AD Banner

{ads}

(حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی کرامات کے حالات و واقعات )

 ( حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی کرامات کے حالات و واقعات )

حضرت خواجہ معین الدین چشتی تبریز سے ایک مرتبہ پھر بغداد پہنچے اور بغداد میں اس وقت جلیل القدر اولیاء اللہ موجود تھے اور حضور سیدنا غوث اعظم وصال فرما چکے تھے ۔ آپ نے حضور سیدنا غوث اعظم کے مزار پر حاضری کی سعادت حاصل کی اور معتکف ہو کر روحانی فیوض و برکات حاصل کئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے بغداد میں حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی سے بھی ملاقات کی اور شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی اور راز و نیاز کی بے شمار باتیں ہوئیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی  بغداد سے بلخ، بدخشاں، ہرات اور سبز وار تشریف لے گئے ۔ بلخ میں آپ  نے حضرت احمد خضرویہ کی خانقاہ میں قیام کیا۔ آپ کی عادت کریمہ تھی کہ دورانِ سفر تیر کمان ، نمک دان اور طباق ساتھ رکھتے تھے اور پھر جب آپ کو بھوک لگتی تو کسی پرندہ کا شکار کر کے اپنا پیٹ بھر لیا کرتے تھے۔ اس دن آپ  بھوکے تھے جب بھوک کی شدت بڑھی تو شکار کی تلاش میں نکلے اور پھر ایک کلنگ ملا جسے آپ نے شکار کیا اور ذبح کر کے خادم کے حوالے کیا اور خود نماز میں مشغول ہو گئے۔
روایات میں آتا ہے حضرت خواجہ معین الدین چشتی جس جگہ مقیم تھے اور نماز میں مشغول تھے اور خادم کلنگ کا گوشت بھون رہا تھا تو قریب ہی ایک مشہور فلسفی اور حکیم کی رہائش گاہ تھی جہاں اس کا قائم کردہ مدرسہ بھی تھا اور اس مدرسہ میں دور دراز سے طلباء تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس فلسفی کا نام ضیاء الدین تھا۔ جب آپ نماز میں مشغول تھے اور خادم کلنگ بھون رہا تھا۔ حکیم ضیاء الدین فلسفی وہاں سے گزرا اور آپ کو نماز پڑھتا دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور خادم سے پوچھا کہ تم کس کے لئے کباب تیار کر رہے ہو اور یہ کون بزرگ ہیں جو نماز میں مشغول ہیں؟ خادم نے ضیاء الدین فلسفی کی بات سنی تو کہا یہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہیں۔ ضیاء الدین فلسفی چونکہ فلسفیانہ دلائل کی روشنی میں اولیاء اللہ کی بزرگی اور کرامات کے قائل نہ تھے اور اولیاء اللہ کا ذکر مضحکہ خیز انداز میں کیا کرتے تھے جس سے لوگوں پر بہت برا اثر پڑتا تھا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نماز سے فارغ ہو کر ضیاء الدین فلسفی پر ایک نظر ڈالی تو وہ بیتاب ہو کر زمین پر گر کر تڑپنے لگا اور ان پر سکتہ کی حالت طاری ہو گئی اور ان کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ ضیا الدین فلسفی کی آنکھیں کھلی تھیں مگر ہوش و حواس غائب تھے۔ آپ نے یہ حالت دیکھ کر ان کے سینہ پر ہاتھ رکھا اور اپنا دست شفقت پھیرا تو وہ ہوش میں آگئے۔ ہوش میں آتے ہی ضیاء الدین فلسفی نے اپنا سر آپ کے قدموں میں رکھ دیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے ضیاء الدین فلسفی کی مزاج پرسی کی۔ اس دوران خادم نے کلنگ بھون کر آپ کی خدمت میں پیش کیا ۔ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر ٹانگ ضیاء الدین فلسفی کو عنایت فرمائی، دوسری ٹانگ کا گوشت اتار کر خود تناول فرمایا اور باقی کا گوشت خادم کے حوالے کر دیا۔ ضیاء الدین فلسفی کے حلق سے گوشت کا پہلا لقمہ اترا تھا کہ حقیقت اور معرفت کا آئینہ سامنے نظر آیا۔ عقل اور فلسفہ کے سبب جو خیالات ان کے دماغ میں بھرے سب کے سب نکل گئے اور گزشتہ خیالات فاسدہ پر نادم ہوئے اور تائب ہو کر معافی مانگی اور اس کے بعد اپنے تمام شاگردوں سمیت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔ جب یہ بات اہل شہر کو معلوم ہوئی تو لوگ جوق در جوق حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ ضیاء الدین فلسفی کی حالت بدل گئی تھی اور وہ اپنا سارا وقت عبادت و ریاضت میں گزارنے لگے۔ آپ نے انہیں اسرار و رموز اور ظاہر و باطن کی تعلیم دی ، خرقہ درویشی عطا فرمایا اور اپنا جانشین بنا کر ہدایت خلق پر مامور کیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی بلخ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد سمر قند تشریف لے گئے اور وہاں حضرت امام فقیہ ابواللیث سمرقندی کے مکان کے قریب ایک مسجد تعمیر ہو رہی تھی۔ ایک شخص قبلہ کی سمت پر بحث کر رہا تھا اور کسی بھی صورت یہ بات مان نے کو تیار نہ تھا کہ قبلہ کی سمت درست ہے۔ آپ نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔ آپ نے قبلہ کی جانب منہ کرتے ہوئے اس سے فرمایا۔ سامنے دیکھ کیا نظر آ رہا ہے؟" اس شخص نے سامنے دیکھا اور کہا۔ میں کعبہ کو دیکھ رہا ہوں۔"
حضرت خواجہ معین الدین چشتی بلخ سے بدخشاں پہنچے۔ بدخشاں میں حضرت خواجہ جنید بغدادی  کی اولاد میں سے ایک بزرگ رہتے تھے۔ جن کی عمر ۱۴۰ سال تھی اور ان کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔ آپ نے ان سے ملاقات کی۔ آپ کے استفسار پر انہوں نے فرمایا میں اس صومعہ میں معتکف ہوکر مجاہدہ نفسانی میں مشغول تھا۔ ایک دن کسی دنیاوی ضرورت سے باہر جانے کا خیال پیدا ہوا۔ ایک پاؤں نکالا ہی تھا کہ غیب سے آواز آئی۔
" اے مدعی ! ہمی عهد کرده بودی که فراموش کردی "
 اس آواز کے سنتے ہی میرا دل بے قرار ہو گیا اور اسی وقت چھری لے کر اپنا پاؤں کاٹ پھینکا۔ اس روز سے دل میں یہ خیال جاگزیں ہے کہ کل قیامت کے دن درویشوں کے سامنے روئے سیاہ لے کر کیونکر جاؤں گا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس واقعہ کو سن کر بہت متاثر ہوئے اور وہاں سے رخصت ہو گئے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی بدخشاں سے ہرات تشریف لے گئے اور حضرت خواجہ عبداللہ انصاری کے مزار مبارک پر حاضری دی اور رات بھر عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔ اس مزار شریف پر ہیبت خداوندی کا نزول تھا اس لئے آپ ادب کو بہت ملحوظ رکھتے تھے۔ یہاں پر آپ نے عرصہ دراز تک مجاہدہ کیا۔ چند روز بعد جب اہل ہرات کو آپ کا پتہ لگا تو وہ جوق در جوق آکر فیوض و برکات حاصل کرنے لگے۔(حضرت خواجہ غریب نواز کے 100 واقعات)
(طالب دعا)
محمد معراج رضوی واحدی براہی سنبھل یوپی ہند




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner