AD Banner

{ads}

( مسجد کی جماعت چھوڑ کر کہیں اور جماعت قائم کرنا کیسا ہے؟)

 ( مسجد کی جماعت چھوڑ کر کہیں اور جماعت قائم کرنا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ قرآن مقدس کی آیت ترجمہ نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو امر کے کے صیغے کے ساتھ ہے اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے الامر للوجب یعنی امر وجوب کے لیے آتا لہذا جماعت واجب ہوئ مگر حضور اس آیت میں مسجد میں جمع ‌مسجد میں جماعت واجب ہے یہ نہی ہے مطلقا جماعت کا حکم ہے اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ المطلق یجری علی اطلاقہ یعنی مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے تو حضور مجھے یہ نہی سمجھ آرہا کہ مسجد میں جاکر جماعت کرنا واجب ہے یہ قید کہاں سے آگئ حکم تو مطلق جماعت کا آیا ہے برائے وضاحت فرمادیں اس مسئلے کو لیکر میں کافی دنوں سے پریشان ہوں سمجھ نہی آرہا ہے۔
المستفتی:۔ محمد عبد اللہ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

 مسجد کی جماعت واجب ہے ۔مسجد کی جماعت چھوڑ کر کہیں اور جماعت قائم کرنا،جائز نہیں، کیونکہ  مسجد میں بغیر اسپیکر دی جانے والی اذان،شورو غل نہ ہونے کی صور ت  میں جہاں تک پہنچتی ہو، تو وہاں کےعاقل،بالغ،غیر مریض مردپر مسجد کی پہلی جماعت واجب ہے جس کوبلا عذرِ شرعی چھوڑنا یا مسجدکی جماعت چھوڑ کر اپنی جماعت قائم کر لینا جائز نہیں، لہٰذا سب کوترغیب دلاکر مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کاذہن دیناچاہیےکہ شریعت مطہرہ میں مسجدکی جماعت کی سخت تاکیدہے۔چنانچہ اذان سن کر مسجد میں آکر جماعت سے نماز نہ پڑھنے کے بارے میں حدیث مبارک میں ہے: الجفاء كل الجفاء والكفر والنفاق من سمع منادی الله ينادی بالصلاة يدعو الى الفلاح ولا يجيبه‘‘ظلم پورا ظلم اور کفر اور نفاق ہے کہ آدمی اللہ کے منادی کو نماز کی ندا کرتا اور فلاح کی طرف بلاتا سنے اور حاضر نہ ہو۔(مسند احمد بن حنبل ، ج۲۴، ص۳۹۰،ھ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

ایک حدیث میں فرمایا کہ بلاعذر جماعت چھوڑنے والے کی نماز ہی نہیں ہوتی۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روا یت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا / من سمع النداء ولم یاتہ فلا صلوة لہ الا من عذر )جس نے اذا ن سنی اور نماز کے لئے حا ضر نہ ہو ، تواس کی نماز ہی نہیں الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔( ابن ما جہ  ،ص۵۷، مطبوعہ کرا چی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد کی جماعت چھوڑ کر نماز پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:” لا صلاة لجار المسجد الا في المسجدقال الثوری في حديثه قيل لعلي:ومن جار المسجد؟ قال:من سمع النداء“مسجدکے پڑوسی کی نمازنہیں ، مگرمسجدمیں۔امام ثوری علیہ الرحمۃکی حدیث میں ہے:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیاکہ مسجدکاپڑوسی کون ہے؟ارشادفرمایا:جواذان کی آوازسُنے۔(مصنف عبدالرزاق ،ج۱،ص۴۹۷،المکتب الاسلامی،بیروت)

مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃالرحمٰن اس حدیث مبارک کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”جہاں تک اذان کی آواز پہنچے ، وہاں تک کے لوگوں کو مسجد میں آنا بہت ضروری ہے ۔وہ  دور کے لوگ جہاں اذان نہ پہنچی ہو ، ان کے لیے بھی مسجد آنا بہت بہتر ہے ، مگر اتنی سختی نہیں،اس حدیث کا یہی مطلب ہے۔”لا صلاة لجار المسجد الا في المسجد“اذان کی آواز پہنچے سے مراد آج کل کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز نہیں ؛ یہ تو دو دو میل تک پہنچ جاتی ہے۔(مرأۃالمناجیح ،ج۲،ص۱۶۸،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

مسجد کے قریب ہوتے ہوئے مسجد کی جماعت چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے والے کے بارے میں امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :مگرفرائض بے عذرقوی مقبول اگرحجرہ میں پڑھے اور مسجد میں نہ آئے ، گنہگار ہے، چندبار ایساہو ، توفاسق ، مردود الشہادۃ ہوگا۔(بحوالہ فتاوی رضویہ ،جلد۷،صفحہ۳۹۴- ۳۹۳، رضافاؤنڈیشن،لاہور)
ایک اور جگہ ارشادفرماتے ہیں پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے ؛ ایک وقت کابھی بلاعذر ترک گناہ ہے ۔ ( بحوالہ فتاوٰی رضویہ،جلد ۷، صفحہ ۱۹۴، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح والمجیب نجیح 
محمد نسیم رضا رضوی سلامی




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner