AD Banner

{ads}

(زکاۃ نہ دینے والوں کے لئے قابل غور تحریر)

 (زکاۃ نہ دینے والوں کے لئے قابل غور تحریر)


 جب رب قدیر نے آپ کو اسلام کی دولت عطا فرمائی, عقل سلیم کے ساتھ آپ کو حد بلوغ تک پہنچایا, ایک آزاد زندگی عطا فرما کر اپنے اور اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کے فضل سے آپ کو مالدار کر دیا.

 اب اس عطا کردہ مال کو خود اپنے اور اپنے گھر والوں پر  سال بھر ضروریات میں خرچ کرنا ہے, پھر جب وہ مال  بچ جائے تو اس میں سے بھی سارے مال پر نہیں بلکہ اس میں سے صرف ڈھائی فیصد (%2.5) اللہ پاک کی راہ میں ہی خرچ کرنا ہے جس نے تمہیں مال عطا فرمایا ہے.

یاد رہے !  اللہ پاک کو تمہارے مال کی حاجت نہیں کہ بیشک وہ غنی و حمید ہے بلکہ یہ مال اسکے حکم سے فقراء و مساکین اور دین کی راہ میں تقسیم کرنا ہے.

  اے زکاۃ نہ دینے والو !اگر اب بھی زکاۃ نہیں دوگے تو جان لو, رسول اکرم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں: '' جو قوم زکاۃ نہ دے گی، ﷲ تعالیٰ اسے قحط میں  مبتلا فرمائے گا۔‘‘تو تم کیوں مِلے ہوئے مال کو ضائع کرنا چاہتے ہو, اُسے ادا کرکے محفوظ کیوں نہیں کرتے ؟ (المعجم الأوسط: ح 4577)

 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: زکاۃ دے کر اپنے مالوں کو مضبوط قلعوں میں کر لو.(مراسيل ابي داؤد مع سنن ابی داؤد ص8)

  بہت سے ایسے لوگ ہیں جو زکاۃ تو نہیں دیتے لیکن سال بھر کچھ نہ کچھ صدقہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں جان لینا چاہئے کہ یہ صدقہ کرنا انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچائےگا, کیونکہ جس مال کی زکاۃ ادا نہ ہوئی ہو اس کا صدقہ بھی قبول نہیں ہوگا اسلئے کہ زکاۃ ادا نہ کرنے سے وہ مال پاک ہی نہ ہوا, حدیث پاک میں ہے : زکاۃ جس مال میں مِلے گی، اُسے ہلاک کر دے گی. (شعب الإيمان: ح 3522)

(یعنی زکاۃ واجب تھی اور ادا نہ کی تو اب یہ حرام مال آپ کے حلال مال کو بھی ہلاک کر دےگا.

اور جب مال پاک ہی نہ ہوا تو اس سے دیا گیا صدقہ و خیرات کیسے قبول ہو سکتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جو شخص کھجور برابر حلال کمائی سے صدقہ کرے اور ﷲ عزوجل حلال مال کا ہی صدقہ قبول فرماتا ہے. (بخاری شریف: 1410)

آپ زرا سوچو تو صحیح کہ پورے دن محنت کرتے ہو, حلال مال کمانے کی کوشش کرتے ہو اور مال حاصل بھی ہو جاتا ہے لیکن زکاۃ نہ دے کر پورے مال کو ناپاک کر لیتے ہو اور اپنے آپ کو ہلاکت و شر میں گرفتار کر لیتے ہو. 

زکاۃ نہ ادا کرنے والوں کے بارے میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:{ وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ- } (سورہ آل عمران : 180)

ترجمہ: جو لوگ بخل کرتے ہیں  اُس کے ساتھ جو ﷲ عزوجل نے اپنے فضل سے اُنھیں دیا۔ وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ اُن کے لیے بہتر ہے بلکہ یہ اُن کے لیے بُرا ہے۔ اس چیز کا قیامت کے دن اُن کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا جس کے ساتھ بخل کیا۔

اور حدیث پاک میں ہے: جس مال کی زکاۃ نہیں دی گئی، قیامت کے دن وہ گنجا سانپ ہوگا، مالک کو دوڑائے گا، وہ بھاگے گا یہاں تک کہ اپنی انگلیاں اُس کے منہ میں ڈال دے گا۔ (مسند احمد:10857) 

یاد رہے کہ جب سانپ کی عمر دو ہزار سال ہو جاتی ہے تب گنجا ہوتا ہے. کیونکہ اس عمر  میں زہر کا اثر اتنا سخت ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے اسکے بال بھی گر جاتے ہیں. اور " جس نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی، بیشک ﷲ تعالی نے اُس سے شر(ہلاکت) کو دور فرما دیا۔‘‘ (المعجم الأوسط: 1579)

بھائیو ! اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ بربادی و ہلاکت سے دور رہ کر رب کی رضا حاصل کرنی ہے یا خود کو اور اہل و عیال کو حرام مال کِھلا کر  دنیا میں قحط سالی اور آخرت میں رسوائی و عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے.  پھر گزارش ہے اے مسلمانوں ! ابھی وقت ہے کہ اپنے مال کی زکاۃ دے کر اپنے رب کا حق ادا کرو اور اس کی خوشنودی حاصل کرو تاکہ دنیا کی مصیبتوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی ہولنا کیوں سے محفوظ رہو.

(نوٹ)زکاۃ سے متعلق مسائل جاننے کے لیے فقیر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔


کمال مصطفیٰ ازہری بن حضور مناظر اہل سنت علامہ صغیر احمد رضوی جوکھنپوری حفظہ اللہ

جامعہ ازہر شریف, قاہرہ, مصر

9997779428

خادم: الجامعۃ القادریہ مجوزہ عربی یونیورسٹی, رچھا, بریلی شریف. 

۲۲ رمضان المبارک ١٤٤٣ھ

۲٣ اپریل ۲۰۲۲ء


نوٹ:۔ دیگر پوسٹ کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner