AD Banner

{ads}

(سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ 05)

 (سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ 05)

 واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
حُلیۂ مبارکہ:
آپ نحیف البدن ،میانہ قد، کشادہ سینہ ،لمبی چوڑی ڈاڑھی، گندمی رنگ، پیوستہ ابرو ، بلند آواز تھے، پاکیزہ سیرت ،بلند مرتبہ اور علمِ کامل کے حا مل تھے ۔صاحبِ شہرت وسیرت اور خاموش طبع تھے ۔آپ کے کلام کی تیزی اور بلند آواز ، سننے والے کے دل میں رعب وہیبت زیادہ کرتی تھی ۔اور آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ مجلس میں قریب وبعید بیٹھنے والے بے کم وکاست بغیر کسی تفاوت کے آپ کی آواز بآسانی یکساں طور پر سن لیتے تھے ۔جب آپ کلام کرتے تو ہر شخص پر خاموشی چھاجاتی تھی ،جب آپ کوئی حکم دیتے تو اس کی تعمیل میں سرعت ومبادرت کے سوا اور کوئی صورت نہ ہوتی اور بڑے سے بڑے سخت دل پر نظرِ جمال پڑجاتی تو وہ خشوع وخضوع اور عاجزی وانکساری کا مرقع بن جاتا اور جب آپ جامع مسجد میں تشریف لاتے تو تمام مخلوق دعا کے لئے ہا تھ اٹھا کر بارگاہِ قاضی الحاجات میں دعا کرتی۔(اخبا ر الا خیار ص۱۴ فارسی ؍ مسالک السا لکین ج۱ ص ۳۳۰)

اولیائے سا بقین کی پیشن گو ئیاں:
 اکثر اولیائے کبار ومشائخِ ذی وقار نے آپ کی ولادت باسعادت سے پہلے آپ کے ورودِ مسعود کی خبر بتائی ۔کچھ نے ولادت کے تھوڑے ہی دنوں بعد اور اکثر نے آپ کے مشہور ہو نے سے پہلے آپ کی عظمت وجلالت کی خبر دی ہے۔ان میں سے چند کے اقوال یہاں پیش کئے جا تے ہیں۔قلا ئد الجو اہر میں شیخ محمد سبکی سے مروی ہے کہ میں نے اپنے شیخ حضرت ابو بکر بن ہورا رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ عراق کے اوتاد آٹھ ہیں جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔
۱۔حضرت خواجہ معروف کرخی                                                                                   
۲۔حضرت امام احمد بن حنبل                                 
۳۔حضرت خو اجہ بشر حا فی                                  
۴۔حضرت منصور بن عمار                     
۵۔حضرت خو اجہ سرّی سقطی                                         
۶۔حضرت جنید بغدا دی
۷۔حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین

راوی نے پھر سوال کیا کہ حضرت کون عبد القادر ؟
توارشاد فرمایاکہ یہ شخص شرفائے عجم سے ہوگا ،اور بغداد میں آکر قیام کرے گا اور اس کا ظہور پانچویں صدی ہجری میں ہوگا اور یہ صدیقین و اوتاد واقطابِ زمانہ سے ہو گا۔

غبط الناظر میں ہے کہ حضرت شیخ ابو احمد عبداللہ بن علی بن مو سیٰ نے ۴۶۴۔؁ھ میں فرمایاکہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ عنقریب عجم میں ایک لڑکا بڑا صاحبِ کرامات اور ذی شرف پیدا ہوگا اور جو اس کو دیکھے گا فائدہ پائے گا ۔وہ فرمائے گا ۔قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہ ِ۔اور اسی کتاب میں ہے کہ حضرت شیخ عقیل سنجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کا قطب کون ہے ؟ تو ارشاد فرما یاکہ اس زمانے کا قطب مدینہ طیبہ میں پو شیدہ ہے سوا ئے اولیاء اللہ کے کوئی اس کو نہیں جا نتا ۔پھر عراق کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا ۔وہ بغداد میں وعظ کہے گا اور اس کی کرامتوں کو ہر خاص وعام جان لے گا ۔وہ قطبِ زمانہ ہو گا اور فرمائے گا ۔قَدَمِیْ ھٰذِ ہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہ ِ۔

زبدۃ الابرار میں ہے کہ ایک روز چند درویش حضرت شیخ علی بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دریا فت فرمایاکہ کہاں سے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ عجم سے ،پھر دریافت کیا کہ کس شہر سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ جیلان سے۔ تو حضرت شیخ نے ارشاد فر مایا: ان اللہ نور وجوھکم بظھو ر رجل منکم قریب من فضل اللہ تعالیٰ اسمہ عبد القادر مظھرہ فی العراق ومسکنہ فی البغداد یقول قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ ویقرہ اولیاء عصرہ بامر اللہ تعالیٰ ۔(مسالک السالکین ج۱ ص۲۳۷)

اللہ تعالیٰ تمہارے چہرے کو روشن کرے اس شخص کے ذریعے جو اللہ کے فضل سے تم میں عنقریب ظاہر ہوگا جس کا نا م عبدا لقادر ہو گا ، اس کے ظہور کی جگہ عراق اور مسکن بغداد ہوگا ،وہ کہے گا میرا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے اور اس کے ہم عصر تمام اولیاء اللہ ،اللہ کے حکم سے اس کے قول کو قبول کریں گے۔قلائد الجوہر میں ہے کہ جب آپ عالمِ شباب میں حضرت تا ج العارفین شیخ ابو الوفاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمتِ بابرکت میں تشریف لاتے تو حضرت شیخ موصوف آپ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور حاضرین سے بھی ارشاد فرماتے کہ ولی اللہ کی تعظیم کو اٹھو اور بعض اوقات دس پانچ قدم آپ کے استقبال کو بھی آگے بڑھتے ۔ایک بار لوگوں نے حضرت موصوف سے اس تعظیم وتکریم کی وجہ پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ نوجوان ایک عظیم الشان ولی ہوگا ،ہر خاص وعام اس کی طرف رجوع کریں گے اور گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ بغداد میں ایک مجمعِ عظیم میں قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِ اللہ ِ کہہ رہا ہے ۔ اور یہ اپنے اس قول میں حق بجانب ہوگا ۔اور تمام اولیاء اللہ اس کے سامنے اپنی گردنیں جھکائیں گے ،یہ سب کا قطب ہوگا تو تم میں سے جو کوئی اس کا وقت پائے اس کو چاہئے کہ اس کی خدمت اپنے اوپر لازم کرے ۔اس کے بعد حضرت شیخ موصوف نے آپ سے فرمایا اے عبد القادر! آج وقت ہمارے ہاتھ ہے اور قریب ہے کہ یہ وقت تمہا رے ہاتھ آئے گا ۔اور یہ دستور ہے کہ ہر ایک چرا غ روشن ہو کر گُل ہو جا تا ہے ۔مگر تمہارا چراغ قیامت تک رو شن رہے گا یہ فرماکر حضرت شیخ نے اپنی جاءنماز ،تسبیح ،قمیص،پیالہ ،اور اپنا عصا آپ کو عنایت فرمایا اور کہا ۔اے عبدالقادر! تمہارا وقت ایک عظیم الشان وقت ہوگا ،اس وقت تم اِس سفید داڑھی کو مت بھولنا۔ یہی کہتے کہتے روحِ پُر فتوح حضرت شیخ موصوف کی عالمِ بقاء کو پرواز کر گئی۔ اِ نَّا لِلہ ِ وَاِ نَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

حضرت عمر بزاز کہتے ہیں کہ وہ تسبیح جو آپ کو تاج العارفین نے دی تھی جب اس کو زمین پر رکھا جاتا تو اس کا ہر ایک دانہ از خود گردش کرتا تھا ۔آپ کی وفات کے بعد حضرت شیخ علی بن ہیئتی نے اسے لیا اور پیالہ کو جب کوئی لینا چاہتا تو وہ خو دبخود ہا تھ میں آجاتا تھا ۔غبب الناظر میں ہے کہ حضرت شیخ نجیب سہروردی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد دباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ اس عجمی کا قدم ایک وقت اولیا ء اللہ کی گردنوں پر ہوگا اور حضرت شیخ نجیب یہ بھی فر ماتے کہ میں نے چالیس سے زیادہ مشائخین کو ایسا ہی فرما تے سنا ہے۔قلا ئد الجوا ھر میں ہے کہ جب آپ عالمِ شباب میں تھے تو حضرت شیخ حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نسبت فرمایا کہ میں نے سر پر دو جھنڈے دیکھے جو زمین سے لے کر ملائِ اعلیٰ تک پہنچے تھے اور افقِ اعلیٰ میں ان کے نام کی دھوم سنی ہے۔(مسالک السالکین ۔ج۱ ص ۳۳۸)



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner