AD Banner

{ads}

رسالہ گستاخ رسول پر لعنت بھیجناکیسا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ 
 بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں
(کنزالایمان،سورہ احزاب آیت نمبر ۵۷)


(گستاخ رسول پر لعنت بھیجنا کیسا ہے؟)


ازقلم
خلیفۂ حضور ارشد ملت 
حضرت مولانا تاج محمد قادری واحدی صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ
مقام گائیڈیہ پوسٹ چمرو پور تحصیل اترولہ ضلع بلرام پور یو پی(الہند)



ناشرین
اراکین مسائل شرعیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(تقریظ جلیل)

خلیفۂ حضور ارشد ملت ،ناشر مسلک اعلیٰ حضرت ،حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم خاں، رضوی ، امجدی ،ارشدی،خطیب 
امام غوثیہ مسجد شانتی نگر بھیونڈی ممبئی مہاراشٹرا
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم
زیر نظر رسالہ گستاخ رسول پر لعنت بھیجنا کیساہے؟ یہ خلیفۂ حضور ارشد ملت علامہ تاج محمّد واحدی صاحب قبلہ کی درجنوں تصانیف میں سے ایک تازہ ترین تصنیف ہے دور حاضر میں جہاں دیکھو اسلام دشمن زہر اگلتے ہوئے نظرآتے ہیں اور حد تو یہ ہوگئی کہ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بے دریغ گستاخیاں کرتے ہیں ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت وآبرو مسلمان کے جان و مال عزت و آبرو سے بڑھ کرہے کو ئی شخص اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک اپنی جان اپنے مال سےزیادہ حضور ﷺ سے محبت نہ کرے جیسا کہ حدیث شریف میں ہےقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایمان والانہ ہوگا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہوجائے۔(مشکوۃ)
یعنی حضور ﷺ سے سچی محبت کریں جان ومال اولاد سب کی محبت پر حضور ﷺ کو ترجیح دیں مگر افسوس کہ محبت کرنےکے بجا ئے کچھ ایسے نااہل ہیں جو حضور ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ان کی طرف داری کرتے ہوئے ان پر لعنت بھیجنے کو منع کرتے ہیں۔
محب گرامی علامہ موصوف نے اسی موضوع کے تحت بہت عمدہ اور جامع رسالہ تحریر کیا ہےاول تا آخر پڑھا دل باغ باغ ہو گیاحقیقت میں یہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے جسے علامہ موصوف نے عشق رسول میں غوطہ زن ہوکر تحریر کیا ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اس رسالے کو پڑھیں اور اپنے احباب کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔اللہ تعالیٰ تمامی مسلمانوں کو حضور کی محبت میں جینے اور مرنے کی توفیق بخشے اور اس رسالے کو عوام وخواص میں مقبول فرمائےآمین یارب العلمین بجاہ نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم 
فقط
محمد ابراہیم خاں امجدی قادری رضوی ارشدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(تأثرات ارشدیہ)

شمس الطریقہ ، بدرُ الشریعہ ، غیظُ الوہابیّہ ، خلیفۂ خلفائے اعلی حضرت ، ارشدُالسّالکین
 شیخ ابُوالبرکات محمدارشدسُبحانی مدظلہ النُّورانی ( بانی و سر پرستِ اعلی ماہنامہ ارشدیہ )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
عزیزُ الاخص گرامی قدر سیفِ ارشدیہ فاتح دیوبندیت و وہابیت حضرت علامہ الشّاہ مفتی محمّد ابراہیم خان امجدی ارشدی زید مجدہٗ نے رسالہ ” گستاخ رسول پر لعنت بھیجنا کیسا ؟‘‘ ارسال فرما کر فقیر سے تصدیق نامہ طلب فرمایا ہے ، یہ رسالہ در اصل ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے ، جسے فقیر کے خلیفۂ خاص قاطع وہابیت و نجدیّت ، پیکر اخلاص و محبّت ، تاجِ ملّت حضرت مولاناتاج محمّد واحدی ارشدی  مدظلہ العالی نے مرتب فرمایا ہے۔ماشاء الله بہت عمدہ تحقیق انیق ہے ۔بلا شک و شبہ گستاخ رسول واجبُ القتل ، قطعی لعنتی اور مُستحق نار جہنم ہے ، حتی کہ گستاخ رسول کے کُفر و ارتداد اور لعنتی و جہنمی ہونے میں شک کرنے والابھی اسی کی طرح لائقِ لعنت ،واجب القتل اور مُستحق عذابِ نار ہے ۔گستاخ رسول پر لعنت بھیجنا نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے ، اس ضمن میں حضرت تاج ملّت (زیدعمرہ وعلمہ وعملہ)  نے رسالہ ھٰذا میں ، قرآن و سنّت اور تحقیقاتِ امام اہلسنّت ( مُجدداعظم دین و ملّت اعلی حضرت سیّدنا الشّاہ امام محمّد احمد رضا خان مُحدثِ بریلوی رضی الله تعالی عنہ ) کی روشنی میں ، مختصر مگر نہایت جامع و مدلّل تحریراًبیان فرما دیا ہے۔
الله تعالی جل مجدہٗ الکریم حضرت تاج ملّت دامت کی عمر اور ان کے علم و عمل و تقوٰی اور رزق میں مزید برکات کثیر عطافرمائے ، اور ہم سبھی کو مذہب حق اہلسنّت و جماعت ( مسلک اعلی حضرت)پر استقامت ، خاتمہ برایمان ، جنّت البقیع شریف میں مدفن ، بے حساب حتمی مغفرت اور پیارے محبوب پاک ﷺ کا جنّت الفردوس میں قرب خاص نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہواتباعہ اجمعین 
فقط والسّلام خیر ختام
مدینے پاک کا بھکاری
احقرالنّاس ، اسفل العباد
فقیع عبد المصطفیٰ ابو البرکات محمد ارشد سبحانی غفر لہ النورانی 
خادم تلوکرانوالہ شریف (فاضل) ضلع بھکرخاک نشین خانقاہ سراجیہ کُندیاں شریف ضلع میانوالی پنجاب پاکستان
۱۵؍ شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ بمطابق ۳۰؍مارچ ۲۰۲۱ء شب سہ شنبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(کلمات دعائیہ)

خلیفہ ٔ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا الشاہ مفتی سید شمس الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ قاضی شرع گووا اسٹیٹ وصدر اعلیٰ مسائل شرعیہ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
الحمدللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وصھبہ اجمعین برحمتک یاارحم الرحمین 
اما بعد!زیرِ نظر رسالہ بنام گستاخِ رسول پر لعنت بھیجنا شرعاً کیسا ہے؟ جسے محبی عزیز القدر خلیفۂ ارشدِ ملت مولانا تاج محمد واحدی زید مجدہ نے ترتیب دیا ہے بحمد الله اپنے عنوان پر تحقیقی اور تنقیحی رسالہ ہے جس میں لعنت بھیجنے سے متعلق تمام پہلوؤں اور گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور ہر پہلو کا منقح حکم دلائل و براہین سے مزین کرکے بیان کردیا گیا ہے!فقیر نے از ابتدا تا آخر بغور مطالعہ کیا اور مستند و مفید پایا،بارگاہِ خداوندی میں عرض گزار ہوں کہ وہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور مفید و مقبولِ خواص و عوام بنائے!اور موصوف کی اس خدمت پر اجرِ جزیل مرحمت فرما کر ذریعۂ حسنات اور وسیلۂ مغفرت و نجات بنا دے۔آمین آمین آمین یا رب العالمین بجاہ نبیک سید المرسلین صلوات الله و سلامہ علیہ و علیہم اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
العبد  العا صی
سید شمس الحق برکاتی مصباحی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نگاہ اولین)

الحمد لولیہ والصلوۃ علی نبیہ محمد وآلہ وصحبہ وابنہ الغوث الاعظم الجیلانی اجمعین 
چند دن قبل ایک سوال آیا تھا کہ گستاخ رسول پر لعنت بھیجنا کیساہے؟فقیر نے اس کا جواب دیا تھا کہ اگر قصداً کسی شخص نے حضورﷺ کی گستاخی کی اور اس کی گستاخی ثابت ہو تو اس پر بتخصیص لعنت بھیجنا جائز ہے پھر کچھ لوگوں نے اس مسائل پر بہت کچھ کلام کیا بحث و مباحثہ نے اتنا طول پکڑا کہ کثرت مصروفیات کے باوجود  تفصیلی وضاحت ضروری سمجھا کیونکہ ہماری جان و مال عزت وآبرو سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموس کی حفاظت ضروری ہے مسلمان اپنے اوپر ہوئے ظلم وتشدد کو برداشت کرسکتا ہے اپنی جان و مال کی قربانی دے سکتا ہے لیکن حضور کی شان میں ادنی سی بھی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا ہےاور نہ ہی گستاخ رسول سے سمجھوتا کرسکتا ہے اسی وجہ سے فقیر نے مکمل رسالہ لکھا چونکہ حضور کی محبت عین ایمان ہےاس لئے اے میرے عزیزو!سب کچھ برداشت کرلینا مگر حضور ﷺکی ادنیٰ سی بھی گستاخی کبھی نہ برداشت کرنا ایسے حالات میں ہم گستاخ رسول کو اگر سزا نہیں دے سکتےلیکن گستاخ رسول کو سب سے بدترین مخلوق تو جانین اور انہیں لعنت کا مستحق مانیں۔
امید ہے کہ عوام کے لیے فقیر کا یہ رسالہ نفع بخش ثابت ہوگا فقیر نے مکمل کوشش کی ہے کہ یہ رسالہ غلطیوں سے منزہ رہے پھر بھی بتقاضائے بشری غلطی کا امکان ہےاگر کسی صاحب کو کچھ خامیاں نظر آئیں تو وہ سورش نہ پھیلائیں بلکہ آگاہ کریں تاکہ آئیندہ اسے درست کیا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اپنے حبیب کے طفیل اس رسالہ کو عوام وخواص میں مقبول فرمائے اور حضورﷺ کی محبت ہمیں اور تمامی اہلسنت کو زندگی گزر و بسرکرنے کی توفیق ورفیق بخشے۔آمین یا رب العلمین بجاہ نبی الکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم 
فقط دعا گو
فقیر تاج محمد قادری واحدی اترولوی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(گستاخ رسول پر لعنت بھیجنا کیساہے؟)

مسئلہ:۔کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ عمرنے اللہ ورسول کی شان میں گستاخی کی اور ایذاپہونچائی تو اس پر لعنت بھیجناجائز ہے یا نہیں؟زید کہتا ہے کہ جائز نہیں یعنی کسی معین شخص پر لعنت نہیں بھیج سکتے اگر چہ لعین کافر ہو ،ہاں اگر اس کا کفر پر مرنا ثابت ہو جا ئے تو لعنت بھیج سکتے ہیں۔البتہ غیر معین شخص پرلعنت بھیج سکتے ہیں جیسے کافروں پر لعنت جھوٹوں پر لعنت وغیرہ وغیرہ اور دلیل میں فتاوی رضویہ اور مراۃ المناجیح کی عبارت پیش کرتا ہے۔جبکہ بکر کہتاہے کہ جو اللہ ورسول کو ایذا پہونچائے اس پر لعنت بھیج سکتے ہیں اور جو فتاویٰ رضویہ ومراۃ المناجیح کی عبارت ہے وہاںبلا وجہ کسی پر لعنت بھیجنے کی ممانعت ہے۔ دریافت طلب امریہ ہے کہ تحقیق کیا ہے ؟کس کا قول درست ہے آگاہ فرمائیں۔
المستفتی:۔۔متعلم صادق علی خان  

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب

الحمدللہ رب السموات والارض والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمر سلین  وعلیٰ الہ واصحابہ اہل بیتہ اجمعین۔ وقال اللہ تعا لیٰ والذین یؤذون رسولﷲ لہم عذاب الیم0 ان الذین یؤذونﷲ ورسولہ لعنہم ﷲ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذابا مھینا ولعنۃ اللہ علی الکذبین صدق اللہ العظیم 
بکر کا قول درست ہے یعنی جو اللہ و رسولجل جلالہ و صلی اللہ و علیہ وسلم  کا گستاخ ہو ایذاپہونچاتاہو تو جرم ثابت ہونے کے بعد بہ تخصیص لعنت بھیج سکتے ہیں ، البتہ  بلا وجہ کسی معین شخص پر لعنت نہیں بھیجنا چا ہئےکہ جس طرح کسی مسلمان کو کا فر کہنے سے کفر پلٹتا ہے جب کہ وہ کا فر نہ ہوکہ یو نہی کسی پر لعنت بھیجنے سے بھیجنے والے پر پلٹتا ہے جب کہ وہ اس کا مستحق نہ ہوجیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَجُلًا لَعَنَ الرَّیْحَ عِنْدَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لَا تَلْعَنُوْا الرِّیْحَ فَاِنَّھَا مَاْ مُوْرَۃٌ وَاِنَہ، مَنْ لَّعُنْ شَیْاً لَیْسَ لَہ، بِاَھْلٍ رَجَعَتِ الْلَعْنَۃُ عَلَیْہِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ‘‘اورحضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک آدمی ہوا پر لعنت کی جو لعنت کی مستحق نہ تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو اللہ کی جانب سے مامور ہے اور جو آدمی کسی ایسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کی مستحق نہیں ہوتی تو وہ لعنت اسی لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہے۔(مشکوۃ شریف ص ۴۱۳)
اس حدیث مبارکہ سے یہی ظاہر ہے کہ لعنت اس پر بھیجی جا ئے جو لعنت کا مستحق ہے اگر مطلقا لعنت بھیجنے کی ممانعت ہو تی تویہ عبارت نہ ہو تی کہ جو آدمی کسی ایسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کی مستحق نہیں ہوتی تو وہ لعنت اسی لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہےبلکہ مطلقا منع کردیاجا تا۔بلکہ قرآن نے کا فروں پر ظالموں پر جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے یونہی احادیث طیبہ میں کئی ایک پر لعنت بھیجی گئی ہے مثلاً گودنا گودانے والی مردوں کی مشابہت کرنے والی پروغیرہ وغیرہ۔
ہاں جس کے بارے میں معلوم نہ ہو تو بلا وجہ کسی پر لعنت نہیں بھیجنی چاہئے لیکن جب معلوم ہوجا ئے کہ فلاں اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ و علیہ وسلم کو ایذا پہونچاتا ہے گستاخی کرتاہے تو اس پر لعنت بھیج سکتے ہیںجیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنا جائز ہے کیونکہ وُہ امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کاقاتل ہے یا اس نے آپ کے قتل کا حکم دیا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ یہ اصلاًثابت نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے تو اسےقاتل یا اس کا آمر نہ کہا جائے چہ جائیکہ اس پر لعنت کی جائے کیونکہ بغیر تحقیق کسی مسلمان کی طرف کبیرہ گناہ کی نسبت کرنا جائز نہیں، ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو ابنِ ملجم اور حضرت عمر رضی اﷲتعالےٰ عنہ کو ابو لؤلؤ نے شہید کیا کیونکہ یہ تواتر سے ثابت ہے تو بغیر تحقیق کسی مسلمان کی طرف فسق یا کفر کی نسبت کرنا ہر گز جائز نہیں۔(احیا ء العلوم الافۃالثامنۃ اللعن مکتبہ و مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرۃ ۳ /۱۲۵؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۰؍ ص ۱۹۷؍۱۹۸؍دعوت اسلامی)
دیکھو سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے یہاں لعنت بھیجنے سے مطلقا منع نہیں کیا ہے بلکہ فرمایا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے تو اسےقاتل یا اس کا آمر نہ کہا جائے یعنی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یزید کا کفر ثابت نہیں ہے اس لئے کافر کہنے سے منع فرمایا اور جب کا فر نہیں کہہ سکتے تو اس پر لعنت کیوں کر بھیج سکتے ہیں ۔ مگر جن ائمہ مثلا امام احمد بن حنبل کو یزید کا کفر ثابت ہوا تو انھوں نے کافر بھی لکھا ہے اور لعنت بھی بھیجی ہے جس کو فتاوی رضویہ میں سرکارا علیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے تحریر کی ہے ۔فرماتے ہیں کہ یزید پلید علیہ مایستحقہ من العزیز المجید قطعا یقینا باجماع اہلسنت فاسق وفاجر وجری علی الکبائر تھا اس قدر پر ائمہ اہل سنت کا اطباق واتفاق ہے، صرف اس کی تکفیر ولعن میں اختلاف فرمایا۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے اتباع وموافقین اسے کافر کہتے اور بہ تخصیص نام اس پر لعن کرتے ہیں اور اس آیہ کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں:فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنہم اﷲ فاصمہم واعمی ابصارھم ‘‘کیا قریب ہے کہ اگر والی ملک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتہ کاٹ دو، یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی تو انھیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ۔(القرآن الکریم ۴۷/ ۲۳۔ ۲۲)
شک نہیں کہ یزید نے والی ملک ہو کر زمین میں فساد پھیلایا، حرمین طیبین وخود کعبہ معظمہ وروضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اورپیشاب منبر اطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بے اذان ونماز رہی،مکہ ومدینہ وحجاز میں ہزاروں صحابہ تابعین بے گناہ شہید کئے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے، غلاف شریف پھاڑا اور جلایا۔ مدینہ طیبہ کی پاکدامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب ودانہ رکھ کر مع ہمراہیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے گو دکے پالے ہوئے تن نازنین پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوان مبارک چور ہوگئے، سرانور کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا۔ حرم محترم مخدرات مشکوئے رسالت قید کئے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے، اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین میں فساد کیا ہوگا،ملعون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق وفجور نہ جانے،قرآن عظیم میں صراحۃً اس پرلعنہم ﷲ(ان پر اللہ کی لعنت ہے)فرمایا۔(القرآن الکریم ۳۳/ ۵۷)
لہذا امام احمد اور ان کے موافقین ان پر لعنت فرماتے ہیں اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لعن وتکفیر سے احتیاطاً سکوت فرمایا کہ ا س سے فسق وفجور متواتر ہیں کفر متواتر نہیں۔اور بحال احتمال نسبت کبیر ہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر اور امثال وعیدات مشروط بعدم توبہ ہیں’’ لقولہ تعالٰی،فسوف یلقون غیا الامن تاب ‘‘توعنقریب دوزخ میں غی کاجنگل پائیں گے مگر جو تائب ہوگئے۔ (القرآن الکریم  ۱۹/ ۵۹)
اورتوبہ تادم غرغرہ مقبول ہے اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط واسلم ہے، مگر اس کے فسق وفجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم پر الزام رکھنا ضروریات مذہب اہل سنت کے خلاف ہے اور ضلالت و بدمذہبی صاف ہے، بلکہ انصافا یہ اس قلب سے متصور نہیں جس میں محبت سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شمّہ ہو۔ (وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ‘‘اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹاکھائیں گے۔(القرآن الکریم ۲۶/ ۲۲۷)
شک نہیں کہ اس کا قائل ناصبی مردود اور اہل سنت کا عدووعنود ہے، ایسے گمراہ بددین سے مسئلہ مصافحہ کی شکایت بے سود ہے، ا س کی غایت اسی قدر کہ اس نے قول صحیح کا خلاف کیا اور بلاوجہ شرعی دست کشی کرکے ایک مسلمان کا دل دکھایا مگر وہ توان کلمات ملعونہ سے حضرت بتول زہرا وعلی مرتضٰی اور خود حضور سیدالانبیاء علیہ وعلیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کا دل دکھا چکاہے، اللہ واحدقہار کو ایذاد ے چکا ہے’’والذین یؤذون رسول ﷲ لہم عذاب الیم۰ ان الذین یؤذون ﷲ ورسولہ لعنہم ﷲ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذابا مھینا۰اور جو رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھاہے۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۴؍ص۵۹۲؍تا۵۹۴؍دعوت اسلامی )
چونکہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کو یزید کا کفر ثابت ہوا تو بہ تخصیص یزید پر لعنت بھیجی اور اسی آیت کریمہ کو دلیل بنایا جو غیر معین کے لئے تھی ۔یونہی جب اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والےیعنی اللہ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم) کو تکلیف پہو نچا نے والے، ایذا دینے والے عمرکا جرم ثابت ہوجائےتو اس پر بہ تخصیص لعنت بھیج سکتے ہیں جیسے کہ یزید پر امام احمد بن حنبل اور انکے متبعین لعنت بھیجتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یزید کا کفر پرمرنا ثابت ہو گیا تھا اس لئے اس پر لعنت بھیجی گئی ہے اورعمر تو ابھی زندہ ہے پھر اس پر لعنت کیوں؟ توہم کہتے ہیں کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زندوں پر لعنت بھیجی ہے ملاحظہ ہو۔
(۱) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ  لَعَنَ الْحَكَمَ وَ وَلَدَهُ یعنی نبی کریم ﷺ نے حکم اور اسکے بیٹے پر لعنت بھیجی(هَذَا الْحَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ نیشابوری،  محمد بن عبد الله، المستدرک على الصحیحین، ج ۴ ص ۵۲۸  بیروت، دار الکتب العلمیة، طبع اول، ۱۴۱۱۱)
(۲)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے فرمایا’’ لَعَنَ أَبَا مَرْوَانَ وَ مَرْوَانُ فِي صُلْبِهٖ یعنی نبی کریم ﷺ نے مروان کے باپ پر لعنت بھیجی اور مروان اپنے باپ کے پشت میں تھا۔ ( ایضاً، ج۴، ص۵۲۸؍تاریخ خلفاء ۱۲۸)
(۳)عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے رووایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم)نے جنگ احد کے دن یوں نفرین کی(لعنت بھیجی)’’ اللھم اللعن ابا سفیان(ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج ۵ ص ۲۲۷ مصر، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، طبع دوم، ۱۳۹۵)
مذکورہ بالاحدیث میں ان حضرات پر لعنت بھیجی گئی ہے جو زندہ تھے اور اسی میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو جنگ احد کے وقت مسلمان نہیں ہو ئے تھے بلکہ کا فر تھے اور کفار کی طرف سے مسلمانوں کو کا فی تکلیف پہونچا ئی تھی اس وقت حضور ﷺ نے ان پر لعنت بھیجی حالانکہ بعد میں مسلمان ہو ئے جو سب پر عیاں ہے ۔
(۴)’’عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبِلَالٌ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْهُ الْحُمَّى يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا وَصَحِّحْهَا لَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهِيَ أَوْبَأُ أَرْضِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَكَانَ بُطْحَانُ يَجْرِي نَجْلًا تَعْنِي مَاءً آجِنًا‘‘حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہاسے مروی ہے انھوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما بخار میں مبتلا ہوگئے،ابوبکر  رضی اللہ عنہ جب بخار میں مبتلا ہوئے تو یہ شعر پڑھتے: ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار اترتا تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے: کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس) ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل  (پہاڑوں) کو دیکھ سکتا۔ کہا کہ اے میرے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف مردودوں پر لعنت کر۔ انہوں نے اپنے وطن سے اِس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔ رسول اللہ  ﷺ  نے یہ سن کر فرمایا اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ! اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کر دے یہاں کے بخار کو جحفہ میں بھیج دے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی سب سے زیادہ وبا والی سر زمین تھی۔ انہوں نے کہا مدینہ میں بطحان نامی ایک نالہ سے ذرا ذرا بدمزہ اور بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔(صحیح بخاری جلد اول ص ۲۵۳)
اس حدیث مبارکہ میںبہ تخصیص شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف  پرلعنت بھیجی گئی ہے وہ بھی حضور ﷺ کے سامنےاور نبی کریم ﷺ نے منع بھی نہیں کیا ،یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ بالاشخص کے مرنے کے بعد لعنت نہیں بھیجی گئی ہے بلکہ وہ سب اس وقت زندہ تھے بعد میںجنگ بدر میں مارے گئے ہیں جو ہجرت کے دوسال بعد ہو ئی ہے۔
مذکورہ بالاتمام عبارتوں سے یہی ثابت ہو تا ہے کہ اللہ ورسول کو ایذا پہونچانے پربہ تخصیص لعنت بھیج سکتے ہیں جب کہ جرم ثابت ہو اور جن کا جرم ثابت نہ ہو ان پر بہ تخصیص لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر وہ لعنت کا مستحق نہیں تو لعنت بھیجنے والے پر خود پلٹے گی ۔چونکہ عمر کا جرم ثابت ہے اس نے اللہ کے رسول کی شان میں گستاخی کیا ہےجس سے تمام مسلمانوں کوبلکہ اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ علہ وسلم کو ایذا پہونچا ئی ہے اس لئے وہ لعنت کا مستحق ہے اور اس پر لعنت بھیجناجائز ہے۔
اور جن کتابوں میں بہ تخصیص لعنت بھیجنا منع کیا گیا ہے وہاں بلا وجہ کسی پر لعنت بھیجنے سے منع کیا گیا ہے اور جن حدیثوں میں بہ تخصیص لعنت بھیجنے کا تذکرہ ہے وہاں جرم ثابت ہونے کے بعد لعنت بھیجی گئی ہے جیسے کہ بلا وجہ کسی کو مارنا تکلیف دینا حتی کی جانور کو مارنا ایذا پہونچانا منع ہے مگر جب وہی جانور ایذا پہونچانا شروع کردے تو اسے قتل کرنے کا بھی حکم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی 
۱۳؍شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ 
بمطابق ۲۷؍ مارچ ۲۰۲۰ء برروز سنیچر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(تصدیقات علمائے اہلسنت)

(۱)
الجواب صحیح والمجیب نجیح
سید شمس الحق برکاتی مصباحی
(قاضیٔ شرع اسٹیٹ گوا)

(۲)
الجواب صحیح والمجیب نجیح
فقیر عبد المصطفیٰ  ابو البرکات محمد ارشد سبحانی  غفرلہ
 خادم تلوکرانوالہ شریف فاضل ضلع بھکر پنجاب پاکستان

(۳)
الجواب صحیح 
منظور احمد یار علوی
خادم الافتاء دار العلوم اہلسنت برکاتیہ گلشن نگر جو گیشوری ممبئی

(۴)
صح الجواب بعون الملک الوہاب
محمد ابراہیم خاں امجدی قادری رضوی 
خطیب و امام غوثیہ مسجد بھیونڈی ممبئی

(۵)
الجواب صحیح 
محمد مبشر رضا ازہری مصباحی
خادم نوری دارالافتاءسنی جامع مسجدکوٹرگیٹ بھیونڈی

(۶)
الجواب صحیح 
محمد محبوب رضا مصباحی
خادم رضادارالافتاء بھیونڈی مہاراشٹر ممبئی


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads