AD Banner

{ads}

سوانح مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے اشرف زمانہ زمانہ مدد نما 
درہا ئے بستہ راز کلید کرم کشا

اشرف نہنگ دریا دریا بسینہ دارد 
دشمن ہمیشہ پر غم با ذکر تو دوست دارد


الا ان اولیآء اللہ لا خوف علیہم و لا ھم یحزنون

سوانح مخدوم اشرف 

رضی اللہ عنہ



ازقلم
خلیفۂ حضور ارشد ملت 
حضرت مولانا تاج محمد قادری واحدی
مقام رضا گا ئیڈیہ پوسٹ چمرو پور تحصیل اترولہ ضلع بلرام پوریوپی(الہند)



ناشرین
اراکین مسائل شرعیہ 
----------------------------------------------------

(نظر ثانی)

 عمدۃالمدرسین حضرت مفتی محمد معین الدین صاحب قبلہ دامت برکا تہم العالیہ
صدر المدرسین دارالعلوم اہل سنت حشمت العلوم گائیڈیہہ 

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم 

اما بعد !زیر نظر رسا لہ سوانح مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ عزیزم مولانا تاج محمدقادری واحدیؔ سلمہٗ القوی نے پیش مصروفیات کے سبب مکمل پڑھ نہ سکا البتہ متفرق مقامت سے دیکھا بہت عمدہ رسالہ ہے اس سے قبل بھی موصوف کے کئی رسالے دیکھنے کو ملے ۔موصوف پر بے شک حضور سید مخدوم اشرف و گیارہویں صدی کے مجدد میر عبد الواحد بلگرامی کا فیض و کرم ہے(رضی اللہ تعالی عنہما)
     دعا ہے مولیٰ عز و جل نبی رؤف رحیمﷺ کے صدقہ و طفیل میں اس رسالہ کو قبول فر مائے اور موصوف کے علم وعمر میں برکتیں عطا فر مائے اور یہ رسالہ ذریعہ نجات بنائے نیز دین کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا فر مائے (آمین) بجاہ حبیبہ الکریمﷺ
فقط دعاگو و دعا جو
 محمد معین الدین خاں رضوی ہیم پوری
خادم دارالعلوم اہل سنت حشمت العلوم گائے ڈیہہ اترولہ ضلع بلرامپور (یوپی)
 ۱۰؍جمادی الآخر ۱۴۳۵ھ
----------------------------------------------------

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علیٰ اشرف الانبیاء والمرسلین و علی اٰلہ الطیبین الطاہرین وجمیع الاولیاء امتہ الذین اہتدو والی سبیل النجاہ والیقین۔

اما بعد!گلشن اسلام میں جن اولیاء کرام نے اپنی لافانی کارناموں کی بدولت بقائے دوام حاصل کیا ہے ان میں قدوۃ الکبریٰ تارک السلطنت امیرو کبیر سید اشرف جہانگیر سمنانی نور بخشی قدس سرہ کا اسم گرامی سر فہرست ہے ۔ 

ولادت

آپ کے والد سلطان سید ابراہیم سمنانی ایران کے فرما ںروا تھے ان کا دربار فضلاء عصر و علمائے وقت سے آباد تھا خود سلطان ایک صوفی مشرف بادشاہ تھے آپ زہد و تقویٰ میں کامل تھے بیٹے کی آرزو تھی ایک شب خواب میں حضور ﷺکے جمال جہاں آرا سے سر فراز ہوئے آپ  ﷺ نے دو فرزند کی بشارت دی اور فر مایا ایک کانام محمد اشرف اور دوسرے کا نام محمد اعرف رکھنا ۔ اشرف اورنگ صوری و معنوی ہوگا چنانچہ ۷۰۸ ہجری میں بوقت صبح صادق خورشید معرفت طلوع ہوا جو بعد کو اشرف الملت والدین سید محمداشرف جہانگیر سمنانی نور بخشی کے نام سے مشہور ہوئے ۔

نسب نامہ

آپ حسینی سید ہیں آپ کا نسب نامہ یہ ہے سلطان سید محمد اشرف نور بخشی ابن سلطان سید ابراہیم نور بخشی ابن سلطان سید عماد الدین نور بخشی ابن سلطان سید نظام الدین علی شیر ابن سلطان سید ظہیر الدین ابن سید سلطان تاج الدین بہلول ابن سید محمود نور بخشی ابن سید مہندی ابن سید کمال الدین ابن سید جمال الدین ابن سید حسن شریف ابن سید ابو محمد ابن سید ابو موسیٰ علی ابن سید اسمٰعیل ثانی ابن سیدابو حسن محمد ابن سید اسمٰعیل اعرج ابن سیدنا امام جعفر صادق ابن سیدنا امام محمد باقر ابن سیدنا امام زین العابدین ابن سیدنا امام حسین ابن سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم و فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہم اجمعین)بنت حضور محمد رسول اللہ  ﷺ 

تعلیم وتر بیت

  جب سرکار سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی عمر شریف ۴؍ سال ۴ ماہ کی ہوئی یعنی ۷۱۲ ھ میں حضرت العلام حضرت عماد الدین تبریزی نے رسم ِ،،بسم اللہ ،، کے فرائض انجام دیئے دوسرے دن آپ کے والد گرامی سید ابراہیم نور بخشی رضی اللہ عنہ نے اپنے معتمد خاص اور وفا شعار خادم شیخ نصر الدین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے شیخ معین بابا حسین خادم کے ساتھ استاذ العلماء حضرت علاء الدولا سمنانی کے مکتب میں جانے کا اذن دیا ۔ پھر جب سرکار سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک ۷ سال کی ہوئی یعنی ۷۱۵ہجری میں قرآن کریم ۷ قرأت میں حفظ کر لیا اور جب ۱۴؍ سال کی عمر ہوئی یعنی ۷۲۲ ؁ھ میں اس وقت کے تمام علوم و فنون میں دسترس حاصل کر لیا منقولات و معقولات کے علاوہ فن سپہ گری ،شہسواری، تیراکی ،تیر اندازی وغیرہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

عبادت الٰہی

متذکرہ تمام خوبیوں کے ساتھ،ساتھ حضور سید مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ کے دل میں عبادت الٰہی کا بے حد شوق اور جذبہ تھا آپ کے ذہانت اور جو دتِ طبع کایہ عالم تھا کہ ایک طرف عبادت الٰہی کا ذوق و شوق تو دوسری طرف امور حکومت میں بھی دلچسپی کا لینا یہ دونوں باتیں متضاد ہیں اور وہ بھی ایک کمسن اور نوجوان شخص کے دل ودماغ میں ایک وقت اکٹھا ہوں بڑے حیرت کی بات ہے۔ حضور سید مخدوم اشرف کا یہ حال تھا کہ تمام مصروفیات کے باو جود وقت نکال کر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے آپ کی نوجوانی کا ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ شہر سمنان سے متصل ایک پہاڑی کے غار میں آپ مصروف عبادت تھے آپ نے دیکھا کہ آپ کی والدہ ماجدہ تشریف لائی ہیں اور ارشاد فر ماتی ہیں کہ اشرف مستقبل قریب میں عِنان حکومت تمھارے ہاتھوں میں آنے والی ہے اور اگر امور حکومت سے تمھاری بے رغبتی کا یہی عالم رہا تو تم کس طرح سے شہنشاہی کے فرائض انجام دوگے یہ الفاظ جیسے آپ کی سماعت میں ٹکرائے تو آپ نے اپنی نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا اور غصہ کی حالت میں یہ ارشاد فرمایا تو میری ماں ہرگز نہیں ہو سکتی کیوں کہ میری والدہ مجھے غافل کرنے کی سعی کبھی ہر گز کر ہی نہیں سکتی تو یقینا دیتا ہے جو اپنے مکر و فریب میں گرفتار کرکے یاد الٰہی سے بیگانہ کرناچاہتی ہے۔آپ کے ان الفاظ کو سن کر وہ ہیولہ بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا اے اشرف میں واقعی دیتا ہوں اور اپنے فریب میں اسیر کرنا چاہتی تھی لیکن تم جیت گئے اور میں ہارکر شر مندہ و پیشما ہوں۔

تخت نشینی

جب حضور سیّد مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک ۲۲؍سال ہوئی یعنی۷۲۹ھ میں تو  آپ کے والد سلطان سید ابراہیم نور بخشی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہو گیا (اس میں اختلاف ہے بعض مؤرخین نے لکھا ہے   ۲۳؁ھ میں جب کہ آپ ۱۵؍سال کے تھے )اصول و ضابطہ کے مطابق تاج شاہی آپ کے سر کی زینت بنا اور عنان حکومت آپ کے ہاتھوں میں آئی عارف با اللہ والدین کی آغوش تر بیت اور فیضان نظر نے آپ کی زندگی کو کچھ اس اندازسے مزین اور مکمل کر دیا تھا چند سال میں آپ کے کار حکومت اور عدل و انصاف کا چرچہ چہار سو ہونے لگا سرحد اور دور دراز علاقوںسے عوام دربار جو کہ دُربار تھا اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کی تکمیل و خوشہ چینی کے لئے جوق در جوق آنے لگے جو بھی آتا آپ کی سخاوت سے فیضیاب ہوتا اور دلی مراد بھر کر واپس ہوتا۔آپ کی سپاہیانہ صلاحیت علم و دوستی شجاعت و سخاوت سے متعلق آج کا مؤرخ حیران ہے کہ اس کمسنی میں امور حکومت کا اس خوش اسلوبی سے کیسے اور کیوں کر ممکن ہوا۔

     آپ کی سلطنت سے مغلوں کی حکوت کی سرحدیں ملتی تھیں مغل بہت شر پسند اور جنگ جو قوم تھی آپ کی کم عمری سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے آپ کی حکومت  سرحد کی طرف اپنی فوج کو پیش قدمی کا حکم دیا مخبروں نے انکی اس نازیبا حرکت کی خبر آپ تک پہونچائی آپ نے مجلس مشورات طلب کی وزراء اور فوجی عہدہ داروں نے ایک زبان ہوکر مشورہ دیا کہ ایک لشکر جرار آزمودہ اور تجربہ کار جرنیل کی سرکردگی میںفوری طور پر روانہ کیا جائے ۔ لیکن آپ نے اس مشورہ کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بہ نفس نفیس خود اس جنگ میں شرکت کروں گا ۔ چنانچہ ایک لشکر لیکر آپ سمنان کی فضیل سے باہر نکل پڑے دشمنوں سے مقابلہ ہوا گھمسان کا رن پڑا کشتوں کے پشتے لگ گئے ہزاوروں مغل وصل جہنم ہوئے اورہزاروں زنجیر میں جکڑ کر سمنان لائے گئے جنھیں آپ کے لطف و کرم نے آزاد کرنے کا حکم دیا ۔

    حکومت کے بار گراں کے باوجود مشائخ اور صوفیائے کرام کے اوراد وظائف اور طریقہ سنن و نوافل میں فرق نہیں آنے پایا تھا ایک رات حضرت خضر علیہ السلام نے آپ سے فرمایا کہ ابھی آپ کو سلطنت کا کام کرنا ہے لیکن مجمل طریقہ پر اسم مبارک اللہ کے معانی کا ملاحظہ بلا واسطہ لسان اپنے قلب کرتے رہو۔

ترک حکومت

     بچپن ہی سے حضور سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ کی طبیعت سلوک کی فرط مائل تھی اور اسی وقت سے کثرت نماز کے خو گر تھے یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر خواب میں اولیائے کاملین و بزرگان دین کی زیارت سے مشرف ہوتے تھے ۔اور آپ عالم رویا ہی میں ان سے فیوض وبرکات حاصل کرتے رہے آخر کار ایک شب خواب میں دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام فر ما رہے ہیں کہ اگر سلطنت الٰہی مقصود ہے تو ہندوستان جاؤ اور اس دنیاوی سلطنت سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کرو اس خواب اور ملاقات نے دل ناصبو رکو سکون بخشا صبح میں اشغال ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد والدہ ماجدہ کی بارگاہ میں سلام کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے اور اپنے خواب کو ظاہر کرتے ہوئے سفر کی اجازت طلب کی آپ کی والدہ نے ارشاد فرمایا:اے میرے بیٹے ! تمھارے وجود میں آنے سے قبل خواجہ احمد یسوی کی روحانیت نے مجھے آگاہ کیا تھا کہ تیرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے نور ولایت سے دنیا منور ہوگی اب و ہ وقت آگیا ہے مبارک باد میں نے اپنا حق بخشا اور تجھے خدا کے سپرد کیا۔

    حیات مخدوم اشر ف کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر ۲۵ سال تھی ، یعنی ۷۳۳ھ جبکہ لطائف اشرفی میں ہے کہ اس وقت آپ کی عمر ۲۳ سال تھی یعنی ۷۳۱ھ (تاریخ میں اختلا ف ہے) بہرحال حضو ر سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اﷲ عنہ نے والدہ ماجدہ کی اجازت پانے کے بعد تخت و تاج لشکر و سپاہ سب اپنے بھائی سید ا عرف کو سپرد کیا اور ہندوستان کی طرف چلنے کا قصد کیا ۔ پھر آخری مرتبہ ماں کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے۔ 

    ماں نے لباس صوفیانہ و درویشا نہ دیکھ کر بے اختیار بلائیں لینے لگیں اور بول اٹھیں بیٹے! میری یہ خواہش تھی کہ قصر شاہی کو اس انداز سے الوداع کہو جو شاہان سمنان کا طریقہ رہا ہے۔ چنانچہ آپ بارہ ہزار سپاہی اور گھوڑے خچر شتر اور ہاتھی اپنے ہمراہ لے کر سمنان سے روانہ ہوئے۔ تین منازل طے کرنے کے بعد لشکر و سپاہ کو واپس کر دیا پھر ماء النہر ہوتے ہوئے بخارا ۔ بخارا سے سمر قند پہنچے۔ یہاں تک کچھ گھوڑے آپ کی سواری میں تھے۔ لیکن آپ کو گھوڑوں سے راحت کے بجائے رسوائی محسوس ہو رہی تھی اس لئے فقراء کو دے دیا۔

    پھر پیدل سفر کرتے ہوئے تمام اولیاء اﷲ سے فیوض وبرکات حاصل کر ہوتے ہندستان پہنچے ۔ اسی سفر بہار میں حضرت مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری رحمتہ اﷲ علیہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور تبرکات لے کر روانہ ہوئے۔ (کچھ کتابوں میں دوبارہ سفر ہند کے دوران نماز جنازہ پڑھنا رقم ہے)

بیعت و خلا فت

     مورخین کا بیان ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی پیر نے اپنے ہونے والے مرید کا یااستاذ نے اپنے ہونے والے شاگرد کا استقبال کیا ہو۔ اور اگریہ خوشگوار واقعہ کہیں وجود میں آیا بھی ہے، تو اس انداز کا نہیں جس طریقے اور فرط شوق و انسباط سے حاجی شاہ علاء الحق گنج نبات پنڈوی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے ہونے والے مرید سید مخدم اشرف کا استقبال کیا ہے۔ غوث العالم قدس سرہ کی حیات مقدسہ کے تعلق سے متعدد سیر کی کتابوں میں تحریر ہے کہ جوں جوں پنڈوہ شریف کی آبادی قریب آتی رہی آپ کی آتش اشتیاق تیز سے تیز ہوتی رہی۔ اور دوسری طرف آپ کے ہونے والے پیر ومرشد کی آتش انتظار بھڑکتی رہی اور اضطراب و بیقراری میں اضافہ ہوتا رہا۔ 

    مراۃ الاسرار میں ہے کہ جب حضور سید مخدوم اشرف سمنان سے پنڈوہ کے لئے روانہ ہوئے تو منزل تک پہنچنے میں جو وقت گزرا اس درمیان ستر مرتبہ ابو العباس حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت شیخ علاء الحق گنج نبات کو یہ خبر دی کہ سمنان سے ایک شہباز پرواز کر چکا ہے اور وقت کے تمام بڑے بڑے مشائخ کرام اس پر اپنا جال ڈالنے کے لئے انتظار میں ہیں۔ لیکن اسکو میں بڑی حفاظت سے آپ کی بارگاہ میں لا رہا ہوں جس کی تعلیم و تربیت اور حفاظت آپ کا فرض ہوگا۔ ابھی حضوررسیدمخدوم اشرف کاقافلہ قریب دوکوس دور تھااور آپ کے پیر و مرشد اپنے احباب اور شاگردوں کے ہمراہ استقبال کے لئے آبادی سے کافی دور تشریف لے گئے۔ اور سمت مغرب سے اٹھتے ہوے ٔغبار کی چادر چاک ہوئی تو دیکھا کہ ایک نورانی قافلہ چلا آ رہا ہے اور جب طالب و مطلوب نے ایک دوسرے کا مشاھدہ کیا تو حضور سید مخدوم اشرف نے سر نیاز پیر کے قدم ناز پر رکھ دیا۔

    مرشد جلیل نے انتہائی شفقت سے اس سر کو اپنی آگو ش تربیت میں رکھ لیااور ارشاد فرمایا اس محافہ (ڈولی) میں سوار میں ہو جاؤ ۔ آپ نے عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کے نقش قدم کو بوسہ دیتا ہوا نہ چل کر سواری میں چلوں ؟اور پیر و مرشد پیدل۔ شیخ علاء الحق نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا یہ سیادت کی رفعت و منزل کی شناخت ہوگی آپ نے برجستہ عرض کیا کہ عظمت پیر زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے پیر نے دوبارہ حضور سید مخدوم اشرف کی پیشانی کو بوسہ دیا۔اور آپ کو سواری میں بٹھا دیا(محافہ وہی تھا تو شیخ علاء الحق گنج نبات کو اپنے پیر و مرشدشیخ اخی سراج قدس سرہ سے ملا تھا)  جب خانکاہ معلی کے قریب پہونچے تو حضور سید مخدوم اشرف سواری سے کود پڑے اور مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حاضر ہوئے شیخ علاء الحق قدس سرہ نے تمام قسم کے کھانوں سے شکم سیر کیا بعدہ ایک پان اپنے ہاتھ سے کھلایا پھر اس سرکار میں بیعت کا جو طریقہ رائج تھا بیعت کی۔ حاضرین نے مبارک باد پیش کی پھر اپنے پیر و مرشد شیخ اخی سراج قدس سرہ کے عطا کئے ہوئے تبرکات عطا کیا اور خانوادہ  چشتیہ کے اوراد و ظائف اذکار اشغال کی تعلیم عطا کی اس وقت حضور سید مخدوم اشرف کی عمر ۲۵ یا ۲۷ سال تھی کہ سمنان سے پنڈوہ تک ۲؍سال لگا تھا۔

جہانگیر کا لقب

    حضور سید مخدوم اشرف رضی اﷲ عنہ اپنے پیرو مرشد کی خانقاہ میں تقریباً ساڑھے چھ سال تک مقیم رہے اور تمام علوم ظاہری و باطنی ریاضات و مجاہدات میں مشغول رہے لیکن ابھی تک خانقاہ سے آپ کو کوئی خطاب عطا نہیں ہوا تھا۔ آپ کے پیر ومرشد اس سلسلہ میں اکثر غور فرماتے رہے ۔ آخر شعبان المعظم کی پندرہویں شب میں آپ کو ا س بات کا القا ہوا کہ سید اشرف کو جہانگیر کے خطاب سے سرفراز کیا جائے۔ چنانچہ نماز فجر کے لئے جب آپ حجرے سے باہر تشریف لائے  اور نماز جماعت سے ادا کرنے کے بعد فارغ ہوئے تو تمام حاضرین نے آپ کو خطاب جہانگیر عطا ہونے پر مبارک باد پیش کی۔ حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اﷲ عنہ نے پنڈوہ شریف کا سفر تین یا چار بار کیا کل قیام مدت تقریباً بارہ سال ہے۔ 

ہند وستان کو وا پسی

     جب حضور سید مخدوم اشرف نے ۷۵۰ ہجری کے بعد زیارت حرمین شریفین کے واپسی پر پنڈوہ کا سفر کیاتو اس بار تین یا چار سال تک مرشد کی خدمت میں رہے۔ رخصت کے وقت ہادئی طریقت نے بشارت دی کہ تم کو مرتبہ غوثیت عطا ہوگا۔ اور اس وقت تم محمد نور (مخدوم زادہ) کے لئے قطبیت کی سفارش کرنا۔ اور حضرت کو وہ مقام بھی بتلا یا جہاں آپ کا مدفن مبارک ہو گا۔اور حضرت کو بنظر کشفی دکھایاکہ ایک گول تالاب ہے اور اس کے درمیان نقطہ تل کے برابر ہے اور ارشاد فرمایا کہ جس جگہ یہ تل ہے وہی تمھاری منزل خاک ہے۔ پنڈوہ سے رخصت ہو کر حضرت جونپور پہنچے تو اسی مقام کی جستجو شروع کی جو بنظر کشفی مدفن شریف کے لئے دکھلا یا گیاتھا۔ پھراپنے اصحاب کو ساتھ لیکر اودھ کی سمت کوچ کیا کئی مقامات دیکھے لیکن وہ جگہ نہ ملی یہاں تک کہ موضع بھڈوڈ میں پہنچے ملک محمود وہاںکے زمیندار ملازمت کے لئے آئے۔ انکے حال پر بہت عنایت فرمائی۔ انکے ہمراہ مقام مدفن کی تلاش میں نکلے ایک گول تالاب نظر آیا جس کو دیکھ کر حضرت نے فرمایا کہ مجھ کو پیر و مرشد نے یہی جگہ دکھائی تھی۔ ملک محمود نے عرض کیا کہ قطعہ آراضی بہت فضا ہے، چاروں طرف پانی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہاں ایک جوگی رہتا ہے اگر اس سے مقابلہ کی طاقت ہو تو یہاں قیام ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔
حضرت نے فرمایا: قُلْ جَآءَ الْحَقَّ وَزَ ھَقَ الْبَاطِلَ اِنَّ باَطِلَ کَانَ زَھُوْقَا۔ بے دینوں کی جماعت کا ہٹانا کیا دشوار ہے۔ آپ نے ایک خادم کو حکم دیا کہ اس شخص سے کہو کہ یہاں سے چلا جائے۔ (سورہ اسراء آ یت نمبر ۸۱)

    جوگی نے جواب بھیجا کہ میرے ساتھ ۵۰۰ ؍چیلے ہیں، مجھ کو قوت ولایت سے کوئی ہٹا دے تو خیر ورنہ مجھ کو نکالنا آسان نہیں ہے۔ آپ کا ایک مرید جن کا نام جمال الدین ہے (اسی دن مرید ہوئے تھے) حضرت نے فرما اے جمال الدین جاؤ اور اس کے استدراج کا جواب دوْ جمال الدین کو تامل ہوا آپ نے پاس بلایا اور اپنے منہ سے پان نکال کر دست مبارک سے انکے منہ میں رکھ دیا۔ پان  کے کھاتے ہی جمال الدین پر ایک عجیب حالت طاری ہو گئی اور وہ دلیری سے مقابلہ کے لئے چلے ۔ جوگی سے جاکر کہا  کہ ہم لوگ کرامت کا اظہار مناسب نہیں سمجھتے لیکن تمہارے ہر ایک استدراج کاجواب دینگے۔ جوگی نے سب سے پہلے یہ شعبدہ دکھلایا کہ ہر طرف سے کالی چیونٹیوں کا انبوہ جمال الدین کی طرف بڑھا۔ جمال الدین نے انکی طرف نگاہ کی تو وہ سب غائب ہوگئیں۔ اس کے بعد شیروں کا لشکر نمودار ہوا جمال الدین نے کہا کہ ۔ شیر میرا کیا بگاڑسکتے؟ سب شیر بھاگئے ۔ مختلف شعبدہ بازیوں کے بعد جوگی نے اپنی لکڑی ہوا میں پھینکی  جمال الدین نے حضرت کا عصا منگا کر ہوا میں اڑا دیا۔ وہ عصا اس لکڑی کو مار۔مار کر نیچے اتار لا یا۔ جوگی سب حیلوں سے عاجز ہوا تو عرض کیا مجھ کو حضرت کے پاس لے چلومیں ایمان لاؤںگا ۔ جماالدین ہاتھ پکڑ کر لائے اور قدموں پے گرا دیا۔ آپ نے کلمہ شہادت کی تلقین کی اسی وقت سب چیلے مسلمان ہوئے اور اپنے مذہب کی کتابیں جلا ڈالیں۔ حضرت تالاب کے کنارے ایک جگہ انکو عنایت فرمائی اور اپنے طریقے کے مطابق ریاضت و مجاہدات میں مشغول کر دیا۔ بعد ازاں درویشوں کو حکم دیا کہ اپنا اپنا سامان یہاں لاؤ سب اصحاب کو جگہ تقسیم کی تاکہ ہر ایک اپنے لئے جدا گانہ حجرہ بنا لے۔ ملک محمود نے چند ہی روز میں حضرت کے لئے وہیں خانقاہ بنوادی، اپنی اولاد اور خدام کو مرید کر ایا۔ گرد ونواح کے سادات بھی حاضر ہوکر حلقہ ارادت میں داخل ہوئے ۔ تین سال میں وہ تختہ گلزار ہو گیا۔اس علاقہ کا نام حضرت نے روح آباد رکھا۔خانکاہ کا نام کثرت آباد رکھا۔ اس کثرت آباد میں ایک مختصر حجرہ آپ کے لئے مخصوص تھا۔ وہ وحدت آباد کے لقب سے موسوم ہوا۔ 

    حضرت فرمایا کرتے تھی کہ آئندہ زمانہ میں اسی جگہ بڑی رونق ہوگی اکابر روز گارر جال الغیب اور بہت سے اولیاء اﷲ یہاں آئیں گے اور فیض اندوز ہونگے وہی مقدس مقام آج ضلع فیض آباد میں کچھوچھہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اور تالاب کے وسط میں مرقد مبارک زیارت گاہ خلا لٔق ہے۔ اﷲتعالی جامع الاوراق کو بھی اس بار گاہ کی حاضری نصیب فرمائی رب سے دعا کرتاہوں کہ مزید اس بارگاہ پر حاضری سے مشرف فرمائے۔ (اٰمین)

روضہ مبارک اور نیر شریف

     روضہ مقدسہ کی تعمیر کا کام غوث العالم کی حیات مبارکہ ہی میں ہوا۔ ملک الامرا حضرت ملک محمود رحمتہ اﷲ علیہ نے تعمیر کا کام اپنے ذمہ کرم پر لیا۔ روضہ کے اوپر ایک حجرہ تیار کیا گیا ۔ اس کا نام وحدت آباد رکھا گیا۔ اور روضہ کے چاروں طرف کے علاقہ کو کثرت آباد کہا گیا، جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے۔ نیر شریف کا تالاب پہلے مختصر تھا۔ حضرت نے تین طرف سے کھدائی کروائی۔ پھاوڑے (کدال) کی ضرب پر کلمہ طیبہ پڑھا جاتا تھا۔ ۷ مرتبہ نیر شریف میں آب زم زم ڈالا گیا۔یہ پانی پا گل مسحور اور آسیب زدہ کے لئے آب حیات کا کام کرتا ہے۔ حضرت عبد الرحمن چشتی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حوض (نیر شریف) کا پانی کبھی گندہ نہیں ہوتا اس سے آسیب زدہ شفا پاتے ہیں۔

الحاج نورالعین رحمۃاللہ علیہ

     حضرت سید الحاج عبدا لرزاق نور العین رحمۃ اﷲعلیہ حسنی سید ہیں۔ آپ کو حضور سید مخدوم اشرف نے ۷۶۴ ھ میں اپنے فرزندی میں قبول فرمایا۔ آپ حضرت کے خالہ زاد بہن کے فرزند تھے والد کا نام سید عبد الغفور حسن گیلانی تھا۔

    حضور کے وصال کے بعد ۸۰۸ ھ میں آپ سجادہ نشیں ہوئے۔ آپ قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ کچھوچھہ شریف کے سادات کرام انھیں کے نسل سے ہیں۔

گلبرگہ شریف و مرتبہ غوثیت

     گلبرگہ شریف دکن جو ہندوستان میں اپنی عمدہ آب و ہوا سر سبز و شادابی کے لئے اپنی مثال آپ ہے یہ برّ صغیر ہندوستان کا دوسرا کشمیر ہے۔ ہندوستان کی سیاحت کے دوران جب حضور سید مخدوم اشرف رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو اس مقام کی آب و ہوا آپ کو بہت پسند آئی اور ایک بہت ہی پرفضا مقام پر آپ کا قافلہ نور و نکہت خیمہ زن ہوا ۔آپ کی واپسی کے بعد اسی مقام پر حضرت بندہ نواز گیسودراز رحمۃ اﷲ علیہ کی خانقاہ تعمیر ہوئی۔

    شب کے وقت آپ کی قیام گاہ میں الحاج نور العین اور خادم بابا حسین کے علاوہ کسی اور کو حاضری کا حکم نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی شیخ کبیر کو بھی اس کی سعادت میسر ہو جاتی تھی۔ ایک شب عجیب واقعہ رونما ہوا کہ تمام اصحاب غر ق حیرت ہوگئے۔ کہ آپ نے شیخ الاسلام گجراتی کو اپنے خیمہ میں طلب فرمایا جب شیخ الاسلام حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ پرایک عجیب طرح کی وجدانی کیفیت طاری تھی۔ اس کیفیت کا بیان مشکل تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت شیخ الاسلام پر ایسی ہیئت طاری ہوئی کہ آپ فوراً خیمہ سے باہر چلے آئے۔ کچھ دیر تک اسی اضطراب میں تھے کہ آپ کی زبان مبارک سے یہ آواز نکلی ’’ الحمد ﷲ میسر آمد‘‘ (خدا کا شکر ہے مل گیا)  حضرت نور العین اور شیخ کبیر اور شیخ الاسلام حضرت کے اس جملہ پر محو حیرت تھے کہ اس کیفیت کا سبب کیا ہے۔ اور شکران نعمت کا مطلب کیا ہے لیکن کسی میں یہ جرآت نہ تھی کہ حضرت سے اضطراب کا سبب پوچھے۔ مگر نورالعین نے ہمت کرکے احوال دریافت کیا آپ نے فرمایا کہ جس غوث زمانہ سے میری پہلی ملاقات جبل الفتح میں ہوئی تھی۔آج وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اکابر روزگار اور اقطاب نامور میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ عہدہ اور منصب آپ کو ملے لیکن حق تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اس حقیر فقیر کے سر پے عزت کا تاج رکھا۔ (مرتبہ غوثیت عطاکی) بے شک اﷲ بڑا فضل کرنے والا ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے۔پھر فرمایا کہ غوث کی نماز جنازہ کی امامت ہمیشہ غوث ہی کرتا ہے ، لہٰذا میں نے انکی نماز جنازہ پڑھائی اور انکو دفن کیا ۔ وہاں موجودہ حاضرین نے آپ کو مبارکباد پیش کرنے کی سعادت حاصل کی اس روز سے آپ غوث العالم ہو گئے۔ یہ واقعہ ۱؍رجب ۷۷۰ ھ کا ہے۔

علاء الحق پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال

     حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اﷲ علیہ کے پیر و مرشد الحاج شاہ علاء الحق گنج نبات پنڈوی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال ۸۰۰ھ میں ہوا۔ غوث العالم ان دنوں ہندوستان کے شمال مغرب میں مقیم تھے آپ کے دل میں ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی مریدین اور دوسرے احباب و رفقا اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ دل ناصبور کی کیفیت زیادہ دیر چھپ نہ سکی اور لوگوں پر اسکا انکشاف ہو ہی گیا کہ غوث العالم کے پیر و مرشد اس دنیا ئے فانی میں نہیں رہے آپ نے فوراً پنڈوہ شریف جانے کا قصد فرمایا ایک قافلہ آپ کے ساتھ پنڈوہ جانے کے لئے روانہ ہوا۔پنڈوہ شریف میں اس وقت اکابرین روزگار اور عہدساز شخصیات موجود تھیں۔ پنڈوہ شریف میں یہ آپ کا آخری سفر تھا ۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے مخدوم زادے حضرت محمد نور قطب عالم کے سر پر سجادہ نشینی کی دستار باندھی اور اولیاء کرام کی خانقاہوں کے انداز پر رسم سجادگی ادا کی گئی اس وقت اولیاء واصفیاء کے ہجوم میں اس بات پر حجت چل رہی تھی کہ قطب بنگال کس کو منتخب کیا جائے حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنان ی قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ قطب بنگال میرے مخدوم زادے محمد نور قطب عالم ہیں۔ حاضرین میں کچھ تو خاموش رہے اور کچھ لوگوں نے اس کا ثبوت طلب کیا  آپ نے مخدوم زادے سے فرمایا سامنے والی پہاڑی کو حکم دو کہ وہ یہاں آجائے اور اسکی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا حضرت کے خادمِ خاص بابا حسین اس وقت وہاں موجود تھے بیان فرماتے ہیں کہ جیسے یہ الفاظ آپ کی زبان مبارک سے نکلے پہاڑی حرکت میں آگئی، حضرت نے فرمایا ابھی ٹھہر جا۔میں مخدوم زادے سے باتیں کر رہا ہوں۔ اس کے بعد مخدوم زادے (محمد نور قطب عالم)نے انگلی سے اشارہ کیا اور حکم دیا کہ پہاڑی آجا فوراً پہاڑی حرکت میں آ گئی حاضرین نے اپنی آنکھوں سے اسکا مشاہدہ کیا اور قطب عالم اتفاق سے قطب بنگال کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ 

ظاہری زندگی کا آخری دن

     ۸۰۸/ہجری میں قدوۃ الکبریٰ غوث العالم امیر و کبیر تارک السلطنت محبوب یزدانی حضور سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اﷲ عنہ نے زندگی کے آخری ایام میں جب ماہ محرم کا چاند دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔(جبکہ اس سے پہلے محر الحرام کے چاند کو دیکھتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے) حضرت نور العین نے آپ کی اس غیر معمولی خوشی کا سبب دریافت کیا تو ارشاد ہوا اسی ماہ مبارک میں میرے جدِّ کریم حضرت امام عالی مقام نے اپنے اہل خانہ و رفقاء کے ہمراہ کربلا کے سرزمین پر جام شہادت نوش کیا تھا۔ میری بھی یہی خواہش ہے کہ ماہ محر م میں رفیق ا علی سے وصال ہو تو بہت بہتر ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں علیل (بیمار ) ہو گئے اور آپ زیادہ تر خاموش رہنے لگے کوئی شخص شرعی مسائل پر کوئی بات کرتا یا مسئلہ دریافت کرتا تو آپ اسے جواب دے دیتے۔ لیکن کافی دیر بعد آپ ارشاد فرماتے کہ میں اس وقت ایک اہم کام میں مشغول ہوں شب عاشورہ میں آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ بیمار ہیں تو مریدین و معتقدین جوق در جوق بارگاہ عالی میں مزاج پرسی کے لئے چارو طرف سے حاضر ہونے لگے اسی درمیان حضرت شیخ نجم الدین اور مخدوم زادہ محمد نور قطب عالم پنڈوی بھی حاضر ہوئے۔ آپ نے غوث العالم کی صحت و تندرستی کی دعا فرمائی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ صحت و سلامتی مخدوم زادہ کو میسر ہو اب میرے اور محبوب کے درمیان کے حجابات ختم ہو رہے ہیں اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ دوست ۔دوست کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شربت جمال سے اپنی تشنہ کامی دور کرے دوسرے عشرہ میں آپ پر نقاہت کا زبردست غلبہ ہوا پھر بھی آپ مہمانوں سے ملتے رہے اور انکے سوالوں کے جواب سے ان کو مطمئن کرتے رہے وقت گزرتا گیا اور آپ اپنی آخری منزل سے قریب ہوتے رہے۔

    ۱۵ /محرم الحرام ۸۰۸ ہجری کواخیا رو ابرار آئے ۔ انھوں نے عرض کی کہ چند روز اور آپ دنیا میں قیام کریں توکیا حرج ہے؟آپ نے فرمایا کہ بارہ سال سے زمین و آسمان کی کنجی حق تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں دی ہے۔ لیکن میں ادب کی خاطر کوئی تصرف نہیں کیا۔ زندگی کا بھی مجھے اختیار دیاگیا ہے۔ جب تک چاہوں اس خاکدان سفلی میں پڑا رہوں ۔ لیکن اب دل نہیں چاہتا ۱۶محرم الحرام کو ابدال عیادت کے لئے آئے ۱۷ محرم الحرام کو اوتاد آئے اور پوچھا کہ آپ اپنا منصب کسے دیتے ہیں، فرمایا کہ ابھی تک کوئی شخص طے نہیں ہواہے۔ پھر تین دن تک یہ بے ہوشی طاری رہی البتہ نماز کے اوقات میں جسم میں حرکت آجاتی اور نماز ادا کر لیتے۔ ۲۰محرم سے ۲۳ تک دور و نزدیک سے لوگ آتے اور ہر ایک کو آپ نے بشارت و نوید سعادت سے سرفراز فرمایا۔ اس تین روز کے اندر اس قدر خلائق توبہ و ارادت سے مشرف ہوئی کہ اس کی تفصیل خدّام کو معلوم ہے۔ ۲۷ محرم الحرام ۸۰۸.ہجری کو فجر کے وقت امام غیب آئے آپ نے بائیں طرف کے امام کو پیش نماز بنایا اصحاب کو حیرت ہوئی کہ حضرت نے خلاف عادت دوسرے شخص کو کیوں امام کیا۔ نور العین نے کہا آج دنیا تاریک ہو جائے گی۔ مقتدی کو امام بنانا علامت ہے کہ اپنا مقام خاص اس کو سپرد کیا ہے۔ حضرت مقررہ وظائف ادا کئے اور نماز اشراق کے بعد مکان تشریف لائے ایک شخص کو دروازہ پر متعین کیاکہ خبردار کسی نا محرم کو اندر آنے مت دینا ۔ تھوڑی دیر کے بعد اخیارو ابرار آئے ابدال و اوتاد آئے ۔ احباب و اصحاب خاص جمع ہو گئے ۔ شیخ نجم الدین پہلے ہی سے موجود تھے۔ آپ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے جب تک تمھارے درمیان رکھا اب مجھ کو واپسی کا حکم ہے اس کی تعمیل کروں گا۔ کوئی شخص میرے جانے سے غمگین نہ ہو میں ہمیشہ تمہارے احوال کا نگراں رہوں گا اور ہمیشہ مجھ کو اپنے ساتھ پاؤگے۔ اپنا سجادہ نور العین کو تفویض کیا اور فاتحہ پڑھا اسکے بعد چند ورق سادہ لیکر قبر شریف میں اتر گئے۔ اور ایک رات دن اسی قبر میں رہے وہاں سے ایک نصیحت نامہ لکھ کر لائے (اسی کا نام بعد میں رسالہ قبریہ ہوا)

آپ کا وصال

     آپ۲۸؍محرم ۸۰۸ ہجری بروز سنیچر نماز فجر کے بعد اپنے خلفاء کو قریب بلایا۔ خصوصیت سے اِن خلفائے کرام کا نام لیا جاتا ہے ۔ حضرت نورالعین ،ملک الامراء ،ملک محمود ، شیخ محمد معین الدین ،بابا خادم حسین ،شیخ نجم الدین اصفہائی، شیخ محمد درِّیتیم ، شیخ ابوالمکارم، شیخ محمد ابو الوفاخوارزی، شیخ شمس الدین اودھی، اور بہت سے خلفاء واکابرین حاضر بارگاہ تھے۔ آپ نے بابا حسین خادم کو تبرکات کا بقچہ لانے کا حکم دیا۔ تبرکات کا بقچہ اور تمام کتابیں جس کا تعلق غوث العالم کی ذات اقدس سے تھا۔ تبرکات کے اس بقچہ میں چار خرقے تھے۔ جو کہ آپ کو چار مختلف بزرگان دین سے ملا تھا۔ ایک آپ کے پیر و مرشد الحاج علاء الحق پنڈوی سے ملاتھا دوسرا ولایت چشت کے شجادہ نشین سے ملا تھا، تیسرا شیخ الاسلام سے ملا تھا (جو کہ اس وقت ملک شام کے شیخ الاسلام تھے ، چوتھا حضرت جلال الدین نجاری جہانیا جہاں گشت سے ملا تھا۔ اس تمام خرقوں کوآپ نے اپنے جانشین اول الحاج نور العین رحمۃ اﷲ کو عطا فرمایا اور فاتحہ پڑھا۔ نماز ظہر کا وقت آ گیاکمزوری کی وجہ سے آپ نے نورالعین کو امامت کا فرض ادا کرنے کا حکم دیا۔ (اور خود مقتدی بن کر نماز ادا کی)نماز ظہر ختم ہوئی تو آپ کی حالت کچھ اور زیادہ خراب ہو گئی ۔ آپ اپنے بستر پر لیٹ کر آر ام فرمانے لگے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد آپ نے فورا قوالوں کو طلب فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے اشعار پڑھے جائیں۔قوالوں نے یہ شعر پڑھا :

گر بدست تو آمدہ است اجلم 
قدر  ضینہ  بما   جری   القلم 

آپ پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور قوالوں نے جب یہ شعر پڑھا    
   
سیر نبید جمال جا ن آ را 
جان سپارو نگار خنداں را 

 خوب تر زین دگرچہ باشد کار
یار خندان رودبجانب یار
     
تو آپ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے اور اسی حالت میں روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی۔انّا للّٰہ وَاِنّآ اِلیہ رٰجعُون
مولیٰ عزوجل کی بار گاہ میںدعا ہے مولی کریم اہل سنت والجماعت کے جملہ افراد کو حضور سیّد مخدوم اشرف جہا ںگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلا ئے اور پیر و مرشد حضور سیِّد سہیل میاںمد ظلہ العالی والنورانی کے صد قہ و طفیل خاتمہ ایمان پر فرمائے۔(اٰمین )بجاہ حبیبہ الکریم علیہ الصلاۃ والتسلیم

فقیر تاج محمدقادری واحدی ؔ

۳؍ربیع الاول ۱۴۳۵ھ 
مطا بق ۵؍جنوری  ۲۰۱۴ء بروز یکشنبہ(اتوار)
Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads