AD Banner

{ads}

(یمن کا بادشاہ)

 (یمن کا بادشاہ)

کتاب المستظرف اور حجۃ اللہ علی اللعالمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تبع اول حمیری تھا ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف سے نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ مکرمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا، بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیراعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور ونزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے، یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اورقسم کھاکر کہنے لگاکہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروادوں گا یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اورایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی کسی کو طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا شام کے وقت بادشاہ کے ہمراہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے اسے بادشاہ! آپ نے کوئی بری نیت کی ہے تو فورا اس سے توبہ کیجئے بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادہ سے توبہ کی تو بہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے ۔۔پھر یہاں سے چل کر جب مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہی علما نے جوکتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخرالزماں کی ہجرت گاہ کی علامتیں جو انہوں نے پڑھی تھیں، ان کے مطابق اس سرزمین کو پایا تو باہم عہد کرلیا کہ ہم یہاں ہی مرجائیں گے مگر اس سرزمین کو نہ چھوڑیں گے اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ۔ ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور ہی کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سومکان بنوائے اوراس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضو صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تیار کرایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ تشریف لائیں تویہ مکان آپ کی آرام گاہ ہوگی اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا ، تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ کر دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسل میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتی کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ سلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا ۔وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی خدمت میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟ سنئے اور عظمت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتراف فرمائیے خط کا مضمون یہ تھا :

ترجمہ۔ 

کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم   

اما بعد:

اے اللہ کے جیب میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ پر نازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اورمیں آپ کے دین پر ہوں، ہیں اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت۔ اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا ، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں

شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسل ان چار سو علماء کے اندر حرزجان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابولیلی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ پہنچے اور مدینہ منورہ کی الودعی گھاٹی ثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آر ہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجار ہا تھا تو کوئی گھلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا کوئی دوعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب ہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہوگی چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع اول نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا اسی میں حضو صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابولیلی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن کا تبع کاخط دے آؤ جب ابولیلی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابولیلی ہے؟ یہ سن کرابولیلی حیران ہو گیا حضور نے پھر فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں شاہ یمن کا جو میرا خط تمہارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلے نے وہ خط دیا اور حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تبع کو آفرین و شاباش ہے (میزان الادیان ص۔۱۷۰)  

سبق : ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر زمانے میں چرچا رہا اور خوش قسمت افراد نے ہر دور میں حضور سے فیض پایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگلی پچھلی تمام ام باتیں جانتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ کم کی آمد آمد کی خوشی میں مکانات اور بازاروں کو سجانا اور مزین کرنا صحابہ کرام کی سنت ہے پھر آج اگر حضور کی آمد کی خوشی میں بازاروں کو سجایا جائے گھروں کو مزین کیا جائے اور جلوس نکالا جا ئے تو اسے بدعت کہنے والا خود کیوں بدعتی نہ ہوگا۔

طالب دعا

فقیر تاج محمدقادری واحدی




हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner