AD Banner

{ads}

( بغیر علم کے فتوی دینا عند الشرع کیسا ہے؟)

 ( بغیر علم کے فتوی دینا عند الشرع کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بغیر علم کے فتوی دینا از روع شرع کیسا ہے بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
المستفتی:۔مولانا ساجد رضا عطاری پاکستان

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

ایسا شخص سخت گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہے سرکارِ مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان باقرینہ ہے ( من افتی بغیر علم لعنته ملٰئکة السماء والارض ) جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔(حوالہ اَلْجامِعُ الصَّغِیر ص۵۱۷ حدیث۸۴۹۱)

اور حضور سیدی الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان المعروف حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فتاوٰی رضویہ میں فر ماتے ہیں کہ سند حاصل کرنا تو کچھ ضرور نہیں ہاں باقاعدہ تعلیم پانا ضرور ہے (تعلیم خواہ) مدرسہ میں ہو یا کسی عالم کے مکان پر ۔ اور جس نے بے قاعدہ تعلیم پائی وہ جاہلِ محض سے بدتر نِیم ملا خطرۂ ایمان ہو گا ۔ ایسے شخص کو فتویٰ نَوِیسی پر جرأَت حرام ہے اور اگر فتویٰ سے اگر چِہ صحیح ہو، (مگر) وجہ اللہ مقصود نہیں (یعنی درست فتویٰ ہو تب بھی اگر اللہ کی رضا مطلوب نہیں ) بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہے تو یہ دوسرا سبب لعنت ہے کہ آیات اللہ کے عوض ثمن قلیل(یعنی اللہ سبحانہ تعالی کی آیتوں  کے بدلے تھوڑا بھاؤ ) حاصِل کرنے پر فرمایا گیا (اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۷) (پ۳ اٰل عمران ۷۷)آخِرت میں ان کا کچھ حصّہ نہیں ، اور اللہ (عزوجل) نہ ان سے بات کرے نہ ان کی طرف نظر فرمائے قِیامت کے دن ، اور نہ انہیں پاک کرے اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔( فتاوی رضویہ شریف جدید جلد نمبر  ۲۳ صفحہ نمبر۷۱۷)

لہذا جھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید کبیرہ گناہ ہے اگر قصداً ہے تو شریعت مطہرہ پر افترا یعنی جھوٹ باندھا اور شریعت پر افتراء اللہ سبحانہ تعالی پر افتراء ہے اللہ سبحانہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے۔ وہ جو اللہ (عَزَّوَجَلَّ)پر جھوٹ باندھتے ہیں انکا بھلا نہ ہوگا۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
 کتبہ 
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح
 ابو النعمان عطا محمد مشاہدی 



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner