AD Banner

{ads}

(وہابیہ کی عیاریاں اور تلبیسات کا افشاء راز)

 (وہابیہ کی عیاریاں اور تلبیسات کا افشاء راز)

استفتاء:کیا فرماتے ہیں: علماء دین و مفتیانِ شرع متین ان امور مندرجہ ذیل میں کہ مخالفین دیوبندیہ وہابیہ نے جو یہ شورش اٹھائی ہے کہ اعلیٰ حضرت حکیم الامت مجدد مائۃ حاضرہ مؤید ملت طاہرہ شیخ الاسلام و المسلمین سیّدنا مولانا شاہ مفتی محمداحمد رضا خان محدث دہلوی رضی اللہ عنہ کثرت سے علماء امت کو کافر کہتے ہیں۔ اس لئے اعلیٰ حضرت کو مکفر المسلمین کے لقب سے یاد کرتے ہیں تو آیا ان کا یہ کہنا حق ہے یا باطل۔ ہدایت ہے یا ضلالت؟ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ جن علماء کو اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے کافر کہا یا کفر کا فتویٰ دیا ہے تو کن وجوہات سے؟ آیا یہ کہ ازروئے شرع دلائل سے یا یوں ہی بغیر کسی دلیل کے کافر کہنا استعمال کیا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ بلا ثبوت شرعی کسی مسلمان کو کافر کہنا گناہ عظیم بلکہ حقیقۃً بحکم حدیث شریف خود کافر بننا ہے‘ مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ اعلیٰ حضرت کا جو شخص ہم خیال و ہم عقیدہ نہ ہوا اس کو مسلمان ہی نہیں جانتے تو آیا یہ صحیح ہے یا غلط۔ مبرہن دلائل اور ثبوت کی روشنی میں تفصیلی و تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں۔ فجزاکم اللہ خیر الجزاء۔
المستفتی:عبدالوحید چندوسی
الجواب بعون الملک الوھاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمد ونصلی علٰی رسولہ الکریم۔
وہابیہ کا اتہام کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ‘ نے علماء اسلام کو کافر کہا ہے کذب محض اور افترا خالص ہے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے ان مفسدین کو کافر فرمایا جو ضروریات دین کے منکر ہوئے۔ ایسوں کو قرآن و حدیث اور تمام امت کافر کہتی ہے اعلیٰ حضرت نے کفر کا حکم اپنی طرف سے نہ دیا بلکہ نصوص نقل فرمائے جن کا آج تک کسی وہابی نے جواب نہ دیا‘ اور نہ کبھی وہ جواب دے سکتے ہیں۔ ان امور کا کفر ہونا اور ان کے قائل کا کافر ہونا خود وہابیہ کو بھی تسلیم ہے۔ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب ’’بسط البیان‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جو شخص ایسا اعتقاد رکھے یا بلا اعتقاد صراحۃً یا اشارۃً یہ بات کہے میں اس شخص کو خارج از اسلام سمجھتا ہوں کہ وہ تکذیب کرنا ہے نصوص قطعیہ کی اور تنقیص کرنا ہے حضور سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی‘‘۔
اور رہی یہ بات کہ جو اعلیٰ حضرت کا ہم عقیدہ نہ ہو اس کو وہ کافر جانتے ہیں یہ درست ہے اور ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ
ایمانیات اور ضروریات دین سے جو اس کا ہم عقیدہ نہ ہو وہ کافر ہے۔ جو توحید مانے رسالت میں ہم عقیدہ نہ ہو وہ کافر‘ توحید و رسالت دونوں کو مانے قرآن کا منکر ہو تو کافر ہے۔ غرض کسی ایک امر ضروری سے اگر انکار کرے تو کافر ہے۔ مسلمان وہی ہے جو تمام ضروریات دین میں ہمارا ہم عقیدہ ہو۔ حدیث جبرئیل میں ہے: قال ان تومن باللہ وملئکتہ و کتبہ ورسلہ والیوم الاٰخر وتؤمن بالقدر خیرہٖ و شرہٖ یعنی ایمان یہ ہے کہ تو اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت کو مانے اور اس کی تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لائے تو جو ان امور میں ہمارا ہم عقیدہ ہے مومن ہے اور جو ان میں ایک میں بھی ہم عقیدہ نہیں اس کو حقیقت ایمان ہی حاصل نہیں تو وہ مومن نہیں کافر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
کتبہ: العبد المعتصم بحبل اللہ التمین
سید محمدنعیم الدین مراد آباد






مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner