AD Banner

{ads}

(سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ 12)

(سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ12)

 واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا

مسندِ رُشد وہدایت

حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فر ماتے ہیں کہ ابتداء میں مجھے سوتے جاگتے کرنے اور نہ کرنے والے کام بتائے جاتے اور مجھ پر کلام کرنے کا غلبہ اتنی شدت سے ہوتا کہ میں بے اختیار ہو جاتا اور خاموش رہنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا ۔صرف دو تین آدمی میری باتیں سنتے رہتے تھے ۔پھر لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی حتیٰ کہ مخلوقِ خدا کا ہجوم ہونے لگا یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ میری مجلس میں جگہ باقی نہ رہتی... چنانچہ میں شہر کی عیدگاہ میں چلا گیا اور وعظ کہنے لگا وہاں بھی جگہ تنگ ہو گئی تو منبر شہر کے باہر لے گیا اور بے شمار مخلوق سوار و پیادہ آتی ۔ اور مجلس کے باہر کھڑی ہو کر وعظ سنتی حتیٰ کہ سننے والوں کی تعداد ستر(۷۰) ہزار کے قریب پہنچ گئی۔(اخبارالاخیار اردو۔ص ۳۷،۳۸)


آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ:شروع زمانے میں ،میں نے نبیٔ کریم ﷺ اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو خواب میں دیکھا کہ مجھے وعظ کہنے کا حکم فرما رہے ہیں اور میرے منہ میں انہوں نے اپنا لعابِ دہن ڈالا ۔بس اس کی تاثیر ہوئی کہ میرے لئے ابوابِ سخن کھل گئے ۔۔۔۔آپ کی مجلسِ وعظ میں چار سو اشخاص قلم دوات لے کر بیٹھتے اور جو کچھ سنتے اس کو لکھتے رہتے۔۔۔۔اور جب منبر پر تشریف لاتے تو مختلف علوم کا بیان فرماتے ۔تمام حاضرین آپ کی ہیبت وعظمت کے سامنے بالکل ساکت رہتے کبھی اثنائے وعظ میں فرماتے کہ قال ختم ہوا اور حال کی طرف مائل ہوئے ۔یہ کہتے ہی لوگو ں میں اضطراب وجد اور حال کی کیفیت طاری ہو جاتی کوئی گریہ وفریاد کرتا ،کوئی کپڑے پھاڑ کر جنگل کی راہ لیتا اور کوئی بیہوش ہو کر اپنی جان دے دیتا ،بسا اوقات آپ کی مجلس سے شوق ، ہیبت، تصرف، عظمت اور جلال کے باعث کئی کئی جنازے نکلتے آپ کی مجلسِ وعظ میں جن خوارق، کرامات ، تجلیات اور عجائبات وغرائب کا ظہور بیان کیا جاتا وہ بے شمار ہیں۔

روایت ہے کہ جب آپ منبر پر تشریف لاتے تو فرماتے اے صاحبزادے! ہمارے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد دیر نہ کیا کر، ولایت یہاں حاصل ہوتی ہے ، اعلیٰ درجات یہاں ملتے ہیں ۔اے طلبگارِ توبہ! ہمارے پاس آ، اے طالبِ عفو! بسم اللہ تو بھی آ ۔ اے اخلاص کے چا ہنے والے! بسم اللہ ہفتہ میں ایک بار آ ، مہینہ میں ایک بار آ ، اگر یہ بھی مشکل ہو تو سال میں ایک دفعہ آ ، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو عمر میں ایک مرتبہ آ ، اور ہزار نعمتیں لے جا، اے عالم ہزار مہینہ کی مسافت طے کر کے میرے پاس آ اور میری بات سن جا ۔ اور جب تو یہاں آئے تو اپنے عمل زہد ،تقویٰ اور ورع کو نظر انداز کر، تاکہ تو اپنے نصیب کے مطابق مجھ سے اپنا حصہ حاصل کر سکے ۔میری مجلس میں مقرب فرشتے ، مخصوص اولیاء اور رجال الغیب اس لئے آتے ہیں کہ مجھ سے بارگاہِ اقدس کے آداب وتواضع سیکھ سکیں ،میرا وعظ رجالِ غیب کے لئے ہوتا ہے جو کوہِ قاف کے ماوراء سے آتے ہیں کہ ان کے قدمِ دوش ِ ہوا پر ہو تے ہیں ،لیکن خداوند ِ عالم کے لئے ان کے دلوں میں آتشِ شوق و سوزش ِ اشتیاق شعلہ زن ہو تی ہے۔

آپ کا معمول تھا کہ ہفتہ میں تین بار وعظ فرمایا کرتے ۔جمعہ کی صبح ، منگل کی رات اور اتوار کی صبح کو۔آپ کی مجلس میں عراق کے مشائخ ،مفتی اور علماء شریک ہوا کرتے تھے ان میں شیخ بقا بن بطو ، شیخ ابو سعید قیلوی ،شیخ علی بن ہیئتی، شیخ عبد القاہر سہروردی ، شیخ ماجد کردوی اور شیخ مطر بادرانی وغیرہم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)آپ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں کوئی یہودی یا عیسائی دامنِ اسلام میں نہ آتا ہو ، اور راہزن ،چور ،ملحد ،بے دین اور بدعقیدہ لوگ آپ کی مجلس میں آکر تائب ہوتے ،یہودی اور عیسائیوں میں سے پانچ سو کے قریب آپ کے دستِ حق پرست پر اسلام لائے ،ایک لاکھ سے زیادہ چور اور قزاق تائب ہوئے۔(اخبارالاخیار وتلخیص بہجۃ الاسرار۔ص ۵۸)

طالب دعا

عبداللطیف قادرى بَـڑَا رَھُــوَا بـَائِسـیْ پُوْرنِیَہ (بِہَار



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner