AD Banner

{ads}

اور ایک نوجوان کا لوٹا ٹوٹ گیا بہت ہی دلچسپ حکایت

 اور ایک نوجوان کا لوٹا ٹوٹ گیا 


حضرت مولانا احمد مکرم عباسی چریا کوٹی نے اپنی جاندار کتاب الاخلاق' میں ایک نہایت ہی دلچسپ ،سبق آموز اور عبرت خیز واقعہ نقل کیا ہے۔ ایک نوجوان کی زندگی سے متعلق ہونے کی وجہ سے ہم اسے یہاں من و عن درج کر رہے ہیں :


حکایت بیان کی جاتی ہے کہ صفی اللہ نامی ایک متوسط الحال نو جوان تھا۔ ماں باپ اُس کے گزر چکے تھے، کوئی لڑکا بھی نہیں تھا۔ صرف وہ تھا اور اس کی خوبصورت بیوی ستارہ عمر میں سولہ سترہ برس کی ہی ہوگی ۔ بہت تمیز دار، سلیقہ شعار اور باشعور عورت تھی ۔ جوان کو اپنی خوب رو بیوی سے بے حد محبت اور ضرورت سے زیادہ الفت تھی۔ ایک دم کی جدائی اس پر گراں تھی ، اور اسی بے پایاں محبت نے جو ان کو تلاش معاش میں نکلنے سے ہمیشہ باز رکھا تھا۔ ایک روز ستارہ نے شوہر سے کہا کہ باپ دادا کی پیدا کی ہوئی جائداد کب تک ساتھ دے گی۔ اگر یہی خانہ بدوشی رہی ، اور یہی رات دن رہا تو ایک دن افلاس و ہلاکت آکر رہے گی۔

جوان نے کہا: کیا کروں! تمہاری محبت اور گھر کی تنہائی باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی ۔ پیاری ! دل نہیں گوارا کرتا کہ تم جیسی بھولی اور نو عمر بیوی کو ایسے بڑے گھر میں اکیلا چھوڑ جاؤں۔ ستارہ نے ذرا چیں بجبیں ہو کر کہا کہ زمانہ کا یہی رنگ ہے، جو لوگ گھر کے اکیلے رہتے ہیں وہ کیوں کر تلاش معیشت میں خاک چھانتے پھرتے ہیں ۔ تمہارا جیسا خیال سب کا ہو تو دنیا کاروبار بند ہو جائے ۔ ہر چند گھر چھوڑنے کو جوان کا جی نہیں چا رہا تھا لیکن بیوی کی عاقلانہ گفتگو

پوری طرح اس کے دل میں اُتر چکی تھی ۔ صفی اللہ کے چچا نعیم اللہ خان کان پور میں ملازم تھے۔ تیسرے دن جوان نے سفر کا تہیہ کیا، دوست آشنا سے رخصت ہو لیا اور ایک دن جمعرات کو پیاری بیوی کو روتا ہوا چھوڑ کر اسٹیشن پہنچا، پھر نہیں معلوم صفی اللہ کان پور گیا یا کیا ہوا!۔

پورے ایک سال ستارہ شوہر کی جدائی میں جلتی رہی۔ اتنے عرصے میں اس نے بڑے صبر وتحمل سے کام لیا، لیکن آخر کب تک؟ - عورت جوان تھی ، اور نفس امارہ تعاقب میں ۔ ایک روز نماز عشا پڑھ کر سوئی تھی کہ ابلیس اپنے قاعدے کے مطابق تشریف لایا، بہکانے میں تو آپ کو کمال حاصل ہے۔ بیچاری ستارہ کو طرح طرح سے بہکانا شروع کیا۔ الغرض ! استارہ کے نفس صالحہ اور نفس امارہ میں جنگ ہونے لگی۔ ابلیس نے نفس امارہ کی طرف داری کی اور نفس صالحہ کو شکست دے دی۔

ستارہ کے پڑوس میں مکان سے متصل ایک بڑھیا رہتی تھی ، جو فن اسپائی و قحبہ گری میں دور دور مشہور تھی ۔ اسی وقت ستارہ نے اپنی ایک ہم راز دار خادمہ کو بھیج کر بڑھیا کو بلوایا۔ اور خلوت میں لے جا کر اسے دیر تک کچھ سرگوشی کرتی رہی۔

بڑھیا تو بلانے کے ساتھ ہی سمجھ گئی کہ میں کس مقصد کے لیے بلائی گئی ہوں ؛ کیوں کہ اس کا پیشہ ہی یہ تھا۔ ستارہ نے پردہ شرم وحیا اُٹھا کر اس سے ایک ایسا نو جوان لانے کی خواہش ظاہر کی جو اُس کی آتش شہوت کو بجھا سکے ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جوان قوی ہو ، تحمل ہو، اور عالی ظرف ہو تا کہ میرے راز کو دوسروں پر افشا نہ کرے۔

بڑھیا نے سر سے پاؤں تک ستارہ کی بلائیں لی ۔ ترقی حسن و جمال کی دعائیں دی، اور وعدہ کر کے رخصت ہوئی۔ چلتے ہی چلتے راستے میں بڑھیا نے ایک نوجوان کو دل میں تجویز کر لیا، اور سید ھے ایک دروازے پر پہنچ کر کواڑ کو کھٹکھٹایا اور منتظر کھڑی رہی ۔ دیر کے بعد ایک نوجوان دروازہ کھول کر باہر آیا۔ پوچھا: کون ؟ بڑھیا نے کہا: میاں ! میں ہوں ، آپ کی لونڈی ۔ جوان نے قندیل اُٹھا کر غور سے بڑھیا کی صورت دیکھی ، اور کہنے لگا: آخر تو ہے کون میں نہیں پہچانتا۔ بڑھیا نے کہا: صاحب زادے ! ذرا اندر چلیے تنہائی میں عرض کروں گی ۔ جوان بڑھیا کو لیے ہوئے اندر آیا۔

بڑھیا نے جوان کو تنہا پا کر پہلے تو جیسا کہ ایسے پیشہ وروں کا قاعدہ ہے کہ ایک طول طویل تمہید بیان کی ۔ تمہید کے بعد ستارہ کے حسن و جمال کی بے حد تعریف و ستائش کے گیت گاتی رہی ۔ جب دیکھا کہ جوان پر اس کے جادو نے اثر کر لیا، اور وہ دام میں گرفتار ہو گیا تب اصلی مقصد بیان کیا ۔

جوان تھوڑ ا سکوت کر کے بولا کہ بوڑھی ! میں ضرور تمہارے ساتھ چلوں گا۔ تمہاری باتوں نے مجھے خوشی سے مبہوت کر دیا ہے۔ بھلا ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے دینا کون سی دانشمندی ہے!۔

یہ نوجوان کو مستعد پا کر اپنی کامیابی پر خوشی سے پھولنے لگی۔ جوان اسی وقت کمرہ کے اندر گیا مٹی کا ایک پرانا لوٹا ہاتھ میں لے کر چل کھڑا ہوا۔ بڑھیا بھی فی الفور جوان کو ساتھ لے کر ہنستی کھیلتی آگے آگے چلنے لگی ۔

کچھ دور جا کر جوان نے بڑھیا سے کہا: مجھے کو استنجا کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ تم پانچ منٹ یہیں ٹھہرو میں فارغ ہو کر پھر اس جگہ آجاؤں گا۔ چنانچہ بڑھیا وہیں رک گئی، اور جوان لوٹے میں پانی لے کر قریب ہی کھیت میں پیشاب کرنے چلا گیا۔جب پیشاب و طہارت سے فارغ ہو کر واپس چلا تو اتفاقاً اس کے پاؤں میں پتھر سے ٹھوکر لگی اور لوٹا ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ مٹی کا لوٹا تھا، پتھریلی زمین پر گرتے ہی چکنا چور ہو گیا ۔ جوان نے لوٹے کو ٹوٹا دیکھ کر زارو قطار رونا شروع کر دیا۔

بڑھیا نے جو نوجوان کے رونے کی آواز سنی، بدحواس ہو کر دوڑی۔ نزدیک آکر رونے کا سبب پوچھا۔ جوان نے کہا: میرا لوٹا ٹوٹ گیا ہے ۔ یہ سن کر بڑھیا قہقہہ مار کر ہنسی اور کہا کہ میاں ! یہ رونے کی کون سی بات ہے؟ مٹی ہی کا لوٹا تھا، اگر پھوٹ گیا تو کیا ایسا بڑا طوفان آ گیا ۔ تم میری خاتون کی خدمت میں چلو اس سے عمدہ عمدہ نظام آبادی لوٹے جس قدر چاہو گے دلوا دوں گی۔ جوان غضب ناک ہو کر بولا کہ اے احمق بڑھیا! کیا میں نقصان کا خیال کر کے روتا ہوں؟ بڑھیا نے کہا: پھر نہیں تو اور کیا بات ہے؟ ۔ جوان نے ایک درد ناک چیخ ماری اور بولا : آج بارہ برس سے یہ لوٹا میرا ہمراز تھا پاخانہ اور پیشاب کے بعد اسی لوٹے سے میں طہارت کرتا تھا۔ آج تک سواۓ اس لوٹے کے کسی ذی روح اور غیر ذی روح نے میرے ستر کو نہیں دیکھا۔ ورنہ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ بازار میں اس سے اچھے سے اچھا لوٹا مل سکتا ہے، اور مجھے خریدنے کی استطاعت بھی ہے لیکن افسوس ، رونا تو اس امر کا ہے کہ بارہ برس کے بعد آج دوسرا لوٹا میرے ستر کو دیکھے گا۔

اتنا کہہ کر نوجوان نے پہلے سے زیادہ رونا شروع کر دیا ، اور اتنا رویا کہ غشی طاری ہوگئی۔ اب بڑھیا کبھی نوجوان کی صورت دیکھتی اور کبھی اپنی ناکامی پر نظر کر کے غمگین ہوتی تھی ۔ جب وہ جوان کو دیکھتی تو اس پر رحم آتا اور اس کے رونے کے سبب پر غور کرتی تو اسے ہنسی آتی تھی ۔ کچھ دیر کے بعد جوان کو ہوش آیا۔ طبیعت کو سکون ہوا تو بولا کہ بوڑھی ! اسی وقت مجھ کو

معاف رکھو، تم جاؤ اگر کل موقع ملا تو میں ضرور آجاؤں گا ۔ اتنا کہہ کر وہ ایک طرف چلتا بنا اور ناکامی کی تصویر بنی بڑھیا نے دوسری راہ لی۔ جب مکان پر پہنچی تو ستارہ بے تابی سے اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ بڑھیا کو دیکھ کر خوشی کے مارے بستر پر اچھل پڑی؛ کیوں کہ وہ سمجھتی تھی کہ بڑھیا میرے لیے خوب عمدہ شکار کر کے میرے لے لائی ہوگی ۔

بڑھیا نے کہا: بیوی صبر کے ساتھ اطمینان رکھو، کل اس وقت تمہارا مطلوب تمہارے پہلو میں ہوگا۔ آج تو میں کامیاب ہو چکی تھی ، لیکن کیا کروں تقدیر نے رہنمائی نہ کی۔ ستارہ نے پوچھا، بتا تو سہی ہوا کیا ؟ ۔ چنانچہ بڑھیا نے شروع سے آخر تک سارا قصہ کہہ سنایا ۔ یہ عجیب و غریب قصہ اور حیرت ناک کہانی سن کرستارہ کا دل بھر آیا اور ایسا پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ بڑھیا جوان کا رونا بھول گئی۔ اس نے ایسا تماشا اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا، اور بالکل ہکا بکا ہو کر ہر طرف دیکھنے لگی ۔ جب ستارہ کا رونا ذرا کم ہوا تو بڑھیا نے پوچھا کہ بی بی ! اب آپ کے رونے کا سبب مجھ کو نہیں معلوم ہوتا۔ ستارہ نے جواب دیا بوڑھی ! میں اپنی قابل نفرت زندگی پر روتی ہوں، مجھ کو شیطان اور نفس امارہ نے مبتلاے گناہ کیا، بے حیائی کی شہوت نے میرے دل کو سیاہ کر دیا ۔ آہ! بے حیا زندگی سے تو مر جانا ہی بہتر تھا۔ افسوس! نو جوان مرد نے مٹی کے لوٹے کو اپنا ستر دکھانا پسند نہیں کیا اور لعنت ہو مجھ پر کہ میں غیر مرد کو اپنا ستر دکھانے پر اس خوشی سے راضی ہوگئی۔ خاوند کا بھی خیال نہ آیا، اور اس کے سالہا سال کی صحبت اور محبت کو ایک دم میں ایسا محو کر دیا۔

بڑھیا ستارہ کی گفتگوسن کر دم بخود ہوگئی ، اور اس پُر اثر تقریر نے اس کو مد ہوش کر دیا، اور اسی وقت بڑھیا نے ستارہ کے ہاتھ پر دلالی اور قحبہ گری سے تو بہ کر لی۔ بڑھیا پاک وصاف ہو کر اور نصوحی توبہ کر کے گھر کو روانہ ہو گئی۔ اور ستارہ نے بھی صدق دل سے تو بہ واستغفار کر کے نماز و تسبیح میں مشغول ہو گئی، اور رات بھر در بار الہی میں گڑگڑا گڑ گڑا کر دعاء التجا کرتی رہی۔ ایک ہفتہ کے بعد شہر میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ مشہور قحبہ گر بڑھیا نے تو بہ کر لی اور ستر چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو بھی ان دونوں پر رحم آگیا۔ اس واقعہ کے پورے ایک مہینہ بعد ستارہ کا شو ہر صفی اللہ بہت کچھ مال و دولت لے کر سفر سے واپس آیا ، اور پاک باز میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے ۔

بڑھیا کی روزی اُسی دلالی اور قحبہ گری پر تھی ۔ جب ادھر سے اس نے تو بہ کر لی تو اللہ کریم نے غیب سے اس کے رزق کا انتظام یوں کیا کہ صفی اللہ چونکہ کافی مال دولت کما کر لایا تھا ، اور اس کا شمار شہر کے امیروں میں ہونے لگا، گھر کا چلن دوسرا ہو گیا اس لیے اس کو ایک تمیز دار عورت کی ضرورت ہوئی جو امور خانہ داری میں ستارہ کی مدد کرے اور اس کا ہاتھ بٹائے۔

بڑھیا سے اچھی اب کون عورت ستارہ کو ملی ، اس نے غنیمت جان کر بڑھیا کو بلالیا اور بڑھیا اس کو غنیمت جان کر اپنی ساری عمر نہایت عزت و خیر خواہی کے ساتھ یہیں گزار دی۔

نتیجه : شرم و حیا بالعموم ہر مرد و عورت میں پائی جاتی ہے، لیکن بہ نسبت مردوں کے عورتوں میں حیا کا ہونا زیادہ ضروری سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ برادر محترم مولوی احمد معظم سلمه الله تعالی نے اپنی کسی کتاب میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ شرم عورتوں کا خاصہ ہے، گو کسی مانع کے پیش آجانے سے کبھی مفقود ہو جائے ۔ (ورنہ) کیسی ہی بدچلن اور آوارہ عورت کیوں نہ ہو لیکن غیر مرد کو بے حجابانہ دیکھ کر ایک مرتبہ جھجک ضرور جائے گی۔ 

حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے لیکن ایسی حیا جو مرضی الہی کے موافق ہو اور انسانی کاروبار میں خلل نہ ڈالتی ہو۔ حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی اپنا ستر آپ نہیں دیکھا۔ اب تو شرم و حیا کی حد ہو گئی ۔ پھر کیوں نہ ہو کہ ایسے ہی بزرگان اسلام رسول خدا کے صحابہ اور اخلاق محمدی کے پتلے تھے ۔(نوجوانوں کی حکایات کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ 874 مکتبہ خواجہ بکڈپو دہلی)


"" طالبِ دعا ""

محمد معراج رضوی واحدی براہی سنبھل یوپی ہند

(33)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner