AD Banner

{ads}

(رسالہ گلوکوز اور انجکشن کا شرعی حکم ؟)

 بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

رسالہ

مجلۃ الافہام علی الحقن والجلوکوزفی الصیام

المعروف بہ


گلوکوز اور انجکشن کا شرعی حکم ؟


ازقلم
خلیفۂ حضور ارشد ملت 
حضرت مولانا محمد ابراہیم خان رضوی امجدی صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ
خطیب وامام غوثیہ مسجد بھیونڈی ممبئی(الہند)



ناشرین
 اراکین مسائل شرعیہ

(حالت روزہ میں گلوکوزو انجکشن لگوانا کیسا ہے؟)

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ حالت روزہ میں انجکشن یا گلوکوز لگوانا کیسا ہے؟ نس میں یاگوشت میں بیماری کے سبب لگایا گیا ہو یا طاقت کے لئے؟ اگر انجکشن وگلوکوز سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو کیوں ٹوٹ جاتا ہے؟ اور اگر نہیں ٹوٹتا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے ؟جبکہ انجکشن اور گلوکوز کے ذریعہ لوگ کئی کئی دن تک بھوکے پیاسے رہ سکتے ہیں۔ لہذا اس بارے میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔بینواتوجروا

المستفتی:۔محمد ریحان رضا نعیمی خطیب وامام جامع مسجد بڑواہ ایم پی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
نحمدہ و نصلی ونسلم علی حبیبہ الکریم

انجکشن اور گلوکوز مفسد صوم نہیں ہے اس لئے کہ روزہ کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ جماع کے علاوہ کوئی دوا یا غذا جو رگوں اور مسامات کے علاوہ کسی اور منفذ سے دماغ یا پیٹ تک پہنچے۔ اور انجکشن گوشت میں لگا یا جائے یا انجکشن وگلوکوز، رگ میں لگایا جائے اس سے دوا پیٹ یا دماغ کوکسی منفذ کے ذریعہ نہیں پہنچتی ہے بلکہ مسامات کے ذریعہ پہنچتی ہے البتہ انجکشن وگلوکوز وغیرہ میں اسپرٹ ہوتاہے اور روزہ سے ظاہر وباطن کا تزکیہ ہوتاہے اس لئے حالت روزہ میں انجکشن وگلوکوز لگوانا مکروہ ہے۔ہاں اگر یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ جس انجکشن یا گلوکوز کو استعمال کر رہے ہیں ان میں کسی قسم کے شراب یااسپرٹ وغیر کی آمیزش نہیں ہے تو کراہت بھی نہیں ہےاب یہ انجکشن چاہے بیماری کے سبب لگوایا جائے یا طاقت کے لئےفقیہ اعظم حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ جمہور علمائے اہلسنت کثرہم اللہ تعالیٰ حتی کہ سیدی و سندی وسندالفقہاءالکاملین حضرت مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم العالیہ کا یہی فتوی ہے کہ انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ انجکشن خواہ گوشت میں لگنے والا ہو خواہ رگ میں اور یہی عندالتحقیق حق ہے ۔ البتہ روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا مکروہ ہے  انجکشن مفسدصوم یوں نہیں کہ دونوں انجکشنوں میں دوا یاغذا صرف کسی منفذ کے ذریعہ دماغ اور معدہ تک نہیں جاتی بلکہ ابتدا یا وسط یا انتہامیں صرف مسامات ہی ذریعہ رہ جاتے ہیں اور یہ بات فقہ کے ساتھ ہرادنی سی ممارست رکھنے والا جانتا ہے کہ اندرون جسم کسی دوا یاغذا کاجانامطلقامفسد صوم نہیں بلکہ اس شرط پر ہے کہ وہ دوا یا غذا پیٹ یادماغ تک منفذ ہی کے ذریعہ یقینی طور پر پہنچے، نیز یہ کہ دوا یاغذا مسامات کے علاوہ کسی منفذ کے ذریعہ داخل ہو اور مدخل اور دماغ ومعدہ تک کہیں منفذ ختم ہو کر صرف مسامات ہی واحد راستہ نہ ہوں اگر ابتدا یا انتہا یا وسط کہیں بھی داخلہ کے ذریعہ صرف مسامات ہی ہوں اگرچہ اول وآخر ووسط میں منفذہو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ اگرچہ دوا دماغ یاپیٹ تک پہنچ جائے۔

عالمگیری میں ہےمایدخل من مسام البدن من الدھن لایفطر ومن اغتسل فی ماء فوجدبردہ فی باطنہ لایفطرہ ولو اقطر شیئامن الدواء فی عینہ لایفسدصومہ عندناوان وجدطعمہ فی حلقہ واذا بزق فرای اثرالکحل ولونہ فی بزاقہ عامۃ المشائخ علی انہ لایفسد صومہ واذا اقطر فی احلیلہ لایفسد صومہ عندابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللہ سواء اقطرفیہ الماء اوالدھن وھذا اختلاف فیما اذا وصل المثانۃ واما اذالم یصل بان کان فی قصبۃ الذکربعد لایفطر بالاجماع‘‘ بدن کے مسامات کے ذریعہ جو تیل داخل ہوا وہ روزہ نہیں توڑے گا،کسی نے ٹھنڈے پانی میں غسل کیا پانی کی ٹھنڈک اندر محسوس کی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔آنکھ میں دوا ڈالی روزہ نہیں ٹوٹے گا اگرچہ اس کا مزہ حلق میں محسوس کرے اگر تھوکا اور اس میں سرمہ کا اثر اور رنگ ملا تو عام مشائخ کا یہی مذہب ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹا اگراحلیل (پیشاب کی نلکی) میں ہی دوا ٹپکائی۔ امام اعظم ،امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک روزہ نہیں ٹوٹتااگرچہ پانی ڈالیں خواہ تیل۔ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ یہ تیل اور پانی مثانہ میں پہنچ گیا اگرمثانہ تک نہیں پہنچا تو بالاتفاق روزہ نہیں توڑے گا۔

اسی میں ہے’’وفی دواء الجائفۃ والامۃ عامۃ المشائخ علی ان العبرۃ للوصول الی الجوف اوالدماغ لا لکونہ رطبااو یابسا حتی اذا علمہ ان الیابس وصل یفسد صومہ ولو علمہ ان الرطب لم یصل لم یفسد اذا لم یعلم احدھما وکان الدواء رطبا فعندابی حنیفۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ یفطر للوصول عادۃ وقالا لا لعدم العلم بہ فلا یفطر بالشک وان کان یابسا فلافطراتفاقا‘‘ اورجائفہ(پیٹ کاوہ زخم جومعدہ تک گہراہو)اورامہ(سرکا وہ زخم جو بھیجےکی جھلی تک گہراہو) دوا میں اکثرمشائخ کے نزدیک اعتبارمعدہ یادماغ تک پہنچنے کاہے۔ دواکے تریاخشک ہونے کانہیں۔ یہاں تک کہ اگر معلوم ہوجائے کہ خشک دوا پہنچ گئی،روزہ ٹوٹ گیا۔ اوراگر معلوم ہوا کہ تری نہیں پہنچی تو نہیں ٹوٹا اور اوراگر پہنچنا اور نہ پہنچنامعلوم نہ ہو اور دوا تر ہےتو امام اعظم کےنزدیک روزہ توڑدےگی ،اس لئے کہ تر دوا عادۃ پہنچ ہی جاتی ہے۔صاحبین نےفرمایا نہیں۔اس لئے کہ پہنچنا معلوم نہیں،شک سےروزہ نہیں ٹوٹے گا اوراگرخشک ہے تو بالاتفاق روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

نقایہ اوراس کی شرح ملاعلی قاری میں ہے:وصل من غیرالفم دواء الی جوفہ او دماغہ بان داوی آمۃ وھی الشجۃ التی تبلغ ام الدماغ من غیرالمسام قیدبہ لانہ وصل الی جوفہ من المسام لایقضی کما لواغتسل بالماء البارد وجدبردہ فی کبدہ وکما لوادھن فوجد اثرالدھن فی بولہ اواکتحل فوجدطعم الکحل فی حلقہ ولونہ فی بزاقہ‘‘دوا اگرمنھ کے علاوہ کسی اور راستے سے دماغ یاپیٹ میں گئی،مثلا آمہ میں دوا ڈالی توروزہ ٹوٹ گیا قضاواجب ہے بشرطیکہ مسامات کے ذریعہ نہ گئی ہو۔ یہ قید اس لئے لگائی کہ اگردوا یاغذا مسامات کے ذریعہ پہنچی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، جیسے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اورپانی کی ٹھنڈک کلیجے میں محسوس کی یاتیل لگایا اور تیل کااثر پیشاب میں پایا،سرمہ لگایا اورسرمہ کا مزہ حلق یارنگ تھوک میں پایا تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

تنویر الابصار،درمختار،ردالمحتارمیں ہے:ادھن او اکتحل اواحتجم ان وجد طعمہ فی حلقہ ای طعم الکحل اوالدھن وکذا لوبزق فوجد لونہ فی الاصح بحر فی النھر لان الموجود فی حلقہ اثر داخل من المسام ھوخلل البدن والمفطر انماھوالداخل من المنافذ بالاتفاق  علی ان من اغتسل فی ماء فوجدبردہ فی باطنہ لایفطر۔

تیل ملا،یاسرمہ لگایا یاسینگی لگوائی توروزہ نہ ٹوٹا اگرچہ سرمہ یاتیل کا مزہ حلق میں محسوس کرے۔یوں ہی تھوکا اور اسی کارنگ تھوک میں ملا توبھی مذہب اصح پرروزہ نہیں گیا۔

نہر میں فرمایا:اس لئے کہ حلق میں موجود مسامات کے ذریعہ داخل شدہ کااثر ہے اور مسام بدن کے خلل کا نام ہے اور روزہ توڑنے والی صرف وہ دوا یا غذا ہے جو منافذ کے ذریعہ داخل ہو اس لئے کہ اس پراتفاق ہے کہ کسی نے پانی میں غسل کیا اور اندر ٹھنڈک محسوس کی توروزہ نہیں ٹوٹا۔

انہیں تینوں میں ہے:داوی جائفۃ او آمۃ فوصل الدواء حقیقۃ الی جوفہ ودماغہ اشار الی ان ماوقع فی ظاہر الروایۃ من تقیدالافساد بالدواء الرطب مبنی علی العادۃ من انہ یصل والا فالمعتبر حقیقۃ الوصول حتی لوعلم وصول الیابس افسد او عدم وصول الطری لم یفسد وانما الخلاف اذا لم یعلم یقینا فافسد بالطری حکما بالوصول نظرا الی العادۃ ونفیاہ کذا افادہ فی الفتح قلت ولم یقیدوا الاحتقان والاستعاط والاقطار بالوصول الی الجوف لظھورہ فیھا والا فلابد منہ حتی لوبقی السعوط فی الانف ولم یصل الی الراس لایفطر ویمکن ان یکون الدواء راجعا الی الکحل (قولہ الی جوفہ ودماغہ) قال فی البحر والتحقیق ان بین جوف الراس وجوف المعدۃ منفذا اصلیا فماوصل الی جوف الراس یصل الی جوف البطن۔(ص ۱۰۲)

جائفہ یاآمہ میں دوا ڈالی اور دوا یقینی طور پر پیٹ اور دماغ تک پہنچ گئی۔ یقینی طور پر پہنچنے کی قید سے یہ اشارہ ہے کہ ظاہرالروایہ میں جویوں قیدآئی ہے کہ روزہ اس وقت ٹوٹے گا جب کہ دوا تر ہویہ عادت کی بناپر ہے کہ تردوا پہنچ ہی جاتی ہے،معتبرحقیقت میں پہنچنا ہے یہاں تک کہ اگر خشک پہنچ گئی تو توڑدےگی، ترنہیں،پہنچی تونہیں توڑےگی ،اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب دوا کا پہونچنا یقین کے ساتھ معلوم نہ ہو۔ اس صورت میں عادت پر نظر رکھتے ہوئے یہ حکم ہوگا کہ تر دوا روزہ توڑ دے گی ۔ اور صاحبین نے نفی کی ۔ جائفہ آمہ کی دوا کو جوف اوردماغ تک پہنچنے کے ساتھ مقیدکیا اور احتقان ،استعاط اور افطار میں جوف تک پہنچنے کی قید نہیں لگائی کیوں کہ ان میں جوف تک پہنچنا ظاہر ہے ورنہ روزو توڑنے کے لئے یہ قید ضروری ہے یہاں تک کہ اگر ناک کی دوا نتھنوں میں رہ گئی اور سرتک نہیں چڑھی تونہیں توڑےگی۔ ممکن ہےدوا سے اوپر ذکر کردہ تمام دوائیں مراد ہوں۔بحرمیں کہا کہ تحقیق یہ ہے کہ سراور معدہ کے جوفوں کے مابین منفذاصلی ہے توجوسرمیں گئی وہ پیٹ میں گئی۔غورکریں یہ تمام اساطین ملت یہ تصریح فرمارہے ہیں کہ جودوا مسامات کے ذریعہ اندرون جسم گئی اگرچہ دماغ تک اور پیٹ تک پہنچ جائےمگر روزہ نہیں توڑے گی، روزہ توڑنے والی وہی دوا یا غذا ہے جو کسی منفذ اصلی کے ذریعہ پیٹ یادماغ میں جائے، اس کلیہ پر جو جزئیات متفرع ہیں ان پر ایک گہری نظر پھر ڈال لیں۔

(۱)پانی میں غسل کیا ٹھنڈک پیٹ اور جگر میں محسوس کی،ظاہرہے کہ یہ ٹھنڈک پانی کے اندر پہنچنے کی بناپر ہے مگر روزہ نہیں ٹوٹا ،اگرچہ پانی پیٹ میں پہنچ گیا،اس لئے کہ پانی مسامات کے ذریعہ پیٹ میں گیا۔کسی منفذ کے ذریعہ نہیں۔

(۲)آنکھ میں دواڈالی، سرمہ لگایا، دوا اور سرمہ آنکھ کے پردوں سے گزر کر دماغ میں گیا، دماغ سے حلق میں آیا مگر روزہ نہیں ٹوٹا۔ حالانکہ اس مسافت میں اکثر راستہ منفذ ہے۔ آنکھ کے پردوں کے بعد دماغ تک، دماغ سے حلق تک منفذ ہی کے ذریعہ گئی۔ پھربھی روزہ نہیں ٹوٹا۔ اس لئے کہ داخلہ مسامات کے ذریعہ ہوا تھا، احلیل میں دوا ڈالی دوا مثانہ تک پہنچ گئی مگر روزہ نہیں ٹوٹا، حالانکہ دوا منفذمیں ڈالی گئی اس لئےکہ مثانہ تک پہنچ کر منفذ ختم ہوگیا مثانہ کی جھلی حائل ہوگئی اس کے آگے پیٹ تک جانے کے لئے مثانہ کے مسامات ہی واحد راستہ ہیں۔

(۳)سرکے ایسے گہرے زخم میں دوا ڈالی جو بھیجے کی جھلی تک گہراہو،اگر دوا دماغ تک نہیں پہنچی روزہ نہیں گیا کیونکہ دماغ تک منفذکے ذریعہ نہیں پہنچی حالانکہ مسامات کے ذریعہ پہنچنا یقینی ہے۔

(۴)جائفہ پیٹ کے ایسے زخم میں دوا ڈالی جوشکم تک گہرا ہومگردواشکم تک نہیں پہنچی روزہ نہیں گیا حالانکہ مسامات کے ذریعہ پیٹ تک جانا یقینی ہے اس لئے کہ منفذکے ذریعہ نہیں پہنچی۔

(۵)تیل ملا تیل کا اثر پیشاب میں ملا روزہ نہیں ٹوٹا حالانکہ تیل کو پیٹ میں پہنچے بغیر پیشاب میں اس کا اثر ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اس لئے کہ منفذ کے ذریعہ نہیں پہنچا بلکہ مسامات کے ذریعہ پہنچا مذکورہ بالانصوص سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوئے۔فائدہ اولی :مسامات کے ذریعہ جو دوا یا غذا اندرون جسم داخل ہو وہ مفسدصوم نہیں اگرچہ معدہ اور دماغ تک پہنچ جائے خواہ مدخل اور معدہ تک اور دماغ تک صرف مسامات ہوں کہیں کوئی منفذ نہ ہو جیسے نہایا اور پانی پیٹ میں پہنچا خواہ معدہ اور دماغ تک پہنچنے میں مسامات اور منافذ کے ذریعہ ہوں اس کی تین صورتیں ہیں

اول:۔ ابتدائی مسامات ہوں اور بعد میں معدہ اور دماغ تک منفذ جیسے آنکھ میں دوا ڈالی یا سرمہ لگایا اور وہ حلق تک پہنچ گیا۔

 ثانی:۔ ابتدا منفذہو۔ انتہامنفذہو۔ وسط میں مسامات ہوں جیسے احلیل میں دوا ڈالی اور مثانہ تک پہنچی کہ ادھر مثانہ تک منفذسے اوپر مثانہ کے بعد منفذہے۔ 

ثالث:۔ صرف منتہاپر مسامات ہوں دوامنفذ میں ڈالی اورمنفذ ہی کے ذریعہ آگے بڑھی مگرمعدہ اور دماغ کےجوف سے پہلے مسامات ہوں اوراخیرمیں جوف ومعدہ ودماغ تک پہنچنے کا ذریعہ صرف یہی مسامات ہوں کہ کوئی منفذ نہ ہو توبھی مفسدصوم نہیں۔اس لئے کہ علت افساد منحصر ہے منافذ کے ذریعہ وصول الی الجوف میں اور یہ علت یہاں منتفی ہے۔ نقض صوم کی علت وصول بالمنافذ میں منحصر ہے اس پر صاحب نہر کایہ ارشاد جسے علامہ شامی نے نقل فرماکر مقررکیا۔دلیل ہے فرماتے ہیں:والمفطر انماھوالداخل من المنافذروزہ توڑنے والی صرف وہی دوا ہے جومنافذ کے ذریعہ داخل ہو۔

فائدہ ثانیہ: منفذکےذریعہ بھی کسی دوا کایا غذاکا مطلقاً اندرون جسم جانا مفسد نہیں کہ کھال کے اندر گھسی اور روزہ گیا بلکہ مفسداس وقت ہے جب کہ دوا یا غذا معدہ یا دماغ تک پہنچے اگردوا اندرون جسم منفذہی کےذریعہ گئی مگر دماغ یامعدہ کے جوف تک نہیں پہنچی تو روزہ نہیں گیا۔ جیسے کلی کیا ناک میں دوا ڈالی مگرپانی حلق میں اور دوا دماغ تک نہیں چڑھی روزہ نہیں ٹوٹا۔احلیل میں دوا ڈالی اندرون جسم گئی،حتی کہ مثانہ تک پہنچ گئی روزہ نہیں گیا،آمہ جائفہ میںدواڈالی مگردماغ یامعدہ تک نہیں گئی ،روزہ نہیں گیا،اگراندرون جسم دوا جانا مطلقاً مفسد ہوتاتو لازم تھا کہ کلی کرتے ہی ناک ہی میں دوا ڈالتے ہی احلیل میں ٹپکاتے ہی آمہ جائفہ میں ڈالتے ہی روزہ ٹوٹ جاتا،بلکہ آمہ جائفہ کی قیدنہ تھی بلکہ ہر زخم میں دوا ڈالنامفسدہوتا۔

فائدہ ثالثہ: فقہائے کرام کےاس ارشاد (وصل الی الجوف)سے مراد مطلقاً اندرون جسم عروق اور کھوکھلی جگہ نہیں بلکہ صرف دماغ اور معدہ ہے۔ جس پر یہ جزیہ نص قاطع ہے کہ احلیل میں دوا ڈالی اور مثانہ میں گئی مگر روزہ نہیں گیا،مثانہ ایک کھوکھلا عضو ہے اور یقیناً جوف ہے اگر جسم کا ہرجوف مراد ہوتا تو یقیناً اسے مفسد صوم ہوناچاہیے تھا ۔ اس میں اگرچہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کا اختلاف ہے مگر یہ اختلاف ہمارے معروضہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتا اس لئے کہ یہ اختلاف اس لئے نہیں کہ مطلقاً ہرجوف میں دوا جانا مفسدہے یانہیں بلکہ اس بناپر ہے کہ مثانہ اور معدہ کے مابین کوئی منفذ ہے یا نہیں ۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں یہ بات تھی کہ مثانہ اور معدہ کے مابین منفذ ہے اس لئے انہوں نے اسے مفسد کہا مگر امام اعظم اور امام محمد رحمہما اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ مثانہ اور معدہ کے مابین منفذ نہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ حکم دیا کہ مفسد نہیں اس سے ظاہر ہے کہ امام ابو یوسف بھی حضرات طرفین کے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ مفسد وہی دوا اور غذا ہے جو معدہ تک پہنچے ۔ اب جب کہ مثانہ اور معدہ پھاڑ کر انسانی اعضاء کی ہیئت وماہیت معلوم ہوگئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ مثانہ اور معدہ کے مابین کوئی منفذ نہیں پیشاب مثانہ میں مثانہ کی جھلیوں کے سوراخوں سے ٹپکتا ہےتو یہ اختلاف باقی نہیں رہا۔

علامہ شامی فرماتے ہیں:والاختلاف مبنی علی انہ ھل بین المثانۃ والجوف منفذ او لا وھو لیس باختلاف علی التحقیق والاظہر انہ لامنفذ لہ وانما یجتمع البول فیھا بالترشح کذا یقول الأطباء(جلد دوم صفحہ۲۹۹)

یہ اختلاف اس پر مبنی ہے کہ مثانہ اور معدہ کے مابین منفذ ہے یانہیں اور یہ حقیقت میں اختلاف نہیں اور ظاہر تر یہ ہے کہ یہاں منفذ نہیں پیشاب مثانہ میں ٹپک کر جمع ہوتاہے جیساکہ اطباء کہتے ہیں:الغرض منفذ کے ذریعہ اندر داخل شدہ دوا اسی وقت مفسد ہے جب کہ معدہ اور دماغ تک پہنچے ان کے علاوہ دوسرے اجواف میں جانا قطعاً مفسد نہیں بلکہ علامہ شامی وطحاوی نے صاحب بحر کی اس تحقیق کو برقرار رکھا ہے کہ مفسد اصل میں جوف معدہ میں جانے والی دوا ہے دماغ میں جانے والی دوا مفسد اسی بناپر ہے کہ دماغ اور معدہ کے مابین منفذ براہ راست ہے یہ اس بات پر نص ہے کہ مفسد صرف معدہ میں جانے والی دوا ہے۔اس لئے جوف سے مراد صرف معدہ ہے اور دماغ مراد ہونا اس لئے ہے کہ دماغ اور معدہ میں براہ راست منفذاصلی کے ذریعہ تعلق ہے ،ہماری مراد پر اول دلیل یہ ہے،جس کے بعد کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ جوف سے مراد اندرون جسم کے گوشت ہڈی دوسرے جوف نہیں صرف معدہ اور دماغ ہیں اوپر ذکر کردہ نصوص اور جزئیات اور تینوں فوائد کو اچھی طرح ذہن میں رکھ لیں اور اب انجکشن کی ماہیت کو سامنے رکھ کر غور کریں،ان شاء اللہ تعالیٰ ہرمنصف پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ انجکشن قطعی طور پر مفسدصوم نہیں خواہ وہ رگ کا ہو خواہ گوشت کا۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ گوشت والے انجکشن کے جسم کے مختلف حصوں میں پہنچنے کی کیفیت یہ ہے کہ گوشت کے اندر بکثرت باریک باریک خلا ہوتے ہیں،جنہیں مسامات کہا جاتا ہے کہ ان میں ہروقت خون بھرا رہتا ہے یہ خون اگرچہ خالص نہیں ہوتا بلکہ دیگر اخلاط کے ساتھ مخروج ہوتا ہے مگر غلبہ خون ہی کو ہوتا ہے اس لئے ہم نے اسے خون ہی کہا، جب یہ انجکشن لگتا ہے تو پچکاری کے دباؤ سے دوابجبر ان مسامات میں گھس کر خون میں مل جاتی ہے، خون کہیں بھی ٹھہرتا نہیں بلکہ ہروقت جسم میں گردش کرتا رہتا ہے اس لئے یہ دوا خون کے ساتھ گردش کرتے کرتے وہاں پہنچ جاتی ہے جہاں اسے کام کرناہے چوں کہ دوا میں ایسی قوت ہوتی ہےکہ وہ مخصوص جگہ اثرانداز ہو اس لئے وہیں اثرڈالتی ہے،جیسے کھانےپینے والی دواؤں کا حال یہ ہے کہ سب کی سب پہلے معدہ میں جاتی ہیں پھر ہضم ہوکر اخلاط میں ملتی ہیں اور جہاں ان کی ضرورت ہے وہاں پہنچ کر اپنا کام کرتی ہیں،گوشت میں لگنے والی دوا انجکشن سے مسامات میں پہنچی پھر رگوں میں رفتہ رفتہ جہاں کے لئے تھی وہاں پہنچی ،معدہ یادماغ کی دوا ہے تودوا یااس کا اثر دماغ یا معدہ تک ضرور پہنچے گا مگر چونکہ دوا کاداخلہ مسامات کے ذریعہ ہوا ہے ،اس لئے روزہ نہیں توڑے گی۔ جیساکہ اوپر گزرا کہ مسامات کے ذریعہ داخل شدہ دوا مفسد نہیں۔ اس کاجزئیہ اوپر گزرا کہ آنکھ میں دوا ڈالی یا سرمہ لگایا، دوا یا سرمہ آنکھ سے حلق میں پہنچا مگر مفسد نہیں اس لئے کہ داخلہ مسامات کے ذریعہ ہواتھا ، اگرچہ بعدمیں منفذ سے حلق تک گیا اسی طرح یہاں بھی مسامات کے بعد اگرچہ منفذسے دوا ابتداء رگ میں جاتی ہے جو ضرور منفذ ہے مگر رگوں کا تعلق براہ راست معدہ یادماغ سے نہیں بلکہ دل سے ہے ۔ علم تشریح میں اس کی پوری تحقیق دیکھی جاسکتی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جگر میں اخلاط اربعہ علی قدر مراتب مخروج ہو کر شرائین اور اورطہ کے ذریعہ پورے جسم میں جاتے ہیں ان میں غلبہ خون ہی کو ہوتا ہے اس کا عمدہ حصہ اعضاء کی غذا بنتاہے بقیہ جسمانی فضلات کے مل جانے سے سیاہ اور کثیف ہوکر دل میں جاتاہے ،دل اسے پھیپھڑوں میں ڈھکیل دیتاہے پھیپھڑوں میںباہر سے گئی ہوئی صاف ہوا بھری ہوتی ہے جو پھیپھڑوں کے مسامات اور گیسوں میں موجود رہتی ہے ، خون اس تازہ ہوا سے صاف ہوتا ہے، اس کی کثافت اور دخانی مادہ ہوا میں رہ جاتاہے جسے پھیپھڑے باہر پھینک دیتے ہیں اور خون صاف شفاف سرخ تازہ ہوکر پھر دل میں جاتاہے اور دل شرائین اور اورطہ کے ذریعہ دوبارہ پورے جسم میں پہنچتاہے، اور پھر یہ خون کثیف دخانی مادوں سے سیاہ ہوکر دل میں اور دل سے پھیپھڑوں میں اور پھیپھڑے میں صاف اور تازہ ہوکر پھر دل میں جاتاہے دل اسے پورے جسم میں پہنچاتا ہے۔ یہی چکر زندگی بھر چلتا رہتا ہے اور یہی انسانی نشو ونما وقوت کامدارہے ۔ یہ انجکشن جب رگ میں لگاتو رگوں کے خون میں دوا مل گئی اور خون کے ساتھ دل میں اور پھر پھیپھڑےمیں پھر دل میں اور دل سے پورے جسم میں پہنچی رگ والا خون دوا لے کر براہ راست نہ دماغ میں گیا نہ معدہ میں بلکہ دل میں گیا اور دل سے بھی براہ راست دوسرے اعضاء میں نہیں گیا بلکہ پھیپھڑوں میں اور پھیپھڑوں سے واپس آکر پھر رگوں کے ذریعہ دوسرے اعضاء حتی کہ دل اور معدہ میں گیا بہرحال پھیپھڑے بیچ میں ضرور آتے ہیں ، اب پھیپھڑے کی ساخت اور ان میں خون کی جگہ معلوم کریں مسئلہ صاف ہوجائے گا ۔ ماضی قریب کے مسلم الثبوت طبیب حاذق حکیم اجمل خان اپنی مشہور و معروف کتاب "حاذق" میں لکھتے ہیں:پھیپھڑوں کی ساخت نرم اورمتخلخل ہے، ان میں نرم گوشت اور غضاریف اور قصبۃ الریہ اور شریانوں اور وریدوں کی شاخیں پائی جاتی ہیں۔ پھیپھڑے کی بالائی سطح پر آبدار جھلی اور باقی ساخت میں خانہ دار جھلی اور لچکیلے نرم ریشے اور ہوا کے چھوٹے چھوٹے خانے پائے جاتے ہیں جو باہم مل کر لوتھڑے بناتے ہیں انہیں ہوا کے کیسوں یا خانوں میں ہوا کی نالی یعنی قصبۃ الریہ کی باریک باریک شاخیں ختم ہوتی ہیں، پھیپھڑے کی شریان اور ورید کاجال بھی پھیپھڑے کے ہر حصے میں پھیلا ہواہے ، یہاں تک کہ ہرایک ایسے اعضاء میں سے ہیں جو فضلات جسم کو خارج کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ان کا یہ فعل بھی ہے کہ وہ خون کو صاف کرتے ہیں صاف اور سرخ خون جسم کی پرورش کے لئے براستہ شرائین تنفس کے ذریعہ تمام جسم میں چلا جاتا ہے،اور مختلف اعضا کی عروق شعریہ تک پہنچ کر وہ کثیف اور سیاہ ہوجاتا ہے جس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اس میں جسمانی فضلات کے دخانی مادے مل جاتے ہیں، جب کثیف وریدی خون پھیپھڑوں کے ہوائی کیسوں کے عروق شعریہ تک پہنچتاہے تو اس کا رنگ فوراً ہی سرخ ہوجاتاہے کیوں کہ خون کا دخانی مادہ ہوائی کیسوں کے اندر آجاتاہے اور ان ہوائی کیسوں کی لطیف ہوا خون میں مل کر اسے صاف اور سرخ بنادیتی ہے۔پھیپھڑوں کی اس تشریح سے کوئی یہ دھوکہ نہ کھائے کہ دیگر اعضا سے پھیپھڑے میں خون کی آمد و رفت براہ راست ہے۔ نہیں بلکہ بواسطہ دل ہے ، اسی کتاب میں۔ دل کی تشریح میں ہے:دل کے دونوں دائیں بائیں اذن ایک ہی وقت میں پھیلتے ہیں اور دائیں بائیں بطن ایک ہی وقت میں سکڑتے ہیں جب دونوں اذن پھیلتے ہیں تودائیں اذن میں بالائی اور زیریں وریدوں کے ذریعہ جسم کا کثیف اور سیاہ خون آجاتاہے اور بائیں اذن میں پھیپھڑوں کے وریدوں کے ذریعہ صاف شدہ خون آجاتاہے کہ پھر دائیں اذن کا سیاہ خون درمیانی سوراخ کے راستے بائیں بطن میں اور بائیں اذن کا بائیں بطن میں چلا جاتا ہے، اور جب دونوں بطن سکڑتے ہیں تو دائیں کا خون بذریعہ شریان الریہ پھیپھڑوں میں چلاجاتا ہے اور بائیں بطن کا خون بذریعہ شرائین اور اورطہ تمام جسم میں چلاجاتا ہے۔الغرض! جملہ اطبا کا اس پر اتفاق ہے کہ رگوں سے خون براہ راست دل میں جاتاہے اور دل ہی کے ذریعہ پھیپھڑوں میں جاتاہے،براہ راست پھیپھڑے میں نہیں جاتا۔ اور نہ ایساہے کہ بغیر پھیپھڑوں میں گئے دل ہی سے واپس ہوتاہو ۔ پھیپھڑے میں ضرور جاتاہے اورپھیپھڑوں میں صاف ہوکر پھر دل میں آتا ہے اور دل سے پھر پورے جسم میں جاتاہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پھیپھڑوں کے جن ہوائی کیسوںجاتا ہے اس کی حیثیت جوف کی ہے یامسامات کی۔ اوپر ذکر کردہ تشریح سے یہ بات ظاہر ہے کہ پھیپھڑے کی جن ہوائی کیسوں جاتاہے ان کی حیثیت مسامات ہی کی ہے ، تواس کا حاصل یہ ہے کہ خون دل سے مسامات میں گیا اور مسامات سے واپس ہوکر پھر دل میں آیا۔اب اگرمان بھی لیاجائے کہ دل سے معدہ اور دماغ تک کوئی منفذ ہے تو بھی یہ دوا مفسد نہیں ہوگی اس لئے کہ اگرچہ ابتداء منفذ میں گئی اور انتہا پربھی منفذ ہی سے پیٹ یا دماغ میں پہونچی مگر بیچ میں مسامات حائل ہیں توجس طرح احلیل میں دوا ڈالی اور وہ مثانہ تک پہنچی مگر روزہ نہیں ٹوٹا اگرچہ دوا کاداخلہ بھی منفذ ہی میں ہوا اور مثانہ کے بعد بھی منفذ ہے مگر بیچ میں مثانہ کی جھلی حائل ہے جس میں اگرچہ چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں مگر ان کی حیثیت مسامات ہی کی ہے منفذ کی نہیں اسی طرح رگ والے انجکشن میں اگرچہ دوا منفذمیں گئی مگر بیچ میں پھیپھڑے کی ہوائی کیسوں کے عروق شعریہ حائل ہیں جن کی حیثیت مسامات کی ہے اس لئے اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا، علاوہ ازیں دل سے دماغ یا معدے تک کوئی منفذ نہیں دل سے شرائین اور اورطہ نکل کر پورے جسم میں پھیلی ہیں، جن کے ذریعہ خون تمام اعضاء کی تغذیہ کے لئے جاتا ہے۔ مگریہ شرائین دماغ یا معدہ میں کھلتی نہیں بلکہ ان سے نکلی ہوئی عروق شعریہ کے مبدأ پر ختم ہو جاتی ہیں، عروق شعریہ ہی کے ذریعہ مسامات میں خون جاکر گوشت اور پوست کا جزبنتاہے تواگر ہوائی کیسوں کے عروق شعریہ کو بطور مجادلہ کوئی منفذ مانے بھی توچوں کہ منتہا پر مسامات ہیں اور دماغ اور معدہ میں انہیں مسامات ہی کے ذریعہ پہنچے گی اس لئے اب بھی مفسد نہ ہوئی، اس لئے کہ ہم اوپرثابت کرآئے کہ اگر منتہی پربھی مسامات ہی کے ذریعہ داخل ہیں تومفسدصوم نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ رگ والے انجکشن میں بھی دوا کسی منفذسے گئی مگر معدہ اور دماغ تک نہیں پہنچتی بلکہ وسط میں یاانتہا پر منفذ ختم ہوکر صرف مسامات ہی کے ذریعہ دوا دماغ یامعدہ میں جائے گی۔ اس لئے مفسدصوم نہیں مگرچوں کہ انجکشن کی تقریباً تمام دواؤں میں اسپرٹ ہوتی ہے اور یہ بدترین قسم کی شراب ہے، نجس العین۔ اس لئے کہ روزہ کی حالت میں انجکشن لگوانا مکروہ ضرور ہے اس لئے کہ روزہ سے مقصود طہارت و تزکیہ باطنی ہے اور یہ انجکشن جسمیں نجس العین دوا ہےباطن کو نجس کرنے والی ہے، اس لئے روزہ میں کسی قسم کے انجکشن ہرگز نہ لگوائے جائیں ، اور ان سے اجتناب کیا جائے۔ہاں اگر یہ معلوم ہوکہ دوا اسپرٹ اور ہرقسم کی شراب اور نجاست سے پاک ہے اور خارجی طورپر بھی اسپرٹ استعمال نہ کریں تو کراہت بھی نہیں۔(مقالات شارح بخاری جلداول صفحہ۳۹۸تا۴۰۸)

حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیںتحقیق یہ ہے کہ انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہیں رگ میں لگایا جائے چاہیں گوشت میں کیوں کہ اس کے بارے میں ضابطہ کلیہ یہ ہے کہ جماع اور اس کے ملحقات کے علاوہ روزہ کو توڑنے والی صرف وہ دوا اور غذا ہے جو مسامات اور رگوں کے علاوہ کسی منفذ سے صرف دماغ یا پیٹ میں پہنچے۔

درمختار مع شامی جلد دوم صفحہ ۱۰۸؍میں ہے:الضابط وصول مافیہ صلاح بدنہ لجوفہ  ‘‘

ردالمحتار میں ہے: الذی ذکرہ المحققون ان معنی المفطر وصول مافیہ صلاح البدن الی الجوف اعم من کونہ غذاء او دواء

اور فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصر صفحہ ۱۹۱؍میں ہے: اکثر المشائخ علی ان العبرۃ للوصول الی الجوف والدماغ۔

ان سب عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ غذا اور دوا اس وقت روزہ توڑے گی جب دماغ یا پیٹ تک کسی منفذ سے پہونچے بلکہ بعض حضرات نے صرف منفذ تک پہنچنے پر اکتفا فرمایاہے اس لئے کہ ان کی تحقیق پر دماغ سے پیٹ تک براہ راست تعلق ہے۔ 

شامی جلد دوم صفحہ ۱۰۳؍میں بحر سے ہے: التحقیق ان بین جوف الراس وجوف المعدۃ منفذا اصلیا فماوصل الی جوف الراس یصل الی جوف البدن۔

مسامات اور رگوں کی وساطت کے بغیر پہنچنے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ عامہ کتب فقہ میں مذکور ہے کہ اگر دماغ یا پیٹ کے زخم میں دوا ڈالی تو روزہ اس وقت ٹوٹے گا جب کہ دوا درحقیقت دماغ اور پیٹ میں پہنچ جانے کا ظن غالب ہو ۔

درمختار مع شامی جلد دوم صفحہ ۱۰۲؍میں ہے: لواقطر فی اذنہ دھنا او داوی جائفۃ او امۃ فوصل الدواء حقیقۃ الی جوفہ ودماغہ

لفظ حقیقتاً کا یہی فائدہ ہے کہ دوا اگر زخم کے شگاف سے دماغ یاپیٹ میں پہنچی تو روزہ ٹوٹ گیا اور رگوں یا مسامات کے ذریعہ پہنچی تو نہیں ٹوٹا ورنہ قید بے کارہےاس لئے کہ جب کوئی دوا خصوصاً تر دوا ڈالی جائے گی تو عروق ومسامات کے ذریعہ ضرور دماغ تک پہنچے گی۔ اگر عروق ومسامات کے ذریعہ دوا کا پہنچنا روزہ کو توڑ دیتا تو یہ قید بیکار تھی بناء علی یہ تصریح ہے کہ اگر آنکھ میں دوا ڈالی یا سرمہ لگایا تو روزہ نہیں ٹوٹا اگرچہ دوا کا قطرہ حلق میں محسوس ہوکر سرمہ تھوک یا رینٹھ کے ساتھ نکلے۔

فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصر صفحہ ۱۹۰؍میں ہے:لواقطر شیئا من الدواء فی عینہ لایفسدصومہ عندناوان وجدطعمہ فی حلقہ واذا بزق فرای اثرالکحل ولونہ فی بزاقہ عامۃ المشائخ علی انہ لایفسد صومہ کذا فی الذخیرۃ۔ وھوالاصح ھکذا فی التبیین 

اور درمختار مع شامی جلد دوم صفحہ ۹۸؍میں ہے: اوادھن اواکتحل وان وجد طع مہ فی حلقہ

اسی کے تحت شامی میں ہے: ای طعم الکحل اوالدھن کما فی السراج وکذا لوبزق فوجد لونہ فی الاصح بحر۔ قال فی النھر لان الموجود فی حلقہ اثرداخل المسام الذی ھو خلل البدن والمفطر انماھوداخل من المنافذ للاتفاق علی ان من اغتسل فی ماء فوجدبردہ فی باطنہ انہ لایفطر۔

دیکھئے صاحب نہر نے تصریح کردی کہ حلق میں جو محسوس ہو تھوک میں جوآیا وہ چونکہ مسام کے ذریعہ آیا لہذا روزہ توڑنے والانہیں،روزہ توڑنے والا وہ ہے جومنفذ سے دماغ یاپیٹ تک پہنچے۔ اسی طرح یہ جزیہ ہے کسی نے اپنے سوراخ ذکر میں تیل ڈالاتو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔اگرچہ تیل مثانہ تک پہنچ جائے اور علت یہ بیان فرمائی کہ سوراخ ذکر اور پیٹ کے درمیان منفذنہیں۔

ہدایہ جلد اول صفحہ ۲۰۰؍میں ہے: لواقطرفی احلیلہ لم یفطرعندابی حنیفۃ وقال ابویوسف یفطر محمد مضطرب فیہ فکانہ وقع عندابی یوسف ان  بینہ وبین الجوف منفذا ولھذایخرج منہ البول ووقع عند ابی حنیفۃ ان المثانہ بینھماحائل والبول یترشح منہ

اور ردالمحتار جلد دوم صفحہ ۱۰۰؍میں ہے: ای قول ابی حنیفۃ ومحمد معہ فی الاظہر وقال ابویوسف یفطروالاختلاف مبنی علی انہ ھل بین المثانۃ والجوف منفذا ولا وھولیس باختلاف علی التحقیق والاظہر انہ لامنفذ لہ وانما یجتمع البول فیھا بالترشح کذا یقول الأطباء زیلعی وافادانہ لوبقی فی قصبۃ الذکرلایفسد اتفاقاً ولاشک فی ذالک۔

اس سے معلوم ہوا کہ امام اعظم اور امام ابویوسف کا اختلاف اس پر مبنی ہے کہ سوراخ ذکر اور پیٹ کے درمیان منفذہے یانہیں مسامات کے وجود سے کسی کو انکار نہیں ۔اگر مسامات کےذریعہ پہنچنا روزہ توڑتا توسوراخ ذکرمیں تیل ڈالنا بالاتفاق روزہ توڑدیتا۔

فتاویٰ عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصر صفحہ ۱۹۰؍میں صاف تصریح ہے: ومایدخل من مسام البدن من الدھن لایفطر ھکذافی شرح المجمع۔ 

ثابت ہوگیا کہ اندرون جسم کسی جگہ دوا یا غذا کا مسام کےذریعہ پہنچنا روزہ نہیں توڑتا۔ جب یہ ذہن نشین ہوگیا کہ روزہ توڑنے والی وہ دوا اور غذا ہے جومسامات کے علاوہ کسی منفذ سے دماغ اور پیٹ تک پہنچے تو اب انجکشن کی حقیقت پر غور کیجئے کہ جوانجکشن گوشت میں لگتا ہے اس کے بارے میں تو ظاہرہے کہ وہ پورے جسم میں مسامات ہی کے ذریعہ پہونچتا ہے لہذا اس سے روزہ کا نہ ٹوٹنا ظاہرہے۔ رہ گیا رگ کا انجکشن تواس کے جسم میں پہونچنے کی کیفیت یہ ہے کہ دوا خون کے ساتھ جسم میں پھیلتی ہے۔ ماہرین تشریح جانتے ہیں کہ خون رگوں سے دل میں جاتاہے اور وہاں سے پھر واپس رگوں میں آتا ہے دل سے دماغ اور پیٹ تک کوئی منفذ نہیں اس لئے رگوں کے انجکشن سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔(فتاویٰ فیض الرسول جلداول صفحہ۵۱۶تا۵۱۸)

خیال رہے جس طرح رگ کا انجکشن کہ جسم میں پہنچتاہے اسی طرح گلوکوز بھی جسم میں پہنچتاہے دونوں کی کیفیت ایک ہی ہےفتاوی فقیہ ملت میں ہےانجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا چاہے گوشت میں لگوائے یا رگ میں کیوں کہ اس سلسلے میں حکم شرعی یہ ہے کہ قصداً کھانے پینے اور جماع کے علاوہ ایسی دوا یا غذا سےروزہ ٹوٹے گا جو پیٹ یا دماغ میں داخل ہو۔ دوا تر ہویاخشک جیساکہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مطبوعہ رحیمیہ صفحہ ۱۰۴؍میں ہے وفی دواء الجائفۃ والامۃ اکثر المشائخ علی ان العبرۃ للوصول الی الجوف والدماغ لا لکونہ رطبااو یابسا حتی اذا علم ان الیابس وصل یفسد صومہ ولو علم ان الرطب لم یصل لم یفسد ھکذا فی العنایۃ۔ اھ 

دماغ میں داخل ہونے سے اس لئے روزہ ٹوٹے گا کہ دماغ سے پیٹ تک ایک منفذ ہے جس کے ذریعہ دوا وغیرہ پیٹ میں پہنچ جاتی ہے ورنہ درحقیقت پیٹ میں کسی چیز کا داخل ہوکر رک جانا ہی فسادصوم کاسبب ہے۔ جیساکہ بحرالرائق جلد دوم صفحہ ۳۰۰؍میں ہے :قال فی البدائع وھذا یدل علی ان استقرار الداخل فی الجوف شرط لفسادالصوم وفی التحقیق ان بین الجوفین منفذا اصلیا فماوصل الی جوف الراس یصل الی جوف البطن کمافی العنایہ۔اھ ملخصا

گوشت میں انجکشن لگنے سے دوا پیٹ یادماغ میں کسی منفذ کے ذریعہ داخل نہیں ہوتی بلکہ مسامات کے ذریعہ پورے بدن میں پھیل جاتی ہے اور مسامات کے ذریعہ کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا جیساکہ فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ۱۰۴؍میں ہے۔ ومایدخل من مسام البدن من الدھن لایفطر ھکذا فی شرح المجمع۔اھ

اسی طرح رگ میں انجکشن لگنے سے بھی دوا پیٹ یادماغ میں منفذ سے داخل نہیں ہوتی بلکہ رگوں سے دل یاجگرمیں پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے رگوں کے ذریعہ ہی پورے بدن میں پھیلتی ہے ان رگوں کوشرائین یا آوردہ کہتے ہیں جو بالترتیب دل یاجگر سے نکلی ہوئی ہیں جیساکہ ماہر علم طب علامہ محمود چغمینی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں:اماالعروق الضوارب التی تسمی الشرائین فھی نابتۃ من القلب فی تجویفھا روح کثیر ودم قلیل ومنفعتھا ان تفید الاعضاء قوۃ الحیلۃ التی تحملھا من القلب ۔ وامالعروق الغیرالضوارب التی تسمی آوردہ فھی نابتۃ من الکبد فیھا دم کثیر او روح قلیل ومنفعتھا ان تسقی الاعضاء الدم الذی تحملہ من الکبد،، اھ ملخصا (قانونچہ صفحہ ۳۰؍مطبوعہ نامی پریس لکھنؤ؍فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ ۳۴۴؍۳۴۵)

فتاوی مرکزتربیت افتاء میں ہےگلوکوزڈراپ یاطاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہ ہوگا اگرچہ بھوک پیاس ختم ہو جائے کیونکہ اصل قاعدہ کلیہ اس باب میں یہ ہے کہ کھانے،پینے اور جماع کے علاوہ روزہ کو توڑنے والی صرف وہ دوا یا غذا ہے جو مسامات اور رگوں کے علاوہ کسی اور منفذ سے پیٹ یادماغ میں پہونچے لہذا مسام یارگ کے ذریعہ کوئی چیز داخل بدن ہو تو اس سے روزہ نہ ٹوٹے گا۔ 

فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ومایدخل من مسام البدن من الدھن لایفطر ھکذافی شرح المجمع (ج۱؍ص۲۰۳)

اور ردالمحتار میں ہے: قال فی النھر لان الموجود فی حلقہ اثرداخل من المسام الذی ھو خلل البدن والمفطر انماھوالداخل من المنافذ للاتفاق علی ان من اغتسل فی ماء فوجدبردہ فی باطنہ انہ لایفطر اہم(ج۲ص۳۹۵)

لہذا جس طرح گوشت میں انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کہ وہ پورے جسم میں مسامات ہی کے ذریعہ پہنچتا ہے۔اسی طرح رگ(نس)میں لگوانے سے بھی نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس کے جسم میں پہنچنے کی کیفیت بھی یہی ہے کہ دوا خون کے ساتھ جسم میں پھیلتی ہے نہ کہ منفذ کے ذریعہ دماغ یا پیٹ میں جاتی ہے۔ہاں اگر بھوک، پیاس سے بچنے کے لئے ایساکیا تو مکروہ ہے۔(جلد اول صفحہ۴۶۶)

ان تمام دلائل سے بالکل ظاہر وباہرہے کہ انجکشن چاہیں گوشت میں لگائیں یارگ میں یاگلوکوز بیماری کے سبب یا طاقت کے لئے کسی بھی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گاالبتہ حالت روزہ میں انجکشن وغیرہ مکروہ ضرور ہے لیکن یہ کراہت اس وجہ سے کہ انجکشن وغیرہ میں اسپرٹ کی آمیزش ہوتی ہے جونجس ہے تو اگر کوئی ایسا انجکشن یا گلوکوز ہو جس میں اسپرٹ یاکسی قسم کے شراب کی آمیزش نہ ہو تو کراہت بھی نہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ

محمد ابراہیم خان امجدی قادری رضوی بلرامپوری

۱۵؍شعبان المعظم ۱۴۴۲؁ھ بروز دوشنبہ


(تقریظ جلیل)

 خلیفۂ حضور ارشد ملت، ناشر مسلک اعلیٰ حضرت،حضرت مولانا تاج محمد قادری واحدی صاحب قبلہ دامت برکاتہ العالیہ نائب سرپرست مسائل شرعیہ گروپ

الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی الہ واصحابہ واہل بیتہ اجمعین

اما بعد!روزہ ایک عظیم عبادت ہےجو اللہ تعالیٰ نے اس امت یعنی امت محمدیہ پر ۱۰؍شعبان المعظم ۲؁ھ کو فرض کیا ۔ اس سے پہلے امتوں پر بھی روزے فرض تھے اگر چہ روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف تھےمگر فرض ضرور تھا جیسا ارشاد باری ہے ’’ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔(سورہ بقرہ۱۸۳)

عبادت کی نیت سے صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے روکے رکھنے کو روزہ کہتے ہیں جو ہر مسلمان مرد وعورت عاقل بالغ پر فرض ہے مگر اِن میں بھی کچھ حضرات ہیں جنہیں وقت پر نہ رکھنے کی اجازت ہے جیسے مسافر،مریض ،کہ انہیں اس وقت نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور بعد میں ادا کرنے کا حکم ہے اور جو بعد میں بھی رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں فدیہ کا حکم ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے’’فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۰وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ۰فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ۰وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘ تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں  رکھے،اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھاناپھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔(کنز الایمان ،سورہ بقرہ ۱۸۴)    

  اس آیت کریمہ میں اگر چہ مسافر اور بیمار کا تذکرہ ہے مگر اس کے لئے علاوہ بھی چند افراد ہیں جنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہےجیسے حیض ونفاس والی عورت کہ ان دنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے یعنی اس کی قضا بعد میں کریں ۔ اور دودھ پلانے والی عورت کہ اگر روزہ رکھے گی تو ماں یا بچہ کونقصان پہونچے گا یا حاملہ عورت ہے تو انہیں نہ رکھنے کی اجازت ہے بعد میں اس کی قضا کریں۔

مسافر سے مراد شرعی مسافر ہے جو بانوے(۹۲) کلو میٹر یا اس سے زیادہ سفر کرنے کا ارادہ ہواگر چہ گاڑی یا ٹرین کا سفر ہو تو اسے نہ رکھنے کی اجازت ہے یعنی اگر نہ رکھے جب بھی گنہگارنہ ہوگا بشرطیکہ  بعد میں رکھے۔ اگر رکھ لے جب بھی حرج نہیں روزہ ہوجا ئے گا اور ثواب بھی پا ئے گا۔یہ اس صورت میں ہے جب کہ  مسافر نے طلوعِ فجر سے قبل سفر شروع کیا ہو۔اور اگر طلوعِ فجر کے بعد سفر کیا تواس کو اُس دن کا روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیںہے۔ یونہی اگر بانوے کلو میٹر سے کم کا سفر ہے جب بھی روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے اگر چہ پیدل سفر کرتا ہو۔

مریض سےمراد وہ مریض ہےجسے روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاک ہونے کاصحیح اندیشہ ہوتو یہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں ممنوع ایام کے علاوہ اوردنوں میں روزہ رکھے۔

   یاد رہے کہ مریض کو محض زیادہ بیماری کے یا ہلاکت کے صرف وہم کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ کسی دلیل یا سابقہ تجربہ یا کسی ایسے طبیب کے کہنے سے غالب گمان حاصل ہو جو طبیب ظاہری طور پر فاسق نہ ہو۔ ( بہار شریعت ح ۵)

جنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ان کے لئے حکم شرع یہ ہے کہ ان ایام میں قضا روزوں کو ادا کریں جن ایام میں روزہ رکھنے کی ممانعت نہ ہوورنہ گنہگار ہوں گے ،فدیہ سے بھی کام نہ چلے گا ۔ہاں اگر کو ئی ایسا شخص ہے کہ اب وہ اپنی زندگی میں روزہ نہیں رکھ سکتا ہے جیسے شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہو گئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا،جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے اورنہ آئندہ ہی اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہو کہ روزہ رکھ سکے، تواس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیے کے طور پر نصف صاع یعنی دو کلو سینتالیس گرام بتیس ملی گرام گندم یا اس کا آٹا دے یا اس کی قیمت دے۔یہ بھی یاد رہے کہ اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی قوت آگئی تو روزہ رکھنا لازم ہوجائے گا۔اور جو کچھ دیا ہےوہ صدقۂ نافلہ میں شمار ہوگا ۔ ( بہار شریعت ح ۵)

  اس مختصررسالہ میں اتنی گنجائش نہیں کہ میں مکمل مسئلہ تحریر کرسکوں ویسے ہر مسلمان مرد وعورت کو چا ہئے کہ ضرورت کے مسائل سیکھ لیں کہ ضرورت کے مسائل کا سیکھنا ہر مسلمان عاقل و بالغ پر فرض ہےحدیث شریف میں ہے ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ‘‘

  لیکن پھر بھی اگر معلوم نہ ہو تو غلطی کرنے کے بجا ئے اہل علم سے معلوم کریں ارشاد ربانی ہے’’فَسْــٴَـلُوْآ اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ تو اے لوگوعلم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔ (کنز الایمان سورہ نحل ۴۳)

حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ہی روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عالم کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے علم پر خاموش رہے اور جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ فَسْــٴَـلُوْآ اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ‘‘ تو اے لوگوعلم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔لہٰذا مومن کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا عمل ہدایت کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے۔ ( در منثور، النحل، تحت الآیۃ ۴۳ ، ۵ / ۱۳۳  ؍بحوالہ صراط الجنان)

اس حدیث شریف کے پیش نظر محمد ریحان رضا نعیمی صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہو ئے خلیفۂ حضور ارشد ملت حضرت مولانا محمد ابراہیم خاں رضوی امجدی صاحب قبلہ نے بزرگان دین کے اقوال کی روشنی میں حالت روزہ میں گلو کوز و انجکشن لگوانے کے مسئلہ پر رسالۂ ہذا کو قلم بند کیا ہے جو نہایت عمدہ اور جامع ہے ۔اور اس کا علم ہونا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیوں کہ یہ وہ مسئلہ ہے جو انسان کی زندگی میں درپیش آتا رہتا ہے اور مسئلہ نہ جاننے کے سبب لوگ اپنی عبادت کو ناقص یا خراب کردیتے ہیںیا پھر پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں مثلا کسی روزے دار شخص کو  انجکشن لگوانے یا گلوکوزکے استعمال کی حاجت ہو تووہ شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کبھی روزے کو توڑ دیتا ہے اس عظیم عبادت سے محروم ہوجاتاہےاور کبھی روزہ جانے کے خوف سے دن بھرکی صعوبتوں کو برداشت کرتا رہتا ہے اور انجکشن وگلوکوز کے لئے وقت افطار کا بے صبری سے منتظر رہتاہے اور پورا دن اپنے لاعلمی کے سبب طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرتا رہتاہے۔لہٰذا ہر مسلمان کو چا ہئے اسے پڑھیں اور اپنے گھر والوں اور ووستوں کو بھی اس مسئلہ سے آگاہ فرما ئیں ۔

دعا ہے مولیٰ تعا لیٰ اس رسالہ کو قبول فرما عوام وخواص کو کما حقہ فائدہ اٹھا نے کی تو فیق عطا فرما ،اور مولانا موصوف کے قلم میں قوت عطا فرما ،مزید دین کی خدمت کرنے کا جذ بہ عطا فرما ۔آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

دعاگو 

فقیر تاج محمد قادری واحدی 

۱۶؍ شعبان المعظم ۱۴۴۲؁ھ بروز منگل


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner