AD Banner

{ads}

قرض لیکر اپنی رضاسے زیادہ دیناکیساہے

 (قرض لیکر اپنی رضاسے زیادہ دیناکیساہے)

مسئلہ :- قرض کی واپسی کے وقت  قرضدار  اپنی خوشی سے زائد رقم دے تو لینا کیسا ہے؟ 

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب

اپنی خوشی سے دے تو وہ سود کےحکم میں نہیں ہے یعنی لینا جائز ہےجیساکہ فتاوی فقیہ ملت جلد دوم صفحہ ۲۱۳ پر ہے : جس کو ادھار پیسے دیئے جائیں لوٹاتے وقت اگر وہ بغير مطالبہ کے اضافہ کے ساتھ دےتو جائز ہے۔بشرطیکہ قرض کا روپیہ دینے کے بعد زیادتی الگ سے دے اور عادۃ وہ معہود نہ ہو۔

حدیث شریف میں ہے: عن جابر بن عبداللہ قال اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان لی علیہ دین فقضانی و زادنی"* یعنی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔فرماتے ہیں کہ"میں حضور کے پاس آیا میرا کچھ قرضہ حضور کے ذمہ تھا حضور نے اسے ادا فرمایا اور زیادہ دیا۔*(بخاری شریف جلد اول صفحہ ۳۲۲)

اور اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں:*"ان المستقرض اوفاہ و زاد من عند نفسہ تکرما زیادۃ ممتازۃ منحازۃ کیلا تکون ھبۃ مشاع فیما یقسم فھذا جائز لا باس بہ بل ھو من باب ھل جزاء الاحسان الا الاحسان"* یعنی قرض لینے والے نے قرض ادا کیا اور اپنی طرف استحسانا کچھ ایسا زیادہ دیا جو الگ ممتاز ہو(یہ اس لئےکہ قابل تقسيم شئ میں ہبئہ مشاع نہ ہوجائے)تو جائز ہے۔اس میں کچھ حرج نہیں بلکہ اس قبیل سے ہےکہ احسان کا بدلہ کیا ہے سوا احسان کے۔

(فتاوی رضو یہ جلد ہفتم صفحہ ۱۹۲)واللہ تعالیٰ اعلم

۱٤ شوال المکرم ۱۴۴۳ ھجری


ذہنی آزمائش گروپ 

فتاوی مسائل شرعیہ 

اردوہندی میں کمپیوژ کرانے و اردو سے ہندی میں ٹرانسلیت کے لئے اس پر کلک کریں

واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں 

हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner