AD Banner

{ads}

(سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ 11)

(سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ 11)


 واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا

عقد شریف:

حضرت شیخ شہاب الدین سہر وردی قدس سرہ‘ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ کسی صالح شخص نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ آپ نے نکاح کس غرض سے کیا ہے ؟ تو حضرت نے جواب دیا کہ میں نے اس وقت تک نکاح نہیں کیا جب تک مجھ کو جنابِ رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد نہیں فرمایا کہ نکاح کرو ۔ یہ سن کر اس شخص نے عرض کیا کہ رسولِ خدا ﷺ نے اس امر میں اجازت دی ہے ، پھر صوفیائے کرام اس ارادے پر الزام  کیوں دیتے ہیں ؟ میں نہیں کہہ سکتا کہ حضرت شیخ نے کیا جواب دیا ، البتہ میں یہ کہوں کہ رسول ِ خدا ﷺ نے رخصت کا حکم دیا ہے اور شریعت نے نکاح کی اجازت دی ہے ۔مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہے اور اس کا نیاز مند بن کر اس سے استخارہ کرتا ہے تو عالمِ خواب میں یا بذریعہ کشف اللہ تعالیٰ اس کو متنبہ فرماتا ہے تو اس وقت یہ حکم رخصت پر نہیں ہو تا بلکہ یہ ایک ایسا امر ہے جس کا اتباع ارباب ِ عزیمت کرتے ہیں کیونکہ یہ علم حال سے ہے اور حکم سے نہیں ہے اور جو امر بذریعہ القاء یا کشف دل میں واقع ہو اس کی صحت پر دلیل حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول ہے کہ آپ خود فر ما تے ہیں :میں مدت سے شادی کا خواستگار تھا ، مگر وقت خراب ہونے کے باعث میں شادی کی جرأت نہیں کراتا تھا.لہذامیں نے صبر کیا یہاں تک کہ جب اس کا مقررہ وقت آگیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بیویاں عطا فرمائیں ان میں سے ہر ایک بیوی میری مرضی اور منشاء کے مطابق نکلی ،پس یہ ثمرہ میرے اس صبرِ جمیل کا ہے جو شادی کرنے کے سلسلے میں کرتا رہا .(عوارف المعا رف ۔اردو۔ص۳۱۳)

 آپ کے مراتب واختیارات:

حضرت غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’میں وہ مردِ خدا ہوں کہ میری تلوار ننگی ہے ،اور میری کمان عین نشا نے پر ہے ،میرا تیر نشانے پر ہے میرے نیزے صحیح مقام پر مار کرتے ہیں ۔میرا گھوڑا چاق وچوبند ہے ۔ میں اللہ کی آگ (نا را للہ) ہوں میں لوگوں کے احوال سلب کر لیتا ہوں ۔ میں ایسا بحرِ بیکراں ہوں جس کا کوئی ساحل نہیں ۔ میں اپنے آپ سے ماوراء گفتگو کرتا ہوں ،مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص ملاحظہ میں رکھا ہے ،

اے روزہ دارو! اے شب بیدارو!اور پہاڑ والو!

   تمہارے صومعے زمین بوس ہو جائیں گے ۔میرا حکم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے قبول کرلو۔

اے دخترانِ وقت ،اے ابدال واطفالِ زمانہ! 

آؤ اور وہ سمندر دیکھو جس کا کوئی ساحل نہیں ،مجھے اللہ کی قسم ہے کہ میرے سامنے نیک بخت اور بدبخت پیش کئے جا تے ہیں ۔ مجھے قسم ہے لوحِ محفوظ میری نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے ۔ میں دریائے علومِ الٰہی کا غواص ہوں ۔ میرا مشاہدہ ہی محبتِ الٰہی ہے ۔  میں لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت ہوں میں نائبِ رسولِ خدا ہوں ۔ میں اس زمین پر اللہ کا وارث ہوں ۔انسان اور جنوں میں مشائخ ہوتے ہیں ۔فر شتوں میں بھی مشائخ ہوتے ہیں ۔ مگر میں ان سب کا شیخ الکل ہوں ۔ میری مرض ِموت اور تمہاری مرض ِموت میں زمین وآسمان کا فاصل ہے ۔

 مجھے دوسروں پر قیاس نہ کرو اور نہ دوسرے مجھے اپنے آپ پر قیاس کریں ۔اے مشرق والو! اے مغرب والو! اور اے آسمان والو!

 مجھ سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں وہ چیزیں جانتا ہوں جو تم میں سے کوئی بھی نہیں جا نتا ، مجھے ہر روز ستر(۷۰) بار حکم دیا جاتا ہے کہ یہ کام کرو ،ایسا کرو ،اے عبدالقادر تمہیں میری قسم ہے ۔یہ چیز پی لو ،تمہیں میری قسم ہے یہ چیز کھالو ،میں تم سے باتیں کرتا ہوں اور امن میں رکھتا ہوں ۔

حضرت نے مزید فرمایا کہ جب میں گفتگو کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے اپنی قسم یہ با ت پھر کہو ،کیونکہ تم سچ کہتے ہو ۔میں اس وقت تک بات نہیں کرتا ۔جب تک مجھے یقین نہ دلایا جائے ،اس میں شک وشبہ نہیں ہوتا ۔ میں ان تمام امور کی تقسیم وتفریق کرتا رہتا ہوں جن کے مجھے اختیارات دیئے جاتے ہیں ۔ 

جب مجھے حکم دیا جاتا ہے تو میں وہی کام کرتا ہوں ،مجھے حکم دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔اگر تم مجھے جھٹلاؤ گے تو یہ بات تمہارے لئے زہرِ ہلاہل ہوگی تمہارا یہ اقدام ِ نافرمانی تمہیں ایک لمحہ میں تباہ کر دے گا ۔

میں تمہاری دنیا وآخرت کو ایک لمحہ میں ختم کرنے کی قدرت رکھتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہوں ،اگر میرے منہ میں شریعت کی لگام نہ ہوتی تو میں تمہیں ان چیزوں کی بھی خبر دیتا جو تم کھاتے ہو ، پیتے ہو اور گھروں میں چھپائے رکھتے ہو ۔ اگر میرے منہ میں شریعت کی لگام نہ ہوتی (یعنی شریعت کا پاس نہ ہوتا) تو میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پیالے کی خبر دیتا غرضیکہ دلوں کی ہر خبر واضح کر دیتا ۔چنانچہ علم وامان عالم میں پناہ حاصل کرتا ہے اور ان کی خفیہ چیزوں کو ظاہر نہیں کرتا ۔آپ نے مزید فرمایا کہ میں ہر اس خبر کو جانتا ہوں جو تمہارے ظاہر میں ہے اور ہر اس چیز کی خبر رکھتا ہوں جو تمہارے باطن میں پوشیدہ ہے ۔ میری نگاہ میں تم لوگ شیشے کی طرح صاف ہو ۔تمام مردانِ خدا جب مقامِ قدر میں پہنچتے ہیں تو ان کی نگرانی کی جاتی ہے... مگر مجھے اس طاقچہ سے اندر پہنچایا جاتا ہے۔(اخبا ر الا خیار فارسی۔ص۱۸،۱۹)

قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ:

لطائف الغرائب میں ہے کہ جب آپ کو ربِ کا ئنات سے مرتبۂ غوثیت ومحبوبیت عنایت ہوا ،تو آپ جمعہ مبارکہ کے دن منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے ،ناگاہ استغراق کی کیفیت آپ پر طاری ہوئی اور اسی حالت میں زبانِ کرامت بیان پر یہ کلمہ جاری ہوا ۔ قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ یعنی میرا یہ قدم جملہ اولیاء اللہ کی گردن پر ہے معاً منادیٔ غیب نے تمام عالم میں ندا کر دی کہ جمیع اولیاء اللہ محبوب ِ پاک کی اطاعت کریں اور ان کے ارشاد کو بسرو چشم بجا لاویں ، یہ سنتے ہی جملہ اولیا ء اللہ نے گردنیں جھکا دیں اور ارشاد ِ واجب الاذعان کی تعمیل کی ۔(مسالک السالکین۔ج۱ ص۳۳۹)


جن اولیاء اللہ نے سرِ تسلیم خم کیا اس کی تفصیل اس طرح ہے:

۱۔ حرمین شریفین میں سترہ(۱۷)

 ۲۔ عراق میں ساٹھ (۶۰)

 ۳۔ عجم میں چالیس(۴۰)

 ۴۔ شام میں تیس(۳۰)

 ۵۔ مصر میں بیس(۲۰) 

 ۶۔ مغرب میں ستائیس(۲۷)

 ۷۔ یمن میں تیئس(۲۳)

 ۸۔ حبشہ میں گیارہ(۱۱)

 ۹۔ سدِّ یاجوج ماجوج میں سات(۷)  

 ۱۰۔ ساندیپ میں سات(۷)

 ۱۱۔ کوہ قاف میں سینتالیس(۴۷)

 ۱۲۔ جزائرِ بحرِ محیط میں چوبیس(۲۴)

 افراد تھے۔

حضرت شیخ مکارم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں انوارِ الٰہی کو حاضر جان کر کہتا ہوں کہ جس روز آپ نے قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ فرمایا اس روز جملہ اولیاء اللہ نے معائنہ کیا کہ نشان ِ قطبیت آپ کے سامنے گاڑا گیا ہے اور غوثیت کا تاج آپ کے سرِمبارک پر رکھا گیا اور خلعتِ تصرف زیب تن کئے ہوئے ہیں ۔تو سب نے ایک ہی آن میں سر جھکا کر آپ کے مرتبے کا اعتراف کیا ۔یہاں تک کہ دسوں ابدال نے بھی جو سلاطینِ وقت تھے اپنی گردنیں جھکائیں جن کے اسما ئے گرامی حسبِ ذیل ہیں:

 ۱۔ حضرت شیخ بقا بن بطو           

۲ ۔ حضرت شیخ ابو سعید قیلوی          

۳۔حضرت شیخ علی بن ہیئتی           

 ۴۔  حضرت شیخ عدی بن مسافر           

 ۵۔ حضرت شیخ موسیٰ الزولی         

 ۶۔ حضرت شیخ احمد رفاعی     

 ۷۔ حضرت شیخ عبدا لرحمن طفسونجی        

 ۸۔ حضرت شیخ ابو محمد عبد اللہ البصری        

۹۔ حضرت شیخ حیات بن قیس الحرّانی      

۱۰۔ حضرت شیخ ابو مدین العربی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین ۔

حضرت قدوۃ العارفین شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب آپ نے قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ فرمایا ، اس وقت آپ کے قلبِ مبارک پر تجلیاتِ الٰہی نازل ہو رہی تھی اور حضرت رسولِ خدا ﷺ نے آپ کو خلعت بھیجا تھا جس کو ملائکہ مقربین نے مجمعِ عام میں آپ کو پہنایا ،اس وقت ملا ئکہ ورجال الغیب صف با ندھے ہوئے اس کثرت سے ہوا میں کھڑے تھے کہ افق سماں نظر نہیں آتا تھا اور اس وقت روئے زمین پر کوئی ایسا ولی نہ تھا جس نے گردن نہ جھکا ئی ہو(مسالک السالکین۔ج۱ ص ۳۴۰)

خلاصۃ القادر میں ہے کہ جب منادی ٔ غیب کی ندا عالمِ ارواح میں پہنچی ،تو حضرت سلطان العارفین خواجہ بایزید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحِ پاک نے بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا: یا احکم الحاکمین! تیرا فرمان واجب الاذعان ہے ۔ مگر سید عبدالقادر کو بایزید پر کون سی فوقیت اور ترجیح حاصل ہے ؟ارشاد ہوا کہ دو فوقیتیں ہیں ۔ایک یہ کہ وہ فرزندِ دلبند خواجۂ عالم ﷺ ہے ۔اور دوسرا یہ کہ تو فارغِ مشغول ہے اور وہ مشغولِ فارغ، تو عاشق ہے ،وہ معشوق ہے ۔یہ سنتے ہی حضرت سلطان العارفین نے گردن جھکادی اور فرمایا ۔سمعنا واطعنا۔

منقول ہے کہ شیخ ابوالبرکات بن صخر بن مسافر نے اپنے عمِ بزرگوار حضرت شیخ عدی بن مسافر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ سوائے حضرت محبوبِ سبحانی کے کسی اور ولی اللہ نے بھی قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ کہا ہے ؟تو ارشاد فرمایا کہ نہیں ۔پوچھا کہ پھر حضرت محبوبِ سبحانی کے ارشاد کا کیا سبب ہے ؟  تو ارشاد فرمایا کہ یہ کلمہ ان کے مقامِ فردیت کی خبر دیتا ہے ۔پھر پوچھا کہ فرد تو ہر زمانے میں ہوتا ہے ،مگر کسی کو سوائے حضرت محبوبِ سبحانی کے یہ کہنے کا حکم نہیں ہوا ہے ۔ عرض کیا کہ آپ اس کہنے پر مامور ہوئے تھے ؟ فرمایا ہاں!  اور تمام اولیاء اللہ نے حکمِ الٰہی کے بمو جب اپنی گردنیں جھکائیں ۔(مسا لک السالکین ۔ج۱ ص ۳۴۱)

وجہ تسمیہ بمحی الدین:

مشا ئخ ِ قادریہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے آپ سے محی الدین لقب کی وجہ دریافت کی ،تو آپ نے فرمایا ۔ ۵۱۱۔؁ھ میں ایک دفعہ میں ایک لمبے سفر سے بغداد کی طرف لوٹ رہا تھا ۔میرے پاؤں ننگے تھے ،مجھے ایک بیمار آدمی ملا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور بڑا ہی کمزور جسم نظر آتا تھا ۔مجھے اس نے سلام کیا ،میں نے وعلیکم السلام کہا اس کے بعد مجھ سے کہنے لگا مجھ سے قریب ہو جاؤ ۔میں قریب ہوا تو کہنے لگا مجھے اٹھاؤ ۔میں نے اسے اٹھا کر بٹھا دیا تو اس کا جسم اچھا وتوانا ہو گیا اور اس کے چہرے پر رونق نظر آنے لگی ۔مجھے اس نے پوچھا کہ کیا تم مجھے پہچا نتے ہو ؟

 میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ خود ہی کہنے لگا کہ:میں تمہارا دین ہوں جو ایسا نحیف ونزار ہو گیا تھا.چنانچہ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ آپ کی وجہ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے از سرِ نو زندگی بخشی ہے ،آج سے تمہا را نام محی الدین ہوگا ۔‘‘

یہاں تک کہ جب میں جامع مسجد کی طرف واپس آیا تو مجھے ایک شخص ملا اور مجھ سے کہنے لگا یاسید محی الدین! میں نے نماز ادا کی تو لوگ میرے سامنے ادباً کھڑے ہو گئے اور ہا تھوں کو بو سہ دینے لگے ۔اور زبان سے یامحی الدین پکارتے جا تے تھے ۔حالانکہ اس سے پہلے کوئی بھی مجھے اس لقب سے نہیں پکارتا تھا۔(خزینۃ الاصفیاء ۔ج۱ ص ۹۴؍ تلخیص بہجۃ الاسرار)


عبد اللطیف قادری بڑا رہوا بائسی پرنیا بہار





हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner