AD Banner

{ads}

رمضان میں لوگ روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟

 رمضان میں لوگ روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟


مسئلہ ۱: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین مسائل ذیل میں کہ(۱): لوگ روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ (۲): روزہ کے لیے خاص مہینہ کیوں مقرر ہوا؟ (۳): روزہ رکھنے میں سحری کیوں کھانا ہوتا ہے؟

مسئولہ فناء اللہ، حسین پور، بھاگل پور

الجواب: سوالات نہا یت جاہلانہ قسم کے ہیں ، بندہ کو چاہئے کہ شانِ بندگی میں رہے اور احکامِ الٰہیہ پر اعتراض نہ کرے اور یہ خیال کرے کہ جب میرا خالق ومالک حکیم مطلق ہے تو اس کا ہر حکم حکمتوں پر مبنی ہے۔ ہم اپنے دنیاوی امور میں اگر طبیب وحکیم یا ڈاکٹر کے پاس جا تے ہیں ، جب وہ مرض کی تشخیص کر تا ہے اور دو ائیں تجویز کر تا ہے اور پر ہیز بتاتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ یہ دوائیں اس طرح اس وقت استعمال کرو اور فلاں فلاں چیزوں سے پرہیز کرو تو ہم اس کا حکم مان لیتے ہیں اوراس کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کرتے ہیں اور اشیائے ممنوعہ سے اجتناب کرتے ہیں ۔ ہمیں طبیب وغیرہ پر اعتراض کرنے کا حق حا صل نہیں کہ حکیم صاحب آپ نے فلاں دوا کیوں تجویز کی اور فلاں چیز سے پر ہیز کا حکم کیوں دیا تو اپنے خالق و مالک حکیم ِمطلق کے کسی حکم پر کوئی اعتراض کریں ، ہمارے لیے کسی طرح زیبا نہیں ۔ ہم اپنے کسی مقدمہ میں بڑے سے بڑے بیر سٹر کو پیر وکا ر بنائیں تو اسکی ہر پیر وی، ہر بات قابل تسلیم ہوتی ہے۔ ہمیں اس کی کسی پیر وی پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں تو پھر اپنے رحیم وکریم احکم الحاکمین جَلَّ وَعَلَا کے کسی حکم پر اعتراض کریں ، کس طرح شایاں ہو سکتا ہے۔ پھر ہماری عقل قاصر اور سائل کی قابلیت ومبلغ علم ہی کیا کہ احکا مِ الٰہیہ کی حکمتوں کوکماحقہ سمجھ سکیں ، اور ان کا ادراک کرلیں ۔ آج دنیا وی حکومت کوئی حکم نافذ کرے ہم اس کی حکمتوں کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ، پھر احکم الحاکمین کے کسی حکم کی حکمتوں کو سمجھ لیں غیر ممکن ہے۔ جناب سائل سے سوال ہے کہ آپ نے پہلے خلقتِ الٰہیہ کی حکمتوں کو سمجھ لیا ہو تا جب احکام الٰہیہ کی حکمتوں کو در یافت کرتے۔ کیا آپ نے خلقت الہیہ کی تمام حکمتوں کا ادر اک کرلیا ہے، جو احکام الہیہ کی حکمتوں کو دریافت کر تے ہیں ؎

تو کارِ زمیں را نکو ساختی

کہ با آسماں نیز پرداختی

اگر آپ سے میں خلقت ِالٰہیہ کی حکمتوں کے بارے میں سوالات کروں تو ہزار سوالات کرلوں اور آپ اس کی حکمتوں کے بتانے سے قاصر رہیں گے۔ مثلا اگر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہاللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے دو آنکھیں کیوں بنائیں ، کیا ایک آنکھ سے بینائی کا کام انجام نہیں پاسکتا تھا، یا تین چار پانچ آنکھیں کیوں نہیں بنائیں ، پھر دوآنکھوں کو بنا نا تھا تو چہرہ پر کیوں ، سر پہ بناتا یا ایک چہرہ پر، ایک سر پر یا ایک پیچھے بناتا، ایک سامنے بناتا، یا ایک سر پر بنا تا ایک پیٹھ پر یا ایک چہرہ پر بنا تا ایک پائوں پر علی ہذ االقیاس۔ یا اگر یہ سوال کیا جائے کہ ناک سے غلیظ چیز نکلتی ہے، اس کو اسی مقام پر رکھتا جہاں سے غلیط چیزیں نکلتی ہیں ، یعنی مخرج بول وبراز کے قریب رکھتا۔ چہرہ پر ناک بنا نے کی کیا ضرورت تھی تو سائل متحیر ومتعجب ہوں گے۔ وغیر ذالک من الامثال۔ اب سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں ۔ یہ وہ جواب ہیں جو میری عقلِ قاصرمیں آئے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی حکمتیں ان جوابوں میں منحصر نہیں ، بلکہ اس کے ہر حکم میں بے شمار حکمتیں ہیں ۔ جن کے ادراک سے عقولِ انسانیہ قاصر و عاجز ہیں ۔

(۱): روزہ اس لیے رکھتے ہیں کہ حکم الٰہی پر عمل کر کے آخرت کی زند گی کو کامیاب بنائیں اور نفس کے حکم کو حکمِ الٰہی کے مقابلہ میں توڑ ڈالیں ۔ شہوات وخواہشات کی مخالفت کریں اور ان کو کمزور کریں ۔ جن لوگوں کو بآ سانی کھانا میسر آتا ہے، انھیں روزہ رکھنے سے بھوک اور پیاس کی کیفیت اور تکلیف معلوم ہو تووہ بھوکوں اور پیاسوں کی حالتوں پر ترس کھا کر ان کی امداد و اعانت کریں اور جن لوگوں کو کھانا میسر نہیں آتاانہیں بھوک اور پیاس پر صبر کر نے کی عادت ہوجائے۔ واللہ تعالی اعلم۔

(۲): اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جس کام کے لیے وقت مقرر ہوتا ہے وہ کام بآ سانی انجام پاجاتا ہے ورنہ ٹالتے ٹالتے وہ کام ٹل جاتا ہے۔ اگر روزہ کے لیے بھی وقت وماہ مقرر نہ کیا جاتا تو محرم سے لے کر ذی الحجہ تک ٹا لتے ٹالتے روزہ قضا ہو جا تا، نیز ماہ مقرر کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی مہینہ میں روزہ رکھتے ہیں ، ہر شخص دوسرے شخص کو روزہ دار دیکھ کر خوش ہو تا ہے اور غیر کو اپنا جیسا روزہ دار دیکھ کر اسے صبر وسکون ہو تا ہے کہ تنہا میں ہی نہیں بھوکا پیا سا ہو ں بلکہ سب کا ایک ہی حال ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔

(۳): سحری کھانے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ کمزور ہیں اور بھوک پیاس کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے وہ سحری کھا کر بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کرنے پر قادر ہوجائیں اور جو لوگ طاقتور ہیں وہ سحری کے لیے اٹھیں تو سحری بھی کھائیں اور کچھ عبادت و طا عت بھی کریں نیز سحری اخیر شب میں کھائی جاتی ہے جو بڑے آرام وراحت کا وقت ہے۔ ایسے وقت میں اٹھنا اور کھانا اس میں کسر نفس بھی ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔

کتبہ

علامہ محمد حبیب اللہ نعیمی اشرفی





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner