AD Banner

{ads}

(امام کاوضوٹوت جائے توکیاکرے ؟)

 (امام کاوضوٹوت جائے توکیاکرے ؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اگر دوران نماز امام کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا امام نماز کو جاری رکھے یا پھر وضو کرنے جائے کیا پچھلی صف سے کسی شخص کو اپنی جگہ پر کھڑا کر سکتا ہے اور صحیح طریقہ کیا ہے جواب عطا فرمائیں
المستفتی:۔ حافظ تبریز عالم سسوا پٹھان

  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب

 دوران نماز امام کا وضو ٹوٹ گیا اور مسجد میں ہی پانی میسر ہے تو امام ناک بند کرکے پیٹھ جھکائے ہوئے پلٹے اور صف چیرتا ہوا پیچھے آئے وضو کو جائے اور مقتدی اپنی حالت پر باقی رہیں اور جب امام وضو کرکے آ جائے، نماز جہاں سے چھوڑی تھی شروع کردے. مقتدیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے ایسا ہی ابو داؤد شریف میں ہے  حضرت علی بن طلق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا( اذَا فَسَا أَحَدُکُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْیَنْصَرِفْ فَلْیَتَوَضَّأْ وَلْیُعِدْ صَلَاتَهُ )جب تم میں سے کسی کی نماز کے اندر ہوا خارج ہو جائے تو چھوڑ کر چلا جائے اور وضو کرکے دوبارہ نماز پڑھے۔(ج ۱ ص ۵۳، رقم: ۲۰۵، بیروت: دار الفکر)

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نماز میں وضو ٹوٹ جانے کی صورت میں اپنی جگہ پر کھڑے رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وضو کر کے دوبارہ نماز میں شامل ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا( مَنْ أَصَابَهُ قَیْئٌ أَوْ رُعَافٌ أَوْ قَلَسٌ أَوْ مَذْیٌ فَلْیَنْصَرِفْ فَلْیَتَوَضَّأْ ثُمَّ لِیَبْنِ عَلَی صَلَاتِهِ وَهُوَ فِي ذَلِکَ لَا یَتَکَلَّمُ ) جسے نماز میں قے، نکسیر، یا مذی آ جائے وہ لوٹ کر وضو کرے اور جہاں نماز کو چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر دے لیکن اس درمیان میں کلام نہ کرے۔(ابن ماجہ، السنن، ج ۱: ۳۸۵، رقم: ۱۲۲۱، بیروت: دار الفکر)

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ایک حدیث مبارکہ میں دورانِ نماز وضو ٹوٹ جانے کی صورت میں صفوں سے نکل کر جانے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا( إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ فَأَحْدَثَ فَلْیُمْسِکْ عَلَی أَنْفِهِ ثُمَّ لِیَنْصَرِفْ ) اگر کوئی نماز میں بے وضو ہو جائے تو وہ ناک پکڑ کر علیحدہ ہو جائے۔( ابن ماجہ، السنن ج ۱: ۳۸۶، رقم: ۱۲۲۲ )

ایسا ہی درمختــار میں ہے{ استخلف ای جاز لہٗ ذٰلک } اور فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری صفحہ ۸۹ میں ہے کہ ( صورۃ الاستخلاف ان یتاخر محدود باواضعا یدہ علی انفہ یوھم انہ قدرعف ویقدم من الصف الذی یلیہ ولا یستخلف باالکلام بل بالاشارۃ-اھ )  

لیکن چونکہ خلیفہ بنانے کا مسئلہ ایک ایسا سخت دشوار مسئلہ ہے جس کے لئے شرائط بہت ہیں اور مختلف صورتوں میں مختلف احکام ہیں جن کی پوری رعایت عام لوگوں سے مشکل ہےاس لئے جو بات افضل واحسن ہے اسی پر عمل کریں یعنی وہ نیت توڑ دی جائے اور از سرِ نو نماز پڑھی جائے بلکہ جو لوگ علم کافی رکھتے ہیں اور اس کے شرائط کی رعایت پر قادر ہیں،ان کے لئے بھی از سرِ نو نماز پڑھنا افضل ہے جیساکہ رد المحتار جلد اول صفحہ ۴۰۵ میں ہے کہ( استینافہ افضل ای بان یعمل عملاً یقطع الصلوٰۃ ثم یشرع بعد الوضوء شُرُنبلا لیہ عن الکافی -اھ )( ملحضاً فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ ۳۴۳ )

 الحاصل نماز پڑھاتے ہوئے اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ دوسرے کو امامت کے لئے خلیفہ بنا سکتا ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ امام ناک بند کرکے پیٹھ جھکا کر پیچھے ہٹے اور اشارہ سے کسی کو خلیفہ بنانے میں کسی سے بات نہ کرے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان 
الجواب صحیح والمجیب مصیب
ابوالحسنین محمد عارف محمود معطر قادری


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner