AD Banner

{ads}

مسلمان جیالے کا دلچسپ واقعہ

مسلمان جیالے کا دلچسپ واقعہ

  ایک رومی جنگجو نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورے خلافت میں مسلمانوں کی ایک جماعت کو گرفتار کر لیا۔  (رومی کتا) عرب لوگ روم کے بادشاہ کو بطور نفرت کتا کہتے تھے

 یعنی رومی بادشاہ کو کہا کہ مسلمانوں میں ایک طاقتور اور ھیبت ناک آدمی بھی ہے۔ بادشاہ نے اس کو دیکھنے کے لئے بلایا لیکن بادشاہ کے سامنے ایک لمبی زنجیر لٹکی ہوتی جب بھی کوئی داخل ہوتا تو اسے رکوع کی حالت میں حاضر ہونا پڑتا۔ جب

مسلمان نے دیکھا تو اس نے رکوع کی حالت میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا۔ اور کہا: (انی لاستحيى من محمد ان ادخل على الكافر كهياة الراكع) میں حضرت محمد سے حیا کرتا ہوں کہ میں ایک کافر کے سامنے رکوع کی حالت میں داخل ہوں۔ بادشاہ نے کہا۔ اس زنجیر کو اٹھا دو تا کہ وہ داخل ہو سکے جب وہ داخل ہوا تو اس نے بادشاہ سے بڑی کھل کر طویل گفتگو کی۔ بادشاہ نے اس سے کہا: (ادخل في ديننا حتى اصنع خاتمى فى يدك واعطيك ولاية الروم فتفعل فيها ما تشاء) تو ہمارے دین داخل ہو جا میں اپنی انگوٹھی تیرے ہاتھ میں پہنا دونگا، اور روم کی بادشاہت بھی تجھے دے دوں گا۔ پس تیرا جو جی چاہے کر ۔ مسلمان نے رومی بادشاہ سے کہا: (کم للروم من الدنیا)  روم دنیا کا کتنواں حصہ ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا: (ثلثها وربعھا)  تہائی یا چوتھائی حصہ ہے۔


مسلمان نے جواب دیا: (ولو كانت الدنيا كلها لهم مملوة ذهبا و جوهرا واعطوها لي بدلا عن سماع اذان يوم ما قبلتها ) اگر ساری دنیا بھی تیرے قبضہ میں ہوتی اور تو اس کو سونے اور جواھرات سے بھر کر مجھے اذان نہ کہنے کے بدلے دیتا تو میں اس کو بھی قبول نہ کرتا۔ بادشاہ نے پوچھا: اذان کیا ہے؟ مسلمان جیالے نے کہا کہ اذان یہ ہے (اشهد ان لا اله الله و اشهد ان محمدارسول الله ) رومی بادشاہ نے کہا: )انه ثبت حب محمد في قلبه فلا يمكنه ان يرجع

في هذه الساعة )

 بے شک اس مسلمان کے دل میں ( اس کے نبی محمد کی محبت ثابت


ہوگئی ہے اب اس کا واپس مڑناممکن نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نے حکم دیا کہ ایک دیگ پانی کی بھر کر آگ پر چڑھائی جائے جب پانی ابلنے لگے تو اس مسلمان کو اس میں ڈال دو۔  چنانچہ غلاموں نے حکم کی تعمیل کی۔ جب اس کو ابلتے پانی میں ڈالا جانے لگا تو اس نے (بسم الله الرحمان الرحیم) پڑھی (فدخل من جانب وخرج من اخر بقدرة الله تعالی) اور دیگ کی ایک طرف

سے داخل ہوا اور دوسری طرف اللہ کی قدرت سے صحیح سلامت نکل آیا۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ پھر بادشاہ نے حکم دیا: (ان يحبس في بيت مظلم ويمنع عنه الطعام والشراب ويلقى له لحم الخنزير والخمر اربعين يو ما ) اس مسلمان کو ایک بند تاریک کوٹھری میں قید کر دیا جائے ، اور کھانا پینا روک دیا جائے۔ چالیس دن اس کو سوائے سور اور شراب کے کوئی کھانے کی چیز نہ دی جائے ۔ غلاموں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔ جب چالیس دن پورے ہوئے تو دروازہ کھولا تو دیکھا جو کچھ اس کے سامنے رکھا تھا وہ اسی طرح پڑا ہوا ہے۔ اس نے کوئی چیز بھی نہیں کھائی ۔ لوگوں نے پوچھا: (کیف لا تاكل منه واكله جائز فی

دین محمد عند الضرورة) تونے  اسے کیوں نہیں کھایا حالانکہ مجبوری کی حالت میں اسے کھانا دین محمدی میں کھانا جائز ہے۔ مسلمان نے جواب دیا: (ولو اكلت منه لفرحتم وانما اردت اغاظتكم)  اگر میں اسے کھا لیتا تو تم خوش ہوتے حالانکہ میں نے تمہیں غضبناک کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ بادشاہ نے کہا: (ولم تأكل من ذلك فاسجدلي حتى اخلى سبيلك وسبیل من معک الاساری)

تو نے اس میں سے کچھ نہیں کھایا پس تو مجھے سجدہ کردے میں تجھے اور تیرے قیدی ساتھیوں کو رہا کر دونگا 

مسلمان نے جواب دیا (ان السجود في دين محمد لا يجوز الا الله تعالى)

بے شک دین محمدی میں اللہ تعالیٰ کے سوا 

کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ 

بادشاہ نے پھر کہا: (فقبل يدى حتى اخلى عنك وعمن معك من الاساری)  تو میرے ہاتھ کو بوسہ دے میں تجھے اور تیرے قیدی ساتھیوں کو رہا کر دوں گا۔ مسلمان نے جواب دیا: (ان هذا لا يجوز الا للاب او لسلطان العادل او للاستاذ (بوسہ دینا) یہ باپ، عادل بادشاہ اور استاذ کے ہاتھ کے علاوہ کسی کو جائز نہیں ہے۔ 

بادشاہ نے اس سے کہا: (فقبل جبهتی)  چلو میری پیشانی کو چوم لو ۔ مسلمان نے کہا: (وافعل هذا بشرط واحد) اس میں میری ایک شرط ہے۔ بادشاہ نے کہا: (افعل كما تريد) جس طرح مرضی تم کرو ۔ تو مسلمان نے (فوضع کمه علی جبهته وقبلها ناويا تقبيل كمه) اپنی آستین اس کی پیشانی پر رکھی اور نیت یہ کی کہ میں اپنی آستین کو چوم رہا ہوں۔


رومی بادشاہ نے اس مسلمان اور اس کے قیدی ساتھیوں کو بہت سارا مال و متاع دے کر آزاد کر دیا اور حضرت عمر کی طرف لکھا کہ : (لو كان هذا الرجل في بلادنا على ديننا لكنا نعتقد عبادته) اگر یہ شخص ہمارے شہر میں ہمارے دین پر ہوتا تو ہم اس کی عبادت کا اعتقاد  رکھتاہے

جب وہ حضرت عمر کے پاس آئے تو آپ نے اسے فرمایا: (لا تختص بالمال وحدك بل شارك فيه اهل مدينة رسول الله ففعل ذلك) اس مال کو صرف اپنے لئے ہی خاص نہ کر لیتا بلکہ اس میں مدینہ الرسول کے لوگوں کو بھی شامل کر لو تو اس نے ایسا کیا۔


حکایات قلیوبی صفحہ ۳۵/تا۳۷

خلاصہ: جو سچا مسلمان ہو گا اس کتنا ہی لالچ کوئی دے. کتنا ہی ڈرائے دھماکائے 

اپنے ایمان کا سودا نہیں کرتاہے

 اور دوسری بات اس حکایت سے واضح ہے کہ استاد اور باب اور بزرگوں کی دست بوسی بھی جائز ہے

طالب دعاء

ناچیز محمد ابرارالقادری






हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner