AD Banner

{ads}

(مسلمان کفر کے دلدل میں کیسے جا پڑتا ہے؟)

 (مسلمان کفر کے دلدل میں کیسے جا پڑتا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اچھا خاصا مسلمان کفر کے دلدل کیسے جا پڑتا ہے اس کے لئے مزید عقلی اور نقلی جواب عنایت فرما دیجئے ۔       
 المستفتی:۔  عبد اللہ ۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

   دنیامیں ہر چیز کی ایک ضِد (یعنی اُلَٹ) پائی جاتی ہے جیسے گرمی کی ضِد سردی، خوشبو کی ضد بدبو، مٹھاس کی ضِد کڑواہٹ ، جھوٹ کی ضِد سچ اچھائی کی ضِد بُرائی اور رِضا مندی کی ضِد ناراضی ہے یُوں ہی ایمان کی ضِد کُفر ہے جو صاحِبِ ایمان ہو گا وہ کفر سے خالی ہوگا اور جو کافر ہوگا وہ ایمان سے محروم ہوگا جہاں ایمان ہوگا وہاں نہ تو اللہ عزوجل و نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی عَلیہ وسلمَ کی توہین ہوگی نہ اِنکار نہ اِستِخفاف صاحب بہارِ شریعت حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی قدس سر ہ  جلد اول صفحہ ۱۷۲ تا۱۷۶پر فرماتے ہیں ایمان یہ ہے کہ سچّے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضَروریاتِ دین سے ہیں مزید فرماتے ہیں مسلمان ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے ہے اگرچہ باقی باتوں کا اقرار کرتا ہو اگرچہ وہ یہ کہے کہ صرف زبان سے انکار ہے دل میں انکار نہیں کہ بِلا اکراہِ شرعی مسلمان کلمۂ کفر صادر نہیں کر سکتا، وہی شخص ایسی بات منہ پر لائے گا جس کے دل میں اتنی ہی وقعت ہے کہ جب چاہا انکار کر دیا اور ایمان تو ایسی تصدیق ہے جس کے خلاف کی اصلاً گنجائش نہیں ۔
   مزید فرماتے ہیں بعض اعمال جو قطعاً منافی ایمان ہوں ان کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا، جیسے بُت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یامُصحَف شریف یا کعبۂ معظمہ کی توہین اور کسی سنّت کو ہلکا بتانا، یہ باتیں یقینا کُفر ہیں یوہیں بعض اعمال کفر کی علامت ہیں جیسے زنار باندھنا، سر پر چُوٹیا رکھنا، قَشْقَہْ  لگانا، ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے مرتکب کو از سرِ نو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا( بحوالہ بہارِ شریعت ج ۱حصّہ ۱ ص۱۷۲ ۔ ۱۷۶) 
   مزید حضور سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان قدس سرہ فرماتے ہیں جو خوشی خوشی ضروریات دین میں سے کسی چیز کو جھٹلائے وہ اللہ عزوجل  کے نزدیک بھی کافر ہے ـ اگر چہ یہ دعوی کرتا ہوکہ اس کادل ایمان پر مطمئن ہے  ( انظر المعتمد  المستند، حاشیہ نمبر۳۲۰، ص۱۹۴ )
   مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایمان کا دعوٰی کرے مگر ضَروریاتِ دین میں سے کسی ضَرورتِ دین کا انکار کرے ایسا شخص ہرگز ایمان کے دعوے میں سچا نہیں ہو سکتا ، یہ تو اُس شخص کے مانند ہے جو کہے ـ اِس وَقت دن بھی ہے اور رات بھی حالانکہ نادان سے نادان انسان بھی جانتا ہے کہ دن کے وَقت رات اور رات کے وَقت دن کا ہونا نہیں پایا جاسکتا، دن اور رات آپَس میں ضِد ہیں اور اجتماعِ ضِدین مُحال(یعنی دو اُلٹ چیزوں کا جمع ہونا ناممکن) ہوتا ہے مَثلا آگ اور پانی یکجا ہوہی نہیں سکتے / پس اسی طرح ایمان نور (یعنی روشنی ) ہے ـ  اور کفر اندھیر فالہٰذا ایمان اور کفر بھی آپس میں ضِد ہیں اور یہ بھی دن اور رات کی طرح ہرگز جمع نہیں ہو سکتے اُمید ہے یہ بات سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ اَچّھا خاصا مسلمان نظر آنے والاکُفر کی کھائی میں کیسے جا پڑتا ہے / کلمہ گو آدَمی خارِج اَز اسلام کب اور کیوں قرار پاتا ہے نیز یہ بات بھی سمجھ میںآگئی ہوگی کہ ایمان و کفر دو الگ الگ چیزیں ہیں اور جو ان دونوں کو ایک سمجھے وہ خود کافِر ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح  والمجیب نجیح 
محمد نسیم رضا رضوی سلامی




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner