AD Banner

{ads}

(کیا بھیجا کھانا حرام ہے؟)

 (کیا بھیجا کھانا حرام ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زيد جوکہ ايک عالم ہے اس کا کہنا ہے کہ بکرے کا سرکا بھيجا کھانا حرام ہے اب سوال يہ ہے کہ کيا زيد کا کہنا دست ہے کيا واقعی ميں حرام ہے حوالہ کے ساتھ جواب عنايت فرمائيں بڑی نوازش ہوگی۔ المستفتی:۔ محمد شميم اختر قادری گلولہ بازار شراوستی
  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب
بڑے جانور کا بھیجا ہو یا چھوٹے جانور کا ( یعنی بکرا مرغی ) سب کا بھیجا کھانا جائز ودرست ہے اور ضائع کرنا درست نہیں ہے بہتر ہے کسی مستحق کو دے دیا جائے پاک چیزوں کے حوالے سےاللہ عزوجل قرآن مجید برہان رشید میں ارشاد فرماتا ہے  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲ )
ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والوں کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔(سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۲ )   
بھیجا ـ پایہ ـ اور سری پاک ہے پاک چیزوں کا کھانا بلکل جائز ودرست ہے مولانا موصوف کا کہنا غلط ہے اور غلط مسئلہ بیان کرنے کی حدیث پاک میں وعید آئی ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ( مَن أفتَى بغيرِ عِلمٍ لَعَنَتهُ ملائكةُ السَّماءِ و الأرضِ ) جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں . ( اَلجامِعُ الصَّغِیر ص۵۱۷ حدیث ۸۴۹۱ ) 
غلط مسئلہ بتانا سخت کبیرہ گناہ ہے حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان فتاوٰی رضویہ شریف جلد ۲۳ ص ۷۱۱ / ۷۱۲ پر فرماتے ہیں جھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید کبیرہ (گناہ) ہے اگر قصداً ہے تو شریعت پر افتراء ( یعنی جھوٹ باندھنا ) ہے اور شریعت پرافتراء اللہ عزوجل پرافتراء ہے۔اور اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ‘‘ ( پ ۱۱ سورہ یونس آیت ۶۹ )
ترجمہ کنزالایمان :۔ وہ جو  اللہ (عزوجل) پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہو گا ۔ مزید عالم بھول کر غلط مسئلہ بتا دے تو گناہ نہیں اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہِل پر سخت حرام ہے کہ فتویٰ دے ہاں اگر عالِم سے اتفاقا سہو (بھول) واقع ہوا اور اس نے اپنی طرف سے بے احتیاطی نہ کی اور غلط جواب صادر ہوا تو مواخذہ (مُ ۔ آ ۔ خَ ۔ ذَہ) نہیں مگر فرض ہے کہ مُطَّلع ہوتے ہی فوراً اپنی خطا ظاہِرکرے، اس پر اصرار کرے تو پہلی شق یعنی افتراء ( جھوٹ باندھنا) میں آجائے گا۔ ( فتاوٰی رضویہ شریف ج ۲۳ ص  ۷۱۱ / ۷۱۲)
مذکورہ بالاتصریحات سے ظاہر وباہر ہوگیا کہ بغیر علم کے فتوی دینا ناجائز وحرام ہے ـــ مولانا موصوف نے غلط مسئلہ بتایا ہے ــ لہذا توبہ کریں اور آئندہ بغیر علم کے فتوٰی دینے سے مکمل پرہیز کریں۔
 واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان 
الجواب صحیح
 ابو النعمان عطا محمد مشاہدی 






Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner