حشر میں انشاء اللہ ضرور اس بے باک کو اس کی بے باکی کی سزا ملے گی کہ سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز پر قسم کھا کر فرما دیا کہ میں خیر جانتا ہوں‘ یہ دشمن دین اسی کو کہے کہ وہ نہیں جانتے تھے۔ معاذ االلہ۔ مومن کامل کے لئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ جب بدگمانی شرعاً جائز نہیں تو سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز شبہہ بھی نہ تھا اس لئے کہ آپ معصوم ہیں محال ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر یا کسی پر بدگمانی کریں مگر اب تو معاند کے لئے بھی بحمد اللہ تعالیٰ حدیث و تفسیر سے ثابت ہوا کہ حضرت کو اس واقعہ سے ناواقفیت نہ تھی نہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نسبت کوئی بدگمانی اور آپ کے پرتو فیض سے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سینوں میں جلوے نظر آئے اور انہوں نے بوقت مشاورت بیان فرمائے اس میں گنجائش نہیں کہ مذکور ہو سکیں‘ اور حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف ایک مدت تک توجہ نہ فرمانا بھی ان کی بدگمانی کی دلیل نہیں ہو سکتا بلکہ حالت غم کا منشا بے التفاتی ہے اور اگر خدا حق بیں آنکھ عطا فرمائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف چند روز توجہ نہ فرمانے میں وہ بھید نظر آئیں گے جو مومن کی روح کے لئے راحت بے نہایت ہوں انتظار وحی میں محبوبہ کی سورش نہ ہوتی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا صبر پر ثواب زیادہ ہوتا رہا‘ اور امتحان بھی ہو گیا کہ کیسی صابرہ ہیں ادھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان سے سینہ بھر دیا۔ واقعہ سامنے کر دیا‘ جملہ حالات حق سبحانہ تعالیٰ نے حضرت کے پیش نظر فرما دیئے ادھر کافروں نے جھوٹی تہمت لگائی۔ اب دیکھنا ہے کہ محبوب رب اپنی محبوبہ یعنی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تہمت پر باوجود علم کے صبر کر کے اللہ جل شانہ‘ پر معاملہ تفویض کرتے ہیں جو لائق شان کامل کے ہے یا کفار کےطعن سے بے قرار ہو کر سینہ کا خزانہ کھول ڈالتے ہیں شاید تھوڑی دیر صبر ہونا ممکن ہو اور زیادہ دیر تک صبر نہ کر سکیں اس واسطے عرصہ تک تو وحی ہی نہیں آئی کہ اس میں ایک دوسرا امتحان تھا کہ ان کی محبوبہ پریشان ہیں ان کی تسکین فرماتے ہیں‘ یا وحی کلام محبوب حقیقی میں دیر ہونے سے بے قرار ہوئے جاتے ہیں اگر حضرت کے معاملہ ظاہر نہ فرمانے اور وحی دیر میں آنے کی حکمتوں پر غور کر کے لکھا جائے تو بڑے بڑے دفتر ناکافی ہیں اس لئے اس مختصر میں اسی پر اکتفا کیا گیا‘ سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو برأت صدیقہ کا یقین ہونا ثابت ہوا مگر اب ان حضرات کا مرتبہ دریافت کیجئے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو بدگمانیاں کیں ایک یہ کہ ان کو حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بدگمانی تھی اور ایک یہ کہ ان کو واقعہ کا علم نہ تھا۔ عینی شرح بخاری جلد پنجم ص ۳۸۴ میں ہے: فی التلویح ظن السوء بالانبیاء کفر یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر بدگمانی کرنا کفر ہے جس نے دو بدگمانیاں کیں اس کا کیا حال ہو گا چاہئے کہ وہ توبہ کرے۔

شبہہ ششم

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جو کوئی یہ کہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے یا کسی علم کو چھپایا یا ان پانچ چیزوں کو جانتے تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے: ان اللہ عندہ علم الساعۃ الخ تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے چنانچہ وہ حدیث یہ ہے:: عن مسروق قال قالت عائشۃ من اخبرک ان محمدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ اوکتم شیئا مما امر بہ اویعلم الخمس التی قال اللہ تعالٰی ان اللہ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث فقد اعظم الفریہ رواہ الترمذی۔

جواب ۶

اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تین باتیں بیان فرمائیں ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو نہیں دیکھا یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں‘ یہ صرف رائے تھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہیں مانی‘ نہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کوئی حدیث مرفوع ذکر کی بلکہ صحابہ کرام نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خلاف وقوع روایت کا اثبات کیا اور اب تک جمہور علماء اسلام اس کو مانتے چلے آتے ہیں چونکہ مبحث سے خارج ہے اس لئے اس کی بحث نہیں کی جاتی۔ دوم یہ کہ آپ نے کسی علم کو نہیں چھپایا‘ اس سے یہ مراد ہے کہ جن کی تبلیغ کا حکم تھا ان میں سے کچھ نہیں چھپایا‘ اور جن کے چھپانے کا حکم تھا وہ بے شک چھپائے۔

انوار التنزیل میں ہے:’’قولہ تعالٰی بلغ ما انزل الیک المراد تبلیغ ما یتعلق بمصالح العباد وقصد بانزالہ اطلاعھم علیہ فان من الاسرار الالٰھیۃ ما یحرم افشائہ‘‘ روح البیان میں ہے: وفی الحدیث سالنی ربی ای لیلۃ المعراج فلم استطع ان اجیبہ فوضع یدہ بین کتفی الجارحۃ فوجدت بردھا فاورثنی علم الاولین والاخرین وعلمنی علوما شتی فعلم اخذ عھد اعلی کتم اذھو علم لایقدر علی حملہ غیری وعلم خیرنی فیہ و علم امرنی بتبلیغہ الی الخاص والعام من امتی وھی الانس والجن والملک کمافی انسان العیون۔

خلاصہ یہ کہ حدیث شریف میں ہے: حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے میرے رب نے شب معراج میں کچھ پوچھا میں جواب نہ دے سکا پس اس نے اپنا دست رحمت و قدرت بے تکییف و تحدید میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا میں نے اس کی سردی پائی پس مجھے علم اولین و آخرین کے دیئے اور کئی قسم کے علوم تعلیم فرمائے۔ ایک علم تو ایسا ہے جس کے چھپانے پر مجھ سے عہد لے لیا کہ میں کسی سے نہ کہوں اور میرے سوا کسی کو اس کے برداشت کی طاقت نہیں ہے اور ایک ایسا علم جس کے چھپانے اور سکھانے کا مجھے اختیار دیا اور ایک ایسا علم بھی ہے جس کو سکھانے کا ہر خاص و عام امتی کی نسبت حکم فرمایا‘ اور انسان اور جن اور فرشتے یہ سب حضرت کے امتی ہیں۔ ھذا فی مدارج النبوۃ۔ اب حدیث و تفسیر سے ثابت ہوا کہ امر محقق یہی ہے کہ اسرار الٰہی کا جو علم حضرت کو مرحمت ہوا ہے اس کا افشاء حرام ہے۔

سوم یہ کہ اِنَّ االلہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَّمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ‘ میں جن پانچ چیزوں کا ذکر ہے انہیں حضرت نہیں جانتے اس سے مراد یہ ہے کہ خودبخود نہیں جانتے مگر بتعلیم الٰہی جانتے ہیں۔ چنانچہ اس کا بیان گزر چکا ہے مگر یہاں بھی کچھ ذکر کرتے ہیں۔ تفسیر عرائس البیان میں ہے: ’’وقولہ لایعلمھا الا ھوای لایعلم الاولون والاٰخرون قبل اظھارہ تعالٰی ذلک لھم ولم یعلم حقائق اقدارھا الا ھو لانہ تعالٰی عرف قدرھا بالحقیقۃ لا غیر وایضا لا یعرف طریق وحدانھا والوسیلۃ الیھا الا ھو بذاتہ تعالٰی عرف طرقھا لا ھلھا قال تعالٰی: عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ مفاتیح غیب کو نہ جاننا قبل اظہار اللہ جل شانہ کے ہے پس روشن ہو گیا کہ نفی علم ذات کی ہے۔ علم قیامت‘ شرح مقاصد ص ۲۵۰ جلد ثانی: ان الغیب ھٰھنا لیس علی العموم بل مطلق او معین ھو وقت وقوع القیامۃ بقرینۃ السیاق ولا یبعد ان یطلع علیہ بعض الرسل من الملئکۃ والبشر‘ اس سے ظاہر ہے کہ علم قیامت کی اطلاع محال نہیں نہ آیت میں اس کی تعلیم کا انکار بلکہ علم ذاتی کا انکار ہے۔ ھٰکذا فی التفسیر الکبیر للامام الرازی تحت قولہ تعالٰی عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ‘ رہا مینہ برسنے کا علم کہ کب برسے گا تو اس کا ذکر بالتفصیل ماسبق میں گزرا‘ اور کتاب الابرار میں اس شبہہ کے جواب میں لکھتے ہیں: وکیف یخفی علیہ ذلک والاقطاب السبعۃ من امتہ الشریفۃ یعلمونھا وھم دون الغوث فکیف بالغوث فکیف بسید الاولین والاٰخرین الذی ھو سبب کل شیء ومنہ کل شیء انتھٰی‘ یعنی علم قیامت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں کر مخفی رہ سکتا ہے جبکہ آپ کی امت شریفہ کے ساتوں اقطاب اس کے عالم ہیں‘ اور اغواث کا مرتبہ اقطاب سے بھی بالاتر ہے۔ پھر وہ کس طرح اس کے عالم نہ ہوں گے اور سیّد الاولین والآخرین محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو نیاز مند بھی اس کے عالم ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے مخفی رہ سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر چیز کا سبب ہیں اور عالم کی ہر شیء کا وجود حضور کی بدولت اور حضور ہی سے ہے۔

علم مافی الارحام۔ اگر یہ معنی ہیں کہ بے تعلیم الٰہی کسی کو معلوم نہیں کہ پیٹ میں کیا ہے لڑکا یا لڑکی جب تو کچھ کلام ہی
نہیں اور واقعی آیت شریفہ کا اور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہی مطلب ہے لیکن اگر حسب فہم منکرین علم نبی یہ مراد ہو کہ بتعلیم الٰہی بھی کسی کو علم نہیں یا اللہ جل شانہ‘ کسی کو اس پر اطلاع نہیں دیتا تو قطعاً غلط۔ کثرت سے احادیث میں آیا ہے کہ ہر شخص کا مادۂ پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں بصورت نطفہ جمع ہوتا ہے پھر وہ علقہ یعنی خون بستہ ہو جاتا ہے‘ پھر مضغہ یعنی پارۂ گوشت کی شکل میں رہتا ہے‘ اور شقی ہے یا سعید‘ چنانچہ الفاظ حدیث کے جو مشکوٰۃ شریف باب الایمان بالقدر میں بروایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ص ۲۰ پر موجود ہیں یہ ہیں: ثم یبعث اللہ ملکا باربع کلمات اللہ فیکتب علم واجلہ ورزقہ وشقی او سعید اس سے ثابت ہوا کہ فرشتہ کو معلوم ہوتا ہے کہ کب تک زندہ رہے گا اور عمل کیا کرے گا کل تو درکنار تمام عمر کے احوال سے خبردار ہوتا ہے۔

خود حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت انہیں بتا دیا کہ بنت خارجہ حاملہ ہیں میں ان کے پیٹ میں لڑکی دیکھتا ہوں۔ چنانچہ تاریخ الخلفاء کے ص ۶۱ میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:: واخرج مالک عن عائشۃ ان ابابکر نحلھا جداد عشرین وسقامالہ بالغابۃ فما حضرۃ الوفاۃ قال یا بنیۃ واللہ مامن الناس احد احب الی غنی منک ولا اعز علی فقرا بعدی منک وانی کنت نحلتک جداد عشرین و سقا فلوکنت جددتہ و احترزتہ کان لک وانما ھو الیوم مال وارث وانما ھو اخواک و اختاک فاقسموہ علی کتاب اللہ فقالت یا ابت واللہ لوکان کذا وکذا الترکتہ انما ھی اسماء فمن الاخری قال زوبطن ابنۃ خارجۃ اراھا جاریۃ واخرجہ ابن سعد وقال فی اٰخرہ قال ذات بطن ابنۃ خارجۃ قد القی فی روعی انھا جاریۃ فاستوصی بھا خیرا فولدت ام کلثوم۔

۔ ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک درخت کھجور کا دے دیا تھا جس سے بیس وسق کھجوریں حاصل ہوتی تھیں جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:اے بیٹی! خدا کی قسم! مجھے تیرا غنی ہونا بہت پسند ہے اور غریب ہونا ناگوار‘ اس درخت سے اب تک جو کچھ تم نے نفع اٹھایا ہے وہ تمہارا تھا‘ لیکن میرے بعد یہ مال وارثوں کا ہے تمہارے صرف دونوں بھائی اور دونوں بہنیں ہیں اس ترکہ کو موافق حکم شرع کے تقسیم کر لینا‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے لیکن میری تو صرف ایک بہن اسماء ہی ہیں آپ نے دوسری کون سی بتا دی‘ فرمایا :حضرت صدیق اکبر نے کہ ایک تو اسماء ہیں دوسری بہن تیری ماں کے پیٹ میں ہے: میں جانتا ہوں کہ وہ لڑکی ہے۔ پس ام کلثوم پیدا ہوئیں۔

علامہ کمال الدین دمیری حیوٰۃ الحیوان میں بیان فرماتے ہیں:: وعن ابی الصعبۃ عن ابی الاسود عن عروۃ قال لقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا من اھل البادیۃ وھو متوجہ الی بدرلقیہ بالروحاء فسأ لہ القوم عن الناس فلم یجد واعندہ خیر فقالوا الیہ سلم علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال افیکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا نعم فجاؤا سلم علیہ ثم قال ان کنت رسول اللہ فاخبرنی عما فی بطن ناقتی ھذہ فقال لہ سلم ابن سلامہ بن وفش وکان غلاما حدث الا تسئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقبل علی فانا اخبرک عن ذلک نذرت علیھا ففی بطنھا سلۃ منک فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افحشت الرجل ثم اعرض عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلم یکلم بکلمۃ واحدۃ حتی قفلوا واستقبلھم المسلمون بالروحاء یھنونھم فقال سلم یا رسول اللہ ما الذی یھنوک واللہ ان راء بالاعجائز صلعاً کالبدن المعتقلۃ فخرنھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لکل قوم فراستہ وانما یعرفھا الاشراف رواہ الحاکم فی المستدرک وقال ھذا صحیح مرسل وحکاہ ابن ہشام فی سیرۃ‘

‘ خلاصہ یہ ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری اونٹنی کے پیٹ میں کیا ہے؟ سلمہ نے کہا: کہ ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھو میری طرف متوجہ ہو! میں تجھے خبر دیتا ہوں کہ اس کے پیٹ میں تیری حرکت نالائق کا نتیجہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاموش‘ اور وہ اعرابی حیرت میں رہ گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضور کے صحابۂ کرام میں سے نو عمر صحابی نے پیٹ کا حال بتا دیا‘ اب جو کہے کہ مافی الارحام کا علم کسی کو بتعلیم الٰہی سے بھی نہیں تو وہ بے چارہ ان عبارات مذکورہ کا کیا جواب دے گا۔

علم مافی غد۔ رسالہ ہذا میں بہت سی ایسی عبارتیں گزر چکی ہیں جن سے واقعات فی غد یعنی کل ہونے والی باتوں کا انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام کو معلوم ہونا ثابت ہوتا ہے مگر پھر بھی ملاحظہ ہو۔ مشکوٰۃ شریف ص ۵۴۲ میں ہے:: قال (عمر) ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان رینا مصارع اھل بدر بالامس یقول ھذا مصرع فلان غدا انشاء اللہ وھذا مصرع فلان غدا انشاء اللہ قال عمرو الذی بعثہ بالحق ما اخطؤا الحدود التی حدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ الحدیث‘

خلاصہ یہ کہ بدر میں حضرت نے دست مبارک سے بتا دیا کہ کل یہاں فلاں شخص مرا پڑا ہو گا‘ اور یہاں فلاں شخص‘ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ حضرت کو معلوم تھا کہ کل کو کیا ہو گا‘ دوسرے یہ کہ حضور کو یہ بھی معلوم تھا کہ کون کہاں مرے گا‘ یعنی مافی غد‘ اور بای ارض تموت کا علم اللہ جل شانہ‘ نے مرحمت فرمایا۔ یہ شبہہ کہ ان جواری کو جودف بجا کر گانے میں یہ کہتی تھیں کہ ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں حضرت نے منع فرما دیا اور کہہ دیا کہ پہلے جو کہتی تھیں کہے جاؤ۔ چنانچہ صاحب تقویۃ الایمان نے اس سے استدلال کیا ہے مگر اس سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت کے لیے مافی غد کا علم ثابت کرنا شرک ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ضرور سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان جواری سے توبہ بلکہ تجدید اسلام کراتے۔ پس جب حضرت نے تجدید اسلام نہ کرائی تو اس سے خود ظاہر ہے کہ یہ اعتقاد ہرگز شرک نہیں اور اس کا جواب ماسبق میں بوضاحت گزر چاک ہے۔زرقانی جلد ۶‘ ص ۲۲۹ میں حضرت حسان کا ارشاد موجود ہے ؎
نبی یری مالایری الناس حولہ
ویتلو کتاب اللہ فی کل مشھد
فان قال فی یوم مقالۃ غائب
فتصدیقھا فی ضحوۃ الیوم اوغد

اس کو حضرت حسان سے سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ فرمانا اور جس طرح لڑکیوں کو منع فرمایا تھا منع فرمانا صحت پر دال ہے۔ علم مافی غد کا تو اس میں بھی اثبات ہے جیسا کہ جواری کے کلام میں تھا کہ صاف فرما رہے ہیں: فان قال فی یوم الخ یعنی وہ اگر کوئی غیب کی بات فرمائیں تو اس کی تصدیق کل ہو جائے گی یعنی حضور آج اور کل کے آنے والے واقعات قبل از وقت بتا دیتے ہیں۔ پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو اس سے منع نہ فرمایا‘ اگر یہ مضمون صحیح نہ ہوتا یا حسب مرغوب مخالف شرک ہوتا تو حضور کیوں سنتے اور منع نہ فرماتے‘ اس کا علم کہ کہاں مرے گا اور کب مرے گا۔ ماثبت بالسنۃ میں ہے: حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسین میری ہجرت کے ساٹھویں سال قتل کئے جائیں گے۔ عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقتل الحسین علی راس ستین سنۃ من مہاجری رواہ الطبری فی الکبیر۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب سن کر صدیق اکبر نے عرض کیا کہ میں حضور کے بعد ڈھائی برس زندہ رہوں گا۔

واخرج ابن سعد عن ابن شہاب قال رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رؤیافقصھا علی ابی بکر فقال رایت کانی استبقت انا وانت درجۃ فسبقتک بمرقاتین و نصف قال یا رسول اللہ بقبضک اللہ الی مغفرۃ و رحمۃ و اعیش بعدک سنتین نصفا

از تاریخ الخلفاء ص ۷۶ حضرت نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے زمین پر‘ پھر نکاح کریں گے‘ ان کی اولاد ہو گی پینتالیس برس ٹھہر کر انتقال کریں گے اور میرے ساتھ قبر میں دفن کئے جائیں گے‘ پس میں اور وہ ایک قبر سے اٹھیں گے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان میں۔ چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں ہے: ’

’عن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینزل عیسٰی بن مریم الی الارض فیتزوج ویولدلہ ویمکث خمسا و اربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا و عیسٰی بن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر

‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ میرے گھر میں تین چاند گر پڑے ہیں یہ خواب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔ فرمایا کہ آپ کے گھر میں ایسے تین شخص دفن ہوں گے جو تمام زمین والوں سے بہتر ہیں۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو کہا: اے عائشہ! یہ تیرے سب چاندوں میں بہتر ہیں۔ یہ حدیث تاریخ الخلفاء ص ۷۶ میں ہے: اخرج سعید بن منصور ابن سعید ابن المسیب قال رأت عائشۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا کانہ وقع فی بیتھا ثلاثۃ اقمارفقصھا علی ابی بکر و کان من اعبر الناس فقال ان صدقت رؤیاک لیدفن فی بیتک خیر اھل الارض ثلاثا فلما قبض النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یا عائشۃ ھٰذا اخبر اقمارک۔

۔ اب جوابات یقینی بدیہی ہو گئے کہ امور خمسہ مذکورہ آیت اِنَّ االلہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ الایۃ کا علم بتعلیم الٰہی انبیاء اور صحابہ اور اولیاء کو حاصل ہے تو یہ کہنے والا کہ حضرت کو بتعلیم الٰہی بھی امور خمسہ کا علم نہ تھا … یا کسی کو مخلوقات میں سے ان امور خمسہ کا علم نہیں دیا جاتا۔ جاہل اور مخبوط الحواس اور دین سے بے بہرہ اور بدنصیب ہے کہ اپنی من گھڑت کے آگے خدا اور رسول کے فرمان کو بھول گیا پس اس آیت سے یہ مراد لینے والا کہ امور خمسہ کا علم کسی کو نہیں ذاتاً نہ بواسطۂ تعلیم الٰہی آیت کی تفسیر کے بداہۃًخلاف کرتا ہے‘ اور یہ ضلال ہے چنانچہ امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر جلد نمبر ۶‘ مطبوعہ مصریہ (میریہ) ص ۳۸۰ پر ہے: واذا کان کذلک مشاھدا محسوسا فالقول بان القراٰن یدل علٰی خلافہٖ مما یجز الطعن الی القراٰن وذٰلک باطل۔ پس یہ کہہ دینا کہ خدا کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا نہ خود بخود نہ تعلیم الٰہی سے اور اس کو قرآن سے ثابت کہنا کفر ہے جیسا کہ امام فخر الدین رازی کے کلام سے ثابت ہوا۔ پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قول سے باوجود ٹھیک معنی بننے کہ یہ مراد لینا کہ باطنی ہے‘ مگر مولوی رشید احمد گنگوہی نے بے دھڑک لکھ دیا کہ علم غیب خاصہ حق تعالیٰ ہے اس لفظ کو کسی تاویل سے دوسرے پر اطلاق کرنا ایہام شرک سے خالی نہیں ۔
فقط والسلام۔ مورخہ ۴؍ ذی الحجہ بروز جمعہ
از فتاویٰ رشیدیہ حصہ اوّل صفحہ ۱۲۳۔
رشید احمد ۱۳۰۱ھ؁

اور مولوی اسمٰعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان صفحہ ۱۰ میں لکھا ہے: پھر خود یوں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے خواہ اللہ کے دینے سے غرض اس عقیدہ سے ہر طرح شرک ثابت ہوتا ہے۔

قطع نظر اس سے کہ ان صاحبوں کے اس حکم شرک سے اسلام کا کوئی بزرگ اور امت کا کوئی عالم نہیں بچتا‘ اور تمام دنیائے اسمٰعیلی و رشیدی شرک میں مبتلا نظر آتی ہے لطف کی بات یہ ہے کہ اس شرک کے پٹہ سے ان کے اپنوں کی گردنیں بھی نہ بچ سکیں‘ مولوی اشرف علی تھانوی اور مرتضیٰ حسن چاند پوری بھی پھنس گئے‘ کیوں کہ وہ علم غیب کو نبی کے لئے لازم بتاتے ہیں چنانچہ توضیح البیان صفحہ ۴ میں ہے: حفظ الایمان میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب باعطائے الٰہی حاصل ہے چنانچہ اس عبارت سے کہ نبوت کے لئے جو علوم لازم اور ضروری ہیں وہ آپ کو بتمامہا حاصل ہو گئے تھے۔ الخ اب مولوی مرتضیٰ حسن اور مولوی اشرف علی تھانوی دونوں مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی اسمٰعیل کے فتوے سے مشرک ثابت ہوئے اور ممکن نہیں کہ وہ اس شرک کو اٹھا سکیں۔ الحاصل اگر ان غیوب خمسہ کے باب میں بسط کیا جاوے تو غالباً دس گیارہ جزؤ کا ایک اور رسالہ خاص اسی بحث میں مرتب ہو جائے۔ اس لئے تطویل سے اعراض کیا‘ اللہ جل شانہ‘ اسی مختصر کو باعث ہدایت مخالفین فرما دے۔

شبہہ ہفتم

سفر میں حضرت فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ان کا ہار گم گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہر گئے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہار ڈھونڈا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوتا تو کیوں نہ بتاتے؟

جواب

مخالفین کے دلائل کا دارومدار باطل و غلط قیاسوں پر رہ گیا ہے کسی آیت و حدیث سے وہ اپنا دعویٰ کسی طرح ثابت نہیں کر
سکتے تو مجبوری و ناچاری سے اپنی غلط رایوں کو بجائے دلیل کے پیش کرتے ہیں نہ معلوم انہوں نے اپنی رائے کو دلائل شرعیہ سے کون سی دلیل قرار دے رکھا ہے۔ دینی مسائل اور حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوصاف زید و عمر اور ہر ماوشما کے منتشر خیالات پر موقوف نہیں جب آیات و احادیث اور کتب معتبرہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم جمیع اشیاء ہونا ثابت ہوا تو مخالفین کا وہم کس شمار و قطار میں ہے۔ اپنے خیالات واہیہ کو آیات و حدیث کے مقابلہ میں ان کا رد کرنے کے لئے پیش کرنا مخالفین ہی کی جرأت ہے۔ اس سوال کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ حضرت نے نہ بتایا اوّل تو اس میں کلام ہے مخالف کو اس پر دلیل لانا تھا‘ کوئی عبارت پیش کرنی تھی مگر وہاں اس کی ضرورت ہی نہیں جو بات منہ میں آئی کہہ دی‘ حضور کی جس فضیلت کا چاہا محض بزور زبان انکار کر دیا۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے: فبعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا فوجدھا۔ امام نووی فرماتے ہیں: ان یکون فاعل وجدھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور خود اس کے واجد ہیں وہ ہار خود حضور نے پایا پھر نہ بتایا کے کیا معنی‘ اور فرض کیجئے کہ نہ بتایا تو نہ بتانا کسی عالم کا نہ جاننے کو کب مستلزم۔ یہ کہاں کی منطق ہے اگر یہی قیاس ہے تو خدا خیر کرے‘ کہیں آپ علم الٰہی کا اسی قیاس سے انکار نہ کر بیٹھیں کہ کفار نے وقت قیامت کا بہتیرا سوال کیا اور ایان یوم القیٰمۃ کہا کرتے‘ مگر اللہ سبحانہ‘ نے نہ بتایا معلوم ہوتا تو کیوں نہ بتاتا معاذ االلہ! نہ بتانا کسی حکمت سے ہوتا ہے نہ کہ اس کے لئے عدم علم ضروری ہو‘ اس نہ بتانے میں جو حکمتیں ہیں وہ آپ کو تو کیا نظر آئیں گی‘ آنکھ والوں سے پوچھئے۔ شیخ المشائخ قاضی القضاۃ اوحد الحافظ والرواۃ شہاب الدین ابو الفضل ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد اوّل ص ۲۱۵ میں فرماتے ہیں: واستدل بذٰلک علی جواز الاقامۃ فی المکان الذی لاماء فیھا یعنی اس اقامت سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ جس جگہ پانی نہ ہو وہاں ٹھہرنے کا جواز معلوم ہوا۔ اگر حضور فوراً ہی بتا دیتے تو یہ مسائل کیوں کر معلوم ہو سکتے۔ معہذا یہ بھی معلوم ہوا کہ امام گو سفر میں ہو مگر اس کو مسلمانوں کے حفظ حقوق کا لحاظ چاہئے۔ فتح الباری میں ہے: وفیہ اعتناء الامام لحفظ حقوق المسلمین وان قلت اس سے علماء نے کتنے مسائل نکالے کہ دفن میت کے لئے اور اس کے مثل رعیت کی ضرورتوں اور مصلحتوں کے لحاظ سے امام کو قیام کرنا چاہئے۔ فتح الباری میں ہے: ویلحق بتحصیل الضائع الاقامۃ للحقوق المنقطع و دفن المیت و نحو ذلک من مصالح الرعیۃ اس میں یہ بھی اشارہ فرمایا کہ مال کو ضائع کرنا نہ چاہئے۔ وفیہ اشارۃ الٰی ترک واضاعۃ المال‘ اور یہ کیا مزے کی بات معلوم ہوئی کہ اس اقامت کی وجہ سے جب پانی نہ ملا اور صحابہ کو نماز کی فکر ہوئی کہ کہاں سے وضو کیا جائے گا کس طرح وضو کیا جائے گا تو وہ بے چین ہوئے لامحالہ ان کو سوال کرنا پڑا تو حضرت صدیق اکبر سے سوال کیا اور حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو ایسے ضروری سوال کے لئے بھی بیدار کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی اور کسی نے گوارہ نہ کیا اس سے معلوم ہوا کہ حضور کو خواب سے بیدار کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ انما شکوا الی ابی بکر لکون النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان نائما وکانوا لا یوقظونہ۔ حضرت صدیق اکبر نے اسی فکر میں کہ نماز کس طرح پڑھیں گے‘ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کوکھ (کمر) میں انگلیاں ماریں یہ ضرب ایسی ہے کہ انسان بے

اختیار اچھل پڑتا ہے مگر حضور ان کے زانو پر آرام کر رہے تھے اس وجہ سے انہیں جنبش نہ ہونے پائی اس سے معلوم ہوا کہ حضور کا ادب اس درجہ ہونا چاہئے کہ ایسی طبعی حرکات بھی نہ ہونے پائیں جن سے خواب ناز میں فرق آنے کا اندیشہ ہو‘ فیہ استحباب الصبر لمن نالہ مایوجب الحرکۃ ویحصل بہ تشویش النائم۔ (فتح الباری) فضیلت حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اظہار وفیہ دلیل علی فضل عائشۃ و ابیھا وتکرار البرکۃ منھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت و برکت ظاہر ہوئی۔ عمر بن حارث کی روایت میں وارد ہوا: لقد بارک اللہ للناس فیکم۔ ابن ابی ملیکہ کی روایت میں خود جناب سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماکان اعظم برکتہ قلادتک کہ اے صدیقہ! تمہارے ہار کی کیسی عظیم الشان برکت ہے قیامت تک کے مسلمان ان کے صدقہ میں سفر اور بیماری اور مجبوری کی حالتوں میں تیمم سے طہارت حاصل کرتے رہیں گے۔ بخاری میں بروایت عروہ وارد ہے: ’’فواللہ ما انزل بک من امر تکرھینہ الا جعل اللہ ذالک لک وللمسلمین فیہ خیرا‘‘۔ اسید ابن حضیر نے فرمایا:اے صدیقہ! بخدا آپ پر کوئی امر پیش آتا ہے اور آپ پر گراں گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں آپ کے اور مسلمانوں کے لئے بہتری فرماتا ہے‘ اور عبدالرحمن ابن قاسم والی عبارت میں ہے: ماھی باول برکتکم یا اٰل ابی بکر کہ اے آل ابی بکر! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ حضرت صدیق اکبر نے آیت تیمم نازل ہونے کے بعد تین مرتبہ فرمایا: انک المبارکتہ یعنی اے صدیقہ! تم یقینا بیشک بڑی برکت والی ہو۔ اہل ایمان کو تو نظر آتا ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہار کی وجہ سے لشکر اسلام کو اقامت کرنا پڑی اور پانی نہ ملے تو ان کی برکت سے اللہ تبارک و تعالیٰ تیمم کو جائز فرمائے اور مٹی کو مطہر کر دے لیکن جہاں آنکھیں بند ہوں اور بصیرت کا نور جاتا رہا ہو وہاں سوائے اس کے کچھ نہ معلوم ہو کہ حضرت کو علم نہ تھا ؎
چشم بد اندیش کہ بر کندہ باد
عیب نما ہنرش در نظر

خلاصہ یہ کہ مخالفین کا یہ قیاس فاسد باطل محض اور سراپا لغو ہے‘ اور ان کے مدعائے باطل کو کسی طرح کوئی تائید نہیں پہنچ سکتی۔

شبہہ ہشتم

قاضی خان میں ہے: رجل تزوج امرأۃ بغیر شھود فقال الرجل والمرأۃ خدائے را و پیغمبر را گواہ کردیم قالوا یکون کفرا لانہ اعتقد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلم الغیب وھوما کان یعلم الغیب حین کان فی الاحیاء فکیف بعد الموت۔ ترجمہ: ایک مرد نے ایک عورت سے بغیر گواہوں کے نکاح کیا پس مرد اور عورت نے کہا: خدا اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہم نے گواہ کیا کہتے ہیں کہ یہ کفر ہو گا اس لئے کہ اس نے یہ اعتقاد کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کو جانتے ہیں اور حال یہ کہ وہ زندگی میں بھی غیب کو نہ جانتے تھے پس بعد وفات کے کیونکر جان سکتے ہیں؟

جواب ۸

معترض کا منشاء یہ ہے کہ معتقد علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکفیر فقہ سے ثابت کرے‘ مگر ابھی اس کو یہ خبر نہیں کہ اس نے یہ کفر اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ قاضی خان کی عبارت سے اگر کفر ثابت ہوتا ہے تو معتقد علم غیب نبی بھی (معاذ االلہ) کافر اور تمام مخالفین یعنی وہابی بھی کیونکر وہ قائل ہیں کہ اللہ جل شانہ‘ نے حضرت کو بعض غیوب کا علم عطا فرمایا ہے پس بموجب عبارت قاضی خان کے ان کے کفر میں ان کی فہم کے بموجب شبہہ نہیں ہے۔ آپ یہ کہیں گے کہ وہابیوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بعض غیوب کے علم کا بھی کب اقرار کیا ہے‘ ملاحظہ ہو اعلاء کلمۃ الحق ص ۱۷ :’’اور بہت چیزیں اور امور غیب کے حق تعالیٰ نے آپ کو تعلیم فرمائے کہ ان کی مقدار حق تعالیٰ ہی کو معلوم ہے‘‘ اور فیصلہ علم غیب ص ۱۳: میں مولوی ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری کے یہ لفظ مسطور ہیں: ’’بھلا کوئی مسلمان کلمہ گو اس بات کا قائل ہو سکتا ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو امور غیبیہ پر اطلاع نہیں ہوتی ہے مسلمان کہلا کر اس بات کے قائل ہونے والے پر خدا اور فرشتوں اور انبیاء اور جنوں بلکہ تمام مخلوق کی لعنت ہو اور منکرین کے اقرار ابتدائے رسالہ میں مذکور ہو چکے ہیں‘ الحاصل ہمارے مخالفین بھی بعض غیوب کا اقرار کر رہے ہیں اور ہم بھی بعض غیوب ہی کا اثبات کر رہے ۱؎ (کیونکہ جمیع اشیاء بھی بعض مغیبات ہیں) تو اگر معاذ اللہ قاضی خان کی عبارت سے ہم پر الزام آئے گا تو ہمارے مخالفین ضرور کافر ٹھہریں گے ؎
دے دی کہ خون ناحق پروانہ شمع را
چندآں اماں نہ داد کہ شب را سحر کند

اور اگر وہ کافر نہ ٹھہریں تو کیا ہم نے ہی خطا کی ہے اب عبارت قاضی خان پر غور فرمایئے کہ اس میں لفظ قالوا موجود ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور قاضی خان وغیرہ فقہاء کی عادت ہے کہ وہ لفظ قالوا اس مسئلہ پر لاتے ہیں جو خود ان کے نزدیک غیر مستحسن ہو اور ائمہ سے مروی نہ ہو۔ چنانچہ شامی جلد ۳‘ ص ۴۴۵ میں ہے: لفظۃ قالوا تذکر

۱؎ فرق اتنا ہے کہ ہم ان بعض کو اتنا وسیع جانتے ہیں کہ جمیع اشیاء کے علوم ان میں داخل ہیں اور مخالفین گنتی کے دو ایک حتیٰ کہ یہ لکھ دیتے ہیں کہ حضور کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں۔ معاذ اللہ بعض گستاخ تو یہاں تک بک اٹھتے ہیں کہ انہیں اپنے خاتمہ کا حال بھی معلوم نہیں۔ استغفر االلہ۔

فیما فیہ خلاف کما صرحوا بہ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی بحث قنوت میں ہے: وکلام قاضی خان یشیر الی عدم اختیارہ لہ حیث قال واذا صلی علی النبی علیہ الصلٰوۃ والسلام فی القنوت قالوا لا یصلی علیہ فی القعدۃ الاخیرۃ ففی قولہ قالوا اشارۃ الی عدم استحسانہ لہ والٰی انہ غیر مروی عن الائمۃ کما قلناہ فان ذلک من المتعارف فی عباراتھم لمن استقراھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ اب معلوم ہو گیا کہ قاضی خان کے نزدیک غیر مستحسن اور غیر مروی اور ضعیف و مرجوع ہے حتیٰ کہ اس کے ساتھ حکم کرنا سخت ممنوع اور جہل ہے۔ در المختار میں ہے: ان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل وخرق الاجماع۔ در المختار میں بھی یہی قاضی خان والا مسئلہ ہے وہاں بھی لفظ قیل ضعف کی دلیل موجود ہے۔ در المختار کتاب النکاح میں ہے: تزوج بشھادۃ اللہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب قال فی التاتارخانیۃ وفی الحجۃ ذکر فی الملتقط انہ لایکفر لان الاشیاء تعرض علی روح النبی صلی اللہ علیہ وسلم وان الرسل یعرفون بعض الغیب قال اللہ تعالٰی عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ۔ خلاصہ یہ کہ جس نے کفر بتایا ہے اس کے نزدیک اعتقاد علم غیب سبب ہے تاتارخانیہ اور حجۃ میں ملتقط سے نقل کیا ہے کہ اس اعتقاد سے آدمی کافر نہیں ہوتا اس لئے کہ روح پاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اشیاء پیش کی جاتی ہیں اور رسول بعض غیب کو جانتے ہیں فرمایا اللہ جل شانہ‘ نے: عَالِمُ الْغَیْبِ فلَاَ یُظْھِرُ الخ۔ معدن الحقائق شرح کنز الدقائق اور خزانتہ الروایات میں ہے: وفی المضمرات والصحیح انہ لایکفر لان الانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام یعلمون الغیب ویعرض علیھم الاشیاء فلایکون کفرا۔ یعنی مضمرات میں ہے: صحیح یہ ہے کہ کافر نہیں ہوتا اس لئے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام غیب کے عالم ہیں اور ان پر اشیاء پیش کی جاتی ہیں۔ پس کفر نہ ہو گا۔ شامی باب المرتد میں مسئلہ بزاز یہ ذکر کر کے فرماتے ہیں: حاصلہ ان دعوی الغیب معارضۃ للنص القراٰن یکفربھا الا اذا اسند ذٰلک صریحا او دلالۃ الی سبب من اللہ کوحی والھام۔ یعنی غیب کا دعویٰ نص قرآن کے معارض ہے پس اس کا مدعی کافر ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس نے صریحاً یا دلالۃً کسی سبب کی طرف نسبت کر لی ہے جو اللہ کی جانب سے ہو مثل وحی و الہام وغیرہ کے تو کافر نہیں۔ در المختار میں ہے: وفیھا کل انسان غیر الانبیاء لایعلم ما ارادا اللہ تعالٰی لہ وبہ لان ارادتہ تعالٰی غیب الا الفقھاء فانھم علموا ارادتہ تعالٰی بھم لحدیث الصادق المصدوق من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین۔ غایۃ الاوطار میں اس عبارت کے تحت مسطور ہے اور اشباہ میں ہے: ہر آدمی سوائے انبیاء علیہم السلام کے جانتا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کیا ارادہ ہے اس کے ساتھ دارین میں‘ اس واسطے کہ حق تعالیٰ کا ارادہ غیب ہے مگر فقیہ اس کو جانتے ہیں اس واسطے کہ وہ جان گئے ہیں حق تعالیٰ کے ارادے کو جو ان کے ساتھ ہے رسول صادق مصدوق کی اس حدیث کی دلیل سے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین میں فقیہ کرتا ہے یعنی امر دین میں فہم سلیم عطا کرتا ہے۔ اب خوب ظاہر ہو گیا کہ فقہ میں بھی جہاں انکار ہے اس کے یہی معنی ہیں کہ بے تعلیم الٰہی کے کسی کو عالم غیب بتانا کفر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت ہے۔

شبہہ نہم

جمیع اشیاء غیر متناہی ہیں پھر حضرت کو غیر متناہی کا علم کیونکر ہو سکتا ہے؟

جواب۹

یہ اعتراض سخت جہالت سے ناشی ہے اس لئے کہ جمیع اشیاء کو غیر متناہی نہ کہے گا مگر دیہاتی۔ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں تحت آیۃ: وَاَحَاطَ بِمَآ لَدَیْھِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا کے فرماتے ہیں: قلنا لاشک ان احصاء العدد انما یکون فی المتناہی فامالفظۃ کل شیء فانھا لاتدل علی کونہ غیر متناہ لان الشیء عندنا ھو الموجودات والموجودات متناھیۃ فی العدد۔ اس عبارت سے موجودات کا متناہی ہونا روشن ہے۔ پھر خواہ مخواہ اپنی طرف سے بے وجہ علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کے لئے موجودات کو غیر متناہی کہنا کون سی عقلمندی ہے اب بعض شبہات عقلیہ کا رد کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولوی اشرف علی تھانوی کی تقریظ ہی نقل کی جائے۔




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner