AD Banner

{ads}

(مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والاکافر ومرتد ہے ؟)

 (مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والاکافر ومرتد ہے ؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ حدیث رسول کا انکار کرنا کیسا ہے اور جو انکار کرے اس کے بارے میں شرعی حکم ؟ 
المستفتی:۔ محمد سلیم رضا بھوپال

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

حدیث کا مطلقاً انکار کرنے والاکافر ہے ـ مثلاً کوئی یہ کہے کہ میں حدیث کو نہیں مانتا لیکن اگر کسی نے کسی خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں مانتا اور وہ حدیث مجروح ہے تو اس پر کوئ مواخذہ نہیں ـ لیکن اگر کسی حدیث صحیح کے بارے میں یہ کہا اور اسے یہ معلوم بھی ہو کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ گمراہ ہے اور اگر کسی نے یہ کہا کہ میں پوری مشکوٰۃ میں جتنی احادیث ہیں ان میں سے کسی کو نہیں تو وہ ضرور کافر ہے اس پر توبہ تجدید ایمان اور شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی لازم ہے۔

اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا منکر ہے اور جو نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا منکر ہے وہ قرآن مجید کا منکر ہے اور جو قرآن مجید کا منکر ہے اللہ واحد قہار کا منکر ہے اور جو اللہ کا منکر ہے صریح مرتد کافر ہے (بحوالہ فتاوی رضویہ جلد نمبر ۶ صفحہ نمبر ۴۶مطبع رضا اکیڈمی  ممبئی)

اللہ سبحانہ تعالی کا فرمان قرآن مقدس میں قال اللہ تعالی ( وما آتکم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ فانتھوا ) یعنی رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ۔( سورۃ الحشر ۵۹ آیت ۷ )

( فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدو فی انفسھم حرجاً مما قضیت و یسلمو تسلمیاً) یعنی اے نبی تیرے رب کی قسم کی قسم وہ مسلمان نہ ہونگے جب تک تجھے اپنی ہر اختلافی بات میں حاکم نہ بنائیں پھر اپنے میں تیرے فیصلے سے کچھ تنگی نہ پائیں اور اچھی طرح دل سے مان لیں ۔(سورۃ النساء ۴ آیت نمبر ۶۵ )

(الحدیقة الندیه شرح الطریقة المحمدیه میں ہے ولا یکفر منکر الاحاد وانما یکون مبتدعا لمخالفة لا ھل السنة والجماعت ویستحق اللعنة التی تلحق المخالفین ممن سلک غیر سبیل المؤمنین ذکرہ البیضاوی فقد ثبت بالنص المتواتر من انکر فقد انکر النص فیکفر وفی الظہیریة فھو کافر فی الصحیح )(جلد اول صفحہ نمبر ۲۱ماخوذ فتاوی مرکز تربیت افتاء تیئسواں سال)

    مذکورہ حوالہ جات وبالاتصریحات سے صاف ظاہر وباہر ہوگیا کہ اگر کوئ شخص مطلقاً حدیث شریف کا انکار کرتا ہے تو وہ ضرور کافر ہے اور اگر کسی خاص حدیث کا منکر ہے اور یہ کہے کہ اس حدیث کو نہیں مانتا  مجروح ہے تو کوئ مواخذہ نہیں البتہ اگر حدیث صحیح کے بارے میں کہا مثلا پوری مشکوٰۃکو نہیں مانتا تو وہ کافر ہے اس طرح کا جملہ بول کر اپنے  تمام اعمال صالحہ کو  رد کردیا  اس پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار تجدید ایمان اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کرے اور اگر ایسا نہ کرے تو سارے مسلمان پر لاز ہے کہ اس سے سلام کلام نہ کریں اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں شرکت نہ کریں اس کا ہر طرح سے سماجی بائیکاٹ کریں۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی 


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner