AD Banner

{ads}

حضرت امام اعظم رضی اللّٰہ عنہ کا ایک دہریہ سے مناظرہ

 حکایت نمبر(۱) 

حضرت امام اعظم رضی اللّٰہ عنہ کا ایک دہریہ سے مناظرہ

ہمارے امام۔ حضرت امام اعظم رضی اللّٰہ عنہ  کا ایک دہریہ (خدا کی ہستی کے منکر) سے مناظرہ مقرر ہوا اور موضوع مناظرہ یہی مسلہ تھا کہ عالم کا کوئی خالق ہے یا نہیں ؟ اس اہم مسئلہ پر مناظرہ اور پھر اتنے بڑے امام سے، چنانچہ میدان مناظرہ میں دوست ودشمن سبھی جمع ہو گئے مگر حضرت امام اعظم وقت مقرہ سے بہت دیر کے بعد مجلس میں تشریف لائے ،دہریہ نے پوچھا کہ آپ نے اتنی دیر کیوں لگائی ؟ آپ نے فرما یا کہ اگر میں اس کا جواب یہ دوں کہ میں ایک جنگل کی طرف نکل گیا تھا وہاں ایک عجیب واقعہ نظر آیا جس کو دیکھ کر میں حیرت میں آکر وہیں کھڑا ہوگیا اور وہ واقعہ یہ تھا کہ دریا کے کنارے ایک درخت تھا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت خود بخود کٹ کر زمین پر گر پڑا پھر خود بخود اس کے تختے تیار ہوئے پھر ان تختوں کی خود بخود ایک کشتی تیار ہوئی اور خود بخود ہی دریا میں چلی گئی اور پھر خود بخود ہی وہ دیا کے اس طرف کے مسافروں کو اس طرف اور اس طرف کے مسافروں کو اس طرف لانے اور لے جانے لگی، پھر ہر ایک سواری سے خود ہی کرا یہ بھی وصول کرتی تھی ،تو بتاؤ تم میری اس بات پریقین کر لو گے ؟ دہریہ نے یہ سن کر ایک قہقہ لگا یا اور کہا، آپ جیسا بزرگ اور امام ایسا جھوٹ بولے تو تعجب ہے بھلا یہ کام کہیں خود بخود ہو سکتے ہیں ؟ جب تک کوئی کرنے والا نہ ہو، کسی طرح نہیں ہو سکتے ۔

        حضرت امام اعظم نے فرمایا کہ یہ توکچھ بھی کام نہیں ہیں تمہارے نزدیک  تو اس سے بھی زیادہ بڑے بڑے عالیشان کام خود بخود بغیر کسی کرنے والے کے تیار ہوتے ہیں، یہ زمین، یہ آسمان ، یہ چاند بہ سوج یہ ستارے ، یہ باغات ، یہ صد ہا قسم کے رنگین پھول، اور شیریں پھل، یہ پہاڑ ، چوپائے ، یہ انسان، اور یہ ساری خدائی بغیر بنانے والے کے تیار ہو گئی ہے ، اگر ایک کشتی کا بغیر کسی بنانے والے کے خود بخود بن جانا جھوٹ ہے تو سارے جہان کا بغیر بنانے والے کے بن جانا اس سے بھی زیادہ جھوٹ ہے ۔ دہریہ آپ کی تقریر سن کردم بخود حیرت میں آگیا اور فوراً اپنے عقیدہ سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا ۔ (تفسیر کبیر ج (۱)ص(۲۲۱)(سچی حکایت حصہ (۱) صفحہ ۲۰)

 سبق : اس کائنات کا یقینا ایک خالق ہے جس کا نام اللہ ہے اور وجود باری کا انکار عقل کے بھی خلاف ہے
(2) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بات کا جواب قرآن و حدیث سے نہیں دیا جاتا بلکہ موقع محل کے تحت عقلی دلیل سے بھی مات دی جا تی ہے ۔

طالب دعا 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner