AD Banner

{ads}

(کیا حب الوطن نصف الایمان حدیث ہے؟)

 (262)

(کیا حب الوطن نصف الایمان حدیث ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ میں کہ ’’حب الوطن نصف الایمان‘‘ اور ’’احفظواارضکم فانھاامکم‘‘یہ جو علماء بیان کرتے ہیں کہ یہ سرکار کی حدیث ہے کیا یہ صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو یہ کون سی حدیث سے اخذ کی گئی ہے اس کا جواب جلد از جلد دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ـ۔   المستفتی:۔ محمد قمر رضا رفیقی مظفر پور بہار الہند

وعلیکم السلام و ررحمۃ اللہ و برکا تہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب

اس طرح کی روایتیں موضوع ہیں محققین کی تحقیق یہی ہے ــ’’ حبُّ الوطنِ منَ الإيمانِ ‘ 

(الصغاني (۶۵۰۹ھ ) موضوعات الصغاني۵۳موضوع)

’’ حبُّ الوطنِ من الإيمانِ‘‘ (السيوطي ( ۹۱۱ھـ ) الدرر المنتثرة ۶۵لم أقف عليه)

 حبُّ الوطَنِ من الإيمانِ(الوادعي ( ١٤٢٢ هـ ) الفتاوى الحديثية ١ / ٥٦ لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم وطن سے محبت ایمان ہے ـ۔لیکن اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک حدیث زبان زد خاص وعام ہے’’حب الوطن من الْإِيمَان‘‘وطن سے محبت جزو ایمان ہے ۔تبصرہ یہ روایت موضوع یعنی من گھڑت ہے دنیا وجہان میں اس کی کوئی سند دستیاب نہیں ــ۔علامہ صغانی حنفی ( م ۶۵۰ ھ ) نے اسے ”موضوع“ ( من گھڑت) کہا ہے ــ( الموضوعات ۸۱ )

علامہ سیوطی لکھتے ہیں ( حديث ) ”حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ“ لم أقف عليه‘‘یہ حدیث مجھے نہیں مل سکی ۔( الدر المنتثرۃ ۱۹۰ )

علامہ سخاوی صوفی لکھتے ہیں حَدِيث" حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ لم أقف عليه‘‘مجھے بھی نہیں ملی ۔ــ( المقاصد الحسنة ۳۸۶ )

علامہ البانی  نے اس روایت کو ”موضوع“ کہا ہے ـ۔ ( سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ۳۶ )

ثابت ہوا کہ روایت وطن سے محبت ایمان ہے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہنا صریح نادانی ہے ــ۔

(۲)وطن اور اسکی سرزمین سے محبت کا اظہار کرنا ایک فطری اور جائز عمل ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پر اپنے وطن کی محبت سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم وطن کی محبت میں غلو سے کام لیں اور اسے اپنی ماں کا درجہ دینے لگیں۔قرآن اور احادیث مبارکہ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ملکی سرزمین کو دھرتی ماں کہا جائے۔ اس سلسلے میں کچھ  روایات پیش کی جاتی ہیں ان کی حقیقت ذیل میں پڑھئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"واحفظوا من الأرض، فإنها أمكم وانه ليس من أحد عامل عليهاخيراأو شرا إلا وهي مخبرة‘‘زمین (پر گناہ کرنے) سے احتیاط برتو، کیوں کہ یہ تمہاری ماں ہے (یعنی تمہیں اسی سے پیدا کیا گیا ہے)، اس پر جو بھی اچھا یا برا عمل کیا جائے، یہ ضرور (بروز قیامت) اس کی مخبری کرے گی۔(معجم کبیر طبرانی۴۵۹۶)

یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہونچتی، اسے ابن لہیعہ نے بیان کیا ہے، جو مختلط اور ضعیف راوی ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی منسوب ہے’’عن عائشة أم المؤمنين:] استَقيموا ولَنعمَّا ما إن استقمْتُمْ . . . وتحفَّظوا من الأرضِ فإنَّها أُمُّكمْ‘‘(الدارقطني (٣٨٥ هـ)، لسان الميزان ٩/٤٥ • باطل • أخرجه الدارقطني في «غرائب مالك» كما في «لسان الميزان» لابن حجر (٧/٣١)

یہ خود ساختہ اور جعلی حدیث ہےخود امام دارقطنی رحمہ اللہ اسے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’ہذا باطل، وأبو حبيب القراطيسي هذا ضعيف جدا‘‘یہ جھوٹی روایت ہے، اس کا راوی ابو حبیب قراطیسی سخت ضعیف ہے۔ایک اور روایت جو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہے، وہ یوں ہے’’لا تسبوا الأرض، فإنها أمكم، ولا الجبال‘‘زمین کو برا بھلا نہ کہو، کیوں کہ وہ تمہاری ماں ہے، اسی طرح پہاڑوں کو بھی برا بھلا نہ کہا کرو۔

(الفردوس بماثور الخطاب ۷۲۸۹)

خلاصہ یہ ہےکہ یہ بے سروپا روایت ہے، دنیا جہاں میں اس کی کوئی سند نہیں ملتی۔

’’احفظوا ارضکم، فانھا امکم‘‘”اپنی دھرتی کی حفاظت کرو، یہ تمہاری ماں ہے۔بے اصل ہے ایسے الفاظ دنیا کی کسی معتبرحدیث کی کتاب میں دستیاب نہیں۔مذکورہ بالاحوالہ جات سے ظاہر وباہر ہے کہ وطن کی محبت نہ توایمان کاحصہ ہے اورنہ ہی اسے ماں کہناروا۔ھذاماظھـرلی والعلم عنداللہ وعلمه احكم واتم

کتبہ

 مفتی محمد منظوراحمدیارعلوی 



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner