AD Banner

{ads}

( ارواح طیبہ سے استعانت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟)

 ( ارواح طیبہ سے استعانت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اسلام کی رو سے ارواح طیبہ سے استعانت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں اور شکریہ کا موقع دیں ؟ بینوا و توجروا عند الحساب   
المستفتی:۔ محمد فیروز خان سورت

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

  دینی ودنیوی اور روحانی اعتبار سے ایک دوسرے کی مدد کرنا اسلامی اقرار معاشرتی آداب واخلاق کا حصہ ہے اسلام نے اہل ایمان کو تلقین کی ہے کہ اسے اپنے مسلمان بھائیوں کی استعانت (مدد طلب کرنا ) کریں اور اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے مدد مانگنے کے جواز پر قرآن واحادیث شاہد ہیں ـ قرآن مجید برہان رشید میں اللہ سبحانہ وتعالی ارشاد فرماتا ہے(۱) وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى -وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ‘‘

  ترجمہ کنز الایمان :۔ اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو )( پارہ ۶ آیت ۲ سورۃ المائدہ )

( ۲) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳ )

  ترجمہ کنز الایمان :۔اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے ۔(پارہ ۲سورۃالبقرہ آیت ۱۵۲)

( ۳ ) یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ -فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ(۱۴)

  ترجمہ کنزالایمان :۔اے ایمان والو دین ِخدا کے مددگار ہو جیسے عیسٰی بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے۔( سورۃ الصف پارہ ۲۳ آیت ۱۴ )

( اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ ،،ترجمہ کنز الایمان / تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ ( پارہ ۶ سورۃ المائدہ آیت نمبر ۵۵ ) 

  علامہ احمد بن محمد الصاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تفسیر صاوی میں آیت ( ولا تدع مع اللہ الھاً اٰخر ) کے تحت لکھتے ہیں ( المراد بالدعاء العبادة وحینئذ فلیس فی الایة دلیل علی ما  زعمہ الخوارج من ان الطلب من الغیر حیا او میتا شرك فانه جھل مرکب لان سؤال الغیر من حیث اجراء اللہ النفع او الضرر علی یدہ قد یکون واجبا لانه من التمسک بالاسباب ولا ینکر الاسباب الا جحود او جھل ) 

   آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے لہذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا مردہ کچھ مانگنا شرک ہے خارجیوں کہ یہ بکواس جہل مرکب ہے کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع ونقصان دے ـ کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب سے ہے اور اسباب کا انکار نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل۔ ( تفسیر صاوی ج ۴ ۱۵۵۰ )

  صحیح مسلم وابوداؤد وابن ماجہ ومعجم کبیرطبرانی میں ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے حضور پر نور سید العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا مانگ کیا مانگتاہے کہ ہم تجھے عطافرمائیں، عرض کی میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور کی رفاقت عطا ہو، فرمایا بھلا اور کچھ، عرض کی بس میری مراد تو یہی ہے، فرمایا تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے،( قال کنت ابیت مع رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فاتیتہ بوضوئہ وحاجتہ فقال لی سل، ولفظ الطبرانی فقال یوما یاربیعۃ سلنی فاعطیک رجعنا الی لفظ مسلم فقال فقلت اسألک مرافقتک فی الجنۃ، قال اوغیرذٰلک ۔ قلت ہو ذاک، قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود  )

الحمدللہ یہ جلیل ونفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہر فقرہ سے وہابیت کش ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اَعِنِّیْ فرمایا کہ میری اعانت کر، اسی کو استعانت کہتے ہیں، یہ درکنار حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مطلق طور پر سَلْ فرماناکہ مانگ کیا مانگتاہے، جان وہابیت پر کیسا پہاڑ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضو رہر قسم کی حاجت روا فرماسکتے ہیں، دنیا وآخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں جب تو بلا تقیید وتخصیص فرمایا: مانگ کیا مانگتاہے۔ ( صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب فضل السجود و الحث علیہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۳ )( المعجم الکبیر عن ربیعہ بن کعب حدیث ۴۵۷۶ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۵ /۵۸ )

  حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں ازاطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ وتخصیص نکرد بمطلوبی خاص معلوم میشود کہ کارہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی تعالٰی علیہ وسلم ہر چہ خواہد وہر کراخواہد باذن پروردگار خود بدہد فان من جودک الدنیا وضرتہا  ومن علومک علم اللوح والقلم۔

   مطلق سوال کے متعلق فرمایا سوال کر جس میں کسی مطلوب کی تخصیص نہ فرمائی، تومعلوم ہوا کہ تمام اختیارات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دست کرامت میں ہیں، جو چاہیں جس کو چاہیں اللہ تعالٰی کے اذن سے عطا کریں، آپ کی عطا کا ایک حصہ دنیا وآخرت ہے اور آپ کے علوم کا ایک حصہ لوح وقلم کا علم۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الصلٰوۃ باب السجود وفضلہ فصل اول مکتبہ نبویہ رضویہ سکھر ۱ /۳۹۶)

   ایک روایت میں  حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مَروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ  وسلَّم فرماتے ہیں ( اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ) خیر اور حاجتیں طلب کرو نیک و خوبصورت چہرے والوں سے۔( معجم کبیر،ج۱۱،ص۸۱،حدیث:۱۱۱۱۰ )

  حضرت ابان بن صالح رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشادفرماتے ہیں اذا نفرت دابۃ احدکم او بعیرہ بفلاۃ من الارض لا یری بہا احدا، فلیقل: اعینونی عباد اللہ، فإنہ سیعان )جب تم میں سے کسی کا جانور یا اونٹ بیابان جگہ پر بھاگ نکلے جہاں وہ کسی کو نہیں دیکھتا (جو اس کی مدد کرے ) تو وہ یہ کہے اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو۔ تو بے شک اس کی مدد کی جائے گی ۔( مصنف ابن ابی شیبہ،ج۶،ص۱۰۳ )

  حضور اعلی حضرت فتاوی جمال کے حوالے سے فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں  شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری شافعی سے استفتاء ہو اکہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت مثلاً یا شیخ فلاں کہہ کر پکارتے ہیں اور انبیاء واولیاء سے فریاد کرتے ہیں اس کاشرح میں کیا حکم ہے؟ امام ممدوح نے فتوٰی دیا کہ انبیاء ومرسلین واولیاء علماء صالحین سے ان کے وصال شریف کے بعد بھی استعانت واستمداد جائز ہے(فتاوٰی جمال بن عمر مکی فتاوی رضویہ شریف قدیم )

  مذکورہ آیات سے اور احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز ہے خصوصاً پہلی آیت سے لہذا مصیبت کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے بندوں سے مدد مانگنا انبیاء ِکرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کی سنت ہے، یہ شرک نہیں اور اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ کے خلاف نہیں ۔معلوم ہوا کہ بندوں کی مدد کرنا وہ طریقہ اور طرز عمل ہے جو نہ صرف جائز بلکہ اسلامی ضابطۂ حیات کا لازمی تقاضا ہے استعانت واستمداد ( مدد طلب کرنا) کے اس عمل کو شرک قرار دینا اسلامی تعلیمات کے مکمل منافی ہےقرآن وسنت کی تصریحات کے مطابق انبیاء کرام اولیاء عظام سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا جائز ودرست ہے جبکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی اور ذاتی امداد تو صرف اللہ عزوجل ہی فرماتا ہے  یہ نفوس قدسیہ تو اللہ عزوجل کی عطا ہی سے مدد کرتی ہیں اور زندہ ہونے اور دنیا سے چلے جانے میں کوئی فرق نہیں یعنی انبیاء کرام واولیاء عظام زندہ ہوں یا دنیا سے بظاہر رخصت ہو جائیں دونوں صورتوں میں ان سے مدد طلب کرنا جائز ودرست ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان
الجواب صحيح  والمجيب نجيح
فقط محمد عطاء اللہ النعیمی



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner