AD Banner

{ads}

وضو میں بسم اللہ پڑھناکیاہے؟

وضو میں بسم اللہ پڑھنا کیا ہے ؟ 

 مسئلہ : وضو میں بسم الله پڑھنا کیا ہے؟ 


بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب

    وضو میں بسم الله پڑھنے کے متعلق اختلاف ہے بعض فقہاء نے سنت لکھا ہے بعض نے مستحب جیساکہ عالمگیر جلد اول کتاب الطہارۃ فصل ثانی میں وضو کے ابتداء میں بسم اللہ پڑھنے کو سنت لکھاہے.

    یونہی حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ بہار شریعت حصہ دوم سنن وضو کے بیان میں تحریر فرماتے ہیں بسم اللہ  سے شروع کرے اور اگر وضوسے پہلے اِستنجا کرے تو قبل استنجے کے بھی  بسم اللہ  کہے مگر پاخانہ میں   جانے یا بدن کھولنے سے پہلے کہے کہ نجاست کی جگہ اور بعد ستر کھولنے کے زَبان سے ذکرِ الٰہی منع ہے۔ 

صاحب شرح وقایہ کتاب الطہارت میں وضو کی سنت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں  کہ *وتسمیۃ اللہ تعالی ابتداء والسواک* اور شروع میں بسم اللہ پڑھنا اور مسواک کرنا.

  اور صاحب قدوری کتاب الطہارت میں وضو کی سنت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں *وتسمیۃ اللہ تعالی فی ابتداء الوضوء* اور وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے.

صاحب ہدایہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں *(قال  وتسمية الله تعالى في ابتداءالوضوء لقوله عليه السلام.لاوضو لمن لم يسم والمراد به نفي الفضيلة،والاصح انھامستحبة وان سماھا فی الکتاب سنة ويسمى قبل الاستنجاء وبعده ھوالصحيح)* فرمایا اور ابتدائے وضو میں اللہ کا نام لینا سنت ہے اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اس کا وضو نہیں جس نے اللہ کا نام نہیں لیا اس سے مراد افضلیت کی نفی ہے  اور اصح یہ ہے کہ  تسمیہ مستحب ہے اگرچہ صاحب قدوری نے  کتاب قدوری میں اسے کو سنت کہا ہے  اور تسمیہ استنجا سے پہلے بھی پڑھے  اور اس کے بعد یہی صحیح ہے. (الهداية في شرح بداية المبتدي، المجلد الأول کتاب الطہارت صفحہ ۲۵)


سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فتاوی رضویہ جلد اول ص ۲۹۳ پر تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں بسم اللہ سے وضو کی ابتدا صرف سنت ہے واجب نہیں اگرچہ امام ابن الہمام کا خیال وجوب کی طرف گیا.

اور اسی جلد کے ص ۲۹۶ پر تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے تو اس پرتعجب ہے جس نے صرف اس حدیث سے وضو میں تسمیہ کے مسنون ہونے پر استدلال کیا( اس سے مراد حضرت انس رضی اللہ علی عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ پانی ہے ؟ پھر دست مبارک برتن میں رکھا اور فرمایا اللہ کے نام سے وضو کرو ، میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنے لگا یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کرلیا اور یہ ستر کے قریب تھے ۔ اسے نسائی ، ابن خزیمہ اور بیہقی نے روایت کیا اور بیہقی نے کہا ، یہ تسمیہ میں سب سے صحیح حدیث ہے ۔ اور نووی نے کہا اس کی سند جید ہے ) 

*اقول: وضعف دلالتہ علی استنان التسمیۃ لکل وضوء ظاھر فالظاھر انہ ھھنا لاستجلاب البرکۃ فی الماء القلیل* 

اقول:  ہر وضو کے لئے تسمیہ کے مسنون ہونے پر اس حدیث کی دلالت کا کمزور ہونا واضح ہے اس لئے کہ ظاہر یہ ہے کہ یہاں پر بسم اللہ تھوڑے پانی میں برکت حاصل کرانے کیلئے ہے *فی الحلیہ وکذلک غایۃ مایفیدہ الاستدلال الماضی بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولا وضوءلمن لم یذکر اسم اللّٰہ علیہ الاستحباب فانہ کما یثبت نفی الفضیلۃ والکمال بترک السنۃ  یثبت بترک المستحب فی الجملۃ فیترجح بھذا البحث القول بالاستحباب* آگے حلیہ میں فرمایا )' اسی طر ح حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد'' اس کا وضو نہیں جس نے وضو پر خدا کا نام نہ ذکر کیا '' سے سابقا جو استدلال ہے اس سے زیادہ سے زیادہ استحباب مستفاد ہوتا ہے اس لئے کہ کامل وافضل وضو ہونے کی نفی جیسے ترک سنت سے ثابت ہوتی ہے فی الجملہ ترک مستحب سے بھی ثابت ہوتی ہے تو اس بحث سے اس کے استحباب ہی کا قول ترجیح پاتا ہے ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ جلد اول مذکورہ ص کا مطالعہ کریں.واللہ اعلم بالصواب


۲۲ جمادی الاول ۱۴۴۳ ہجری

ذہنی آزمائش گروپ

مزید معلومات کے لئے یہاں کلک کریں


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner