AD Banner

{ads}

(شادی میں باجاہوتوکس صورت میں جانا درست ہے؟)

(شادی میں باجاہوتوکس صورت میں جانا درست ہے؟)

مسئلہ:- وہ کونسی صورت ہے شادی کی تقریب میں رنڈی نچوایا جائے  پھر بھی عالم کو  اس شادی میں شرکت کرنا واجب  ہے، 
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب

 اگر عالم کو یقین ہو کہ میرے شرکت، سے افعال قبیحہ رک جائے گا تو اسے جانا واجب ہے اور اگر جانتا ہے تو میرے شرکت سے باز نہ آئیں گے تو شرکت نہ کرے 
اسی طرح ایک سوال کے جواب میں حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
اگر یہ شخص جانتا ہے کہ میری خاطر ان لوگوں کو ایسی عزیز ہے کہ بحالت منکرات شرعیہ میں شرکت سے انکار کروں گا تو وہ مجبوراً نہ مممنوعات سے باز رہیں گے اور میرا شریك نہ ہونا گوارا نہ کریں گے تو اس پر واجب ہے کہ بے ترك منکرات شرکت سے انکار کرے۔

خزانۃ المفتین میں ہے:
*" رجل اتخذ ضیافۃ للقرابۃ اوولیمۃ اواتخذ مجلسا لاھل الفساد فد عارجلا صالحا الی الولیمۃ قالو ان کان ھذا الرجل بحال لوامتنع عن الاجابۃ منعہم عن فسقہم لا تباح لہ الاجابۃ بل یجب علیہ ان لایجب لانہ نھی عن المنکر،* 
ایك شخص نے اپنے رشتہ داروں اور قرابتداروں کے لئے عام دعوت طعام یا دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا اور ساتھ ہی کھیل تماشے لہو ولعب کی مجلس بھی فسادیوں کے لئے آراستہ کی اور خاندان سے غیر متعلق ایك نیك شخص کو بھی دعوت نامہ بھیجا ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ اگر وہ شخص اس دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے انھیں غلط قسم محفل آرائی اور بدکاری سے روك سکتا ہوں تو اس کے لئے اس دعوت کو قبول کرنا مباح نہیں بلکہ اس پر دعوت کو قبول نہ کرنا واجب ہے کیونکہ گناہ سے روکنے کا عمل اس کے لئے مقدم ہے۔
*( فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ خزانۃ المفتین کتاب الکراھیۃ الباب الثانی عشر مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ج (۵) ص (۳۴۳)*

اور اگر جانتا ہے کہ میری عزت وعظمت ان کی نگاہوں میں ایسی ہے کہ میں ساتھ ہوں گا تو وہ منکرات شرعیہ نہ کرسکیں گے تو اس پرواجب ہے وموجب ثواب عظیم ہے کہ شریك ہو۔ردالمختار میں ہے:
*" اذ ا علم انہم یترکون ذٰلك احتراما لہ فعلیہ ان یذھب اتقانی،* 
جب وہ جانتاہے کہ اس کے احترام کی وجہ سے وہ گناہ والے کام چھوڑ دیں گے تو اس پر ضروری ہے کہ وہاں جائے اور شرکت کرے۔ اتقانی۔
(ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ج (۵) ص (۲۲۲)

اور اگریہ دونوں صورتیں نہیں تو اگر جانتا ہے کہ جہاں کھانا کھلایا جائے گا وہیں منکرات شرعیہ ہوں گے اور برات والے کا وعدہ محض حیلہ ہی حیلہ ہے تو ہر گز نہ جائے۔

قال ﷲ تعالٰی: *فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ* 
ﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو اور مجلس نہ کرو۔
*( القرآن الکریم ۶ /۶۸ )*

اور ہدایہ میں ہے :
*" لو علم قبل الحضور لایحضرلانہ لم یلزمہ حق الدعوۃ،*
اگر جانے سے پہلے ہی اسے(منکرات شرعیہ کا) اعلم ہوجائے تو وہاں نہ جائے کیونکہ اس پر دعورت کا حق لازم نہیں ہوا۔
*(الہدایۃ کتاب الکراھیۃ مطبع یوسفی لکھنؤ ج (۴) ص (۴۵۳)*

اور کفایہ میں ہے:
*" لان اجابۃ الدعوۃ انما تلزم اذا کانت الدعوۃ علی وجہ السنۃ "*
اس لئے کہ دعوت قبول کرنا اس وقت لازم ہوتاہے جبکہ دعوت سنت کے مطابق ہو۔
(الکفایۃ مع الفتح القدیر کتا ب الکراھیۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ج (۸) ص (۴۵۰)

اور اگر واقعی ایساہی ہے کہ نفس دعوت منکرات سے خالی ہو گی اگرچہ دوسرے مکان میں لوگ مشغول گناہ ہوں تو شرکت میں کوئی حرج نہیں۔

قال تعالٰی *" وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ؕ"*

ﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے:کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ آٹھائے گی۔
*(القرآن الکریم ۶/ ۱۶۴ )*

غایت یہ کہ میزبان گنہ گارہ ہے پھر شرعا گنہگار کی دعوت ہے جبکہ وہ خود گناہ پر مشتمل نہ ہو، خزانۃ المفتین میں ہے:
*" ان لم یکن الرجل بحال لولم یجب لایمنعھم من الفسق لاباس بان یجیب و یعطم وینکر معصیتہم وفسقھم لانہ اجابۃ الدعوۃ واجابۃ الدعوۃ واجبۃ اومندوبۃ فلا یمتنع بمعصیۃ افترنت بہا "*
اگر کسی شخص کی ایسی پوزیشن ہو کہ کہ اگر یہ دعوت قبول نہ کرے تب بھی وہ گناہ اور نافرمانی سے باز نہیں آئیں گے۔تو پھر دعوت کی قبولیت میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں۔البتہ ان کے گناہ اور نافرمانی کا انکار کرے کیونکہ اس نے تو دعوت قبول کی(یعنی خود کوئی خلاف ورزی نہیں کی)اور دعوت قبول کرنا واجب ہے یا مستحب لہذا ایسی دعوت جس سے گناہ پیوست ہو ممنوع نہیں۔
(فتاوٰی ہندیہ بحوالہ خزانۃ المفتین کتاب الکراھیۃ الباب الثانی عشر مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ج (۵) ص (۳۴۳)
مگر عالم اگرجانے کہ میری اتنی شرکت پر بھی عوام مجھے متہم ومطعون کرینگے تو نہ جائے کہ مواقع تہمت سے بچنا چاہئے اور مسلمانوں پر فتح باب غیبت ممنوع ہے۔
"عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلا یقفن مواقف التہم ذکرہ الشرنبلالی وغیرہ۔

حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو کوئی ﷲ تعالٰی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ مقامات تہمت سے بچے،اس کو علامہ حسن شرنبلالی وغیرہ نے ذکر کیا۔
*(مراقی الفلاح شرح نورالایضاح مع حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتا ب الصلوٰ،ۃ باب ادراك الفریضۃ ص (۲۴۹)*

یونہی وہ عہد کرنے والے نہ جائیں کہ خلاف عہد معیوب ہے۔

قال تعالٰی *"وَاَوْفُوۡا بِالْعَہۡدِ ۚ اِنَّ الْعَہۡدَکَانَ مَسْـُٔوۡلًا "*

ﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے:(لوگوں!)وعدہ پورا کیا کرو کیونکہ وعدہ کے متعلق قیامت کے دن پوچھ ہوگی۔
*(القرآن الکریم ۱۷ /۳۴ )*
(فتاویٰ رضویہ  مترجم جلد ۲۱ صفحہ ٦٠٩ تا  ٦۱۱) 
واللہ تعالیٰ اعلم
۲۳ شعبان المعظم ۱۴۴۳ ھجری


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner