AD Banner

{ads}

وفادار بیوی

 حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ


ہمارے پیارے آقا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے خادم حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی ماں ہیں ان کے پہلے شوہر کا نام مالک تھا بیوہ ہو جانے کے بعد ان کا نکاح حضرت ابو طلحہ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہو گیا یہ رشتہ میں ایک طرح سے رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خالہ ہوتی تھی اور ان کے ایک بھائی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد میں شہید ہو گئے تھے ان سب باتوں کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بہت مہربان تھے اور کبھی کبھی ان کے گھر تشریف لے جایا کر تے تھے بخاری شریف میں ان کا ایک بہت ہی نصیحت آموز اور عبرت خیز واقع لکھا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بچہ بیمار تھا جب حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ صبح کو اپنے کام دھندے کے لئے باہر جانے لگے تو اس بچے کا سانس بہت زور زور سے چل رہا تھا ابھی حضرت طلحہ مکان پر نہیں آئے تھے کہ بچے کا انتقال ہو گیا حضرت بی بی ام سلیم نے سوچا کہ دن بھر کے تھکے ماندے میرے شوہر مکان پر آئیں گے اور بچے کے انتقال کی خبر سنیں گے تو نہ کھانا کھائیں گے نہ آرام کر سکیں گے اس لئے انہوں نے بچے کی لاش کو ایک الگ مکان میں لٹا دیا اور کپڑا اڑھا دیا اور خود روزا نہ کی طرح کھانا پکایا پھر خوب اچھی طرح بناؤ سنگار کر کے بیٹھ کر شوہر کے آنے کا انتظار کر نے لگیں جب حضرت ابو طلحہ رات کو گھر میں آئے تو 

پو چھا کی بچہ کا کیا حال ہے تو بی بی ام سلیم نے کہ دیا کہ اب اس کا سانس ٹھہر گیا ہے حضرت ابو طلحہ مطمئن ہو گئے اور انہوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بیوی کے بناؤ سنگار کو دیکھ کر انہوں نے بیوی سے صحبت بھی کی جب سب کا موں سے فارغ ہو کر بالکل ہی مطمئن ہو گئے تو

 بی بی ام سلیم نے کہا کہ اے میرے پیارے شوہر مجھے یہ مسئلہ بتائیے کہ اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی امانت ہو اور وہ اپنی امانت ہم سے لے لے تو کیا ہم کو براماننے یاناراض ہو نےکا کوئی حق ہےحضرت ابو طلحہ نے فرمایا کہ ہر گز نہیں امانت وا لے

کو اسکی امانت خوشی خوشی دے دینی چاہئے شوہر کا یہ جواب سن کر حضرت ام سلیم نے کہا کہ اے میرے سر تاج آج ہمارے گھر میں یہی معا ملہ پیش آیا کہ ہمارا بچہ جو ہمارے پاس خدا کی ایک امانت تھا آج خدا نے اپنی وہ امانت لے لی اور ہمارا بچہ مر گیا یہ سن کر حضرت ابو طلحہ چونک کر اٹھ بیٹھے اور حیران ہو کر بو لے کہ کیا میرا بچہ مر گیا بی بی نے کہا جی ہاں حضرت ابو طلحہ نے فرمایا کہ تم نے تو کہا تھا کہ اس کے سانس کا کھنچا و تھم گیا ہے بیوی نے کہا کہ جی ہاں مر نے وا لا کہاں سانس لیتا ہے حضرت ابو طلحہٰ کو

 بے حد افسوس ہوا کہ ہائے میرے بچے کی لاش گھر میں پڑی رہی اور میں نے بھر پیٹ کھانا کھایا اور صحبت بھی کی بیوی نے اپنا خیال ظاہر کر دیا کہ آپ دن بھر کے تھکے ہوئے گھر آئے تھے میں فورا ہی اگر بچے کی موت کا حال کہدیتی تو آپ راج وغم میں ڈوب جاتے نہ کھانا کھا تے نہ آرام کر تے اس لئے میں نے اس خبر کو چھپایا حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ صبح کو مسجد نبوی میں نماز فجر کے لئے گئے اور رات کا پور اما جرا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کر دیا آپ نے حضرت ابو طلحہ کے لئے یہ دعا فرمائی کہ تمہاری رات کی اس صحبت سے اللہ تعالی خیر وبرکت عطا فرمائے اس دعا ے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ اسی رات میں حضرت بی بی ام سلیم کو حمل ٹھہر گیا اور ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا اور ان عبداللہ کے بیٹوں میں بڑے بڑے علما پیدا ہوئے  (بخاری جلد ا صفحہ 47 حا شیہ وغیرہ)۔


محمد الطاف حسین قادری عفی عنہ ڈانگا لکھیم پور کھیری یوپی





हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner