AD Banner

{ads}

کچھو چھہ کا سفر اور اسکے آداب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے اشرف زمانہ زمانہ مدد نما
درہا ئے بستہ راز کلید کرم کشا

اشرف نہنگ دریا دریا بسینہ دارد
 دشمن ہمیشہ پر غم با ذکر تو دوست دارد

(مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَن یّنْفَعَ اَخاَہٗ فَلِیَنْفَعْہٗ)

جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو تو چاہیے کہ اس کو نفع پہنچائے (مسلم شریف)


کچھو چھہ کا سفر 

اور اسکے آداب


ازقلم

خلیفۂ حضور ارشد ملت 

مولانا تاج محمد حنفی قادری واحدی

مقام رضا گا ئیڈیہ پوسٹ چمرو پور تحصیل اترولہ ضلع بلرام پوریوپی(الہند)


(ناشرین)

اراکین مسائل شرعیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نگاہ اولین)

لک الحمد یا اللہ جل جلالہ 

والصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ ﷺ

    موجودہ زمانہ میں جادو سحر کی کثرت ہو گئی ہے اکثر و بیشتر لوگ آسیب زدہ ہیں حالا نکہ یہ جادو بہت پہلے زمانہ سے چلا آیا ہے جیسا کہ قرآن واحادیث سے ثابت ہے۔ ظالم لوگ جادو کے ذریعہ ایک دوسرے کا کاروبار تک روک دیتے ہیں اچھے خاصے لوگوں کی تندرستی خراب ہو جاتی ہے میں بھی آسیب میں کئی سال تک مبتلا رہا پریشانی بڑھتی تو علاج کراتا یہاں تک کہ اترولہ بلرام پور گونڈہ ممبئی پونہ پرائیویٹ اور کئی گورمنٹی ہسپتال میں علاج کرایا مگر کامیاب نہ ہوا آخر میں حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ثم کچھوچھوی رضی اللہ عنہ کی مقدس بارگاہ میں حاضر ہوا چند ہی دنوں میں ٹھیک ہو گیا اور فیضان مخدوم اشرف سے مالا مال ہوا کہ آج اس لائق ہوں اور ان شاء اللہ فیضان اشرف سے مالامال ہوتا رہوں گا ۔ 

    جادو ایک علم ہے جو عوام و خواص پر اثر کر جاتا ہے جیسا کہ احادیث و تفاسیر سے ثابت ہے کہ ظالم لبید بن ا عصم اور اس کی بیٹیوں نے رب کے پیارے محبوبﷺ پر جادو کر دیا اور جادو حضور ﷺ کے اعضائے ظاہرہ پر اثر کر گیا البتہ قلب و عقل واعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا (خزائن العرفان و مراۃ المناجیح وغیرہ)  

    اور آج بھی لاکھوں انسان آسیب میں مبتلا ہو کر کچھوچھہ شریف جاتے ہیں مگر کچھ تو جہالت پر جم جاتے ہیں کوئی کمال پنڈت پر جا کر گھنٹہ بجاتا ہے کوئی چکر لگاتاہے کوئی بیٹھکا پر نہاتا ہے وغیرہ وغیرہ 

    جس سے فائدہ کے بجائے نقصان پہونچتا ہے پھر مہینوں نہیں بلکہ کئی کئی سالوںتک آسیب میں مبتلا رہتے ہیںاس جہالت کو ختم کرنے کیلئے میں نے قلم سنبھالا حالانکہ میں اس لائق نہیں تھا، لیکن اللہ و اسکے رسول جل جلالہ ﷺ پر بھروسہ کرتے ہوئے لکھنا شروع کر دیا مصروفیت کے باوجود لکھتا رہا یہاں تک کہ تین دن میں اس رسالہ کو مکمل کردیا۔ 

    مولیٰ عز و جل حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ اور حضور سید میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ عنہ کے صدقہ و طفیل اس رسالہ کو شرف قبولیت بخشے اور جنھوں نے میری رہبری کی اور ہر جگہ میرا ساتھ دیا با لخصوص استاذالمکرم والمحترم عالی وقار ماسٹر رحمت اللہ صاحب قبلہ آسوی مدظلہ العالی نورانی کہ جنھوں نے بچپن سے مجھ فقیر کی پرورش کرکے اس لائق بنایا ومفتی محمد معین الدین صاحب رضوی ہیم پوری و مولانا محمد رفیق صاحب مشاہدی و مولانا محمدغزالی صاحب مصباحی کو اللہ اجر عظیم عطا فر مائے وعزیزم چاند محمد سلمہٗ(متعلم حشمت الرضا جھلہیا)کو اللہ تعالیٰ عالم باعمل بنائے۔ اور زائرین حضرات کو اس رسالہ سے فائدہ پہنچائے ۔

    اہل علم حضرات سے عرض ہے کہ اگر کوئی خامی نظر آئے مطلع فر مائے ہم مشکور ہونگے۔بجاہ حبیبہ الکریم الامین و علی آلہ افضل الصلوۃ و اکمل التسلیم  

مولانا تاج محمد حنفی قادری واحدی

۴؍ربیع الاول ۱۴۳۵ ہجری  مطابق ۶؍جنوری  ۲۰۱۴ عیسوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(تقریظ جلیل)

عالم نبیل فاضل جلیل  حضرت علامہ و مولانا  محمد علی واحدیؔ طیبی صاحب قبلہ مقام تلیانی پوسٹ چندر دیپ گھاٹ گونڈہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم 

’’یا ایھا الرسول بلغ مآ انزل الیک من رّبک‘‘اے رسول پہونچا دو جو کچھ اترا تمھیں تمہارے رب کی طرف سے۔ (کنزالایمان،پ۶؍ع۱۴؍)

اس آیت کریمہ سے احکام شریعت کی تبلیغ کی فرضیت ثابت ہو رہی ہے اور حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فر مایا جیسا کہ بخاری شریف کتاب العلم میں ہے کہ میری طرف سے پہنچا دو اگر چہ ایک ہی آیت ہو ۔

    تبلیغ دین اسلام کا اہم فریضہ ہے جو پوری دنیا میں جاری ہے تبلیغ شمشیر و تقریر کے ذریعے سے ہوتی ہے اور تحریر سے بھی مگر شمشیر و تقریر کے اثرات صرف انھیں لوگوں تک محدود رہ جاتی ہے جن کو ان سے وا بستہ پڑا ہو مگر تحریر کے ذریعے کی جانے وا لی تبلیغ ہمیشہ قائم و دائم رہتی ہے اس لئے کہ دین اسلام کی اشاعت میں زیادہ حصہ تحریر کا ہے اور دین کی بقا کیلئے شریعت کی تبلیغ ونشر و اشاعت بے حد ضروری ہے انھیں سب باتوں کو وحدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے عشق رسول میں ڈوب کرمحب گرامی مولانا تاج محمدقادی واحدی ؔنے یہ رسالہ لکھا ہے ۔ اس سے پہلے موصوف نے اشرفی پہاڑہ و گلدستۂ قادریہ اشرفیہ تصنیف فرمائی مولانا موصوف کی تصنیف لطیف کا میں نے مطالعہ کیا پڑھ کر قلب کو فرحت روح کو تازگی نصیب ہوئی یہ ان کے لئے سعادت دارین ہے اس لئے کہ اس کتاب کو تصنیف فرماکر اردوخواں حضرات پر احسان کیا ہے یقیناََ یہ تارک السلطنت حضور سید مخدوم اشرف سمنانی وسادات مارہرہ کے مورث اعلیٰ سند الواسلین میر عبد الواحد بلگرامی کا فیض و کرم ہے ( رضی اللہ عنہما) 

 دعا ہے مولیٰ تعالیٰ اس رسالہ کو قبول فرمائے اور مصنف کے علم و عمل میں برکتیں عطا فرمائے اور خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

خاک پائے سادات کرام و علمائے کرام 

 محمد علی واحدی طیبی 

۵؍ربیع الاول  ۱۴۳۵ ہجری مطابق ۷؍جنوری ۲۰۱۴ عیسوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نظر ثانی)

 عمدۃالمدرسین حضرت مفتی محمد معین الدین صاحب قبلہ دامت برکا تہم العالیہ

صدر المدرسین دارالعلوم اہل سنت حشمت العلوم گائیڈیہہ

نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم 

    اما بعد !زیر نظر رسا لہ کچھوچھہ کا سفر اور اسکے آداب عزیزم مولانا تاج محمدقادری واحدیؔ سلمہٗ القوی کا تا لیف کردہ ہے۔موصوف نے اس سے قبل گلدستہء قادریہ اشرفیہ کو پیش کیا تھا مصروفیت کی وجہہ سے اجمالاًدیکھ لیا تھا۔اس بار پھر مو صوف نے زیر نظر رسالہ کو پیش کیا کافی انکار کے بعد موصوف نے ایک نہ سنی بلکہ بار بار اظہار محبت ظاہر کیا کہ حضرت نظر ثانی کر دیجئے حالانکہ میں فتاویٰ معینیہ کی ترتیب میں لگا ہوں کہ عوام اہل سنت کی تمنا ہے کہ فتاویٰ معینیہ جلد سے جلدعوام اہل سنت کو پیش کیا جائے مگر موصوف کے اخلاق و محبت کو دیکھ کر ان کے حوصلہ افزائی کے لئے میں نے قبول کر لیا زیر نظر رسالہ دیکھا بہت عمدہ رسالہ ہے کہ اس میں سفر کرنے کا طریقہ مع دعا نیز غلامان اشرف کو جہالت کے دلدل سے نکلنے کا آلہ بھی ہے موصوف پر بے شک حضور سید مخدوم اشرف و گیارہویں صدی کے مجدد میر عبد الواحد بلگرامی کا فیض و کرم ہے(رضی اللہ تعالی عنہما)

     دعا ہے مولیٰ عز و جل نبی رؤف رحیمﷺ کے صدقہ و طفیل میں اس رسالہ کو قبول فر مائے اور موصوف کے علم وعمر میں برکتیں عطا فر مائے اور یہ رسالہ ذریعہ نجات بنائے نیز دین کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا فر مائےآمین بجاہ حبیبہ الکریم ﷺ

فقط دعاگو و دعا جو

محمد معین الدین خاں ہیم پوری بہرائچ شرئف 

خادم دارالعلوم اہل سنت حشمت العلوم گائے ڈیہہ اترولہ ضلع بلرامپور (یوپی)

 ۱۰؍جمادی الآخر ۱۴۳۵ ہجری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(کلمات دعائیہ)

پیرطریقت رہبر راہ شریعت ناشر مسلک اعلیٰ حضرت وخلیفہ طاہر ملت حضرت العلام حضرت مولانا الشاہ آل رسول عرف سید سہیل میاں صاحب قبلہ مد ظلہ العالی نورانی نائب سجادہ نشین خانقاہ واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف ہردوئی

نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم 

اما بعد :اس ناز ک دور میں جہاں مزارات کی حرمت بے ادب زائرین سے پامال ہورہی ہے اور جو حقیقی فیضان صحیح معنوں میں لوگوں تک پہنچنا چاہئے وہ نہیں پہنچ پاتا،پھر لوگ شکایتیں شروع کردیتے ہیں فلاں درگاہ پر حاضری دی ہمارا کوئی مقصد حل نہیں ہوا فائدہ ملے تو کیسے جب تک آپ کو درگاہ کی زیارت وحاضری کے آداب معلوم نہ ہوں گے اس وقت تک آپ کو نہ تو صاحب مزار کا فیض ملے گا اور نہ زیارت کا کوئی مقصد نکل پائے گا،بالکل اسی تعلق سے میرے ایک محرک اور حساس عقیدت مند مولانا تاج محمدقادری واحدی ؔنے مختصر رسالہ بطور آداب زیارت وحاضری کی ترتیب دی ہے۔مولیٰ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رسالہ کو قبول عام فرمائے اور مولانا موصوف کو مزید دینی مسلکی مشربی خدمات کا جذبہ عنایت کرےآمین بجاہ سیدالمرسلین

(مولانا) سید سہیل احمد واحدی

نائب سجادہ خانقاہ واحدیہ طیبیہ 

وناظم اعلیٰ دارالعلوم واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسدم اللہ الرحمن الرحیم 

نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم 

اما بعد!میرے پیارے اسلامی بھائیو ! و اسلام کی مقدس شہزادیو ! جب کہیں کا سفر کرنا ہو تو پہلے غسل کر لیں (غسل کا طریقہ آخر میں ہے)پھر غسل سے فارغ ہوکر ۴؍رکعت نماز نفل الحمد و قل کے ساتھ پڑھیں (مکروہ وقتوں میں نہ پڑھیں )نماز سے فارغ ہوکر خوب دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے(فَاِذَا فَرَغْتَ َفانْصَبْ وَ اِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ)توجب نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو(کنز الایمان)

پھر چاروں قل اور اذا جاء پڑھیں اول آخر بسم اللہ شریف پڑھیں اور آیۃ الکرسی بھی پڑھ لیں آرام سے رہیں گے۔(ان شاء اللہ)

        پھرگھر سے پہلے داہنا قدم نکالے اور یہ دعا پڑھے(بِسْمِ اللّٰہ ِتَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لَا حَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّ بِا اللَّہ) (مشکوۃ)

      پھر داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے دروازے کے اوپر (لا الہ الااللہ محمدرسول اللہ ﷺ) لکھے اور درود شریف کاورد کرتا رہے(باربار پڑھتا رہے) پھر جب گاڑی پر بیٹھنا ہو تو یہ دعا پڑھ کر بیٹھے(سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَناَ ہٰذَوَمَا کُنّاَ لَہ‘ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّناَ لَمُنْقَلِبُوْن)ان شاء اللہ سواری ہر قسم کے حادثہ سے محفوظ رہے گی۔(پ۲۵،ع۷)

         پھر کچھ وقت درود شریف کا ورد کرتے رہیں اوراگر ہو سکے تو زیادہ سے زیادہ پڑھیں (ان شاء اللہ تعالیٰ صحیح سلامت اپنے منزل پر پہونچ جاؤگے سفر میں خوب دعا ء کریں کہ حضور ﷺ نے فر مایا کہ اللہ تعالیٰ مسافر کی دعا قبول فر ماتا ہے۔ (ابو داؤد) 

مسافر روزانہ یا صمد ۱۳۴؍ بار پڑھلے تو بھوک اورپیاس سے امن میں رہیگا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ سفر میں جب کسی کو مشکل میں مدد کی ضرورت پڑے تو اس طرح تین بار  پکارے(اَعِیْنُوْایَا عِبَادَاللّٰہ)(اس کو غیبی مدد ملے گی ان شاء اللہ)

         رہا کچھوچھہ شریف کا سفر تو یہی طریقہ کافی ہے البتہ گھر سے نکلتے وقت یہ اپنے دل میں طے کر لیں کہ میں کچھوچھہ شریف جا رہا ہوں کسی قسم کی گستاخی اور بے ادبی نہیں کرونگا اور نہ ہی شیطان کے کہنے پر کسی سے لڑائی جھگڑا کرونگا اکثر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ جاتے ہیں اورپھر شیطان کے کہنے پر گھر آکر اپنے بھائی اور پڑوسیوں سے لڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمھیں نے میرے اوپر جادو کرایا ہے مجھے شیطان بتایا ہے جس کی وجہ سے کا فی لڑائیاں ہوتی ہیں بلکہ پولس چوکی ،جیل تک جانے کی نوبت آ جاتی ہے حالانکہ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے (اِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدٌوٌّ مُّبِیْن)بے شیطان انسانوں کا کھلا دشمن ہے۔

         توبتاؤ کہ جب شیطان انسانوں کا کھلا دشمن ہے تو وہ بھلا انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گاانھیں سچی بات بتائے گا نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ توانسانوںکو آپس میں خوب لڑاتا ہے۔ 

        لہٰذاکبھی اس طرح کا خیال دل میں نہ لانا اور نہ شیطان کے کہنے پر کسی سے لڑائی جھگڑا کرنا پھر جب کچھوچھہ شریف پہونچو تو کوئی مکان کرایہ پر لے لو بہتر تو یہ ہے کہ مزار شریف کے قریب لو تاکہ حاضری دینے میں آسانی رہے پھر سب سامان رکھکر اطمینان سے ہو لو اگر نماز کا وقت ہو گیا ہے تو پہلے نماز ادا کر لو اگر آپ کا سفر ۹۲؍کیلومیٹر سے زیادہ ہے تو آپ مسافر ہوئے یعنی ظہر عصر عشاء کی فرض نماز وںمیں قصر کریں یعنی چار رکعت نہ پڑھیں بلکہ دو ہی رکعت پڑھیں لیکن آپ کا ارادہ ۱۵؍دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ہے تو پھر آپ منزل پر پہونچنے کے بعد نماز میں قصر نہیں کریں گے بلکہ جس طرح گھر پرپوری نماز پڑھتے تھے ٹھیک اسی طرح پڑھیں قصر اس وقت آپ کو کرنا ہوگا کہ ۱۵؍ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو ۔ پھر نماز سے فارغ ہوکر( اور اگر نماز کا وقت نہ ہوا ہو تو پہنچنے کے بعد )فوراََ غسل کریں پھر نیر شریف جاکر وہاں ادب کے ساتھ پانی بھر کر اوپر لائیں اور اس طرح سر پر ڈالیںکہ پورے بدن پر بہہ جائے اس طرح جتنا ہو سکے نہائے مگر ادب کے ساتھ۔ خیال رہے کہ نیر شریف سے پانی نکالنے کیلئے وہا ں مٹی کا برتن (گھڑا)ملتا ہے وہیںخرید لیں گھر کے استعمال کئے ہوئے برتن سے پانی نہ نکالے جب غسل سے فارغ ہو لیںتو کپڑا بدل لیں اور جس کپڑے کو پہن کر غسل کیا ہے اس کو ایک تھیلی میں رکھ لیں اور مکان پر (روم پر) لاکر سکھا لیں بعض جاہل گنوار ایسا کرتے ہیں کہ پہونچتے ہی میلا کچیلا کپڑا پہن کر نہانا شروع کر دیتے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے کئی بار دیکھا ہے کہ اتنے میلے کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵؍ دن سے غسل ہی نہیں کیا ہے اسی حالت میں نہانے لگتے ہیں بلکہ کئی مرتبہ میں نے واپس کر دیا اور پھر انھیں سمجھایا کہ یہاں نہانا ہے تو پہلے مکان پر غسل کرکے پاکیزگی حاصل کر لو پھر یہاں غسل کرو مگر جاہل جو ہوتے ہیں اپنی جہالت پر اڑے رہتے ہیں اسی میلے کپڑے میں نہانے لگتے ہیں یہاں تک کہ بعض لوگ ناپاکی حالت میں (جن پر غسل واجب ہوتا ہے )نہانے لگتے ہیں۔میں نے کئی لوگوں سے اس کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ جہالت پھیلی ہوئی ہے کہ جو پہونچتے ہی نیر شریف میں نہا لیتا ہے اس کا کیس ختم ہو جاتا ہے(شیطان جل جاتا ہے)بلکہ بعض لوگ نہاتے ہیں اور نئے نئے کپڑے وہیں پھینک دیتے ہیں خود تو جاہل ہوتے ہیں اور جانے والے زائرین کو جاہل بنا دیتے ہیں پھر ان سے بھی کپڑے پھینکوا دیتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ شیطان اسی میں تھا دور ہو گیا جب کہ بعض ایسے غریب ہوتے ہیں کہ ایک کپڑا کیا ایک رومال خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے مگر جاہلوں کے کہنے پر پھینک دیتے یہ جہالت اکثر عورتوں کے اندر پائی جاتی ہے کئی دفعہ تو میں نے کہا کہ آپ لوگ صرف کپڑاہی کیوں پھینکتی ہیں بلکہ اپنے زیورات سونے چاندی کوبھی پھینک دیا کرو کہ اس میں بھی شیطان رہتا ہے مگر کچھ جواب نہ ملا خامو ش رہیں۔

        میرے پیارے اسلامی بھائیو! کچھ جاہل تو یہ رواج نکال دیئے ہیں کہ نیر میں چالیس گھڑا اور ایک سو ایک گھڑا نہانا چاہئے اور اس گنتی کو پوری کرنے کے لئے بے ادبی کے ساتھ پانی کو بھرکراسی جگہ بیٹھ کرنہا تے ہیں اور بلند آواز سے گنتی گنتے جاتے ہیں جب کہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ خاموشی سے غسل کرے یہاں تک کہ غسل کرتے وقت کلمہ درود وغیرہ بھی نہ پڑھے (کتب فقہ)

        میرے اسلامی بھائیو !و اسلام کی مقدس شہزادیو !بتاؤ تو صحیح کہ شریعت مصطفیٰﷺنے کلمہ درود پڑھنے سے منع کیا ہے تو چلانے اور گنتی گننے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے اس لئے فقیرقادری واحدی ؔکہتا ہے کہ جاہلوں کے چکر میں نہ پڑو کہ جاہل کے چکر میں آکر شریعت سے دور ہو جاؤگے اور جہالت کے قریب ہو جاؤگے اللہ تعالیٰ ہر بندے مومن مرد عورت کو شریعت کا پابند بنائے( آمین )

        میرے آقا رحمت عالم نور مجسم ﷺ نے فر مایا پاکی نصف ایمان ہے لہٰذا روزانہ غسل کیا کرو جہاں تک ہو سکے صبح نماز فجر سے ایک گھنٹہ پہلے اٹھو اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر اولیا مسجد یا اشرف المسجد یا پھر جہاں موقعہ ملے وہیں نماز فجر ادا کر کے حاضری کے لئے بیٹھ جائو اور عورتیں زنانی مسجد میں جاکر نماز پڑھیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(حاضری کے اوقات)

حاضری کے لئے مندرجہ ذیل اوقات ہیں جس کی پابندی ہر آنے والے زائرین کے لئے (جو حاضری کی غرض سے آیا ہے)ضروری ہے او قات کی پابندی کے بغیر حاضری کا مقصد فوت ہو جائے گا اور اسے فائدہ نہ ہو پائے گا (۱)پہلی حاضری :فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک (۲)دوسری حاضری ۱۰؍بجے دن سے لیکر ۱۲؍ بجے دن تک ہے(۳)تیسری حاضری نماز عصر سے مغرب کی اذان تک۔

حاضری کے لئے کس طرح بیٹھنا چاہئے؟(۱) حاضری کے لئے دونو گھٹنوں کو توڑ کرزانوں کے سہارے بیٹھیں جیسے نماز میں التّحیات پڑھنے کے لئے بیٹھتے ہیں(۲)نظر نیچی رکھیں(۳)چہرہ اوپر اٹھا ہونا چاہئے (۴)دونوں ہاتھ زانوںپررکھے رہیں ہاں جب زیادہ دیر ہو جائے اور درد کرنے لگے تو جس طرح ہو سکے بیٹھ جائیں مگر آرام ہونے پر پھر اسی طرح بیٹھ جائیں بعض لوگ وہاں جاکر عدالت کے وقت سو جاتے ہیں اور پوچھنے پر جواب دیتے ہیں کہ میرا گپتی میں حاضری چلتا ہے حالانکہ یہ ادب کے خلاف ہے اور جو ایسا کرتے ہیں ان کا کیس مہینوں بلکہ سالوں میں نہیں ختم ہوتا ۔

        لہٰذا اے میرے اسلامی بھائیو ! و اسلام کی مقدس شہزادیو! خبردار کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے بے ادبی ہو اور خود تم کو نقصان پہونچے بلکہ وہ کام کرو جس سے اللہ اور اس کے رسول راضی ہوں جل جلالہ و  ﷺاور حضور مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی رضی اللہ عنہ کی روح خوش ہو۔

کام وہ لے لیجئے تم کو جو راضی کرے

ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروروں درود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(حاضری کے شرائط)

حاضری کی غرض سے آئے ہوئے زائرین کو مندرجہ ذیل شرطوں کی پابندی ضروری ہے۔(۱)روزانہ غسل کرنا (۲)حاضری سے پہلے وضو کرنا۔ (۳) حاضری سے پہلے دورکعت نماز نفل پڑھنا ۔(البتہ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نماز نفل نہ پڑھے کہ منع ہے (بہارشریعت)

        بلکہ جس کی نماز قضا ہو وہ قضا نماز پڑھ لے اور جس کی نماز قضا نہ ہووہ کچھ دیر تک درود شریف پڑھکر اس کا ثواب حضورسید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی روح کو پہونچا دے)۔

(۴)دوران حاضری کسی کی طرف نہ دیکھنا (۵)دوران حاضری دل میں غلط خیالات نہ لانا (۶) ایسا لباس نہ پہننا جو ایّام حاضری میں کھسک جائے (۷)خوشبو سے پرہیز کرنا (۸)کسی سے بات چیت نہ کرنا اور نہ کسی کی غیبت کرنا (۹)بالوں میں اس طرح کا تیل نہ لگائے کہ جس سے مہک نکلے(۱۰)قیمتی زیور کا استعمال نہ کرنا(۱۱)اگر مریضہ جوان ہے تو اس کے ساتھ محرم کا رہنا (۱۲)ایام حیض میں حاضری کے لئے نہ آنا یہاں تک کہ احاطۂ درگاہ میں بھی آنا منع ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(دوران حاضری کیا کرے؟)

        میرے اسلامی بھائیو !و اسلام کی مقدس شہزادیو !جب حاضری کے لئے بیٹھیںچہار زانو بیٹھیںجیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے۔ دوران حاضری کسی سے بات چیت نہ کریںاور نہ کسی کی غیبت کریں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ  اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) اے ایمان والو!بہت گمان سے بچو بے شک کو ئی گمان گناہ ہو جا تا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کریگا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمھیں گوارا نہ ہوگا(کنزالایمان سورہ حجرات ۱۲) 

        اور حدیث شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔ (مشکوٰۃ شریف) 

        حالانکہ اکثر عورتیں دوران حاضری ایک دوسرے کی غیبت میں سارا وقت ختم کر دیتی ہیں جس سے فائدہ کے بجائے نقصان پہونچتا ہے اے اسلام کی باندیو! خبردار خبردار کسی کی غیبت نہ کریںاور پردے کا خاص خیال رکھیں بعض عورتیں اتنا باریک کپڑا پہنتی ہیں جس سے ستر پوشی نہیں ہو پاتی جب کہ اس طرح کالباس پہننا شریعت مصطفیٰ ﷺ میں حرام ہے۔ اور بعض عورتیں بہت باریک دوپٹہ (اوڑھنی )اوڑھتی ہیں اس طرح کا دوپٹہ اوڑھنا حرام ہے۔ (بہار شریعت)

    حدیث شریف میں ہے کہ حضرت حفصہ بنت عبد الرحمٰن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس باریک دوپٹہ اوڑھ کر آئیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انکا دوپٹہ پھاڑ دیا اور موٹا دوپٹہ اوڑھا دیا ۔(مشکوۃ)

        لہٰذا اے اسلام کی مقدس شہزادیو! اس طرح کے لباس سے پر ہیز کریں اور نہ کسی کو تکلیف دیں کہ بیٹھنے کے لئے اکثر عورتیں جھگڑا کر لیتی ہیں یہاں تک کہ گالی گلوج بھی بک دیتی ہیں جب کہ حضور  ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق و گناہ ہے ۔(بخاری)

    اسلئے کسی سے نہ باتیں کریںاور نہ جھگڑا کریں بلکہ قرآن شریف کی سورت یا آیت جو بھی یاد ہو اسے بار بار پڑھتی رہیںاور اگر نہ پڑھی ہوں تو کلمہ شریف و درود شریف کثرت سے پڑھتی رہیںکہ درود شریف کے بہت فضائل ہیں حدیث شریف میں ہے۔

(۱)حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم   ﷺ نے فر مایا کہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود شریف بھیجے گا اللہ اس پر ۱۰مرتبہ رحمت نازل فرمائے گااور اس کے ۱۰؍گناہوں کو معاف فرمائے گا اور دس درجے بلند فرمائے گا۔(نسائی)

(صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِّیِ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ ﷺصَلٰوۃًوَّسَلَاماً عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ)

(۲)اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور  ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جس نے سب سے زیادہ مجھ پردرود بھیجا ہے (ترمذی)

(صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِّیِ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ ﷺصَلٰوۃًوَّسَلَاماً عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ)

(۳)حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا دعا زمین و آسمان کے درمیان معلق (لٹکی)رہتی ہے اس میں سے کچھ اوپر نہیں چڑھتا جب تک کہ تواپنے نبی ﷺپر درودنہ بھیجے(ترمذی) 

(صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِّیِ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ ﷺصَلٰوۃًوَّسَلَاماً عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ)

        اے  میرے پیارے اسلامی بھائیو!عدالت کے وقت اگر کسی کی حاضری چلنے لگے تو خبردار خبردار اسے موبائل وغیرہ میں ریکارڈ (RECORD)نہ کریں اورنہ ویڈیو ریکارڈ(VIDEO RECORD) کریں کہ اس میں جھگڑا فسادکا اندیشہ ہے اور آخرت کی عذاب کی گرفت جیسا کہ حدیث شریف میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم   ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خدائے تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جو جان دار کی تصویریں بناتے ہیں (بخاری)

        جاندار کی تصویر بنانا یا فوٹو کھینچنا یا کھنچوانا سب حرام ہے لہٰذا اس کام سے بچیں تاکہ آخرت کی عذاب سے چھٹکارا ملے اللہ تعالیٰ ہر بندۂ مومن مرد عورت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

        اور نہ حاضری چلنے کی خواہش کریں بلکہ اس طرح دعا کریں کہ اے میرے پرور دگار!اے میرے پالنہار!اے میرے مولیٰ!تو ہی سب کو روزی دیتا ہے، تو ہی سب کو شفا دیتا ہے میرے معبود مجھے (گھر والوں کو یا جس کے لئے دعا کرنی ہو ان کا نام لیں بلکہ گدائے واحدی کہتا ہے کہ ہر بندۂ مومن کے لئے دعا کریںمجھ فقیر کو بھی یاد کر لیںاور کہیںمولیٰ) اپنے پیارے محبوب کے محبو ب حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کے صدقہ و طفیل میں شفاء عطا فرما ،اورشیطان کے شر سے ،ظالموں کو ظلم سے،حاسدوں کے حسد سے محفوظ فرما اور تمام بلا و مصیبت سے محفوظ فرما اور جو بلائیں اور مصیبتیں آ چکی ہیں انھیں دور فرما اور آنے والی بلاؤں کو در گزر فرما سنیت پر قائم و دائم رکھ اور خاتمہ ایمان پر فرما وغیرہ وغیرہ(اٰمین)

         مگر ہرگز ہر گز کبھی حاضری چلنے کے لئے دعا نہ کریں اور نہ کبھی کسی کے لئے بد دعا کریں بلکہ دشمنوں کے لئے دعائے ہدایت کریں کہ اسی میں کامیابی ہے ۔ 

        جب عدالت کا وقت ختم ہونے والا ہو تو فاتحہ پڑھکر خوب دعا مانگیں کہ مظلوم اور بیمار کی دعا اللہ رد نہیں کرتا بلکہ قبول کرتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(حاضری کے بعد کیا کریں؟)

حاضری (عدالت)ختم ہونے کے بعد نماز کا وقت ہوگیاہو تو نماز پڑھ لیں اور اگر نماز کا وقت نہ ہوا ہو تو قرآن شریف کی تلاوت کریں کہ حدیث شریف میں ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺنے فرمایاکہ جو شخص کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھے تو اس کو ہر حروف کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس نیکیوں کے برابر ہو گی (پھر حضور ﷺنے فر مایاکہ )میں الٓمٓ کو ایک حرف نہیں کہتا بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے(یعنی الٓمٓ تین حروف ہیں اور الٓمٓ پڑھنے پر تیس نیکیاں ملیں گی ۔(مشکوٰۃ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مزار شریف پر کب حاضری دینی چاہئے؟)

        مزار شریف پر حاضری دینے کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں جب بھی موقع ملے حاضری دیں۔لیکن مندر جہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھیں‘‘۔

(۱)عورتیں آستانہء عالیہ پر نہیں جا سکتی ہیں بلکہ زینہ کے بغل میں زَنانی مسجد ہے اسی میں جا کر عبادت کریں ۔ 

(۲)حاضری دینے سے پہلے وضو کرکے دو رکعت نماز نفل پڑھکر حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کے روح پاک کو ثواب پہونچادیں ۔ خیال رہے نماز فجر اور عصر کے بعد نماز نفل نہ پڑھیں کہ منع ہے ۔(بہار شریعت)

(۳)آستانۂ عالیہ پر جاتے وقت کسی کو تکلیف نہ دیں ، بلکہ ادب و احترام کے ساتھ جائیں۔

(۴)جب مزارپر جائیں تو نظر نیچی رکھیں اوردرود شریف کا ورد کرتے ہوئے جائیں کچھ گلاب کا پھول اور خوشبو وغیرہ لے جا کر پیش کر دیں اگر چادر پیش کرنی ہے تو پھول ہی کا چادر پیش کریں کہ حدیث شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ مدینہ طیبہ یا مکہ معظمہ کے باغات میں سے کسی باغ میں تشریف لے گئے تو دوآدمیوں کی آواز سنی جن پر انکی قبر میں عذاب ہو رہاتھا ، آپ نے فرمایا ان دونوں پر عذاب ہو رہا ہے مگر کسی بڑی بات پر نہیں پھر فرمایا ہاں(یعنی خدائے تعالیٰ کے نز دیک بڑی بات ہے) ان میں  سے ایک تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا  پھر آپ نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوائی اور اسکے دوٹکڑے کئے اور ہر ایک کے قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا حضور سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ  ﷺ!یہ آپ نے کیوں کیا ؟فرمایا امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہو جائیں ان دونو ں پر عذاب کم رہے گا ۔(بخاری شریف )

         برادران اسلام !اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی پتاّ یا شاخ ہرا ہو تو تسبیح پڑھتا ہے اور جب اسکو قبر کے اوپر ڈال دیا جائے تو اس کی تسبیح سے گنہگاروں کو راحت ملتی ہے۔ اسلئے ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ مزار یا قبر پر پھول پیش کرو کہ ہرا بھی رہتا ہے اور خوشبو بھی رہتی ہے ۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا (معاذ اللہ) مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ یا اللہ کے اولیاء گنہ گار ہیں جو پھول ڈال کر عذاب ہلکا کیا جاتا ہے؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ نہیں ہر گز نہیں بلکہ وہ تو صالحین بندوں میں سے ہیں اولیاء اللہ کے مزار پر پھول اس لئے ڈالا جاتا ہے تاکہ پتّے کی تسبیح سے اولیاء اللہ کے مراتب بلند ہوتے ہیں اس حدیث سے وہ لوگ بھی سبق سیکھیں جو کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہیں اور چھینٹوں سے نہیں بچتے اور وہ لوگ جو ایک دوسرے کی چغلی کرتے ہیں ۔

(۵)اوپر جاتے وقت بعض حضرات جھک جھک کر چوکھٹ کو چومتے ہیں بعض حضرات مزار شریف کے پائتی کے جانب چومتے ہیںاور چومنے میں حد رکوع تک جھک جاتے ہیں بعض حضرات سجدے کی حالت میں آ جاتے ہیں جب کہ یہ ممنوع و نا جائز ہے ۔بلکہ ادب سے جا کر سلام پیش کریںاسکے بعد جہاں جگہ ملے کھڑے ہوکر جو کچھ ہو سکے پڑھیں اور اسکا ثوا ب حضور سید مخدوم اشرف جہاںگیر سمنانی رضی اللہ عنہ اور آپ کے بھانجے الحاج عبدالرزاق نورالعین رحمۃاللہ علیہ کے روح پاک کو پہنچائیں۔

(۶)مزار شریف کے اندر خدّام رہتے ہیں انھیں بھی کچھ دے دیں کہ وہ خدمت کرتے ہیں۔اور اگر کوئی الجھے بحث ومباحثہ کرے خبردار خبردار کسی سے بحث و مباحثہ نہ کریں اور نہ کسی سے تکرار کریں بلکہ ایسے وقت میںخاموشی اختیار کریں کہ حضور   ﷺنے فرمایا (مَنْ صَمَتَ نَجَا) یعنی جو خاموش رہا اس نے نجات پائی(ترمذی)

         لہٰذا اے نبی کے غلامو !کسی سے مت الجھنا کہ وہ دربار مخدوم اشرف ہے وہاں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔

(۷)فاتحہ پڑھ کر ادب کے ساتھ وا پس چلے آئیں کہ مزار شریف کو یا چادر کو بوسہ نہ دیں بلکہ یہ خیال کریں کہ یہ پاک دیار اشرف اورکہاں مجھ حقیر کا منھ (یعنی اپنے آپ کو اس لائق نہ سمجھیں کہ میں حضور کے چادر کو بوسہ دوں )

(۸)پچھم جو مزار ہے وہ حضور سید مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ کا ہے اور جو پورب ہے آپ کیبھانجے الحاج عبد الرزاق نورالعین رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔

(۹)بعض لوگ آتے وقت مزار شریف سے گلاب کا پھول اٹھا لیتے ہیں ایسا ہرگز نہ کریں اگر لینا ہو تو جو پھول سوکھ چکا ہے اسی کو لیں تازہ پھول ہرگز نہ لیں کہ تازہ پھول اللہ کی تسبیح کرتا ہے کہ تازے پھول کو اٹھانا صاحب قبر کے حق کو مارنا ہے ۔

(۱۰)حاضری دینے میں یہ خیال رکھیں کہ جب زیادہ بھیڑ ہو تو اوپر نہ جائیں بلکہ نیچے ہی سے فاتحہ پڑھ لیں بعض لوگ دھکہ دیکر جاتے ہیں جس سے لو گوں کو تکلیف ہوتی ہے اکثر بچوں اور ضعیفوں کو تکلیف ہوتی ہے لہٰذا جب بھیڑ ہو تو اشرف المسجد سے یا جہاں جگہ ملے وہیں سے فاتحہ پڑھ لیں جیسا کہ حضرت وارث پاک رحمۃ اللہ علیہ سلامی گیٹ سے فاتحہ پڑھ کر واپس چلے جاتے تھے کئی دفعہ فقیر اشرفی واحدی ؔبھیڑ کی وجہ سے اندر داخل نہیں ہوا بلکہ اشرف المسجد سے فاتحہ پڑھکر واپس چلا آیا کہ بزرگوں سے سنا تھا۔ 

باادب بانصیب بے ادب بے نصیب 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(کیاشیطان کے کہنےپر عمل کرنا ضروری ہے؟)

        بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ حاضری چلتی ہے اور شیطان الٹی سیدھی باتیں بکتا ہے لوگ اسے شریعت سمجھ لیتے ہیں اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں جب کہ بعض  کام ایسے ہوتے ہیں جو شرعاََ ناجائز و حرام ہوتے ہیں اور بعض کفر مثلاََ شیطان نے کہا کہ آج مزار شریف کا چکر لگاؤ تو لوگ مزار کے گرد چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں جب خانۂ کعبہ کے علاوہ کسی بھی قبر یا مزار کا طواف نہیں کر سکتے کہ شریعت مصطفیٰﷺ میں منع ہے۔ (ماخوذ ازافتاویٰ رضویہ شریف)

        مگر لوگ مانتے نہیں کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ شیطان کے کہنے پر اس تالاب میں نہاتے ہیں جس کو بیٹھکا کہتے ہیں جب کے مزار شریف کے ارد گرد جو مکانات ہیں ان سب کا اور بیت الخلاء کا پانی اسی تالاب میں گرتا ہے ۔ افسوس صد افسوس کی نیر شریف کے پانی کو چھوڑ کر (جس میں آب زمزم کا پانی ملایا گیا جو مریضوں کے لئے شفاء ہے )اس گندے تالاب میں نہاتے ہیں جو ناپاک ہے کچھ لوگ تو بلائی بی بی جا کر وہاں کے تالاب میں نہاتے ہیں جبکہ وہاں کا بھی پانی گندہ ہے(معاذ اللہ)بعض لوگ کمال پنڈت مندر پر جا کر گھنٹہ بجا تے ہیں ،اور پوجا کر تے ہیں اور شیطا ن کے کہنے پر وہاں بھی چکر لگا تے ہیں جبکہ یہ کفر ہے۔بعض لوگ شیطان کے کہنے پر ماں باپ بھا ئی بہن سے رشتہ توڑدیتے ہیں ،پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تعلّق ختم کر دیتے ہیں، بعض لوگ جھگڑا لڑائی بھی کر لیتے ہیں جسکی وجہ سے تھا نہ کورٹ کچہری جانا پڑتا ہے،جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اس کے باوجود بھی لوگ شیطان کی باتوں کو مانتے ہیں۔

 اے نبی کریم  ﷺکے غلامو!و اسلام کی مقدس شہزادیو ! ہوش میں آؤ عقل سے کام لو ورنہ کہیں کے نہ رہ جاؤ گے ۔ 

نہ خداہی ملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے 

        ٹھیک یہی ہوگا کہ دنیا تو برباد ہو جائے گی اور آخرت بھی لہٰذا اے نبی ﷺکے غلامو!و اسلام کی مقدس شہزادیو ! جب شیطان کوئی بیان دے (خواہ وہ کہے کہ میں مؤکل ہوںیا جن ہوں)تو اس کو غور سے سن لو پھر کسی عالم سے پوچھ لو کہ یہ شریعت کے خلاف تو نہیں ہے اگر شریعت کے خلاف ہے تو اس کا کہنا نہ مانو اور اگر شریعت کے دائرے میں ہے تو اس کو کر ڈالو کہ اس میں فائدہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(غسل شریف)

 حضور سرکار مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ و آپ کے بھانجے الحاج عبد الرزاق نور العین رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مقدسہ کو عطر گلاب کے پانی اور کینوڑے سے دھویا جاتا ہے اور وہ پانی حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے کہ مریضوں کے لئے شفاء ہے اور شیٰطین کے لئے زہر ہے وہ پانی آسیب زدہ کو پلایا جائے تو آسیب ختم ہو جائے اس پانی کو حاصل کرنے کے لئے غسل شریف سے پہلے گلاب کا پانی خرید کر لحد خانہ میں جمع کر دیں اور رسید لے لیںلیکن خیال رہے کہ جب لیں تو دیکھ بھال کر لیں پھر جب غسل شریف ہو جائے تو صبح رسید لیکر لحد خانہ میںجائیں (جہاں جمع کئے تھے)اور جتنا باٹل جمع کئے تھے وہ حاصل کر لیں پھر حفاظت سے رکھ کر گھر لے آئیں ۔

غسل شریف کس تاریخ میں ہوتا ہے؟:۔اس کے لئے کو تاریخ مقرر نہیں ہے بلکہ سجادہ نشین حضرت علامہ الشاہ سید فخرالدین صاحب قبلہ و سید محمد محی الدین صاحب قبلہ کی مرضی سے تاریخ مقرر کیا جاتا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ عید اور بقرعید کے درمیان (بیچ)غسل شریف ہوتا ہے جمعرات دن گزار کر شام میں خطاب ہوتا ہے جس میں تمام علماء و شعراء کی تشریف آوری ہوتی ہے اس فقیر قادری واحدیؔکو بھی حاضری دینے کا شرف حاصل ہو تا ہے اور پھر تقریر کرنے کا مو قعہ بھی ملتا ہے دعا ہے مولیٰ کریم ہر سال اس مجلس میں شرکت کی سعادت نصیب فرمائے (آمین)

        دو،تین بجے تک یہ مجلس چلتی ہے پھر سجادہ نشین کا آخری خطاب ہوتا ہے اور عوام و خواص کے لئے حضرت دعا کرتے ہیں اسی رات میں ۲ ؍بجے کے بعد حضور کے مزار مقدسہ کو (اسی پانے سے جو عوام جمع کرتے ہیں )غسل دیا جاتا ہے اس میں صرف سجادہ نشین کے اہل و عیال ہوتے ہیں پھر اس کے بعد عوام مٹی کے گھڑے میں نیر شریف کا پانی بھر کر مزار مقدسہ پر حاضر ہوکر مزار کے باہری حصہ کو غسل دیتے ہیں اور جو باہر سجادہ نشین کے مزارات ہیں انکو غسل دیتے ہیں ۔جس سے کافی بھیڑ ہوتی ہے یہاں تک کہ کئی گھڑے گر جاتے ہیں اور لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ لہٰذا اے میرے پیارے اسلامی بھائیو !جب بھیڑ ہو تو اوپر جانے کی کوشش نہ کرو جس سے لوگوں کو تکلیف ہو کہ مزار پر جاکر غسل دینا تمھارے ذمہ نہ فرض ہے نہ وا جب بلکہ مسلمان کو تکلیف سے بچانا واجب ہے لہٰذا بھلائی اسی میں ہے کہ اوپر نہ جائیں بلکہ نیچے ہی رہ کر دعا مانگ لیں اور امید رکھیں کہ حضور ہماری فریاد کو بھی سنیں گے اور فیضان سے مالا مال کریں گے۔پھر جب نماز فجر کا وقت ہو جائے تو نماز ادا کر لو بعض لوگ اوپر بھیڑ میں پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے نماز فجر قضا ہو جاتی ہے لہٰذا نما ز کا خاص خیال رکھیںکہ نماز چھوڑ کر آپ فیضان اشرف سے مالا مال نہیں ہو سکتے پھر صبح یعنی جمعہ کے دن صندل پوشی ہوتی ہے اور بعد نماز جمعہ غسل کا پانی لیکر زائرین اپنے اپنے گھر رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کے سفر کو کامیاب بنائے (آمین ) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(عرس اشرفی)

        سال میں ایک دفعہ اسلامی تاریخ کے حساب سے ۲۶؍ ۲۷؍۲۸؍محرم الحرام کو عرس ہوتا ہے ۔لیکن اصل تاریخ ۲۸؍محرم الحرام ہے کہ حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کا وصال ۲۸ محرم الحرام کو ہوا ہے اس تاریخ میں سجادہ نشین حضور کا خرقہ شریف پہن کر مزار شریف کے باہر چوکھٹ پر  تشریف لاتے ہیں عوام و خواص اس کی زیارت کے لئے پہلے سے موجود ہوتے ہیں صاحب سجادہ عوام و خواص کے لئے دعا کرتے ہیں پھر رخصت ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ اس لباس اور چھڑی کو بوسہ دیتے ہیں جب کہ یہ منع ہے کہ بھیڑ کافی ہوتی ہے ہر کوئی بوسہ دینے کی کوشش کرتا ہے جس سے لوگوں کو تکلیف پہونچتی ہے یہاں تک کہ صاحب سجادہ کو تکلیف ہو تی ہے راستہ چلنا دشوار ہو جاتا ہے لہٰذا ہر گز ہر گز ایسا نہ کریں بلکہ یہ خیال کریں کہ کہاں وہ پاک لباس پاک چھڑی جس کو حضور سید مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ کے جسم نے بوسہ دیا ہو بھلا ہم اس کو کیسے گنہگار ہاتھوں سے چھو سکتے ہیں پھر عوام کو دھکہ دیکر تکلیف پہونچانا خود صاحب سجادہ کو ایذا پہونچانا کیا یہ درست ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچاؤبتاؤ تو صحیح کہ صاحب سجادہ جو آل رسول سید ہیں ان کو تکلیف پہونچانے کے لئے شریعت کیسے اجازت دے سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر بندۂ مومن کو سمجھ عطا فرمائے ۔جہالت سے بچائے،شریعت مصطفیٰ ﷺ کا پابند بنائے ، شریعت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فر مائے ، خاتمہ ایمان پر فر مائے شیطان کے شر سے ،ظالموں کے ظلم سے،اور حاسدوں کے حسد سے محفوظ فر مائےآمین بجاہ سیدالمرسلین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(وضو کرنے کا طریقہ)

        وضو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نیت کرے پھر بسم اللہ پڑھ کر مسواک کرے اگر مسواک نہ ہو تو انگلی سے دانت ملے پھر دونوں ہاتھو ں کو گٹوں تک تین بار دھوئے پہلے داہنے ہاتھ پر پانی ڈالے پھر بائیں ہاتھ پر دونوں کو ایک ساتھ نہ دھوئے پھر داہنے ہاتھ سے تین بار کلی کرے اور داہنے ہاتھ سے تین بار ناک میں پانی چڑھائے پھر پورا چہرہ دھوئے یعنی پیشانی پر بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کے نیچے تک ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک ہر حصے پر پانی بہائے اور داڑھی کے بال و کھال کو دھوئے ہاں اگر داڑھی کے بال گھنے ہو تو کھال کا دھونا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین بار دھوئے انگلیوں کی طرف سے کہنیوں کے اوپرتک پانی ڈالے کہنیوں کی طرف سے نہ ڈالے پھر ایک بار دونوں ہاتھوں سے پورے سر کا مسح کرے پھر دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت تین بار دھوئے ۔

انتباہ: (۱)بعض لوگ چہرے کو دھونے میں لا پرواہی کرتے ہیں اور صرف آنکھ ، ناک ، گال، دھو لیتے ہیں اس طرح دھونے سے وضو نہ ہوگا بلکہ پورا چہرہ دھوئے کہ یہ وضو کا پہلا فرض ہے ۔ اگر ایک بال کے برابر دھونے سے رہ گیا تو وضو نہ ہوگا۔

 (۲)بعض لوگ دونوں ہاتھوں کو ملکر صرف تھوڑا سا پانی چلو میں لیکر ہاتھ ٹیڑھا کر لیتے ہیں اس طرح پورا ہاتھ نہیں دھلتا اور نہ ہر عضو پر پانی پہونچتا ہے اس طرح دھونے سے وضو نہ ہو گا کہ یہ دوسرا فرض ہے ۔

(۳)بعض عورتیں مسح کر نے کے بجائے سر سے دو پٹہ ہٹا کر اوڑھ لیتی ہیں اس طرح مسح نہ ہوگا،بلکہ چوتھائی سر کا مسح کرے کہ یہ تیسرا  فرض ہے 

(۴)بعض لوگ پیر کو رکھکر لاپر وا ہی سے پانی ڈال دیتے ہیں اس طرح وضو نہ ہو گا بلکہ پیر کو اٹھالیں کہ ایڑی کے نیچے پانی بہہ جائے اور انگلیوں کا خلال کرے تاکہ پانی ہر عضو سے بہہ جائے اگر ایک بال کے برابر دھلنے سے رہ گیا تو وضو نہ ہوگا کہ یہ چوتھا فرض ہے۔

(۵)دھونے سے مراد ہر اعضاء پر کم سے کم دو بوند پانی بہہ جانا ضروری ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(غسل کرنے کا طریقہ)

غسل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ  پہلے غسل کی نیت کرے پھر دونوں ہاتھ گٹوں تک تین مرتبہ دھوئے پھر استنجے کی جگہ خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو پھر بدن پر جہاں کہیں نجاست لگی ہو اس کو دھوئے پھر نماز کی طرح وضو کرے البتہ پیر نہ دھوئے ہا ں اونچی جگہ تخت وغیرہ پر نہاتا ہو تو پیر بھی دھل لے پھر بدن پر تیل کی طرح پانی چپڑے پھر تین مرتبہ داہنے مونڈھے پر اور تین مرتبہ بائیں مونڈھے پر پھر تین مرتبہ سر پر اور تمام بدن پر پا نی بہائے اس طرح کی پورا جسم بھیگ جائے پھر پیر نہ دھویا ہو تو الگ ہٹ کر پیر دھو لے۔ دھیان رہے کہ غسل میں تین چیزیں فرض ہیں ۔(۱)کلی کرنا (۲) ناک میں پانی ڈالنا(۳)پورے بدن پر پانی بہانا ۔

(۱) کلی اس طرح کرے کہ منھ کے ہر پرزے ہر گوشے ہونٹ سے حلق کی جڑ تک ہر جگہ پانی بہہ جائے اگر دانت میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہو جیسے گوشت کا ریشہ پان کی پتی وغیرہ تو اس کو چھڑانا ضروری ہے کہ بے چھڑائے غسل نہ ہوگا اور نہ نماز ہو گی۔

(۲) ناک میں پانی اس طرح چڑھائے کہ ہتھیلی پر رکھ کر ناک کے قریب لے جائے اور سونگھ کر اوپر چڑھائے کہ بال کے برابر بھی جگہ دھلنے سے نہ رہ جائے ورنہ غسل نہ ہو گا ۔ عورتیں ناک کان میں کیل وغیرہ پہنتی ہیں اس کا بھی خاص خیال رکھیں اور سوراخ میں بھی پانی پہونچائے اگر ناک میں بال ہو تو اس کا دھونا فرض ہے۔ اوراگر رینٹھ سوکھی ہو تو اسے بھی چھڑائے کہ اسکا چھڑانا فرض ہے،بغیر چھڑائے غسل نہ ہوگا۔

(۳)پورے بدن پر پانی بہانہ اس طرح کہ سر سے لیکر پاؤں کے تلوے تک ہر رونگٹے ہر پرزے پر پانی بہے اگر ایک بال کی نوک بھی دھلنے سے رہ گیا تو غسل نہ ہو گا ۔ 

انتباہ:بہت لوگ ناپاک کپڑے کو پہن کر غسل کرتے ہیں ۔مثلاََ احتلا م ہوا اور اسی کپڑے میں غسل کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ نہانے میں سب پاک ہو جائے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ پانی ڈال کر تہبند اور بدن پر ہاتھ پھیرنے سے نجاست پھیلتی ہے اور سارے بدن اور نہانے کے برتن تک کو نجس کر دیتی ہے ۔ اس لئے ہمیشہ نہانے میں بہت خیال سے نہانا چاہئے پہلے بدن سے اور اس کپڑے سے جس کو پہن کر نہانا ہے نجاست دور کر لے تب غسل کرے ورنہ غسل تو کیا ہو گا بلکہ اس تر ہاتھ سے جن چیزوںکو چھوئیں گے سب نجس ہو جائیں گی ۔ بعض لوگ نہاتے وقت گفتگو کرتے رہتے ہیں یہ بھی منع ہے یہاں تک کہ نہاتے وقت کلمہ درود شریف وغیرہ بھی نہ پڑھیں بلکہ خاموش ہوکر نہائیں بعض لوگ چڈھی پہن کر نہاتے ہیں اس طرح نہانا حرام ہے بلکہ مردکو گھٹنے سے ناف تک چھپانا فرض ہے اور عورتوں کو پورا جسم چھپانا فرض ہے۔ہاں غسل خانہ میں نہاتا ہو تو کوئی حرج نہیں بلکہ غسل خانہ میں ننگا بھی نہا سکتا ہے بعض عورتیں سر سے دوپٹے کو ہٹا کر مردوں کے سامنے نہاتی ہیں اس طرح نہانا حرام ہے(عامۂ کتب فقہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مزارات اولیاء پرعورتوں کا جانا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مزارات اولیاء پر عورتوں کاجانا کیسا ہے؟ اور اگر کو ئی عورت صحیح معنوں میں آسیب زدہ ہو تو کیا وہ جا سکتی ہے ؟

 المستفتی: محمدسلمان رضا واحدی 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب بعون الملک الوہاب

  سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پو چھ کہ عورتوں کا مزار پر جانا جائز ہے یا نہیں ؟ بلکہ یہ پو چھو کہ اس پر کس قدر لعنت ہو تی ہے اللہ تعالی کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک واپس آتی ہے ملا ئکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسول کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بنایا ۔(الملفوظ ص ۲۴۰؍ رضوی کتاب گھر دہلی)

فتاوی رضویہ شریف میں ہےکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں(عن ﷲ زوارت القبور)قبروں کی زیارت کو جانے والی عورتوں پراﷲ کی لعنت ہے۔( مسند احمد بن حنبل حدیث حسّان بن ثا بت    دارالفکر بیروت۳/ ۴۴۲)

اور فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم(کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الافزوروھا )میں نے قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، سن لو اب ان کی زیارت کرو۔( سنن ابن ماجہ ابواب الجنائز ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

علماء کو اختلاف ہو اکہ آیا اس اجازت بعد الہٰی میں عورات بھی داخل ہوئیں یا نہیں، اصح یہ ہے کہ داخل ہیں کما فی البحر الرائق مگر جو انیں ممنوع ہیں جیسے مساجد سے اور اگرتجدید حُزن مقصود ہو تو مطلقا حرام۔

اقول:(سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں میں کہتا ہوں) قبور اقرباء پر خصوصاً بحال قُرب عہد ممات تجدید حزن لازم نساء ہے او رمزارات اولیاء پر حاضری میں احدی الشناعتین کا اندیشہ یا ترک ادب یا ادب میں افراط ناجائز تو سبیل اطلاق منع ہے ولہذا غنیہ میں کراہت پر جزم فرمایا البتہ حاضری وخاکبوسی آستان عرش نشان سرکار اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم اعظم المندوبات بلکہ قریب واجبات ہے۔ اس سے نہ روکیں گے اورتعدیل ادب سکھائیں گے۔(فتاوی رضویہ جلد ۹؍ص۵۳۸؍ دعوت اسلامی )

ایک دوسری جگہ فرما تے ہیں اب زیارت قبور عورتوں کو مکروہ ہی نہیں بلکہ حرام ہے۔ یہ نہ فرمایا کہ ویسی کو حرام ہے ایسی کو حلال ہے، ویسی کو توپہلے بھی حرام تھا، اس زمانہ کی کیا تخصیص۔ مزید معلومات کے لئے ’’جمل النور فی نھی النساء عن زیارۃ القبور‘‘ کا مطالعہ کریں جو فتاوی رضویہ دعوت اسلامی جلد ۹؍ص ۵۴۲؍سے شروع ہے۔

مذکورہ بالاعبارت سے واضح ہو گیا کہ عورتوں کا مزارات اولیاء پر جانا ناجائز و حرام ہے لیکن اگر کو ئی عورت آسیب زدہ ہو تو بغرض علاج جاسکتی ہے جب کہ کسی اور طریقے سے ٹھیک نہ ہو جیسا کہ آج کل کے عاملین ہیں کہ روپئے کا سوال پہلے کرتے ہیں کام کچھ نہیں الاماشاء اللہ

پھر بہت سے غریب ایسے ہیں کہ پیسہ بھی نہیں دے سکتے تو اگر صحیح معنوں میں آسیبی ہے اور مزارات اولیاء پر جانے سے شفا مل رہا ہے جیسے کچھوچھہ شریف یا دیگر مزارات اولیاء سے لوگوں کو فائدہ پہونچتاہے تو شرعاً اجازت ہے کیونکہ یہ مجبوری ہے جیسے غیر محرم کو ستر دکھانا حرام ہے مگر بغرض علاج ڈاکٹر کو دکھانے کی اجازت ہے اور اس کا ثبوت قرآن کریم سے ہے ارشاد ربانی ہے(اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ‌  ۚ  فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا   اِثْمَ عَلَيْهِ  اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ)اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو نا چار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان ،سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۷۳)

یعنی اللہ تعالیٰ جل شانہ نے مردار،خون اور سور کا گوشت حرام فرمایا مگر ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جو کوئی نا چار ہو یعنی مجبور تو کھا سکتا ہے اس مقدار میں کی اس کی جان بچ جائے یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور نہ بغیر ضرورت یعنی خواہش سے کھائے یونہی وہ خواتین جو صحیح معنوں میں آسیب زدہ ہیں اور ان کا علاج کسی اور طریقے سے نہیں ہو پا رہا ہے تو وہ اتنے دن کے لئے مزارات اولیاء پر جا سکتی ہیں کہ انکی پریشانی دور ہو جائے مگر اس میں بھی شرطیں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

(۱)شوہر یا کسی محرم کے ساتھ ہوں ۔

(۲)بہتر عمدہ لباس میں نہ ہوں جس سے غیروں کا دل انکی طرف مائل ہو۔

(۳)بغیر زینت کے ہوں نہ کہ سنگار وغیرہ کرکے جانا جیسا کہ اکثر عورتیں کرکے جاتی ہیں ۔

(۴) مرد وعورت کا خلط ملط نہ ہو ۔

(۵)پردے کا مکمل انتظام ہو ۔

ان شرطوں کے ساتھ اگر کوئی عورت جاتی ہے تو بوجہ مجبوری رخصت یعنی اجازت ہے مگر یاد رہے کہ وہاں جاکر اپنی مرضی سے حاضری نہ لگائے یعنی مکر کر کے چلائے شور و گل کرے جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ اکثر عورتیں مکر کرتی ہیں اور جھوٹ بول کر بھائی رشتہ دار کو بدنام کرتی ہیں ۔ہاں اگر شیطان اوپر حاضر ہو کر کچھ چلائے تو کوئی بات نہیں مگر اس وقت بھی پردے کا مکمل خیال رکھا جائے۔

اور اگر کچھ نہ ہوا ہو یونہی حاضری لگانا عورتوں کو قطعاً جائز نہیں جیسا کہ اکثر عورتیں ہر جمعرات کو مزارات اولیاء پر حاضری لگاتی رہتی ہیں وہ بھی عمدہ عمدہ لباس پہن کر مکمل سنگار کرکے یہ شرعاً جائز نہیں جیسامذکورہ بالا عبارت سے ظاہر ہے۔واللہ اعلم بالصواب

کتبہ

مولانا تاج محمد حنفی قادری واحدی


واحدی لائبریری کے لئے کلک کریں 

(1)گستاخ رسول پر لعنت بھیجنا کیسا ہے؟ 

(2)حیات النبی ﷺ پر روشن دلیل 

हिन्दी रिसाला 

हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

فتاوی مسائل شرعیہ کے لئے یہاں کلک کریں

ہم سے رابطہ کریں


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads