AD Banner

{ads}

(حضور غوث پاک کی مشہور کرامت دریا سے ڈوبی ہوئی بارات کو نکالنے کی تحقیق)

(حضور غوث پاک کی مشہور کرامت دریا سے ڈوبی ہوئی بارات کو نکالنے کی تحقیق)


قارئین!آپ نے حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی مشہور و معروف کرامت دریا سے ڈوبی ہوئی بارات کو نکالنے والا بارہا سنا اور پڑھا ہوگا اس تحریر کو مکمل پڑھیں! ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ نئی باتیں بھی اس تعلق سے آپ کے علم میں آئیں گی۔ اولاً وہ مشہور کرامت پھر سے ملاحظہ کریں!شیخ محمد بن الھمدنی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:ایک بار سرکارِ بَغْداد حُضُور سَیِّدُنا غَوْثُ الْاَعْظَم رضی اللہ عنہ دَرْیا کی طرف تَشْرِیْف لے گئے، وہاں ایک بُڑھیا کو دیکھا جو زَارو قِطَار رو رہی تھی۔ایک مُرید نے بارگاہِ غَوثیّت میں عرض کی: یامُرشِدی! اِس ضَعیفہ کا اِکْلَوتا خُوْبْرُو بیٹا تھا، بے چاری نے اُس کی شَادِی رَچائی۔ دُولہا نکاح کر کے دُلہن کو اِسی دَرْیا میں کَشْتی کے ذَرِیعے اپنے گھر لارہا تھا کہ کَشْتی اُلَٹ گئی اور دُولہا دُلہن سَمیت ساری بارات ڈُوب گئی ۔ اس واقِعے کو آج بارہ بَرَس گُزرچکے ہیں مگر ماں کا جِگر ہے،بے چاری کا غَم جاتا نہیں ہے،یہ روزانہ یہاں دَرْیَا پر آتی اوربارات کو نہ پاکر رودھو کر چلی جاتی ہے۔حُضُور غَوْثُ الاعظم رضی اللہ عنہ کو اِس ضَعیفہ(یعنی بڑھیا) پر بَڑا تَرْسْ آیا، آپ رَحْمَۃ اللہ علیہ نے  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دئیے،چند مِنَٹ تک کچھ بھی ظُہُور نہ ہوا، بے تَاب ہوکَر بارگاہِ اِلٰہی عَزَّ  وَجَلَّ میں عرض کی: یَااَللہ عَزَّ  وَجَلَّ ! اس قَدَر تاخِیْر کیوں؟اِرْشاد ہوا:’’ اے میرے پیارے! یہ تَاخِیْر خلافِ تَقْدِیر وتَدْبِیْر نہیں ہے، ہم چاہتے تو ایک حکمِ کُنْ سے تمام زمین وآسمان پیدا کردیتے مگر بَمُقْتضَائے حِکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈُوبے 12 سال بِیت چُکے ہیں،اب نہ وہ کَشْتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سُواری، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جَانْوَر کھاچُکے ہیں،ریزے ریزے کو اَجزائے جِسْم میں اِکَٹّھا کروَا کر دوبارہ زندَگی کے مَرحَلے میں داخِل کردیا ہے، اب اُن کی آمد کا وقت ہے‘‘ابھی یہ کلام اِختِـتَام کو بھی نہ پہنچا تھا کہ یکایک وہ کَشْتی اپنے تمام تر سازوسامان کے ساتھ مَع دُولہا دُلہن وبراتی سَطْحِ آب پر نُمُودار ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں کَنارے آلگی، تمام باراتی سرکارِبغداد حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے دُعائیں لے کر خُوشی خُوشی اپنے گھر پہنچے۔ اِس کَرامت کو سُن کر بے شمار کُفّار نے آکرسَیِّدُناغَوْثِ اَ عْظَم  رضی اللہ عنہ کے دَسْتِ حَقْ پَرَسْت پر اِسْلَام قُبُول کیا۔

[سلطانُ الاَذکار فی مَناقب غوثِ الابرار،از الشاہ محمد بن الھمدنی، بحوالہ:شان و کرامات غوث اعظم ص ١٥ ناشر المکتبہ المدینہ کراچی پاکستان۔] 

اس مشہور و معروف کرامت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے متعلق اعلیٰ حضرت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان سے سوال کیا گیا کہ:-حضرت بڑے پیر صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کی چند مشہور کرامتیں جو کہ مولود شریف و وعظ وغیرہ میں بیان کی جاتی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک بڑھا لبِ دریا بیٹھی روتی تھی،اتفاقًا حضرت کا اس طرف سے گزرہوا۔حضرت نے فرمایا کہ اس قدر کیوں روتی ہو؟ بڑھیا نے عرض کیا:حضرت ! میرے لڑکے کی بارہ برس ہوئے یہاں دریا میں مع سامان کے برات ڈوبی ہے میں یہاں آکر روزانہ روتی ہوں،آپ نے دعا فرمائی آپ کی دعا کی برکت سے بارہ برس کی ڈوبی ہوئی برات مع کل سامان کے صحیح و سالم نکل آئی اور بڑھیا خوش و خرم اپنے مکان کو چلی گئی۔(سائل سوال کرتا ہے کہ بتائیں!) شرعًا اس روایت کا بیان کرنا مجلس مولود شریف یا وعظ وغیرہ میں درست ہے،یا نہیں؟تو اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:-اگرچہ یہ روایت نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امرخلافِ شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے[فتاوی رضویہ تیس جلدوں والی جلد نمبر ۲۹،رسالہ:امور عشرین در امتیاز عقائد سنیین۔،ص۶۲۸ تا ۶۲۹مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاھور] 

اسی مشہور و معروف کرامت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے متعلق علامہ احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ تفسیر نعیمی میں لکھتے ہیں:- حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہ نے بارہ برس کی ڈوبی برات کو صحیح سلامت نکالا اور وہ لوگ بہت عرصہ زندہ رہے ہوں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔(پھر آگے لکھتے ہیں)

نوٹ:- اس برات کے دولھا کا نام سید کبیر الدین ہے۔

لقب دریائی دولھا۔اب انہیں" شاہ دولہ" کہا جاتا ہے۔ان کی قبر شریف گجرات مغرب پاکستان میں زیارت گاہ خاص و عام ہے آپ کی عمر شریف قریباً۔چھ سو ۶۰۰برس ہوئی حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہیں،اور آپ نے ایک بار حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کو وضوء کراتے ہوئے آپ کے قدم شریف سے ٹپکتے ہوئے قطروں کے پانچ چلو پانی پی لیا فی چلو ایک سو سال عطا ہوئے جو عمر اپنی گزار چکے تھے اس کے علاوہ۔آپ کی وفات شریف ایک ہزار ہجری کے بعد ہے(پھر دلیل ماخد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں)

ان تمام واقعات کی تفصیل دیکھو:کتاب مقامات محمود وغیرہ میں۔[تفسیر نعیمی حصہ دوم پارہ ہفتم،سورۃ المائدہ کی آیت۱۱۰ کے ضمن میں۔ص۱۵۰ تا ۱۵۱،ناشر:مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور کراچی۔] 

اب سب سے اہم بات یہ عرض ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا مشہور و معروف کرامت کا انکار کم از ہم سنی مسلمان تو نہ کریں!کیوں کہ اگر انکار کریں گے تو پھر قادری سلسلہ کا سلسلۃ الذہب یعنی سلسلہ قادریہ معمریہ منوریہ(جس میں سب سے کم واسطے ہیں غوث اعظم رضی اللہ عنہ تک) اس پر اعتراض وارد ہوگا اور یہ سلسلہ قادریہ معمریہ منوریہ اس ڈوبی ہوئی کشتی کے  دولہا(حضرت سید کبیر الدین قادری)علیہ الرحمہ کے توسط سے چلا ہے اور ہند تک آیا ہے اور ہندوستان میں جتنی بھی خانقاہوں کے مشائخین کے پاس سلسلہ قادریہ معمریہ منوریہ ہے سب انہیں کے توسط سے ہے۔جیسے ہم شبیہ غوث جیلانی اعلیٰ حضرت سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو سلسلہ قادریہ معمریہ کی خلافت ملی حضرت مولانا محمد امیر کابلی قادری علیہ الرحمہ سے ان کو شاہ اخون قادری رامپوری علیہ الرحمہ سے ان کو شاہ منور قادری آلہ آبادی علیہ الرحمہ سے ان کو شاہ دولہ قادری علیہ الرحمہ سے ان کو غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے.[دیکھیں!ماہنامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر صفحہ ٥٢٨] 

چناں چہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے منظوم شجرہ میں لکھتے ہیں:غوث اعظم، شاہ دولہ اور منور کے لیے

شاہ اخون و امیر بے ریا کے واسطے۔

[دیکھیں:-شجرہ اشرفیہ،ترتیب جدید

طالب دعا
شبیر احمد راج محلی


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner