AD Banner

{ads}

(سوانح سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃاللہ علیہ)

(سوانح سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃاللہ علیہ)

(۱)آپ کےوالدِماجد(حضرت سالار ساہو)کوحضرت خضرعلیہ السلام کی بشارت
(۲)آپ کامحمود غزنوی(ماموں)نےپہلی باردیدارکیا
(۳)پہلی فتح و کرامت
(۴)غزنی کاسفر
(۵)ہندوستان روانگی
(۶)والدین سےملاقات
(۷)دہلی کی فتح
(۸)میرٹھ کےراجہ کی تابعداری
(۹)والی قنوج کی تابعداری
(۱۰)سَترِکھ میں آپ کاقیام
(۱۱)کَٹرہ و مانِک پور راجاؤں کی دھمکی
(۱۲)زہر میں بجھی ہوئی نحرنی
(۱۳)والدہ ماجدہ کی وفات
(۱۴)جاسوس پکڑےگئے
(۱۵)کٹرہ اور مانک پور کی فتح
(۱۶)بہرائچ میں آمد
(۱۷)شہادت
(۱۸)حاضری کاطریقہ(آپ کی قبرمبارک پر ہر30منٹ پر حضرت خضرعلیہ السلام کی حاضری ہوتی ہے)
(۱۹)زندہ کرامت(کم از کم ہر سال سات(7)کوڑھی بالکل اچھےہوجاتےہیں سات(7)اندھوں کو بینائی حاصل ہوتی ہےسات(7)بانجھ عورتوں کا بانجھ پَن دور ہوجاتاہے یعنی صاحبِ اولاد بن جاتی ہیں)

(۱)آپ کے والد ماجد کو حضرت خضر علیہ السّلام کی بشارت:
حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے والدِمحترم سالارساہو بےپناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ جنھیں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اسی ملاقات میں حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں بشارت دی کہ پروردگارِعالم عز وجل آپ کو دو نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ 
پہلی یہ ہے کہ آپ کو ایک ایسا فرزند عطا فرمائے گا کہ جس سے قیامت تک آپ کا نام روشن رہے گا۔
اور دوسری یہ ہے کہ ہندوستان کی فتح اور وہاں کا کفر و شرک آپ کے نورِنظر سے دور ہو جائے گا۔
چنانچہ اکیس(۲۱)رجب المرجب ۴۰۵ ھ کو سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ پیدا ہوئے۔

(۲)سلطان محمود غزنوی(ماموں)نے آپ(بھانجے)کا پہلی بار دیدار کیا:
والی قنوج راجہ اجے پال کی سرکوبی کے لئے حضرت سلطان محمود غزنوی نے جب ہندوستان کا رخ کیا تو پہلی بار اجمیر شریف میں پیارے بھانجے حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو دیکھا ۔دیکھتے ہی حضرت سلطان محمود غزنوی کی عرفان شناس نگاہوں نے پہلے ہی سمجھ لیا کہ یہ بلند اقبال فرزند یقیناً بحرِمعرفت کا غواص ہے۔ جب تک اجمیر شریف میں قیام رہا بھانجے کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ بالاٰخر متھرا وغیرہ کے علاقے سَر کرنے کے بعد جب سلطان محمود غزنوی غزنی لوٹنے لگے تو اپنے ساتھ بھانجے کو بھی لیتے گئے ۔ حضرت سلطان محمود غزنوی آپ پَر اس قدر شفقت فرماتے کہ خود ان کے لڑکے سلطان محمد حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ پر رشک کرتے ۔ حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی مقبولیت دن بَدن سلطان کے بارگاہ میں بڑھتی گئی ، جس سے بعض حاسدین جَل بُھن اٹھے ۔ جس میں سب سے بڑا حاسد بادشاہ کا وزیر احمد بن حسن میمندی تھا۔

چند دن غزنی رہنے کے بعد حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنی والدہ کے ساتھ اجمیر شریف واپس چلے آئے اور سلطان محمود غزنوی نے حضرت سالارساہو رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کو ہندوستان کے تمام مفتوحہ علاقوں کا نگراں بنا دیا، جس کاصدر مقام اجمیر شریف تھا۔

حضرت سالارساہو رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے دس سال تک نہایت ذمہ داری کے ساتھ کارِمنصبی (اپنے فرائض منصبی) کو انجام دیا۔ اچانک کاہیلر (جو کشمیر میں ہے) میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ اطلاع ملتے ہی سلطان نے سالارساہو رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو فرمان بھیجا کہ اجمیر شریف آدھی فوج انتظامی امور کے لئے چھوڑ دیں اور بقیہ آدھی فوج کو ساتھ لے کر کاہیلر روانہ ہو جائیں ۔

حضرت سالارساہو نے باتدبیر مُشیروں اور صائب الرائے لوگوں کو اجمیر شریف میں حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے پاس چھوڑا اور کاہیلر پہونچ کر باغیوں کی سرکوبی کی۔ جب وہاں کے تمام سیاسی وملکی معاملات حسبِ سابق ہو گئے اور ہر طرف امن وسکون کی فضا پیدا ہوگئی تو سلطان محمود غزنوی مسرور ہوئے اور وہ علاقہ انہیں کے زیرِنگیں کر کے حکم دیا کہ آپ کاہیلر ہی میں مستقل قیام کریں۔

اب چوں کہ انھیں یہیں قیام کرنا تھا اس لئے حضرت سیدناسالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو کاہیلر بلانے کے لئے ایلچی روانہ کیا اور خط لکھا کہ نورِنظر مسعود (رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ)کاہیلر آ جاؤ اور وہاں امیروں میں سے کسی کو افسر مقرر کر دو ۔ جب یہ قاصد اجمیر شریف پہونچ کر سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو والد کا خط پیش کیا تو آپ خط پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور دوسرے ہی دن  ایک لاکھ پانچ ہزار فوجیوں کے جھرمٹ میں کاہیلر کی جانب روانہ ہوگئے۔

(۳)پہلی فتح و کرامت:
راہ میں منزل بہ منزل سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے جب قصبہ راول میں پہونچے تو شیوکن نامی ایک شخص جو وہاں کا زمیندار تھا ، حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے استقبال کے لئے آیا اور اصرار کیا کہ آج آپ ہمارے گھر مہمان رہیں۔ آپ نے اس کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور قصبہ کے باہر ہی پڑاؤ ڈال دیا۔ صبح کوچ کے وقت پھر شیوکن دومن مٹھائی زہر میں ملا کر لایا جسے آپ نے نورِباطن سے جان لیا اور سخت تاکید کی کہ خبردار ! مٹھائی ہرگز کوئی زبان پر نہ رکھے۔حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے حاضرینِ لشکر سے فرمایا کہ دیکھا ! اس میں زہر ملا ہوا ہے۔

رات کو آپ وہیں مقیم ہوئے اور صبح چند جاسوسوں کو شیوکن کی خبر لانے کے لئے بھیج دیا۔ جب آپ قصبہ راول کےقریب پہونچے تو جاسوسوں نے آخر خبر دی کہ شیوکن اس وقت نہا دھو کر بتوں کی پوجا کرنے میں مشغول ہے۔ فوراً گھوڑے بڑھا دیئے گئے ۔ حضرت نے بت خانہ کا محاصرہ کر لیا ۔ شیوکن نے بھی پوری جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مجاہدینِ اسلام نے ہزاروں کو جہنم رسید کیا ، آخر کار لشکرِکفار فرار ہو گیا۔ اور شیوکن مع زن و فرزند گرفتار ہو گیا اور آپ کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔

جب وہ خدمت میں پہونچا تو آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا کہ اے شیوکن تم نے ہم سے لڑنے کا کیوں حوصلہ کیا ؟ پھر حکم صادر فرمایا کہ اسے مع اہل و عیال قید کر کے لشکر میں محفوظ رکھیں اور شہر پر قبضہ کر لیں ۔ لہٰذا ایسا ہی کیا گیا۔ فتح کی خوشی میں صدقہ و خیرات کیا گیا نیز ہمراہیوں کو خلعت و جواہرات سے نوازا گیا۔دس(10)سال کی عمر میں سب سے پہلی فتح حاصل ہوئی ۔

پھر حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کاہیلر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں حضرت سالارساہو فرزند کے شوقِ دیدار میں بےقرار تھے۔ ایک کوس کے فاصلے سے استقبال کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں ملاقات ہوئی ۔ سالارساہونے گلے سے لگایا ، پیشانی کا بوسہ دیا اور اسی روز اپنا ولی عہد بنالیا۔
سیدناسالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اپنے والدِماجد کو راستے کی سرگزشت بیان کرتےہوئے اور شیوکن کی نمک حرامی کی داستان سناتے ہوئے دولت سرا میں تشریف لائے.خوب خیرات تقسیم کی گئی اور آپ کے ہمراہی لشکریوں کو بھی انعام واکرام سے نوازا گیا۔

(۴)غزنی کا سفر:
حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے کاہیلر پہونچنے کے کچھ عرصہ بعد حضرت سلطان محمود غزنوی خراسان کی مہم سر کر کے غزنی میں آئے تو انھوں نے سپہ سالارِلشکر حضرت سالارساہو رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کو ایک فرمان لکھ کر روانہ کیا کہ تم چند مدبر اور تجربہ کار لوگوں کو قلعہ کاہیلر میں چھوڑ کر اور فرزندِارجمند سیدنا مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو ساتھ لے کر میرے پاس آجاؤ ۔ فرمانِ شاہی کے مطابق سالار ساہو ان کی والدہ کو ساتھ لے کر غزنی روانہ ہو گئے ۔

(۵)آپ کی ہندوستان روانگی:
ایک روز سلطان محمود  غزنوی نے حضرت سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ سے کہا کچھ دنوں کے لئے کاہیلر والدین کے پاس چلے جاؤ ، سیر و شکار میں طبیعت بہلاؤ سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا میں ہندوستان جا کر کفار سے جہاد کروں گا۔ اور اس کفر و شرک کی زمین پر اللہ کا نام بلند کروں گا۔ بادشاہ نے بہت اصرار کیا مگر آپ نے کاہیلرجانے سے سراسر انکار کر دیا۔
دوسرے دن ہندوستان کی طرف لشکر روانہ کر کے خود سلطان محمود غزنوی(ماموں)کے پاس آکر حرفِ رخصت زبان پر لائے۔ سلطان محمود غزنوی نے کلیجے سے لگا کر آپ(بھانجے)کو رخصت کیا۔ وقتِ رخصت پانچ عراقی گھوڑے اور دو ہاتھی مرحمت فرمائے اور بہت غمگین ہو کر سالارساہو کے پاس خط لکھا کہ مصلحتاً چند روز کے واسطے فرزند مسعود (غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ)کو آپ کے بھیج رہا ہوں مگر ان کا ارادہ ہندوستان جانے کا ہے۔ آپ راستے میں انھیں روک لیں گے پھر چند روز کے بعد میں انھیں بلا لوں گا ۔

الحاصل آپ نے ہندوستان کی طرف کوچ فرمایا۔
صاحبِ تاریخ محمودی فرماتے ہیں کہ لوگ آپ کے اخلاق و کمالات کے اس قدر گرویدہ تھے کہ ہزاروں آدمی اپنا گھر بار، عزیز و اقارب چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہو لئے ۔

(۶)والدین سے ملاقات:
 جب سلطان محمود غزنوی کا خط سالارساہو کے پاس آیا-سالارساہو نے آپ کی والدہ ستر معلّٰی کو ساتھ لے کر راستے میں ملاقات کیا۔ بارہا کہا کہ ہندوستان نہ جاؤ بلکہ کاہیلر میں ہی دل بہلاؤ لیکن نوشتہ تقدیر تو کچھ اور ہی تھا۔ آپ نے کاہیلر جانے سے انکار کر دیا تو ان کے والدین نے کہا کہ پھر ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمارے ساتھ جانے میں سلطان کو ملال ہوگا۔  اس لئے آپ ہمارے ساتھ تشریف نہ لے چلیں ۔ آخر سالار ساہونے کاہیلر رہنے میں مصلحت جانی اور حضرت سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی بات مانی اور چند تجربہ کار بہادر امراء مع گھوڑے اور خزانہ و اسباب دے کر خود کاہیلر کا راستہ لیا۔

والدین کی جدائی کے بعد راہ کے مصائب و آلام جھیلتے ہوئے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں غریب مسافروں کو مال و دولت عطا فرمایا۔ ہر امیر و غریب ، صغیر و کبیر سے اخلاقِ محمدی سے پیش آتے تھے ۔

اس طرح یہ نورانی قافلہ ہندوستان کی سرزمین میں ایک عظیم مقصد کے ساتھ داخل ہوا۔ اس قافلے کا ہر ہر فرد شہادت کا متوالا تھا۔ ان سبھی لوگوں کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ ليكون كلمة الله هي العلیا  تاکہ اللہ کا نام بلند ہو۔

جب دریائےِسندھ کےکنارےپہونچے تو امیر حسن اور امیر بایزید جعفر نے آپ کے حکم کے مطابق ہزار سوار سے شیوپور کا محاصرہ کیا۔ رائےارجن کو شکست دے کر اس کے گھر اور حویلیوں پر قبضہ کر کے دس لاکھ سونے کے سکے اور کافی مال و اسباب ہاتھ آئے ۔ وہ سارا مالِ غنیمت آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہاری  فتح کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اس لئے اسے خرچ کر لو۔ پھر کشتیوں پر سوار ہو کر دریا پار ہو کر مشرقی کنارے پر آئے اور چند روز قیام فرمایا۔ آپ اہلِ لشکر ساتھ آس پاس کے علاقے فتوحات کرتے رہے۔ چند دنوں کے بعد جب دریائےِسندھ سے کوچ کر کے ملتان میں پہونچے تو ملتان کے زمیندار انگپال سے جنگ چِھڑ گئی۔ دیر تک گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی جس میں دونوں طرف سے بےشمار آدمی کام آئے ۔ آخر کار انگپال کی شکست ہوئی اور کافی مالِ غنیمت ہاتھ آئے ۔ جسے آپ نے اہلِ لشکر میں تقسیم فرمایا۔ اب چوں کہ برسات کا موسم شروع ہو گیا تھا۔ اس لئے چار ماہ ملتان میں رہ کر اجودھن (پاک پٹن) کی طرف کوچ فرمایا ۔ اجودھن اس زمانے میں بہت آباد تھا۔ مگر بغیر جنگ کے فتح ہو گیا۔ آپ کو اجودھن کی آب و ہوا بہت پسند آئی ۔ شکارگاہ بھی یہاں اچھی تھی۔ لہذا نو(9) مہینے یہاں قیام فرمایا حتّٰی کہ دوسرا بارش کا موسم آ گیا ۔ چنانچہ یہ برسات بھی وہیں گزاری اس کے بعد دہلی کی طرف رخ کیا۔

(۷)دہلی کی فتح:
اس وقت دہلی کا حکمراں رائےمہیپال تھا۔ اس کے پاس تیرہ لاکھ نوے ہزارفوج اور تقریباً ڈھائی ہزار جنگی ہاتھی تھے جس پر اسے بڑا ناز تھا۔ جب حضرت سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کوچ کرتے ہوئے دہلی کی سرزمین پر رونق افروز ہوئے تو وہاں سے تقریباً بارہ کوس کے فاصلے پر رائےمہیپال خبر پا کر پہلے ہی سے اپنی فوج لئے تیار کھڑا تھا۔ ان کے پہونچتے ہی رائےمہیپال نے حملہ کر دیا اور دونوں فوجیں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے لگے۔ مقابلہ بڑا سخت تھا۔ روزانہ صبح سے شام تک دونوں طرف کے بہادر سپاہی اپنی جانوں پر کھیلتے تھے مگر جنگ کسی فیصلہ کن مرحلے میں نہیں پہونچتی تھی۔
ایک دن سیدنا مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اپنا سَر سجدے میں رکھ کر اپنے خالق و مالک کے حضور دست بدعا ہوئے کہ اے رب کریم ہماری فتح و نصرت فرما۔ اس دعا کے ختم ہوتے ہی ایک شخص نے آکر خبر دی کہ آپ کے پانچوں رفیق سالارسیف الدین، بختیار، میراعزالدین ، ملک دولت شاہ اور میاں رجب ، احمد بن حسن کی شرارت سے اپنے اپنے جلیل القدر عہدوں کو چھوڑ کر بہت بڑی فوج غزنی سے لے کر آرہے ہیں۔ اس خبر کو سنتے ہی آپ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ اور اسے تائیدِغیبی سمجھا۔ ادھر راجہ مہیپال پر ہیبت چھا گئی۔ آپ نے ایک بار پھر راجہ پر اسلام پیش کیا۔ راجہ نے غور و خوض کا بہانہ لے کر ڈیڑھ ماہ تک جنگ کو ملتوی کر دیا اور اس درمیان اس نے اپنی فوجی طاقت خوب مضبوط کر لی اور تیاری کے بعد دوبارہ جنگ شروع کردی ۔ جب اس کا لشکر میدان میں اُترا تو اس وقت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اشرف الملک کے ساتھ کوئی مشورہ کر رہے تھے کہ اتنے میں رائے مہیپال اور رائےگوپال نے گھوڑا دوڑا کر سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ پر گُرز کا وار کیا جس سے ناک مبارک زخمی ہو گئی اور دو دانت شہید ہو گئے ۔ اشرف الملک نے تلوار کا وار رائےگوپال پر کیا وہ وہیں واصلِ جہنم ہو گیا مگر راجہ مہیپال بھاگ گیا ۔ سیدنا سالار مسعود غازی رحمة اللّٰه تعالٰی علیه زخم پر رومال باندھ کر میدان میں نکل آئے ۔ بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ اسلامی شیروں نے دشمنوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔ دوسرے دن بھی جب جنگ کا نقارہ بجا تو حضرت میرسیداعزالدین دادِشجاعت دیتے ہوئے گردن پر نیزے کا پھل کھا کر شہید ہو گئے ۔ یہ خبر سن کر سیدنا سالار مسعود غازی رحمة اللّٰه تعالٰی علیه بےچین ہو گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر غنیم پر دھاوا بول دیا، چاروں طرف سے گھیر لیا اور اتنازبردست حملہ کیا کہ دشمنوں کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی مگر رائےمہیپال نے میدان نہ چھوڑا اور اپنی تین لاکھ چالیس ہزار فوج کے ساتھ اب بھی میدان میں ڈَٹا رہا۔ بَہتوں نے سمجھایا بھی کہ اس وقت چلے چلو اگر زندگی رہے گی تو پھر لڑیں گے مگر اس نے ایک نہ مانا۔ آخرکار وہ مارا گیا اور مسلمانوں کو فتحِ عظیم حاصل ہوئی۔ اس روز پہلی بار ۴۲۰ ھ میں دہلی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔
فتح کے بعد فوج کے افسروں نے کہا کہ آپ دہلی کے تخت پر تشریف فرمائیے اور اسی شہر کو اپنا دارالسلطنت قرار دے کر ملک کے دور دراز علاقوں کو فتح کیجئے ۔ کیوں کہ یہ شہر ملک کے قلب میں واقع ہے اور جنگی حکمتِ عملی کے لحاظ سے اس سے بہتر اور کوئی دارالسلطنت نہیں مل سکتا۔ آپ نے فرمایا میں یہ تخت و تاج کے لئے نہیں کر رہا ہوں میرے اس راز سے میرا پروردگارِعالم خوب جانتا ہے۔
گویاآپ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے :
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
پھر آپ نے امیر بایزید جعفر کے ہاتھوں میں حکومتِ دہلی کی باگ ڈور عطا فرما دی اور تین ہزار آدمی انتظامی امور کے لئے چھوڑ دیئے اور نصیحت فرمائی کہ یاد رکھنا تمہیں یہاں خلقِ خدا کی خدمت کے لئے معین کیا گیا ہے۔ خبردار تمہاری ذات سے ہرگز ہرگز کسی کو تکلیف نہ پہونچے ۔ یہاں آپ نے چھ ماہ سولہ روز قیام فرمایا پھر میرٹھ کی طرف کوچ فرمایا۔

(۸)میرٹھ کے راجہ کی تابعداری:
چوں کہ مہیپال کی شکست کے بعد ہر راجہ مسلمانوں سے خوفزدہ تھا۔ اس لئے ہر والی ریاست کو خطرہ لاحق تھا۔ میرٹھ کا راجہ ہَردَت دوڑ راجپوت کو نیز اطراف کے راجاؤں کو پہلے ہی سے خبر مل گئی تھی کہ حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمة اللّٰه تعالٰی علیه فوج کے ساتھ آ رہے ہیں اور کوئی بھی ان کے مقابلے پر نہیں ٹھہر پاتا ہے۔ لہٰذا عاقبت اندیشی کے طور پر سب نے ایک قاصد کو بہت کچھ تحائف دے کر آپ کی خدمت میں بھیجا اور کہلا دیا کہ یہ ملک آپ ہی کا ہے۔ ہم سب آپ کے تابعدار اور اطاعت گزار ہیں۔ حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمة اللّٰه تعالٰی علیه راجگان میرٹھ وغیرہ کے اس رویہ سے بہت خوش ہوئے اور ان کا علاقہ انہیں کو سونپ دیا۔

(۹)والی قنوج کی تابعداری:
پھر وہاں سے قنوج کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب حضرت سلطان محمود غزنوی نے ۴۰۹ھ مطابق ۱۰۱۸.ء میں قنوج پر حملہ کر کے والی قنوج رائےاجےپال کو شکست دے کر جِلا وطن کر دیا تو اس وقت حضرت سالارساہو رحمة اللّٰه علیه نے سلطان محمود غزنوی سے اس کی سفارش کی تھی اور خطا بخشی کرا کے رائےاجےپال کو دوبارہ قنوج میں آباد کیا تھا۔ اسی احسان کے سبب سے رائےاجے پال نے حضرت سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی آمد کی خبر پا کر اپنا ایلچی تحفہ تحائف دے کر آپ کے پاس بھیجا ،
پھر اجے پال نے آپ سے ملاقات بھی کیا آپ نے فرمایا کہ امن قائم رکھیں ۔ اجے پال خوش خوش واپس ہوا اور آپ کے رفقاء کے لئے غلہ فراہم کرنے اور دیگر خدمات میں لگ گیا۔
(۱۰)
سترِکھ(سَتۡرِكۡھ)میں آپ کا قیام:
ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبہ سترکھ کو ہُندو دھرم میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ اس زمانے سے سترِکھ اور بہرائچ بہت آباد تھا۔ ہزاروں بت خانے تھے، ناف ہند کے نام سے مشہور تھا۔ حضرت سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو یہاں کی آب و ہوا بہت پسند آئی  اس لئے آپ سترِکھ میں مقیم ہو گئے اور اطراف و جوانب میں فوج بھیجنے کا بندو بست فرمایا۔
چنانچہ حضرت سالارسیف الدین سرخرو اور سالار رجب کو دو دستے فوج کےدے کر بہرائچ کی طرف روانہ کیا اور سالار رجب کے بیٹے کو جو ہمت و شجاعت میں اپنے باپ ہی کی طرح تھے۔ سالار رجب کی جگہ اپنے لشکر کا کوتوال مقرر کیا جب یہ دونوں افسر بہرائچ آئے تو غلہ نہ پاکر کے سخت گھبرائے اور حضرت سالارمسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو اطلاع دی ۔ حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے سدھور کے چودھری تماش کو اور اَمِیٹِھی کے چودھری نرہر کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اچھی طرح کھیتی کرو اور جس چیز کی ضرورت ہو ہم سے لو ۔ فی الحال کچھ نقد پیسے بھی لے جاؤ اور جہاں تک ہو سکے غلہ اکٹھا کر کے بہرائچ پہونچاؤ۔ سبھی نے عرض کیا حضور ہم پہلے غلہ لائیں گے۔ پھر روپیہ پیسہ لیں گے۔
سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے امیر حسن عرب کو مہوبہ (ضلع باندہ یو-پی) میر سید علی المعروف سید اعز الدین کو گوپا مئو ،(یو ۔پی) ملک فضل کو بنارس ،(یو . پی) ملک عبدالرحمٰن کو بھاکنکر، سلطان مہی بختیار کو کانودر کی جانب فوج کے دستے دے کر بھیجا اور نصیحت فرمائی کہ جہاں کہیں جانا سب سے خلقِ محمدی سے پیش آنا ۔ پہلے گمراہوں کو صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کرنا، اگر راہِ راست پر آجائیں تو ٹھیک ہے ورنہ جہاد کر کے پرچمِ اسلام کو سر بلند کرنا۔ پھر ہر ایک کو سینے سے لگا کر رخصت کیا۔ فرمایا کہ کہا سنا معاف کرنا جاؤ اللہ تعالٰی تم سب کا حافظ و ناصر ہے اور خود آپ نے سترِکھ کا انتظام سنبھالا۔
(۱۱)
كٹرہ مانکپور(مَا-نِکۡ-پُوۡر)کے راجاؤں کی دھمکی:
ایک دن کی بات ہے کہ دو سفیر کٹرہ ضلع اِلٰہ آباد اور مانِکپور ضلع پرتاپ گڑھ(موجودہ یو۔پی)کے را جاؤں کی طرف سے آئے اور اپنے ساتھ دو زین اور چند لگام پُرسحر(جادو) لا کر بَطورِ ہدیہ پیش کیا اور کہا کہ آج تک اس جگہ کسی دوسرے ملک کا تاجدار نہیں آیا ہے۔ اسکندر رومی نے البتہ حوصلہ کیا مگر کچھ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ محمود غزنوی نے بھی قنوج ، گجرات وغیرہ فتح کیا لیکن اس ملک کو معاف کیا۔ تم کیسے بےباکانہ چلے آئے؟ کچھ خوف و ہیبت دل میں نہیں سمائی ؟ ہم کو تمہاری بزرگ زادگی کا خیال ہے۔ آپ ہی کی ذات سے سالارساہو کا نام روشن رہے گا۔ تمہارے بعد قصہ ختم ہو جائے گا۔ سن لو ہم نو لاکھ تلوار کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بڑے بڑے سردار موجود ہیں خیریت اسی میں ہے کہ اس ملک کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ یہ سن کر حضرت کو طیش آ گیا اور فرمایا کہ اپنی زین ولگام لے جاؤ سَحر اور جادو کسی اور کو دکھاؤ۔ خدا کی قسم اگر تم قاصد بن کر نہ آتے تو ابھی تلوار سے تمہاری گردن اڑادی جاتی۔ یہ ملک خدا کا ہے۔ ہم یہاں دینِ محمدی کو رواج دیں گے ۔ اور آتشِ کفر کو بُجھا کر اسلام کا بول بالا کریں گے۔ قاصد نے واپس آکر لوگوں کو بتایا کہ یہ لڑکا اگر چہ کمسن اور نو خیز ہے مگر جَری اور بہادر ہے۔ تمہاری نو لاکھ فوج سے نہ ڈریں گے۔ آن کی آن میں فتح کرلیں گے ۔ یہ سن کر سب حیران ہو گئے ۔
(۱۲)
زہر میں بھی ہوئی نحرنی:
وہیں پر ایک حجام بھی تھا ، وہ بول اٹھا کہ تم سب کیوں خوف کھاتے ہو؟ ڈر کی وجہ سے مرے جاتے ہو؟ یہ کون سا بڑا کام ہے، صرف ایک نحرنی سے میں اس کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا ۔ غرضیکہ اس حجام نے شہادتِ سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کابیڑا اٹھا کر سو اشرفی انعام میں پایا۔ ایک نحرنی زہر میں بجھا کر نذر لایا ، حضرت نےپوچھا تو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بہت زمانے سےمسلمانوں کا میراثی ہوں۔ اہلِ ہُنود(ہندوؤں)کی چوٹیاں پکڑ کر مونڈتا ہوں۔ اس وقت میں بہت پریشان ہوں ۔ آپ کی خدمت میں ملازمت کے سلسلے میں آیا ہوں اور یہ نحرنی بطورِتحفہ لایا ہوں۔ آپ نے نحرنی اس کے ہاتھ سے لے لی اور اس کی باتوں میں خلوص کی بو نہ پا کر اسے خدمت سے باز رکھا وہ خوش ہو کر گھر آیا اور اپنے نزدیک وہ کام کر گیا۔  فوراً امرائےنامدار کو مفصل حالات لکھ کر بھیجوائے اور ایک خط حضرت سالارساہورحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ (والد ماجد)کی خدمت میں ارسال کیا۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک پندرہ سال تھی۔
(۱۳)
حضرت بی بی ستر معلّٰی کی وفات:
جب قاصد حضرت سالار ساہو رحمۃاللہ تعالٰی علیہ (والد ماجد) کے پاس کاہیلر میں پہونچ کر خط دیا۔ حضرت سالارساہو کو حجام کی حرکت سے سخت ملال ہوا۔ اس صدمے سے حضرت بی بی ستر معلّٰی کی عجیب کیفیت ہوئی ۔ بار بار خط پڑھواتی تھیں غشی پر غشی طاری ہوتی تھی ۔ سالار ساہو سمجھاتے تھے کہ خدا نے جان بچائی۔ ایسے موقع پر صدقہ دینا روا ہے۔ وہ جواب میں فرماتی تھیں کہ جب تک میں اپنے لختِ جگر مسعود کواپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں گی اس وقت تک مجھے چین نہ آئے گا۔
بیٹے کی جدائی میں بہت زیادہ غمگین رہنے لگیں۔ اتنا زیادہ غم لاحق ہوا کہ اسی صدمے سے بیمار ہو گئیں اور کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا۔ آخرش بارہویں روز فرزندِارجمند کی جدائی کے سبب چار سو بیس ۴۲۰ھ میں انتقال کر گئیں ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
سالارساہو کو صدمہ ہوا۔ جنازہ پڑھ کر لاش غزنی بھیجوا دیا اور اپنے لشکر کو لے کر سالار مسعود سے ملنے سَترِکھ میں چلے آئے ۔ حضرت سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ سترِکھ میں اپنی والدہ مکرمہ کی وفات کی خبر سن کر سخت بےچین ہو گئے ۔ خونِ دل نے جوش مارا محبتِ مادری نے بےہوش کر دیا۔ جب بےتابی کی وجہ سے یہ جملہ زبان پر لاتے تھے کہ مخدومہ عالم نے زہر کی خبر سن کر جان دے دیں ایسے درد بھرے کلام فرماتے تھے کہ سننے والوں کے دل پھٹے جاتے تھے.
(۱۴)
جاسوس پکڑے گئے:
مرأة مسعودی میں تحریر ہے کہ جب سالارساہو سترِکھ میں تشریف لائے تو اس کے چند ہی روز کے بعد ملک فیروز شاہ جو سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی فوج کے ایک ہوشیار سردار تھے۔ انھوں نے دریائے سرجو پر نگرانی کے لئے چند آدمیوں کو مقرر کر رکھا تھا۔ اسی اثناء میں کٹرہ کا راجہ دیو نرائن اور مانِک پور کا راجہ بُھوج پُتر نے بہرائچ اور اطراف کے تمام والیان ریاست کو ایک پیغام بھیجا جس کو لے جاتے ہوئے تین جاسوس خط کے ساتھ پکڑے گئے ۔ دو تو وہی جادوگر جو کَٹرہ اور مانِک پور کے راجہ کی طرف سے زین ولگام پُرسَحر لائے تھے اور تیسرا وہی حجام جس نے قتل کا بیڑا اٹھا کر زہر میں بھی ہوئی نحرنی بطورِہدیہ پیش کیا تھا۔ حضرت سالارساہو نے حکم دیا کہ ان تینوں کو پھانسی دے دی جائے ۔ لیکن حضرت سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ ان تینوں کو قتل کرنے سے کیا فائدہ؟ چھوڑ دیجئے۔ حضرت سالارساہو نے فرمایا کہ ان دونوں بَرہمنوں کو تو میں اپنے فرزند عزیز کی وجہ سے رہا کرتا ہوں مگر اس حجام کو ہرگز نہ چھوڑوں گا۔ سالار ساہو کے حکم سے حجام کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اس کے بعد ان جاسوسوں سے برآمد کیا گیا خط پڑھا گیا۔ حاکمِ مانِک پور نے اس طرح کا مضمون لکھا تھا کہ ہم لوگ اس طرف سے حملہ آور ہوتے ہیں اور بہرائچ کے راجہ کی ہمراہی میں تم لوگ دوسری طرف سے حملہ کرو تو فتح جلد ہو جائے گی ۔ کیوں کہ مسلمانوں نے ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ سالارساہو کو بہت غصہ آیا اور 
فوج لے کر دشمن کی طرف چل پڑے۔
(۱۵)
کٹره اور مانک پور کی فتح:
بالآخر جب قریب پہونچے تو حضرت سالارساہو(سیدناسالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے والد ماجد)نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصے نے کٹرہ کا اور دوسرے حصے نے مانِک پور کا محاصرہ کر لیا اور خوب گھمسان کا معرکہ ہوا۔ مسلمانوں کی ہمت و دلیری کی وجہ سے دشمن جلد ہی شکست کھا کر بھاگ گئے اور بےشمار مارے بھی گئے اور دونوں حکمراں گرفتار کر لئے گئے ۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر ہیڈکوارٹر سترِکھ بھیج دیا گیا۔ بقیہ قیدیوں کو بہرائچ بھیج کر سالارسیف الدین کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر حضرت سالار ساہو نے کٹرہ و مانِک پور پر قبضہ کر کے ملِک عبد اللہ کوکٹرہ کا حاکِم بنایا اور ملِک قطب حیدر کو مانِک پور دے کر خود سترِکھ میں آگئے ۔ خدا کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا۔ اس معرکے میں مخالفین کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔ ابھی تک جنگ کی نوعیت ریاستی بچاؤ کی تھی۔ مگر اب اس کو ہندو راجاؤں نے مذہبی رنگ دے دیا اور تمام رجواڑے گرفتار ہونے والوں کی مدد کے لئے جمع ہونے لگے۔ متفق ہو کر بہرائچ کامحاصرہ کر لیا اور سالارسیف الدین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔
(۱۶)
حضرت سیدنا سالارمسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی بہرائچ میں آمد:
اسی رات بہرائِچ سے سالارسیف الدین کا خط آیا کہ دشمنوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ آپ جلد مدد کے لئے تشریف لائیے۔ سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنے والد سے اجازت لے کر مقابلے پر جانے کے لئے تیار ہو گئے ۔ انھوں نے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا۔ تمہارا بوڑھا باپ اس دنیا میں اب چند دنوں کا مہمان ہے۔ اس لئے جدائی گوارا نہ کرو اور میرے قلب و جگر کو پارہ نہ کرو۔ سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے والد ماجد کی درد بھری باتیں سن کر تڑپ اٹھے، آنکھیں اشکبار ہو گئیں ۔ جب تھوڑا سنبھلے تو آپ نے عرض کیا کہ بابا جان ابھی فی الحال جانے کی اجازت دے دیجئے اور معرکہ سر کر کے بہت جلد آپ کے پاس چلا آؤں گا۔ حالانکہ غیبی حالات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ہمارا یہی آخری دیدار ہے اور یہی مشیتِ ایزدی ہے۔ باپ کے گلے لگے، مشفِق باپ نے مقدس بیٹے کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اشکبار آنکھوں سے الوداع کہا۔ حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ سترِکھ سے فوج لے کر بہرائِچ کی طرف روانہ ہوئے اور ستائیس رمضان ۴۲۳ھ میں آپ بہرائچ تشریف لائے ۔ اس وقت آپ کی عمرِمبارک اٹھارہ سال دو ماہ کی تھی ۔
(سوانحِ مسعود غازی صفحہ: ۳۵ تا ۶۰)
(۱۷)
آپ کی شہادت:
حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اٹھارہ سال گیارہ مہینے چوبیس روز دنیا میں رہےاور وقتِ عصر بروز اتوار چودہ(۱۴)جب المرجب ھجری/ ١٠٣٣عیسوی کو بہرائچ شریف(يو پی انڈیا)میں جہاد کر کے جامِ شہادت نوش فرمایا
تاریخِ شہادت اس آیتِ کریمہ سے نکلتی ہے
پارہ،۴ سورة،آل عمران،آیة،۱۶۹
 ((بَلۡ اَحۡيَاءٌ عِنۡدَ رَبِِّهِمۡ))
ترجمہ: بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں (۴۲۴ھجری)
ذیل کی رباعی سے
سنِ ولادت
اور سنِ شہادت نکلتا ہے۔
محبوبِ خدا بود امیر مسعود
در چار صد و پنچ(ولادت،۴۰۵ھجری)در آمد به وجود
تا مدت بست در جهاد افزود
 در چارصد بست و چار(شہادت،۴۲۴هجری)رحلت فرمود
(۱۸)
آستانہ سیدنا سالار مسعود غازی رحمۃاللہ علیہ پر حاضری کا طریقہ:
تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ نےلطائفِ اشرفی میں تحریر فرمایا ہے کہ
جو لوگ حضرت سالار مسعود غازی رحمة اللّٰه تعالٰی عليه کی قبرِمبارک پر حاضری دیں وہ کم از کم ۳۰ منٹ یعنی آدھا گھنٹہ ضرور حاضر رہیں ۔
 چوں کہ
ہر تیس(30)منٹ میں ان کی قبر پر حضرت خضر علیہ السلام کی حاضری ہوتی ہے۔ اگر نہیں بھی پہچانو گے تو کم از کم ان کے چہرے پر نظر تو پڑ جائے گی،ان کے دامنِ کرم کی ہوا تو لگ جائے گی ۔
اور اللّٰه تعالٰی حضرت خضر علیہ السّلام کی تشریف آوری کی برکت سے زائرین کی دعائیں بھی قبول فرمالے گا
(۱۹)
زندہ کرامت:
جو آج بھی بہت مشہور و معروف ہے وہ برص اور کوڑھ کے مریضوں  کی شفایابی ہے
پیپ اور مواد بہتی ہوئی انگلیوں سےچشمِ زدن میں نئی انگلیاں اور ناخن برآمد ہونا دیارِسالار مسعود غازی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ بہرائچ یو۔پی کی ایک زندہ کرامت ہے جسےآپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کم از کم ہر سال سات(7)کوڑھی بالکل اچھے ہو جاتے ہیں اور کم از کم سات(7)اندھوں کو بینائی حاصل ہوتی ہے اور کم از کم سات(7)بانجھ عورتوں كابانجھ پَن دور ہو جاتا ہے(صاحبِ اولاد بن جاتی ہیں)عرس اور میلے کے ایام میں بےشمار مریض بہرائچ شریف یو،پی پہونچتے ہیں۔ان لوگوں کے لئے قلعۂِ خُرد کے باہر ایک حوض بنا ہوا ہے۔ جب مزارِمبارک کو مجاور صاحبان غسل دیتے ہیں تو وہ پانی درگاه شریف سے باہر نالیوں کے ذریعہ اسی حوض میں پہونچتا ہے۔ جہاں بہت سے کوڑھی اس شفایاب پانی کے انتظار میں پڑے رہتے ہیں۔جوں ہی اس حوض میں مزار شریف کے غسل کا پانی پہونچا فوراً تمام کوڑھی اور برص کے مریض یا سرکارِ غازی کا نعرہ لگاتے ہوئے اس میں کود پڑتے ہیں بفضلهٖ تعالٰی ہر سال متعدد مریض اپنے لاعلاج مرض سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں کی عقیدت و محبت جس معیار کی ہوتی ہے فیضانِ غازی اُس پر اُتنی ہی سُرعت سے اپنا اثر دکھاتا ہے۔یہ فیض آپ کا ہر سال جاری رہتا ہے جس کا جی چاہے آج بھی بہرائچ شریف جا کر اپنی آنکھوں سے یہ زندہ کرشمہ دیکھ سکتا ہے-
اللّٰه(عزوجل)
پیارےمحبوبﷺو
انبیاۓِکرام(علیھم السّلام)و
صحابہ کرام(علیھم الرضوان)و  اولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه)کےصدقےمیں
میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے(آمین)
جملہ مؤمنین و مؤمنات کے لئے دعائےِ مغفرت کی اِلۡتِجا ہے
نیز شیئر کرنے کی گذارش ہے
طالبِ دعا

عبد الوحید قادری 

مقام و پوسٹ پرسونا تحصیل اترولہ
ضلع بلرامپور یو۔پی 
مقیم حال: شاہ پور بلگام کرناٹک


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner