AD Banner

{ads}

سوانح میر عبد الواحد بلگرامی


اللہ اللہ عزو شان و احترامِ بِلگرام
عبد واحد کے سبب جنت ہے  نام بلگرام

 بسم اللہ الرحمن الرحیم  
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْاتَّقُوا اللّٰہَ وَکُو نُوا مَعَ الصّٰدِقِیْنْ


سوانح میر عبد الواحد بلگرامی


ازقلم
خلیفۂ حضور ارشد ملت
حضرت مولانا تاج محمدقادری واحدیؔ 
مقام رضاگائیڈیہ پوسٹ چمروپور تحصیل اترولہ ضلع بلرام پور یو پی (الہند)


ناشر

اراکین مسائل شرعیہ

(تقریظ جلیل )

ناشر مسلک اعلیٰ حضرت ،حضرت علا مہ مو لا نا محمد علی واحدی صاحب قبلہ
صدر المدرسین الجا معۃالسبحا نیہ مفتا ح العلوم محمد پو رچندر دیپ گھاٹ گونڈہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم 
اما بعد ۔اللہ کے محبوب و مقبول بندوں کے حا لات و واقعات کا پڑھنا قرآن و حدیث کے بعد عظیم ترین مطا لعہ ہے ۔کیوںکہ انہیں نفو س قدسیہ نے اپنی زندگیوں کے ذریعے احکا مات قرآن و احا دیث کی عملی تصویر کشی فر ما ئی اولیاء کرام کی سیرت و حا لات زندگی کو جا ننے کے بعد میں ہما رے قلوب میں قدرتی طور سے ان بزرگ ہستیوں کے لئے محبت و عقیدت کے جذ بات ابھرتے ہیں ۔حدیث شریف میں ہے ۔عَنِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَا لَ جَآئَ رَجُلٌاِلَی النَّبِیِّ  ﷺ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ کَیْفَ تَقُوْلُ فِی رَجُلٍ اَحَبَّ قَوْمًاوَلَمْ یَلْحَقُ بِھِمْ فَقَا لَ الْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ۔متفق علیہ (مشکوٰۃ شریف باب الحب فی اللہ و من اللہ صفحہ ۴۲۶)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعا لی عنہ سے روا یت ہے فر ما یا کہ ایک شخص نبی کریم  ﷺ کی خد مت میں آیا عرض کیا یا رسول اللہ  ﷺ  اُس شخص کے بارے میں کیا فر ما تے ہیں جو کسی قوم سے محبت کرے اور ان سے ملا نہ ہو فر ما یا کہ انسان اس کے سا تھ ہو گا جس سے وہ محبت کرے ۔

جب سیدنامیر عبدالواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ نے محبوب خدا  ﷺ سے دیوا نہ وار محبت کی تو ہما رے لئے بر گزیدہ ہستی بن گئے اس طرح اگر ہم اولیاء اللہ و میر صاحب سے محبت کریں گے تو ہم بھی انشآء اللہ ان کے ساتھ ہو نگے ۔

  مقبول بار گاہ رسول دو جہاں سبع سنا بل شریف مصنفہ میر عبد الواحد بلگرا می رضی اللہ عنہ کو پڑھنے کے بعد حقیر واحدی کے قلب میں یہ خوا ہش ہو ئی کہ سا داتِ ما رہرہ مطہرہ کے مو رث اعلیٰ سلطان العا رفین میر عبد الواحد بلگرا می  رضی اللہ تعا لی عنہ کی سوا نح عمری پر ایک رسا لہ لکھوں مگر کثرت ِ کار اور ہجوم افکار کی وجہ سے یہ ارادہ ٹلتا رہا اور ارمان دل میں مچلتا رہا یہاں تک کہ عزیز القدر مو لا نا تاج محمد واحدیؔسے ایک مرتبہ سوانح سیدنامیر عبدالواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ پر گفتگو ہو رہی تھی کہ دوران گفتگو حقیر بر جستہ کہا کہ آپ سوانح میر عبد الواحد بلگرا می کو مرتب کیجئے تا کہ کم پڑھا لکھا غریب ،آدمی بھی اسکے ذریعے حضور کی سیرت و سوانح ،و کرامات ومراتب سے واقف ہو جا ئے  مو لا نا موصوف نے عزم مصمم کر لیا اور توکل علی اللہ یہ کام شروع کر دیا بحمد اللہ تعا لی و بکرم حبیبہ الاعلی صرف ایک ماہ کی قلیل مدت میں رسا لہ ھٰذا کو مرتب کیا ،پیش نظر رسا لہ ضخیم تو نہیں مگر جا مع مستند و معتبر ہے ۔

دعا ہے مو لی تعا لی اپنے حبیب صاحب لو لاک جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی  ﷺ  کے صدقہ و طفیل اس رسا لہ کو مقبول عوام و خواص فر مائے اور مو لا نا موصوف کوسیدنامیر عبدالواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ کے فیضان سے سرفراز فر ما ئے ، مزیددین کی خد مت کرنے کی تو فیق عطا فر ما ئے نیز حر مین شریفین کی زیارت نصیب فر ما ئے ۔آمین یا رب العلمین 
دعا گو 
حقیر محمد علی واحدی قادری
۵؍ ذالحجہ ۱۴۳۶ھ مطا بق ۲۱؍ ستمبر ۲۰۱۵ء

(نظر ثا نی )

ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علا مہ مو لانا محمدغزالی مصباحی صاحب قبلہ  دامت برکاتہم ا لعالیہ
استاذدارالعلوم اہلسنت حشمت الرضا جھلیہیا پوسٹ چمرو پور ،اترولہ، بلرام پور
نحمدہٗ و نصلی علی رسولہ الکریم 

      اللہ تعا لی نے انسان کی تخلیق فر ما ئی اسے دنیا کی نعمتیں عنا یت فر ما ئی اسکے اعضا ء وجوارح کو قوت بخشی تا کہ بندہ حق عبو دیت ادا کر سکے جیسا کہ خود خلاق کا ئنات ارشاد فرما تا ہے {وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون } یعنی ہم نے انسانوں اور جناتوں کو عبادت کرنے کے لئے پیدا کیا ۔

انسان کی تخلیق اس لئے نہیں ہو ئی ہے کہ جو وہ چا ہے کرے اور کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جا ئے اور اس کے بعد کچھ نہیں ہو نا ہے بلکہ مر نے کے بعد اسے رب ذوالجلال کے حضور جواب دینا ہے جیسا کہ وحدہٗ لا شریک ارشاد فر ما تا ہے {لیبلو کم ایکم احسن عملا }تا کہ ہم آزما ئیں کہ تم میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے ۔اب عمل کرنے کے لئے شیخ اور پیر کا مل کی ضرورت پڑتی ہے جو اس کی رہنما ئی کرے مگر افسوس کہ قوم اس معا ملے میں بہت دھو کہ کھا تی ہے اس کو پیر کی صحیح پہچان ہی نہیں ہو پا تی کہ کون اس لا ئق ہے اور کو ن نہیں ہے وہ تو جبہ ،دستار اور لفا فہ کو دیکھ کر فریفتہ ہو جا تی ہے لہٰذا اس باب میں بہت غور و فکر کی ضرورت ہے ۔شا ید اسی لئے مو لوی تاج محمدقادری واحدیؔ زید مجدہٗ نے اس رسا لے کو ترتیب دیا تا کہ قوم کی غلط فہمیاں دور ہو سکیں اور اس رسالہ میں انھوں نے بلگرام شریف کے سادات کرام کے حیات و خدمات پر بھی رو شنی ڈالی  جو کہ ہندوستان میں عرصۂ دراز سے دین وملت کی حنا بندی فر ما رہے ہیں رب ذوالجلال ان کا فیضان، عالم اسلام پر جا ری اور ساری فر ما ئے اور مو لوی موصوف کی محنتوں اور کا وشوں پر انہیں اجر عظیم عطا فر ما ئے ۔اٰمین بجاہ سید المر سلین صلوٰۃ اللہ علیہ واٰلہٖ اجمعین
محمد غزالی مصباحیؔ 

(کلمات دعا ئیہ)


 پیر طریقت رہبر راہ شریعت گل گلزار واحدیت نبیرۂ بادشاہ بلگرام مظہر جلال میرطیب حضرت العلام حضرت مولانا اولاد رسول عرف میر سید سہیل میاں قادری چشتی واحدی نا ئب سجادہ خانقاہ واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف ضلع ہردوئی
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم 
عزیزی مریدی مولوی تاج محمد واحدی سلمہ القوی کی کتاب بنام ’’سوانح میرعبد واحدبلگرامی رضی اللہ عنہ‘‘ کو کئی جگہوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ،ماشاء اللہ سلمہٗ نے عمدہ طریقے سے ترتیب دیا ہے،کتاب مطالعہ کے لائق خوب ہے۔ 
میری دعا ہے کہ مولیٰ تبارک وتعالی جل شانہ ان کی اس سعی جمیل کو قبول فرماکر مقبول بارگاہ انام فرمائے اور عزیزی مولوی تاج محمد کے قلم میں مزید تقویت عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلوۃ والتسلیم ۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔
 احقر العباد
   محمد سہیل واحدیؔ 


(کلمات نور )

شیخ طریقت رہبر راہ شریعت حامی اہل سنت مبلغ اسلام مصلح خاص و عام مظہر عرفان و حقائق مسند بادشاہ بلگرام  استاذ الحفاظ حضرت حافظ وقاری الحاج الشاہ آل رسول عرف میر سیدمحمد طاہر میاں
 سجادہ نشیں خانقاہ واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف ضلع ہردوئی ۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مولانا تاج محمد واحدیؔ کی کتاب مستطاب’’سوانح میر عبد واحدبلگرامی رضی اللہ عنہ‘‘ کا میں نے متعدد جگہوں سے ورق گردانی کرکے دیکھا خوب سے خوب تر پایا کتاب کافی عمدہ ہے بادشاہ بلگرام عارف باللہ سید میر عبد الواحد بلگرامی قدس سرہ السامی کی حیات پر انہوں نے اس کتاب کوترتیب دی ہے ۔ 
اللہ ان کی محنت شاقہ کو قبول فرمائے اور بزرگان دین کے فیوض و برکات سے مالامال فرمائے۔اور آخر میں دعا ہے کہ دارین کی سعادتوں سے سرفراز فرماکر خط و کتابت کا بہتر سے بہتر طریقہ و سلیقہ عطا فرماے۔آمین یا رب العالمین بجاہ طہٰ و یٓسین۔
دعاگو
فقیر محمد طاہر قادری واحدیؔ
   

( پیش لفظ)

لک الحمد یا اللہ (جل جلا لہ )
الصلوٰۃ و السلام علیک یا رسول اللہ  ﷺ
اسلام کے ایک نا مور عالم اورعظیم فلسفی حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کا فر ما ن ہے کہ صو فیا ہی اللہ کے راستہ پر چلنے والے ہیں انکی سیرت بہترین سیرت ہو تی ہے انکا طریقہ سب سے زیادہ صحیح اخلاق سب سے زیا دہ تر بیت یا فتہ اور درست ہو تے ہیں اگر داناؤں کی عقل ،فلسفیوں کا فلسفہ اور شریعت کے عا لموں کا علم مل کر بھی انکی سیرت اور انکاسا عمل ، اخلاق پیدا کرنا چا ہیں تو نہیں کر سکتے ۔

انکے تمام ظا ہر و با طن ،حر کات و سکنا ت نور نبو ت سے ماخوذ ہیں ۔ اور نورنبوت سے بڑھ کررو ئے زمین  پر کو ئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جا ئے یہی وہ مبا رک ہستیاں تھیں جنھوں نے دنیا میں دین محمدی ﷺ پھیلا یا اور صدیوں مسلما نوں کو راہ حق پر چلا یا وہ اخلاق اور انسا نیت کے نمو نہ تھے ۔ انکا ظا ہر و باطن ایک تھا ۔

انہیں اصفیا ء میں ’’قطب الاقطاب ،سلطان العارفین ،سند الکاملین ‘ مجدددین و ملت ، میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ کی ذات ہے۔

سیدنامیر عبدالواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ آسمان و علم وفضل اور تصوف وسلوک کے نیرّ اعظم تھے کہ جن کے علم ومعرفت کی ضیا با ریوں سے ایک عالم روشن ہو گیا وہ اپنے دور کے نا مور شیخ طریقت اور مشہور مصنف و شا عر تھے ۔
فقیرنے سید نامیرعبد الواحد بلگرا می رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری مختصرمگر جامع تحریر کیا ہے اس لئے کہ کہا جا تا ہے ۔
بر مرید صادق صاحب تمیز
ہست ذکرِسیرتِ پیرا ں عزیز
ذکر پیراں تازہ ایمانش کند
 قصہ شان جلوہ بر جا نش کند
ترجمہ ـ۔تمیز والے مرید صادق کو اپنے پیروں کی سیرت کا ذکر بڑا عزیز ہو تا ہے۔ پیر کا ذکر ان کے ایمان کو تازہ کرتا ہے اوران کے واقعات اسکے ایمان پر تجلی ڈالتے ہیں 

دعا ہے مو لیٰ تعا لی سیدنامیر عبدالواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ کے صدقہ و طفیل اس رسالہ کو شرف قبولیت بخشے،اور میر صاحب کے روحا نی فیضان سے ہم سب غلا موں کو مالا مال فر ئے ، علم و عمر میں برکتیں عطا فر ما ئے نیز خا تمہ ایمان پر فر ما ئے ۔اٰمین  بجاہ سید المرسلین ﷺ
مراچہ زہرہ کہ گیرم بہ نسبتش خودارا
قبولم اربہ غلامی کند شرف دارم
طالب دعا  
فقیر تاج محمد قادری واحدی اترو لوی


الحمد للہ رب العٰلمین والصلوۃ والسلام علیٰ اشرف الانبیاء والمرسلین و علی اٰلہ الطیبین الطاہرین وجمیع الاولیاء امتہ الذین اہتدو والی  سبیل النجاہ والیقین۔
اما بعد
روز از ل میں اللہ تبا رک و تعا لی نے جب تمام ارواح کو پیدا کیا تو ارشاد ہوا کہ کیا میں تمہا را رب نہیں ہوں ؟تو روحوں نے جواب دیا تھا کہ کیوں نہیں؟ (یعنی تو ہی ہما را رب ہے ) اس کے بعد اللہ تعا لی نے اپنے نور سے کچھ روحوں پر تجلی ڈا لی تو وہ اس تجلیٔ نور سے ہمیشہ کے لئے منور ہو گئیں۔جن روحوں پر اللہ تعا لی کی تجلی پڑی تو وہ انبیاء ،صدیقین،شہدا ،اور اولیا ء کی ارواح تھیں ، چنانچہ ایسی مخصوص روحیں جب دنیا میں تشریف لا تی ہیں تو ان سے دنیا منور وروشن ہو تی ہے اور ان سے نسلاً بعد نسلٍ لوگ فیضیاب ہو تے رہتے ہیں انہیں روحوں میں ،سراج الاصفیاء ،سرتاج الاتقیا ء ،تا ج العلما ء ،رأس الفقہاء ، امام المتقین ،محبوب بار گاہ رب العٰلمین ،قطب الاقطاب ،سند الواصلین ، مخدومِ مشائخ،شیخ الشیوخ ،پیر طریقت ،رہبرِ راہ شریعت مجدد دین و ملت میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ کی روح بھی شا مل تھی ۔

چنا نچہ سیدنامیر عبدالواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ کی ولادت کہاں ہو ئی ، آپ سے زما نہ کیسے منور ہوا ،آپ کے بار گاہ سے لوگ کیسے فیضیاب ہو ئے اور ہوتے ہیں،وغیرہ تحریرکروں گا (ان شاء اللہ ) مگر اس سے قبل میں شہر بلگرام کا تاریخی منظرملاحظہ فر ما ئیں ۔

 شہر بلگرام میں اٰل رسول کاقدم مبارک :۔ہما رے ملک ہندوستان کا وہ حسین و جمیل خطہ جو یو پی کے مشہور شہر ہر دو ئی کے جنوب(دکھن) جانب تقریباً ۲۸؍کلو میٹر کی دو ری پر مدینۃ الاصفیاء یعنی شہر بلگرام شریف واقع ہے۔ یہ سرزمین در حقیقت برسہا برس پہلے یعنی   ۶۱۴؁ھ سے پہلے کفرستان بناہوا تھا ،پورے خطہ میں کفریت پھیلی ہو ئی تھی،علم و ادب کیا ہے ،شریعت و طریقت کیا ہے ، لوگ اس سے  نا واقف تھے ،روحانی فیضا ن سے محروم تھے،تاریخ کا مطا لعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہو تی ہے کہ سیدنا میر محمد دعوۃ الصغریٰ ابن سیدنا شاہ ابوالفرح واسطی علیہما الرحمہ کی تشریف آوری سے شہربلگرام منور و گہوارئہ علم وادب بنا 

با ت یہ ہے کہ حضرت سیدنا شاہ ابو الفرح واسطی رضی اللہ تعا لی عنہ عباسی عاملان مدینہ کے مظا لم سے تنگ آکر شہر واسط میں سکونت پذیر ہوئے (واسط ملک عراق کا ایک مشہور شہر ہے یہ شہر کو فہ اور بصرہ کے درمیان واقع ہے جس کو حجاج بن یوسف ثقفی نے  ۸۳  ؁ھ میں دریا ئے دجلہ کے کنا رے مروان بن عبد الملک کے دور سلطنت میں آباد کیا تھااس کو ) زینت ہندوستان حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی چشتی رضی اللہ تعا لی عنہ کی سفا رش پرسلطان شمس الدین التمش والیِٔ ہند نے میر سید محمد دعوۃ الصغریٰ رضی اللہ تعا لی عنہ کو  ۶۱۴؁ھ میں بلگرام کو فتح کرنے کے لئے ایک بڑے لشکر جرار کے ساتھ بحیثیت سپہ سالار بھیجا تھا ۔بعد فتح بلگرام آپ نے وہیں پر سکونت اختیار کر لی ۔پھر وہاں سے علم و ادب ،شریعت وطریقت کی روشنی پھیلی اور روحا نی فیضان سے لوگ مال مال ہو ئے ، اور ان شاء اللہ ہو تے رہیں گے۔

آپ نے شہر بلگرام میں ایک گلشن لگا یا اسی گلشن سے  ۹۱۵؁ھ ایک ایسی کلی کھلی جس نے شہر بلگرام اور اہل بلگرام کے قلوب اذہان کو معطر کر دیا جسے دنیا سراج الاصفیاء ، سرتاج الاتقیا ء ، تا ج العلما ء ،رأس الفقہا ،امام المتقین ،محبوب بار گاہ ر ب العٰلمین ،قطب الاقطاب ،سند الواصلین ،مخدوم ِمشائخ،شیخ الشیوخ ، پیر طریقت ،رہبرِ راہ شریعت مجدد دین و ملت حضورالشاہ میر عبد الواحد بلگرا می رضی اللہ تعا لی عنہ کے نام سے جا نتی اور ما نتی ہے ۔

سلسلہ نسب:۔ آپ حسینی سید ہیںآپ کا نسب نا مہ یہ ہے ۔ سیدمیر عبد الواحد بلگرامی ابن سید میر ابراہیم ابن سیدقطب الدین ابن سیدماہرو ابن سیدمیر بڈھ ابن سیدکما الدین ابن سید قاسم ابن سید حسین ابن سید نصیر ابن سید حسین ابن سید عمر ابن سید میر محمد صغریٰ ابن سید علی ابن سید حسین ابن سید ابو الفرح ثانی ابن سید ابو الفراس ابن سید ابو الفرح واسطی ابن سید داؤد ابن سید حسین ابن سید یحی ٰابن سید زید ابن سید عمر ابن سید علی ابن سید حسن ابن سید علی عراقی ابن سید حسین ابن سید علی ابن سید محمد ابن سید عیسیٰ مو تم الاشبال ابن سید زید شہید ابن سید امام زین العا بدین ابن سید امام حسین ابن سید علی مرتضیٰ وفاطمۃ الزہرارضی اللہ تعا لی عنہم بنت محمد رسول اللہ  ﷺ

ولادت :۔   ۹۱۵  ؁ھ مقام سانڈہ میں آپ کی ولادت مبا رکہ ہو ئی ۔
تعلیم و تر بیت :۔حضور سید میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ کے جد اعلیٰ میر بڈھ جنہوں نے بلگرام سے ترک سکونت کر کے با ڑی چلے گئے تھے اور انکے پو تے یعنی میر عبد الواحد کے دادا  میر قطب الدین نے سانڈی کو اپنا قرار گا ہ بنا یا تھا ،اور وہیں میر عبد الواحد بلگرامی پیدا ہو ئے تعلیم و تحصیل علوم اسی علا قہ کے بزرگوں کے زیرسایہ ہو ئی  آپ نے علوم متداولہ کی پو ری طور سے تحصیل کی تھی اور اپنے ہم عصر اصحاب علم و فضل میں ممتاز تھے وہ اپنے شیخ طریقت شیخ صفی کے بھی مورد الطاف خاص رہے اور ان سے بھی علم ظا ہر اور با طنی کا بخیر و خو بی استفا دہ کرتے رہے ۔ شیخ وقت شیخ حسین نے بھی خوب تر بیت فر ما ئی اور میر صاحب کو ظا ہر ی و با طنی علوم سے بہر ور کیا ۔

مقام و مراتب :۔ میر صاحب تحصیل علوم میں بلند ہمت رکھتے تھے ،بعض مشکل مسا ئل کے حل کے لئے میر صاحب نے دنیا کی سیر کا منصو بہ بنا یا مگرآپ کے مرشد شیخ صفی کی خاص تو جہ کی بدولت حل ہوگئے ۔

چنا نچہ میر غلام علی آزاد بلگرامی رضی اللہ عنہ’’ مأثر الکرام ‘‘میں آپ کا تذکرہ کرتے ہو ئے فر ما تے ہیں کہ میر صاحب ’’آسمان ولایت کے قطب اور دائرہ ہد ا یت کے ٹھہر نے کی جگہ تھے اور روشن آیات و کرا مت والے تھے ۔

اورملا عبد القادر بدایو نی رضی اللہ تعا لی عنہ’’ منتخب التواریخ‘‘ میںمیر صاحب کی تعریف کرتے ہو ئے تحریر فر ما تے ہیں ’’شیخ عبدالواحد بلگرا می بہت فضیلت ،کما لا ت ،ریاضات اور عبا دت والے بزرگ ہیں ،ان میں روشن اخلاق اور پسندیدہ اوصاف ہیں ،ان کا مشرب بلند ہے ۔

     اور حسان الہند سلطان الشعراء تا جدار علم و فن اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد دین وملت امام عشق و محبت امام احمد رضا خاں فا ضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ   ۱۹۲۱؁ء  میں میر صاحب کی نسبت سے سر زمین بلگرام کو یوں خراج عقیدت پیش کیا۔

اللہ  اللہ  عزو شان  و احترامِ  بلگرام
عبد واحد کے سبب جنت ہے نامِ بلگرام 

روز عرس آوار گان ِ دشت غربت کے لئے
من و سلویٰ ہے مگر خبز واِدام بلگرام 

آسماں عینک لگا کر مہر ومہ کی دیکھ لے
جلوئہ انوار حق ہے صبح وشامِ بلگرام 

لا ئی ہے اس آفتاب دین کی تحویل جلیل
ساغر ما رہرہ میں صہبائے جامِ بلگرام

خلافت :۔میر صاحب نے تصوف وسلوک کے منا زل اس دور کے نامور شیخ طریقت شیخ صفی سا ئی پو ری سے طے کئے ۔ شیخ صفی صاحب کی میر صاحب پر خاص نظر عنا یت تھی لیکن جب میر صاحب۱۸؍سال کے تھے یعنی ۹۳۳ ؁ ھ میںآپ کے پیر و مرشد شیخ صفی صاحب کا وصال ہو گیا ۔پھر ا نکے خلیفئہ خاص شیخ حسین بن محمد بنی اسرا ئیل نے میر صاحب کی تر بیت فر ما ئی اور خرقہ خلافت سے سرفراز کیا ۔چنا نچہ میرصاحب سبع سنا بل شریف میں فرما تے ہیں ’’یہ فقیر شیخ صفی کا مرید ہے اور شیخ مخدوم سے خلافت یا فتہ مخدوم شیخ حسین کو اس فقیر کے والد کے ساتھ ایک خاص الفت و محبت تھی اور دو نوںکے درمیان پو ری طرح خلوص تھا ۔فقیر کے والد بھی مخدوم شیخ صفی کے خلیفہ تھے ،اس وجہ سے فقیر نے شیخ حسین کی طرف رجوع کیا ،مخدوم شیخ حسین بھی بے انتہا عنایتوں اور نوازشوںسے پیش آتے اور فرماتے کہ تو ہما رے دوست کی اولاد ہے پھرجامہ خلا فت بھی پہنا دیا اگر چہ فقیر کو اس جامہ کی لیا قت نہ تھی لیکن پھربھی  خدا ئے تعا لی کا شکرو احسان ہے کہ ہماری بیعت کا  پیو ندآپ کے ساتھ درست ہے ۔اللہ تعا لی نے میرا پیمان میٹھے منھ والے بزرگوں سے با ندھ دیا ،ہم سب غلام ہیںاور وہ سبھی ہما رے آقا ہیں‘‘شیخ حسین نے سلسلہ چشتیہ کے علا وہ میر صاحب کو سلسلہ قا دریہ ، سہروردیہ ،میں بھی خلا فت سے سر فراز فر ما یا ۔

سلسلہ بیعت:۔میر صاحب اتباع شریعت کا بہت خیال رکھتے تھے اور اس بارے میں کسی رعا یت کو روا نہیں رکھتے تھے آپ کے مزاج میں تواضع و انکسا ری غایت درجہ کی کی تھی خر قہ خلا فت کے حصول کے بعد کسی کومرید نہیں کیا ۔پھر ایک دن مرشد برحق نے آپ کو تا کید کرتے ہو ئے فر ما یا’’اے نیک بخت مرشدان عظام کا طا لبان صادق کو اپنے سلسلہ بیعت میں داخل کرنے کا مقصد یہ نہیں ہو تا کہ انکی نجات اپنے ذمہ کرلیں ،بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے دینی احباب بہت سے بنا لیں تا کہ اس گروہ کثیر میں سے جو اللہ کے مقبول بندے نجات پانے والے ہوں انکے طفیل میں ہم بھی نجات پا جا ئیں پس اس کام میں دیر نہ کرنی چاہئے ‘‘اس کے بعد میر صاحب نے سلسلہ بیعت شروع کیا اور مخلوق خدا کی اصلاح و تر بیت فر ما ئی ،تصوف وسلوک میں مجتہدانہ حیثیت رکھتے تھے  جیسا کہ میر صاحب کی تصانیف جلیلہ و جمیلہ سے ثابت ہو تا ہے ۔
شعر و شاعری :۔میر صاحب شعر و شا عری کااعلی ذوق رکھتے تھے جب آپ شعر و سخن کی طرف تو جہ فر ما تے تھے خوب لکھتے تھے ۔ ہندی و فا رسی میںبھی اشعار  کہتے تھے ۔چنا چہ کا شف الاستار اور اصح التواریخ میں بطور نمو نہ کچھ کلام نقل ہواہے۔ آپ نے اپنا تخلص شا ہدی ؔرکھا تھاجیساکہ مو لوی عبد الرحمن (کتاب میں رحمان علی لکھا ہواتھا فقیرنے عبد الرحمن لکھ دیا ہے وہ ) تذکرہ علما ئے ہند میںرقم طرازہیں کہ ’’ شیخ عبد الواحد بلگرامی (رضی اللہ عنہ )کا تخلص شاہدی تھا آپ بہتر کمالات ،ریاضت ،عبادت والے تھے  اللہ تعا لی کی پسندیدہ عا دتیں صفتیں رکھنے وا لے تھے۔

آپ کے اشعار میں کا فی مٹھاس اور لطا فت پا ئی جا تی تھی کہ سننے سے وجد اور رقت طا ری ہو جا تی ہے ۔جیسا کہ اصح التواریخ میں ہے کہ ایک روز اکبر بادشاہ کے سا منے قوال حضرات میر صاحب کی یہ ربا عی گا رہے تھے۔

من مستم و تو مستی مارا کہ بر و خا نہ
من با تو ہمی گفتم کم خوردو سہ پیما نہ

 صدبار ترا گفتم کز عشق بلا خیز د
 ہاں اے دل دیوانہ ہشیا ر شدی یا نہ
 
اس کلام کو سننے کے بعد بادشاہ پر رقت طا ری ہو گئی اور دربا ر کے حاضرین سے پوچھا کہ اس روبا عی کا مصنف کون ہے ؟ نواب صدر جہاں نے عرض کیا کہ میرے پیر حضرت میر عبد الواحد بلگرا می (رضی اللہ تعا لی عنہ ) اس کے مصنف ہیں ۔ حضرت کے فضا ئل و کما لات اور بزر گی کا تو پہلے ہی سے غلغلہ تھا مگر نواب  سے مزید معلومات کے بعد مشرف زیا رت اور لقاء کا حد درجہ مشتاق اور متمنی ہوگیا اور نواب مذکور کی معرفت میںاپنے ایک معتمد سلطنت کومع چند خدام کے حضرت کی خد مت میں بھیج کر اپنے اشتیاق لقاء اور خواہش دید کا بڑی عاجزی اور انکسار ی سے اظہار کیا ۔آخر حضرت نے بھی بادشاہ کا اصرارپیہم اور شوق لقاء کو دیکھ کر ملاقات کا قصد فر ما یا ۔بر وقت ملا قات با دشاہ نے بے حد تعظیم اور کمال احترام وتکریم سے استقبال کیا اور نہایت ادب سے اپنے نزدیک اپنے تخت پر حضرت کا اجلاس کرا یا 

تصنیفات:۔میر صاحب کو شعر و شاعری کے علاوہ تصنیف و تا لیف سے خاص مناسبت تھی۔آپ کا خاص موضوع تصوف تھا آپ نے نحو کی مشہور کتاب کا فیہ کی شرح تصوف کے بیان میںلکھی ،سبع سنا بل شریف میں تصوف و سلوک کے اہم اور بنیا دی نکات بیان کیا ہے ۔میر صاحب کی کل پندرہ کتا بیں ہیں جو مندر جہ ذیل درج ہیں ۔(۱) دیوان  (۲) ساقی نا مہ (۳) شرح گلزار (۴) شرح مصطحات دیوان حافظ (۵)سبع سنا بل شریف  ۹۶۹؁ھ میں(۶) شرح الکا فیہ فی التصوف ۹۷۰؁ھ میں (۷)حدا ئق ہندی  ۹۷۴؁ھ میں (۸) شرح نذہۃ الارواح  ۹۸۵؁ھ میں (۹)شرح غوثیہ  ۹۸۷؁ھ میں (۱۰)مکا تیبِ ثلا ثہ (۱۱) حل شبہات (۱۲) مناظرہ انبہ و خرپزہ(۱۳)شرح معمہ قصہ چار برادر (۱۴) تفسیر مفیض المحبت (۱۵) مجموعہ اوراد ۔

اس میں اکثر کتا بیں فار سی زبان میں تھیں جسمیں کچھ کتا بیں ملتی ہیں بقیہ اکثر کتا بیں بہت محنت و مشقت کے باوجود بھی دستیاب نہ ہو سکیں۔

میر صاحب کی تصا نیف میں سبع سنا بل شریف سب سے زیا دہ مشہور ومقبول ہے ۔آپ نے اس کتاب میں تصوف و سلوک کے اہم اہم اور بنیا دی نکات بیان کئے ہیں اور شریعت و طریقت کو بیان کیا ہے اور واضح طور پر بتا یا ہے کہ طریقت میں شریعت کی پا بندی لا زم اور ضروری ہے ۔اُس دور میں مسلم معاشرہ میں جو دینی بے راہ روی اور عقائد میں جو فساد شروع ہو گیا تھا اسکی اصلاح ودرستی کے لئے اس کتاب کو آپ نے تحریر فر ما یا تھا ،چنا نچہ آپ اس فرقہ کے بارے میں فرماتے ہیں  ’’آخر یہ اہل بدعت و ضلا لت وہی تو فر قہ ہے جو اپنے آپ کو اسلام کے لباس میں محض دھو کہ دہی کی خا طر ظا ہر کر تاہے اور اپنے خراب عقیدوں کو سینے میں چھپا ئے رکھتا ہے اور ظا ہر میں مسلمانوں میں گھلا ملا رہتا ہے اور خود کو حق آگاہ عالموں کی صورت میں ظا ہر کر تا ہے اور جب بھی مو قع پا تا ہے ایمانی عقیدوں کو بگا ڑ نے اور اسلامی ستو نوں کو ڈھا نے کے لئے نئی بنیا د قا ئم کر تا ہے اور سادہ لوہ مسلما نوں کے پاک دلوں کو فطری پا کی سے پھیر دیتا ہے ۔نیز فر ما تے ہیں ۔ 

  یہ جما عت دین کے دشمن اور شیطا نوں کے بھا ئی ہیں،جب علما ئے دین اور بزر گا ن اسلام کے علم کی روشنی سے ان کی گمراہی کی تا ریکیاں چھٹ جاتی ہیں تو لا محا لہ یہ لو گ اہل شریعت کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں اور اللہ والے علما ء جو حقیقتاً آسمانِ اسلام کے ستا رے ہیںلوگوں کو ان انسانی شیطا نوں سے محفوظ رکھتے ہیں ۔(سبع سنا بل شریف )

اس کتاب یعنی سبع سنا بل شریف میں آپ نے سات سنبلہ قائم کیا ہے ۔
پہلا سنبلہ :۔عقیدوں اور مذہبوں کے بیان میں ہے ۔
دسرا سنبلہ :۔پیری مریدی اور اسکی حقیقت اور ما ہیت کے بیان میں ہے۔
تیسرا سنبلہ:۔ترک دنیا ،قنا عت ،توکل ،اور تبتل کے بیان میں ہے ۔
چو تھا سنبلہ:۔درویشوں کی عبا دتوں اور اچھی عادتوں کے بیان میں ہے
 پا نچواں سنبلہ :۔خوف اور امید کے بیان میں ہے ۔
چھٹا سنبلہ :۔حقائق وحدت اور آثار محبت ومعرفت کے ظہور کے بیان میں ہے،
ساتواں سنبلہ:۔ فوائد متفرقہ کے بیان میں ہے ۔

سبع سنا بل شریف کی مقبولیت:۔میر غلام علی آزاد بلگرامی رضی اللہ تعا لی عنہ مأثرالکرام میںتحریر فر ما تے ہیں ’’حضرت میر عبد الواحد بلگرا می قدس سرہ کی مشہور ترین تصنیف کتاب سبع سنا بل شریف جو سلوک رقائدکے بیان میں ہے ۔ ایک بار رمضان المبا رک  ۱۱۳۵  ؁ھ میں مؤلف اوراق (غلام علی بلگرا می )دارلخلا فہ شاہجہاں آباد میں حضرت شاہ کلیم اللہ چشتی قدس سرہ کی زیا رت کی حضرت میر عبد الواحد قدس سرہ کا ذکر آیا ۔شیخ نے حضرت میر کے مناقب وفضائل دیر تک بیان کئے اور فر ما یا ایک شب میں نے مدینہ منورہ  میں بستر خواب پر عالم واقعہ میں دیکھا کہ میں اور سید سبغت اللہ بر وجی ایک ساتھ دربا ر اقدس رسا لت پناہ  ﷺ میں حاضر ہو ئے اور دیکھا کہ وہاں صحابہ کرام اور اولیاء عظام کی بھی ایک جما عت مو جود ہے اور ان میں ایک صاحب ہیں کہ حضور  ﷺ ان سے مسکرا،مسکراکربا تیں فر ما رہے ہیں اور انکے حال پر نہا یت توجہ و التفا ت فر ما تے ہیں جب مجلس مبا رک تمام ہو چکی تو میں سید سبغت اللہ سے پو چھا کہ یہ کو ن صاحب تھے کہ حضور  اقدس  ﷺ ان سے اس قدر التفات فر ما تے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا میر عبد الواحد بلگرا می تھے۔اور انکی طرف زیادہ التفات کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تصنیف سبع سنا بل جناب رسا لت مآب  ﷺ میں مقبول ہو ئی ۔

خلاف عادت امور کی اقسام:۔خلاف عادت امور کی چھ اقسام ہیں۔(۱)ارحاص (۲)معجزہ (۳)کرامت (۴)معونت (۵)استد راج (۶)  اہانت ۔ 

 (۱)ارحاص :۔اعلان نبوت سے قبل نبی سے جو خلاف عادت امور صادر ہوں انہیں’’  ارحاص‘‘  کہا جا تا ہے ۔جیسے حضور نبی کریم  ﷺ کو اعلان نبوت سے قبل پتھر سلام کرتے تھے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں کلام فر ما یا۔

(۲)معجزہ :۔اعلان نبوت کے بعد نبی سے جو خلاف عادت امور صادر ہوں اور وہ دعوئہ نبوت کی تا ئید کرے اسے’’  معجزہ ‘‘ کہا جا تا ہے ۔

(۳)کرامت :۔وہ نیک مسلمان جو کسی نبی کی شریعت کا متبع و مبلغ ہو اس سے ایسے خلاف عادت امور صادر ہوں جس سے اس کے مر تبے اور مقام اعلی ہونے کی غواہی دیں اسے’’ کرامت ‘‘ کہتے ہیں 

(۴) معونت :۔کسی عام مسلمان سے جو نہ ولی ہو نہ فاسق اس سے کسی خلاف عادت کام ظا ہر ہو ںاسے’’ معونت ‘‘ہے ۔

(۵) استدراج:۔ کافر و مشرک ،گمراہ فا سق و فا جر سے کسی خلاف عادت انکے موافق کام کے ظا ہر ہو ں اسے ’’استدراج‘‘ کہتے ہیں ۔

(۶) اہانت:۔کافر و مشرک ،گمراہ فا سق و فا جر سے کسی خلاف عادت انکے موافق کے خلاف کام کے ظا ہر ہو ں اسے’’ اہانت ‘‘کہتے ہیں ۔جیسے مسیلمہ کذاب نے اپنا کمال ظا ہر کر نا چا ہا تو کلی کر کے پا نی کنویں میںڈا لا تو وہ نمکین اور کڑوا ہو گیا ،ایک شخص کی ایک آنکھ خراب تھی اس پر ہاتھ پھیر کر درست کر نا چا ہا تو دوسری آنکھ بھی ضا ئع ہو گئی ۔

کرامت کی حقیقت :۔کرامت دیکھ کر صاحب کرامت کی بزرگی اور مراتب ظا ہر ہو تے ہیںجبکہ وہ مسلمان جو کسی نبی کی شریعت کا متبع و مبلغ ہوجیسا کہ ابھی گزرامگرافسوس صد افسوس کہ آج کل کا عالم یہ ہے کہ اگر کو ئی ہوا میں پروازکرتا ہو ، پا نی پر چلتا ہو،آگ میں گھس جا تا ہو ،غیب کی خبریں دیتا ہو ،لوگ اس کو کرامت تسلیم کرتے ہیں۔جبکہ ہوا میں پر واز کر نا ،پا نی پر چلنا ،آگ میں گھسنا ، کو ئی کرامت نہیں کہ یہ تو بے ایمان جا دوگربھی دکھا تے رہتے ہیں ۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر ما یا  ’’اگر تم کسی کو دیکھو کہ ہوا پر اڑتا ہے ، پانی پر چلتا ہے ،اور اس کا پیر تر نہیں ہو تا ،یا آگ میں گھستا ہے اور نہیں جلتا یا غیب کی خبریں دیتا ہے اور اسی طرح کی اور با تیں اس میں ہوں۔اور وہ میری سنتوں کو چھوڑتا ہو تو اس کو جو توں سے ما روکیوںکہ ایسا شخص ولی نہیں ہو سکتا بلکہ وہ اپنے وقت کا زندیق ہے اور ملحدہے ۔
متقدمین مشا ئخ سے منقول ہے کہ جب وہ کسی درویش کو دیکھتے کہ وہ شریعت کے آداب کو قصداًترک کرتا ہے تو اس کو درویشی کے دائرہ سے خا رج سمجھتے اور اسے بزرگوں کے گروہ میں شمار نہ کرتے ۔ 

ایک مرتبہ چند درویش کسی بزرگ کی ملا قات کے لئے گئے جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ قبلہ کی جا نب اپنے منھ کا تھوک پھینکتا ہے تو اس سے ملا قات نہ کی اور اس کی اس حرکت کو برا سمجھ کر واپس لوٹ آئے ۔

اور نذ ہۃ المجا لس جلد اول میں ہے کہ حضرت با یزید بسطا می رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کسی نے مجھے کسی عا بد کے اوصا ف بیا ن فر ما ئے میں اس کی زیا رت کے لئے گیا کیا دیکھتا ہو ں کہ اس نے قبلہ کی جا نب تھو ک دیا ہے اسی بنا پر میں واپس لو ٹ آ یا اور اس کی ملا قا ت گوا رہ نہ کی ،کیونکہ شرعی آدا ب میں کسی ادب پر وہ مطمئن نہ تھا  تو پھر اسرار اولیا ء پر وہ کیسے ما مور ہو گا ۔

اسی لئے علما ء فر ما تے ہیں کہ ولی و پیر کے لئے متقی و پر ہیز گا ر ہو نا شرط ہے سنتِ مصطفی  ﷺکا عا مل ہو نا ضرو ری ہے ،معلوم ہوا کہ اللہ تعا لی کے نزدیک تقویٰ اور پر ہیز گا ری کی اہمیت ہے اور در حقیقت یہی تقویٰ مدار ولا یت ہے کرا مت مدار ولا یت نہیںاگر کو ئی شریعت مقدسہ کا پا بند ہے اور سنت مصطفیٰ کا پیکر ہے وہی ولی ہے خواہ اس سے کرا مت ظا ہر ہو یا نہ ہو ۔

بیان کیا جا تا ہے کہ ایک شخص سید الطا ئفہ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کی ولا یت کا چر چہ سن کر آپ کی خدمت میں حاضر آیا اور طے کیا کہ اگر حضرت سے کو ئی کرا مت دیکھوں گا تو ان کامرید ہو جا ؤں گا پھر وہ شخص آپ کی خد مت میںرہنے لگا یہاں تک کہ ۳۰؍سال تک آپ کی خدمت میں رہامگر اتفاق دیکھئے کہ اتنے عرصہ میں اُس شخص نے حضرت سے کو ئی کرا مت ظا ہر ہو تے نہیں دیکھا خیال کیا کہ شا ید میری تمنا تشنہ تکمیل رہ جا ئے گی اور میری آرزو پو ری نہ ہوسکے گی ما یو سی کے عا لم میں ایک دن اپنا بستر با ندھنے لگا اور وا پس جا نے کا ارادہ کر لیا سو چا کہ حضور کی با رگاہ میں جا کر اجازت ہی لے لوں وہ شخص حاضر با ر گاہ ہوا اور عرض کیا حضور !میں واپس جا نا چا ہتا ہوں ؟ آپ نے فر ما یا کہ اتنی مدت سے رہے لیکن تمہا رے آنے کا مقصد معلوم نہ ہوا ؟عرض کیا حضور آپ کی ولا یت وکرامت کا شہرہ سن کر آیا تھا کہ آپ سے کو ئی کرامت دیکھوںگا پھرمرید ہو جاؤںگا لیکن افسوس کہ ۳۰؍ سال کی مدت میں، آپ سے کو ئی کرامت نہ دیکھی ،اس لئے ما یوس ہو کر جا نے کا ارادہ کر لیا تا کہ کسی اور بارگاہ کی تلاش کروں جہاں میری مراد پو ری ہو سکے حضرت جنید بغدا دی رضی اللہ تعا لی عنہ نے فر ما یاکہ یہ سچ ہے کہ تم نے میری کو ئی کرا مت نہیں دیکھی ،مجھے ہوا میں اڑتے نہیں دیکھا ،کسی مردوں کو زندہ کرتے نہیں دیکھا مگر سچ بتا کہ کبھی   ۳۰؍سال کی مدت میں کو ئی سنن و نوافل میں نے چھوڑا یا شریعت کے خلاف کوئی کام کیا ؟عرض کیا حضور نہیں فر ما یا {  اَ لْاِسْتِقَامُۃُ فَو قَ الْکَرَا مَۃِ} یعنی حق پر ثابت قدم رہنا کرامت سے بڑھ کر ہے ۔فوراً دل کی دنیا بدل گئی آنکھوں سے آنسوں کے قطرے گر نے لگے قدموں میں گرا اور عرض کیا حضور مجھے اپنے غلا موں میں شا مل کر کے اپنا مرید بنالیجئے ۔

( میر عبد الواحدی رضی اللہ عنہ کی کرامت )

ایک مرتبہ میر صاحب کا شا نہ اقدس میں تشریف فر ما تھے کہ ایک چور فا سد ارادہ لیکر آیا کا فی جستجو کے بعد ایک لو ٹا اس کے ہاتھ لگا چور نے سو چا ڈوبتے کو تنکے کا سہا را کا فی ہے یہ سوچ کر چو ری کے ارادہ سے اس نے لوٹے کی طرف ہا تھ بڑھا یا لوٹا اٹھاتے ہی وہ اندھا ہو گیا پوری رات دروا زہ ٹٹو لتا رہا لیکن نہ پا سکا اسی حیرت و استعجاب کے عالم میں تھا کہ فجر کی اذان ہو نے لگی نماز فجر ادا کرنے کی غرض سے سرچشمئہ ولا یت سرا پا کشف وکرامت حضور سیدی شاہ میرعبد الواحد بلگرا می رضی اللہ تعا لی عنہ تشریف لا ئے آپ کی نظر چور پر پڑی تو آپ نے دریافت فر ما یا تم کون ہو ؟اور کیسے یہاں آئے ہو ؟چور نے عرض کیا حضور !غلطی معاف فر ما ئیں میں چور ہوںاور چو ری ہی کرنے کی غرض سے آیا تھا آپ کا لوٹا اٹھا کر بھا گنا چاہ رہا تھا لیکن میری بینا ئی چلی گئی اس لئے دروازہ نہ پا سکا آپ نے فر ما یا ذراگھومووہ چور گھوما گھو متے ہی بینا ئی واپس آگئی آپ نے فر ما یا بھا گ جا ؤ وہ چور چلا گیا ۔

ع۔نگاہ ولی میں و ہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی 

(۲)ایک مرتبہ میرصاحب اپنے پیر و مرشد کے عرس مبا رک میں صفی پور تشریف لے جا رہے تھے ،اثنائے سفر آپ کا ایک مرید مل گیا جسکے چہرے پر رنجیدگی کے آثار نما یا تھے اور وہ بے حد مضطرب تھا آپ نے اس کے پریشان ہو نے کا سبب دریافت کیا ،تو اس نے بصد خلوص دست بستہ عرض کیا حضور ! میں مکان بنوانے کے لئے شہ تیر (چھت کی بڑی کڑی جس پر کڑیاں رکھی جا ئیں)لا یا تھا جواب چھوٹے پڑگئے ہیں ۔آپ نے فر ما یا مجھے وہاں لے چلو جب آپ وہاں پہو نچے توشہ تیر وں کو دیکھا ان پر دست مبا رک رکھا اور ارشاد فرما یا کہ اب انکو اٹھا کر رکھو جب انہیں رکھا گیا تو سب شہ تیر وضع کے اعتبار سے صحیح اترے ۔

       (۳)بیان کیا جا تا ہے کہ ایک کا فر جن آپ کی با رگا ہ عا لی جاہ میں آیا کرتا تھا اور آپ کے اقوال افعال دیکھا اور سنا کرتا تھا اس کے دل کی دنیا بدل گئی وہ کا فر جن آپ کے قدموں پر گر گیا اور داخل اسلام فر ما نے کی درخوست پیش کی آپ نے اسے کلمہ پڑھا کر داخل اسلام کیا ،وہ آپ کے پاس حاضر رہتا اور خدمت بجا لا یا کرتا تھا ۔

 کرامات موت سے منقطع نہین ہو تیں
:۔یاد رہے کہ کراماتِ اولیاء موت سے منقطع نہیں ہو تیں بلکہ قبر میں بھی جاری رہتی ہیںاور نہ موت انکی ولایت کو ختم کرتی ہے وہ بعد از وصال بھی ولایت سے مو صوف ہو تے ہیں اور کراماتِ ولایت کے ثمرات و متعلقات ہیں ۔ جب وہ زندہ رہتے ہیں تو اس کی صفات بھی قائم رہے گی ۔اسی لئے حضرت ملا علی قاری مرقات شرح مشکوٰۃ میں تحریر فر ما تے ہیں ’’اَوْلِیَائُ اللّٰہِ لَا یَمُوْتُوْ نَ بَلْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلیٰ دَارٍ‘‘یعنی اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔

وصال مبا رک:۔میر صاحب آسمان ولا یت کے قطب اور دائرئہ ہدا یت کے مرکز تھے علوم ظاہر و باطن والے تھے تمام کما لات کے جا مع تھے۔ آپ نے ایک سودو(۱۰۲) سالہ زندگی عبادت الٰہی وخلق خدا کی خدمت میں صرف کرکے ۳؍رمضان المبا رک  ۱۰۱۷؁ھ شب جمعہ کو اپنے آبا ئی وطن بلگرام شریف میں انتقال فر ما یا اور وہیں آپ مدفون ہیں ۔آپ کا مزار مقدس مرجع خلا ئق بنا ہوا ہے آج بھی دورو دراز سے عشاق اور مشتا قوں کا قافلہ حاضر خدمت ہو تا ہے اور فیوض و بر کا ت سے ما لا مال ہو کریعنی میر صاحب کے فیضان میںغوطہ زن ہو کر واپس جاتے ہیں۔ اللہ تبا رک و تعا لی ہم سب کو بھی میر صاحب کے فیضان سے مالا مال فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

  ابر رحمت انکی مرقد پر گہر با ری کرے
 حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

ازواج و اولاد :۔میر صاحب نے یکے بعد دیگر ے دو عقد کئے پہلی بیوی قاضی شیخ عبد الدائم عثما نی بلگرا می (محلہ قاضی پو رہ) کی صاحبزادی تھیں۔انکے  بطن سے دو اولاد پیدا ہو ئیں ایک صاحبزادہ ایک صاحبزادی ۔صاحبزادے کا نام میرعبدالجلیل تھا اور صاحبزادی کا نام بی بی مریم تھا۔ رضی اللہ تعا لی عنہما۔ دوسری بیوی قنوج کی تھیں انکے  بطن سے چار اولاد پیدا ہو ئیں تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی (۱)پہلے صاحبزادے کا نام میر فیروز (۲)دوسرے صاحبزادے کا نام میر یحییٰ (۳)تیسرے صاحبزادے کا نام میر طیب تھا (رضی اللہ تعا لی عنہما )(۴) اور صاحبزادی کا نام شا ہا تھا ۔(رضی اللہ تعا لی عنہا)

اِس وقت خانقاہ واحدیہ طیبیہ میں جو سادات کرام ہیں وہ میر طیب رضی اللہ تعا لی عنہ کے نسل پاک سے ہیں ۔انہیں کے نسل مبارک سے  بقیۃ السلف ،عمدۃ الخلف ،گلشن زہرہ کے مہکتے ہو ئے پھول حضرت حافظ وقاری سید اٰل رسول المعروف بہ حضور طا ہر میاں دام ظلہٗ وزید فضلہٗ و پیر طریقت، رہبر راہ شریعت، گل گلزار واحدیت ،سر چشمئہ ولایت، حضرت علا مہ مو لا نا سید اولاد رسول المعرو بہ سید سہیل میاں مد ظلہ العا لی ونورا نی بھی ہیں ۔

پہلے حضور سید طا ہر ملت صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ کا پھر آپ کے بعد آپ کے چھوٹے اور چہیتے صاحبزادے حضورسید سہیل میاںصاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ کا تزکرہ کروں گا ۔ان شاء اللہ 

میر صاحب کے فر مو دات :دل اگر مرادا ن خدا کے اخلاق سے حصہ پا نے والانہیں تو ایک مر تبہ بزرگوں کی عا دتوں کا دل لگا کر مطا لعہ کر ۔

 ٭اللہ تعا لی کے لئے دوستی اور اسی کے لئے دشمنی ایمان کے بہترین کا موں میں سے ہیں۔

 ٭ایمان وہ بلند عما رت ہے کہ اس کے زینہ میں بے شما ر سیڑھیاں ہیں اور اسلام وہ عا لی شا ن محل ہے جس کی سیڑھی میں بے شمار پا ئے دا ن ہیں۔

 ٭دنیا میںنہ محمد  ﷺ جیسا مر شد ہوا اور نہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعا لی عنہ جیسا مرید ظا ہر۔

٭اگر میں یہ دیکھوں کہ اندھا ہے اور کوآں، اور خا مو ش رہو تو مجھ پر گنا ہ ہے ۔

٭نبی  ﷺکی اولاد سے محبت کر نا نبی  ﷺہی سے محبت کر نا ہے تو جسے یہ محبت نہ ہو وہ اجنبی ہے۔

 ٭ اگر بتوں کی زبا ن ہو تی تو ہر عا م بت پرستوں پر کہ جنہوں نے پتھر اور لکڑی کے بتوں کو معبود بنا لیا ہے لعنتیں بھیجتے رہتے۔

٭نیک بن جا ؤ کہ بد بختی کا دستر خوان کوئی کھا نا نہیں دیتا اگر تو خود نیک نہیں تو تجھے نیک نسبت بھی فا ئدہ نہیں پہو نچا سکتی۔

 ٭ اگر ہم قبر تک سلا متی سے اپنے ایمان کو لے جا ئیں تو اس چشتی اور چا لاکی پر شاباش ہے ۔

٭سید اور علما ء کہ اگر یہ ایک نیکی کریں تو دوسروں کے مقا بلہ میں دو گنا ثواب حا صل کریں اور اگر ایک گناہ کریں تو دوسروں سے بڑھ کر عذا ب میں مبتلا ہو ں۔

 ٭جو شخص لو گوں کو دکھ پہنچا تا ہے اللہ رب العزت اس سے بیزار ہے۔

 ٭اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کا خاص بندہ بن جا ئے اپنے آپ کو صدق و اخلاص پر آمادہ کر لے۔

 ٭وہ علم جو محل بنا نے اور با غا ت لگا نے (دنیا دا ری )کے لئے ہو وہ ایسا ہے جیسا چور کے لئے چراغ 

٭مو من کا جمال سر منڈا نا ہے اور سر منڈے شخص کو موت کی سختی قبر کا عذا ب اور قیا مت کا خو ب نہ ہو گا،

 ٭ہم نے اس دنیا میں با ر ہا تجر بہ کیا ہے کہ جو درد مندوں سے جلتا ہے ٹھو کر کھا تا اور گر پڑتا ہے۔

 ٭ اہل معروف کے لئے نماز اور روزہ کا فو ت ہو جانا ایک بری مو ت ہے اور عبا دت کا وقت پر اداکر لینا ایک خو شگوار زندگی ہے۔

 ٭اگر تم کسی کو دیکھو کہ ہوا پر اڑ تا ہے یا پا نی پر چلتا ہے اور اس کا پیر تر نہیں ہو تا یا آ گ میں گھستا ہے اورنہیں جلتا اس کے با و جو د اس میں ذرہ برابر شریعت کے خلاف پا ؤ تو سمجھ لو کہ وہ اپنے وقت کا زندیق اور ملحد ہے ۔

٭دنیا اپنی ذات کے اعتبا ر سے بری نہیں اس سے محبت کر نا برا ہے کہ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے ۔

٭یہ دنیا تو ایک بو ڑھی عورت ہے تمہا را کیا نقصا ن ہو گا اگر تم اس کی طرف رغبت نہ کرو ۔

٭دنیا مردار ہے اس کے طا لب کتے ہیں اور ن میں سب سے بدتر وہ ہے جو اس پر حریص ہو ۔

٭جس کا کو ئی پیر نہیں اس کا پیر شیطا ن ہے۔

٭بغیر پیر کے مر نا مردار مو ت کے مانندہے۔

  {حضور سید طاہر ملت }

علیہ الرحمہ
سلسلہ نسب :۔ سید آل رسول عرف طا ہر میاں ابن سید اٰل محمدعرف ستھرے میاں ابن سید اٰل احمد ابن سید محمد زاہدعرف پیر زادے میاںابن سید عبد الواحد ثالث ابن سید کریم الدین حسین ابن سید سلطان مقصود ابن سید غلام حسین ابن  سید حامد ابن سید عبد الواحد ثانی ابن سید محمد طیب ابن سید عبد الواحد بلگرامی ابن سید ابراہیم ابن سیدقطب الدین ابن سیدماہرو ابن سید بڈھ ابن سیدکما الدین ابن سید قاسم ابن سیدحسین ابن سید نصیر ابن سید حسین ابن سید عمر ابن سید میر محمد صغریٰ ابن سید علی ابن سید حسین ابن سید ابو الفرح ثانی ابن سید ابو الفراش ابن سید ابو الفرح واسطی ابن سید داؤد ابن سید حسین ابن سید یحی ٰابن سید زید ابن سید عمر ابن سید علی ابن سید حسن ابن سید علی عراقی ابن سید حسین ابن سید علی ابن سید محمد ابن سید عیسیٰ موتم الاشبال ابن سید زید شہید ابن سید امام زین العا بدین ابن سید امام حسین ابن سید علی مرتضیٰ وفاطمۃ الزہرارضی اللہ تعا لی عنہم اجمعین بنت محمد رسول اللہ  ﷺ

ولادت :۔آپ کی ولا تِ با سعادت شہرستان ولا یت محلہ سلہاڑا بلگرام شریف کی مقدس و متبرک سر زمین پر ہو ئی باد صبا نے جھوم کر آپ کی تشریف آوری کا مژدئہ جانفزا سنا یا ،ہواؤں نے آپ کے دہنِ پاک کو چو ما ،رحمت ِخدا وندی نے گلے لگا یا 
تعلیم وتربیت :۔ آپ علم و عمل کے کوہ ہما لہ بھی ہیں،اور حافظ کلامِ الٰہی بھی جب آپ نے ہوش سنبھا لا تو تحصیل علم کی خواہش اور آرزوئیںدل میں مچلنے لگی اس عظیم مقصد کی تحصیل کی خاطر سب سے پہلے اپنے والد بزرگوار کی بارگا ہ میں باکمال ادب و احترام آپ نے زانوئے ادب طے کئے آپ نے ابتدائی تعلیم یعنی قاعدہ بغدادی سے لیکر حفظِ قرآن و قرأ ت تک مکمل تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی ،آپ کو بچپن ہی سے خا لق کا ئنات جل شانہ ٗنے ایسا ذہن عطا فر ما یا کہ جو سبق آپ کے والد گرا می دیتے اسے بہت جلد یاد کرکے سنادیتے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نہا یت کم وقت میں آپ نے حفظ فر ما لیا  بعدہ حضور ستھرے میاں علیہ الرحمہ نے آپ کے سر پر اپنے مقدس ہاتھوں سے دستار حفظ و قرأت با ندھی اور خوب دعائیں دی۔ 

 خلافت :۔ آپ کے والد محترم حضورسیدنا ستھرے میاں علیہ الرحمہ نے آپ کو داخل بیعت فر ما کر اپنے مقدس ہاتھوں سے دستار سجاد گی با ندھی اور تمام سلا سل کی خلا فت و اجازت عطا فر ما کر اپنے مکمل فیوض و بر کا ت سے نوازا ۔ 

دعوت وتبلیغ:۔ آپ نیک اوصاف کے ما لک اور پیکر کما لات ہیںاور منکسر المزاج ہیں اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ خو بیاں عطا فر ما ئی ہیں ۔ حا لا ت کیسے بھی ہوں آپ ہمیشہ خندانِ لب اور خوش مزاج نظر آتے ہیں ، مہمانوں کے ساتھ ہمیشہ خندہ پیشا نی سے ملتے ہیں ۔آپ ہمیشہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجا م دیتے رہتے ہیں ۔والد محترم سید اٰل محمد عرف ستھرے میاں کی حیات ظا ہری میں اور بعد وصال آپ دعوت وتبلیغ کے لئے مسلسل سفر کر تے رہے اور کرتے ہیں اور قوم و ملت کی رہبری کی اور تبلیغ دین اسلام فر ما ئی اس طرح بے شمار لو گوں نے آپ سے فیض حا صل کیا اور کرتے ہیں اور انشآء اللہ کر تے رہیں گے ۔

دعا ؤں کا اثر :۔آپ کی زبا نِ فیض ترجمان میں رب لم یزل نے بے پناہ تاثیر عطا فر ما ئی ہے آپ نے اپنے رب سے جب بھی کو ئی دعا کی اللہ تبا رک وتعالی نے اسے شرف قبو لیت سے نوا زا اور باب اجابت نے گلے لگایا یہاں تک کہ جب کسی کی طبیعت خراب ہو تی اور آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کی دعا سے اس طرح پریشا نی دور ہو جا تی ہے گو یا پریشانی ہی نہ تھی فقیر راقم الحروف کئی با ر فون میں حضور والاسے دعا کرا یا حضور کے دعا کرتے ہیں پریشا نی دور ہو گئی ۔ یہی نہیں بلکہ ایک بار شہر بلگرام میں مو سلا دھار با رش ہو رہی تھی ،بجلی کی چمک ہوش اڑا رہی تھی ،آسمان سے ہو کر رو ئے زمین پر آنے والی گرج دار آواز سے خوف و ہراس پیدا ہو تا تھا ،لوگ اپنے اپنے گھروں میں مقید تھے راستے لوگوں سے خا لی نظرآرہے تھے ،کو ئی شخص بارش کی تیزی کی وجہ سے با ہر نہیںنکل رہا تھا ، دارلعلوم واحدیہ طیبیہ میں اسی دن شبِ برأت اور رمَضَان المبا رک کی چھٹی ہو ئی تھی تمام طلبہ گھر جا نے کے لئے تیار تھے اپنے سازو سامان لئے با رش ختم ہو نے کے منتظر تھے ۔اِدھر پیکر کما لات سر چشمئہ ولا یت سرا پا وجود و عنا یت حضور سیدی شاہ اٰل رسول عرف سید طا ہر میاں صاحب قبلہ مد ظلہ العا لی والنورا نی تشریف لائے آپ نے دیکھا کہ طلبہ گھر جانے کیلئے بے چین بے قرار  ہیں،والدین کی زیارت کے مشتاق ومتمنی ہیں ،آپ نے دریافت فر ما یا اے عزیز طلبہ! کس کا انتظار ہے؟ جس کی وجہ سے گھر جانے میں تا خیر ہو رہی ہے؟ تمام طلبہ نے عرض کیا حضور دعا کردیں کی با رش ختم ہوجا ئے تو ہم لوگ با ٓسانی گھرچلے جا ئیں آپ نے آسمان کی طرف نظر ولایت و کرا مت اٹھا ئی اور ارشاد فر ما یا ’’ٹھہر جا ‘‘ آپ کی دعا ؤں کی بر کت سے مو سلا دھار با رش فوراً ختم ہو گئی اور آفتاب، باد لوں کے بیچ سے رو نما ہو کر چمکنے لگا ۔ پھرتمام طلبہ مسرت و شاد ما نی کے سا تھ اپنے اپنے گھروں کا سفر طے کیا ۔

 حجرہ اسود کا ٹکڑا شہر بلگرام میں:۔فقیرواحدی کاجہاں تک خیال ہے کہ پو رے ہندوستان میںکو ئی خانقاہ نہیں جہاں حجرہ اسود موجود ہو سوائے خانقاہ ’’واحدیہ طیبیہ ‘‘کے کہ یہاں حجرہ اسود کا حقیقی ٹکڑا موجود ہے ، جو عرس واحدی طیبی کے موقع پر عوام و خواص کو اس کی زیا رت سے مشرف کیا جا تا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ پیر طریقت ،سیدی ،مرشدی حضور سید طا ہر میاں صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی ۲۰۱۰  ؁ء میں حج کے لئے گئے ہوئے تھے کہ وہاں کا رئیس جس کا نام اسمعیل ہے اسکی طبیعت خراب تھی یا کو ئی کام رکا ہوا تھا جو کا فی کوششوں کے بعد بھی نہیں حل ہو پا رہا تھا ،کسی نے اس کو بتا دیا کہ ہندوستان سے ایک صاحب آئے ہو ئے ہیں جو اولاد رسول ہیں آپ ان سے دعا کرا لیں ہو سکتا ہے کہ آپ کا ،کام بن جا ئے ۔پھراسمعیل مکی غم کا مارا ہوا حضور والاکے پاس آیا حضور نے اس کے حق میں دعا کی ۔دعا کا اثر یہ ہوا کہ اس کا ،کام ہو گیا ۔ پھر کیا تھا پھلوں کی کئی ٹو کر یا ں حضور کے قدموں میں لاکر پیش کر دیا ،حضور والانے سب غر باء و مساکین پر تصدق کردیا بعدہ رخصت ہو نے کے وقت پھر اسمعیل مکی ایک کانچ کے بر تن میں حضرت اسود کا ٹکڑ(جو کسی موقع پر حجر اسودسے ٹوٹ گیا تھا اور وہ با حفاظت اسمعیل مکی کے نگرا نی میںتھا اس کو )لایا عرض کیا حضور یہ نزرانہ ہے میری جا نب ہے اس کو قبول فر ما لیں ۔حضور والانے اسے قبول فر ما یا پھر سب حضرات جو ساتھ میں تھے خیمے سے لیکر بس اڈّے تک پیدل چل کر نعرہ تکبیر و رسالت کی صدا بلند کرتے ہو ئے آئے اس طرح حجر اسود کا ٹکڑہ شہر بلگرام میں پہو نچا ۔یہ واقعہ فقیر واحدی (تاج محمد )نے خود حضور سید طاہر ملت مدظلہ العالی والنورانی سے بمقام پیہر بازار معلوم کیا ہے ۔

کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا
بول بالے میرے سرکاروں کے

آپ کے صاحبزادگان :۔آپ کے تین صاحبزادے تھے جن کے اسمائے گرا می یہ ہیں ۔
(۱) بڑے صاحبزادے سید سعید میاں (۲) منجھلے صاحبزادے سیدرضوان الرحمن المعروف بہ رضوان میاں (۳) سب سے چھوٹے اور محبوب صاحبزادے سیدی مرشدی آقائی سید اولاد رسول المعروف بہ سید سہیل میاں دامت بر کا تہ القدسیہ ۔

آپ کے صاحبزادگان میںسے آقائے نعمت، دریا ئے رحمت، پیر طریقت ،رہبر راہ شریعت ،منبع برکات، مخزنِ فیضان ،پیکر رشدوہدایت ، تاجدار مسند شریعت و طر یقت ، حضور سیدی مرشدی الشاہ میر سید سہیل میاں مد ظلہ العالی والنورانی کی مختصر تعارف سر فہرست ہے ۔

{ سید سہیل میاں}

مدظلہ العالی والنورانی 
کیا بات ہے رضا اس چمنسان کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول 
ولادت :۔آپ کی ولادت ِباسعادت شہراولیاء محلہ سلہاڑا بلگرام شریف کی مقدس سر زمین پر ۱۳۹۳ ؁ ھ مطا بق ۱۹۷۳؁ء میں ہو ئی ۔

تعلیم وتربیت :۔ ایام ِ طفو لیت سے ہی ہنر مندی دانشوری اور کمالا ت وکرامات کے نشا نا ت آپ کی پیشا نی سے نما یا تھے جب سے آپ نے ہوش سنبھالا والد بزرگوارکے نقش قدم کو اپنا یا اور انکے اسلوب پر عمل کیا اور انہیں کی خدمت سرا پا بر کت میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہو ئے ،ابتدا ئی تعلیم آپ نے اپنے والد محترم سے حاصل کی پھر درس نظامیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے کا شا نہ شاہا نہ یعنی بلگرام شریف سے دارالعلوم وارثیہ لکھنؤکا سفرطے کیا ۔دارالعلوم وارثیہ کے گہوارئہ علم و ادب میں رہ کر آپ نے تین سالوں تک مکمل عرق ریزی اور محنت و جانفشانی کے ساتھ جامِ علم و حکمت نوش فر ما یا ۔ابتدائی تعلم اور درس نظا میہ کے درمیان عصری علوم وفنون حاصل کر نے کی غرض سے آپ نے بلگرام شریف کے ایک انٹر کا لج میں داخلہ لیا اور کا مل انہماک کے ساتھ آپ نے عصری علوم وفنون حاصل کی ،اور نہایت قلیل مدت میں لیا قت پیدا کر لی ، آپ کی محنت و شا قہ جد و جہد اور آبا واجدادرضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس دعا ؤں نے آپ کی پا کیزہ حیات میںچار چاند لگا دئے اور ذہن وفکر کو زیورِعلم وادب سے آراستہ و پیرا ستہ کیا مادر علمی دارالعلوم وارثیہ میں تعلیم حاصل کر نے کے بعد جب وطن تشریف لا ئے تب بھی حصول علم کے جذبات نے آپ کو خا موش بیٹھنے نہ دیا اس لئے آپ اپنے کا شا نہ شریف پر مصروفِ تعلیم رہے ۔ بلاشبہ اگر آپ کو علمی دنیامیں دیکھا جائے توآپ جبل العلم نظر آتے ہیں ،اگر خانقاہوں میں دیکھا جائے تو شریعت وطریقت کے سنگم دکھا ئی دیتے ہیںاور اگر تقویٰ طہارت کے اعتبار سے آپ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو غرق بحر تقویٰ معلوم ہو تے ہیں۔چنا نچہ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںیا رسول اللہ  ﷺ

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرا نہ نور کا 

خلا فت واجازت :۔خلا فت و اجازت کا جہاں تک معا ملہ ہے وہ اہل والوں کو ہی عطا کی جا تی ہے اس معا ملات میں اپنا اور پرا یا نہیں دیکھا جاتاجیسا کہ بزر گان دین کے قول و فعل سے ثا بت ہے کہ بعض اولیا ء اللہ ایسے بھی گزرے ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو خلا فت ہی نہیں عطا کی کیوں کہ خلا فت رشتہ و نسب دیکھ کر نہیں دیا جا تا ہے بلکہ علم وہنر مندی  دیکھا جا تا ہے کہ اسکا اہل کو ن ہے جو اس باغ ڈور کو سنبھال سکے ۔یہی وجہ ہے کہ پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضورسید طا ہر ملت صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی نے اپنے تین شہزادوں میں سب سے چھوٹے اور ہنر مند با کمال شہزادے حضور سید سہیل میا ں صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی کوخلافت کا اہل سمجھ کر تمام سلاسل کی خلافت و اجازت ،ذکر واذکار جو آپ کو حاصل تھے عطا فر ما کر مسند رشدو ہدا یت کا اور شریعت و طریعت کا تاجدار بنا یا ۔

دعوت وتبلیغ:۔ آپ ایک ذی استعداد عالم ہو نے کے ساتھ ساتھ جزئیات فقہ پر بھی عبو ر رکھتے ہیں خا لق ارض وسماں جل جلا لہٗ نے آپ کو بے پناہ خو بیاں عطا فر ما ئی ہیں ۔صدق مقال اور اکل حلال آپ کا شیوہ ہے دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا آپ کا مقصد حیات ہے ،مسلک نا جی اہلسنت والجماعت آپ کا مشغلہ ہے ،کبھی تقریر کے ذریعے تو کبھی طرزِ عمل سے آپ تبلیغ کرتے رہتے ہیں ۔مثال کے طور پر آپ کے ۲؍ واقعات سپر دِ قرطاس کر رہا ہوں ۔

(۱) ایک شخص شراب نو شی کثرت سے کرتا تھا ،نیز ایک بد کار عورت سے اس کے ناجا ئز تعلقات تھے ،شراب پی کر اپنے اہل خانہ اور محلے میں رہنے والے لوگوں کو بھی نا زیبا کلمات کہہ کر ایذا پہنچا یا کر تا تھا اس کے خیر خواہ حضرات نے آپ کی با ر گا ہِ رشد و ہدا یت میں حا ضر ہو کر اس کے با رے میں بتا یا اور راہِ راست پر لا نے کی درخواست پیش کی ۔آپ نے اسے بلا کر کِتاب وسنت کی روشنی میں شراب نوشی وزنا کا مسئلہ سمجھا یا اور اس کے لئے ہدا یت کی دعا  فر ما ئی بابِ اجابت نے آپ کی دعا ؤں کو گلے لگا یا اور رحمتِ خدا وندی نے شرف قبو لیت سے نوازا۔نتیجتاً وہی ظلم و بربریت میں پھنسا ہوا شخص اللہ رب العزت کا قرب حاصل کر نے کے لئے ہمہ وقت کو شاں رہتا ہے ۔

(۲) جب آپ دارالعلوم وارثیہ لکھنؤ میں زیر تعلیم تھے اس وقت کبھی ،کبھی ایک غیر مسلم حصول شرف لقا کے لئے آپ کی با ر گاہ میں آیا کر تا تھا جسکا نام دیو یندر تھا ۔ آپ اسے مذہب اسلام کی خو بیاں بتا یا کرتے تھے اور پاک مذہب اور مقدس ملت کی حقا نیت دلا ئل و برا ہین کی روشنی میں اس کے سامنے عیاں کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ غیر مسلم کے دل میں مذہب اسلام کی شان و عظمت بیٹھ گئی اور وہ بہت متا ثر ہوا یہاں تک کہ قدموں میںگر کر عرض کیا حضور !آبا و اجداد کے مذہب کو با طل قرار دینا اور اور اسے ترک کر نا ہم پر لا زم و ضروری ہے اور مذہب اسلا م کا قبول کر نا ہم پر فرض ہے ۔ا للہ کے لئے آپ مجھے کلمہ پڑھا کر داخلِ اسلام فر ما لیجئے آپ نے اسے کلمہ پڑھا کر داخل اسلام کیا اور اس کا نام بدل کر محمد عثمان رکھا ،آج بھی لکھنؤ کی سر زمین پر وہ شخص موجود ہے نماز پنج گا نہ کا پا بندبھی ہے ۔اس کے علاوہ سیکڑوں ایسے انسان ہیں جو ضلا لت وگمرا ہی کے دل دل میں پھنسے ہو ئے تھے بعدہٗ آپ کی دعا ؤں کے سہارے و تبلیغ سے حق کو پہچا نا اور راہ حق کو اختیار کیا یہاںمختصراً؍۲؍ واقعات درج کئے گئے ہیںایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ۔

ع۔ طو فانِ نوح لا نے سے فا ئدہ کیاہے
دو بوند ہی کافی ہے گر کچھ اثر کرے۔

عرس واحدی طیبی :۔اسلا می تاریخ کے اعتبار سے ۱۹؍۲۰؍۲۱؍ ربیع الاول شریف کو عرس مبارکہ منعقد کیا جا تا ہے ۱۹؍ تاریخ کو بعد نماز عشا ء نعتیہ مشاعرہ ہو تا ہے جس میں تمام بڑے ،بڑے شعراء حضرات تشریف لا تے ہیں اور ۲۰؍تاریخ کو بعد نماز عشاء تقریرہو تی ہے جس میں بڑے سے بڑے شعراء ،وخطباء ،علماء ،مشا ئخ تشریف لاتے ہیں۔تمام شعراء و خطباء کو موقع دیا جاتا ہے۔۲۱؍تاریخ کو صبح ۹بجے کے بعد سے پروگرام شروع کر دیا جا تا ہے تقریبا ً ۱۲؍بجے تک یہ پروگرام چلتا ہے پھرآخر میں پیر طریقت سیدی مرشدی حضور سیدسہیل میاںصاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی وحضور سید طا ہر میاں صاحب قبلہ دامۃ البرکا  تہٗ کی دعا پر مجلس کا اختتام ہو تا ہے حضور سب کیلئے دعا خیر کرتے ہیں بعدہٗ تبر کا ت کی زیا رت کرا ئی جا تی ہے مثلاً پا رئہ حجرہ اسود و غلاف کعبہ ،مو ئے مبارک حضور  ﷺ و غوث اعظم رضی اللہ تعا لی عنہ کی و دیگر تبرکات اولیاء بلگرام شریف کی  زیا رت کرا ئی جا تی ہے ۔دعا ہے مو لیٰ تعا لی ہر سال اس مبا رک دربار کی حاضری نصیب فر ما ئے۔اٰمین ثم اٰمین یارب العلمین بجاہ سید المرسلین ﷺ 





Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads