AD Banner

{ads}

(سلطان المشا ئخ حضرت محبوب الہی کا عقیدہ)

(سلطان المشا ئخ حضرت محبوب الہی کا عقیدہ)

آپ نے فر ما یا کہ مو لا نا کتھیلی نت مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں ایک سال قحط پڑا میں کر با سی بازار سے گزر رہا تھا اور بھو کا تھا میں نے کھا نا خریدا اور خود سے کہا کہ اس کھا نے کو تنہا نہیں کھا نا چا ہئے کسی کو بلا کر کھا نے میں اس کو بھی شریک کر لوں ایک کملی والے درویش کو میں نے دیکھا جو گدڑی پہنے ہو ئے میرے سامنے سے گذر رہا تھا میں نے ان سے کہا کہ اے میرے خوا جہ ! میں درویش ہو ں اور تم بھی درویش ہو ،اور میںغریب ہو ں اور تم بھی غریب دکھا ئی دیتے ہو ،کچھ  کھا نا مو جو د ہے آ ؤ تا کہ مل کر کھا ئیں وہ درویش را ضی ہو ئے ہم نا نبا ئی کی دو کان پر گئے اور کھا نا کھا یا ۔

اس دو را ن میں اس درویش کی طرف متو جہ ہوا اور کہا اے خوا جہ مجھ پر بیس رو پیہ قرض ہو گیا ہے میرا قرض ادا ہو نا چا ہئے ۔اس درویش نے کہا تم اطمینان سے کھانا کھا ؤ میں بیس رو پیہ تم کو دیتاہو ں مو لا نا کھتیلی نے کہا میرے دل میں آ یا کہ اس پھٹے حال شخص  کے پاس بیس رو پئے کہاں ہو نگے جو مجھ کو دے گا ۔ الغرض جب کھا نا کھا چکے وہ اٹھے اور اپنے سا تھ مجھ کو لے چلے وہ مسجد کی طرف گئے مسجد میں ایک قبر تھی اس کے سر ہا نے کھڑے ہوئے انھوں نے کچھ ما نگا اور ایک چھو ٹی لکڑی ان کے ہا تھ میں تھی آ ہستہ سے اس کو دو با ر قبر پر ما را  اور کہا اس درویش کو بیس رو پئے کہ ضرو رت ہے اس کو دو یہ کہا اور اور میری طرف منھ کر کے مجھ سے کہا مو لا نا وا پس جا ؤ بس آپ کو بیس رو پئے مل جا ئیں گے ۔

مو لانا کتھیلی نے کہا جب میں نے یہ با ت سنی اس درویش کا ہا تھ چو ما اور ان سے جدا ہو کر شہر کی طرف چل پڑا میں اس وقت حیرت میں تھا کہ وہ بیس روپئے مجھ کو کہاں سے مل جا ئیں گے ۔میرے پاس ایک خط تھا جو کسی کے گھر پر مجھے دینا تھا اس دن وہ خط لے کر در وا زہ پر پہو نچا ایک ترک اپنے گھر کے چھجے پر بیٹھا تھا اس نے مجھے دیکھا ور آ واز دی اور اپنے غلا موں کو دوڑا یا وہ مجھے پو ری کوشش سے اوپر لے گئے اس ترک نے مجھے بہت خوش کیا میں نے ہر چند کو شش کی مگر اس کو نہیں پہچا ن سکا وہ ترک یہی کہتا کیا ؟تم وہ عقلمندنہیں ہو جس نے فلاں جگہ میرے ساتھ بہت نیکی کی تھی میں نے اس سے کہا میں تم کو نہیں پہچا نتا اس نے کہا میں تم کو پہچانتا ہو ں خود کو کیو ں چھپا تے ہو الغر ض اس قسم کی بہت سی با تیں کی اس کے بعد بیس رو پیہ لا یا اور بڑی معذرت کے سا تھ میرے ہا تھ میں دے دیا ۔(فوا ئد الفواد مجلس بست ویکم ۲۱؍ص ۱۲۴بحوالہ بذرگوں کے عقیدے صفحہ ۴۰۰؍۴۰۱)

حضرت محبوب الہی نظا م الدین اولیا ء رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے اس واقعہ کو بلا تر دید بیان فر ما کر اپنا یہ عقیدہ ثا بت کر دیا کہ جس طرح ظا ہری زندگی میں اولیا ء اللہ سے کسی چیز کو دینے کے لئے عرض کر نا جا ئز ہے ایسے ہی بعد وصال ان کی قبر کے پا س حاضر ہو کر کسی چیز کا سوال کرنا جا ئز ہے اس لئے حقیقتا دینے والا خدا ئے تعا لی ہے اور اولیاء اللہ کی طرف نسبت مجا زا ہے جیسے حقیقتا بیمار کو اچھا کر نے والا اللہ ہے لیکن مریض کہتا ہے ڈا کٹر صاحب ہم کو اچھا کردیجئے ۔

طالب دعا
فقیر تاج محمد قادری واحدی


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner