AD Banner

{ads}

(سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ 01)

 (سیرت غوث پاک رضی اللہ عنہ 01)

 واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا

نـــبى ﷺ نے ارشاد فرمایا من عادی للہ ولیا فقد بارزاللہ بالمحارب۔ یعنی جو اللہ عزوجل کے کسی دوست سے دشمنی رکھے تحقیق اس نے اللہ عزوجل سے اعلان جنگ کر دیا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب من ترجی لہ السلامہ من الفتن، رقم 3989، ج4، ص350)

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی سے بڑھ کر کسی اور چیز سے میرا تقرب حاصل نہیں کر سکتا (فرائض کے بعد پھر وہ) نوافل سے مذید میرا قرب حاصل کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں، جب وہ میرے مقام محبت تک پہنچ جاتا ہے تو میں اس کے کان، آنکھ، زبان، دل، ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں، وہ میرے ذریعے سے سنتا، دیکھتا، بولتا اور چلتا ہے۔‘‘
 
 امام فخرالدین رازی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں:اولیاء اللہ لا یموتون ولکن ینقلون من دارالی دار‘‘ یعنی بے شک اللہ عزوجل کے اولیاء مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔‘‘(التفسیر الکبیر، پ4، آل عمران: 169، ج3، ص427)

نام نسب:
غوث پاک کا اسم مبارک ‘‘عبدالقادر‘‘ کنیت ‘‘ابو محمد‘‘ اور القابات ‘‘محی الدین، محبوب سبحانی، غوث الثقلین، غوث الاعظم‘‘ وغیرہ ہیں، آپ 470ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے ۔

غوث کسے کہتے ہیں ؟
غوثیت‘‘ بزرگی کا ایک خاص درجہ ہے، لفظ ‘‘غوث‘‘ کے لغوی معنی ہیں ‘‘فریادرس یعنی فریاد کو پہنچنے والا‘‘ چونکہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ غریبوں، بے کسوں اور حاجت مندوں کے مددگار ہیں اسی لئے آپ کو ‘‘غوث اعظم‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، اور بعض عقیدت مند آپ کو ‘‘پیران پیر دستگیر‘‘ کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔

نسب شریف:
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ ، والد ماجد کی نسبت سے حسنی ہیں سلسلہء نسب یوں ہے، سید محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن سید ابو صالح موسٰی جنگی دوست بن سید ابوعبداللہ بن سید یحیٰی بن سید محمد بن سیدداؤد بن سید موسٰی ثانی بن سید عبداللہ بن سید موسٰی جون بن سید عبداللہ محض بن سید امام حسن مثنٰی بن سید امام حسن بن سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین اور آپ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سید ہیں۔ (بہجۃ الاسرار، معدن الانوار، ذکر نسبہ، ص171)

 آباء و اجداد:
آپ کا خاندان صالحین کا گھرانا تھا آپ کے ناناجان، داداجان، والد ماجد، والدہ محترمہ، پھوپھی جان، بھائی اور صاحبزادگان سب متقی و پرہیزگار تھے، اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کو اشراف کا خاندان کہتے تھے۔
 
والد محترم:
آپ کے والد محترم حضرت ابو صالح سید موسٰی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی ‘‘سید موسٰی‘‘ کنیت ‘‘ابو صالح‘‘ اور لقب ‘‘جنگی دوست‘‘ تھا، آپ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔

 جنگی دوست‘‘ لقب کی وجہ:
آپ کا لقب جنگی دوست اس لئے ہوا کہ آپ خالصتاً اللہ عزوجل کی رضا کے لئے نفس کشی اور ریاضت شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لئے مشہور تھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے، آپ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا۔ آپ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جراءت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفہء وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا، تو خلیفہ نے کہا: ‘‘سید موسٰی (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) کو فوراً میرے دربار میں پیش کرو۔‘‘چنانچہ حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ و غضب سے کرسی پر بیٹھا تھا، خلیفہ نے للکار کر کہا: ‘‘آپ کون تھے جنہوں نے میری ملازمین کی محنت کو رائیگاں کر دیا ؟‘‘ حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ‘‘میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔‘‘ خلیفہ نے کہا: ‘‘آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کئے گئے ہیں ؟‘‘ حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے رعب دار لہجہ میں جواب دیا: ‘‘جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔‘‘آپ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ سربزانو ہو گیا (یعنی گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا: ‘‘حضور والا! امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے ؟‘‘حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا:تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اور ذلت سے بچانے کی خاطر۔‘‘ خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوا: ‘‘عالیجاہ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامور ہیں۔‘‘حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا: ‘‘جب میں حق تعالٰی کی طرف سے مامور ہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے۔‘‘ اسی دن سے آپ ‘‘جنگی دوست‘‘ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ (سیرت غوث الثقلین، ص52)



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner