(حضرت سیّدنا سالار مسعود غازی کی پہلی فتح و کرامت )
جب کاہیلر کی طرف روانہ ہوئے تو راہ میں منزل بہ منزل شکار کھیلتے ہوئے اور سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے جب قصبہ راول میں پہونچے تو شیو کن نامی ایک شخص جو حسن میمندی کا سالا تھا اور وہاں کا زمیندار تھا، حضرت سید سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کے استقبال کے لئے آیا اور اصرار کیا کہ آج آپ ہمارے گھر مہمان رہیں۔ چوں کہ خواجہ احمد میمندی وزیر کی فتنہ پردازیوں کا اثر شیو کن کی پیشانی سے ظاہر ہورہا تھا لہذا آپ نے اس کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور قصبہ کے باہر ہی پڑاؤ ڈال دیا۔ صبح کوچ کے وقت پھر شیو کن دو من مٹھائی زہر میں ملا کر لایا جسے آپ نے نور باطن سے بھانپ لیا اور سخت تاکید کی کہ خبردار! مٹھائی ہرگز کوئی زبان پر نہ رکھے۔ آپ نے اس مٹھائی کو باروچی خانہ میں بھیج دیا اور باورچی کو تنبیہ فرمائی کہ کوئی شخص قطعی نہ کھانے پائے ۔ اور شیو کن کو انعام واکرام دے کر رخصت کر دیا۔ وہاں سے کوچ کرنے کے بعد جب دوسری منزل پر قیام فرمایا تو باورچی سے وہی مٹھائی منگوا کر تھوڑ اسا ایک کتے کو کھلایا وہ فورا مر گیا۔ زہر اپنا کام کر گیا تھا۔ حضرت نے حاضرین لشکر سے فرمایا کہ دیکھا! ہم کو اس نے نادان بنایا۔ آپ نے اپنے تصرف ولایت سے پہچان لیا تھا کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ جب یہ خبر حضرت بی بی ستر معلی کو ملی تو آپ رونے لگیں اور آپ نے کہا کہ پروردگار عالم یہ کیا غضب تھا جو مردود حسن میمندی کے اشاروں پر شیو کن ڈھانے والا تھا۔ پھر والدہ نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور صدقات و خیرات تقسیم کئے۔ رات کو آپ وہیں مقیم ہوئے اور صبح چند ہزار سوار لے کر شکار کھیلنے کی غرض سے نکلے اور چند جاسوسوں کو شیو کن کی خبر لانے کے لئے بھیج دیا۔ جب آپ قصبہ راول کے
قریب پہونچے تو جاسوسوں نے آخر خبر دی کہ شیو کن اس وقت نہا دھو کر بتوں کی پوجا کرنے میں مشغول ہے۔ فوراً گھوڑے بڑھا دیئے گئے ۔ حضرت نے بت خانہ کا محاصرہ کر لیا۔ شیو کن نے بھی پوری جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مجاہدین اسلام نے ہزاروں کو جہنم رسید کیا، آخر کار لشکر کفار فرار ہو گیا۔ اور شیو کن مع زن و فرزند گرفتار ہو گیا اور آپ کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔
جب وہ خدمت میں پہونچا تو آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا کہ ائے شیو کن تم نے شیر کے بچے سے لڑنے کا کیوں حوصلہ کیا ؟ کیا تم نے یہ نہ جانا کہ میں اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالب کا فرزند ہوں ؟ پھر حکم صادر فرمایا کہ اسے مع اہل و عیال قید کر کے لشکر میں محفوظ رکھیں اور شہر پر قبضہ کر لیں ۔ لہذا ایسا ہی کیا گیا ۔ آپ کی والدہ محترمہ نے اس فتح پر بڑی مسرت و شادمانی کا اظہار کیا اور خوب خوشی منانے کے ساتھ خوب خیرات بھی تقسیم فرمائی۔ نیز ہمراہیوں کو بھی خلعت و جواہرات سے نوازا گیا۔
دس سال کی عمر میں سب سے پہلی فتح حاصل ہوئی ۔ احمد حسن میمندی کا دوسرا سالا شیو کن کا بھائی نرائن جان بچا کر غزنی پہونچا اور حسن میمندی کے مشورے سے سلطان کے پاس پہونچ کر فریاد کی کہ سالار مسعود نے میرے بھائی شیو کن کو مع اہل و عیال بلا وجہ گرفتار کر لیا ہے۔ اور قصبہ راول کو تباہ کر ڈالا ہے۔ سلطان اس کی بات سے بڑے متعجب ہوئے۔ اسی اثناء میں حضرت سیّدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کا قاصد خط لے کر بارگاہ سلطانی میں حاضر ہوا۔ قاصد نے سارے حالات کہہ سنائے اور خط میں بھی اس کی تفصیلات پڑھ کر سلطان پر شیو کن کی نمک حرامی کا بھید کھلا۔ اس پر سلطان نے حضرت سیدنا سالار مسعود غازی کے نام اپنا د ستخطی فرمان لکھا کہ تمہارے خط سے پہلے شیو کن کا بھائی نرائن آیا تھا اس نے
دوسری باتیں کہی ہیں، تمہارے خط سے اس سازش کا علم ہوا۔ لہذا اس مجرم کوفی الحال نظر بند رکھو پھر میں خود ہی مزید تحقیق کر کے اس کو سزا دوں گا۔ اس فرمان عالیشان سے آپ بہت محظوظ ہوئے۔ مگر حسن میمندی کے گھر کہرام مچا ہوا تھا کیوں کہ سازش کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا۔
پھر حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کا ہیلر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں حضرت سالار سا ہو فرزند کے شوق دیدار میں حضرت یعقوب کی طرح بے قرار تھے۔ ایک کوس کے فاصلے سے استقبال کے لئے روانہ ہوئے ۔ راستے میں ملاقات ہوئی۔ سالار سا ہونے گلے سے لگایا، پیشانی کا بوسہ دیا اور اسی روز اپنا ولی عہد بنالیا۔
سیدنا سالار مسعود غازی اپنے والد ماجد کو راستے کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے اور شیو کن کی نمک حرامی کی داستان سناتے ہوئے دولت سرا میں تشریف لائے۔ اراکین دولت حاضر ہوئے جس کی بھی نگاہ جمال جہاں آرا پر پڑی بندہ بے دام ہو گیا اور حلقہ بگوش غلام ہو گیا۔ کئی روز تک جشن خوشی منایا گیا۔ خوب خیرات تقسیم کی گئی اور آپ کے ہمراہی لشکریوں کو بھی انعام واکرام سے نوازا گیا۔
غزنی کا سفر
حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کے کا ہیلر پہونچنے کے کچھ عرصہ بعد حضرت سلطان محمود غزنوی خراسان کی مہم سر کر کے غزنی میں آئے تو انھوں نے سپہ سالار لشکر حضرت سالا رسا ہو علیہ الرحمہ کو ایک فرمان لکھ کر روانہ کیا کہ تم چند مد بر اور تجربہ کار لوگوں کو قلعہ کا ہیلر میں چھوڑ کر اور فرزند ارجمند مسعود کو ساتھ لے کر میرے پاس آجاؤ۔ فرمان شاہی کے مطابق سالار سا ہو حضرت مسعود غازی اور
ان کی والدہ کو ساتھ لے کر غزنی روانہ ہو گئے۔ حضرت محمود غزنوی کا خود بیان ہے کہ میں نے سالا رسا ہو کی بہادری سے ہندوستان کو فتح کیا اور حضرت سالار مسعود غازی کی جواں مردی سے سومنات کی ظلمت مٹائی ۔
طالب دعاء
محمد ابرار القادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔