AD Banner

{ads}

فتح سومنات

(فتح سومنات)

فتح سومنات میں حضرت سالار مسعود غازی کی شرکت کے اسباب مختصر حال ناظرین کے پیش خدمت ہے۔

کتب تواریخ میں لکھا ہے کہ ایک دن محمود غزنوی نے سالا رسا ہو سے مشورہ کیا کہ میرا ارادہ سومنات فتح کرنے کا ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا بسم اللہ جزاک اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کے ارادے کو کامیابیوں کی منزل سے ہمکنار فرمائے۔ سلطان محمود غزنوی نے سالا رسا ہو کو حکم دیا کہ آپ کا ہیلر تشریف لے جائیں تا کہ وہاں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ سالار سا ہو سلطان کے حکم سے کا ہیلر چلے


آئے اور اور فرزند مسعود کو سلطان محمود کی خدمت میں چھوڑ آئے۔ روضۃ الصفاء میں تحریر ہے کہ سلطان محمود غزنوی ۱۰ار شعبان ۴۱۵ھ کو تیس ہزار کا لشکر جرار لے کر سومنات آئے۔ سب بتوں کا سردار سومنات تھا۔ صاحب حبیب السیر کا بیان ہے کہ سومنات بت کا نام ہے۔ اور تواریخ میں بت خانہ کا نام سوم اور بت کا نام ناتھ آیا ہے۔ اور کتب براہمہ میں تحریر ہے کہ اسلام سے چار ہزار سال پہلے کرشن کے زمانے میں یہ بت آیا ہے۔ بہر حال اسی بت کے نام سے پورے 

شہر کا نام سومنات ہوا۔ المختصر دریا کے کنارے ایک عظیم الشان مندر تھا جو سومنات کا مکان تھا۔ ہنود رات کو پرستش کرنے آتے تھے۔ اس مندر کے نیچے ایک تہ خانہ تھا جس میں مہنت رہتا تھا۔ بت کے ہاتھ میں کیل لگی تھی جس میں ایک ڈوری بندھی تھی،

مہنت ڈوری ہلاتا تھا تب بت دعا کے واسطے دونوں ہاتھوں کو اٹھا تا تھا جس سے آنے والے ہنود کا اعتقاد تھا کہ یہ ہمارے واسطے بھلائی کی دعائیں کر رہا ہے۔ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے اس بت کو توڑ کر یہ کیل پائی تو بوستاں کے آٹھویں باب میں اس حکایت کو تحریر فرما دیا ہے۔

  دو ہزار قصبوں کا خراج بت خانہ میں آتا تھا۔ جواہرات گراں بہا کا انبار تھا۔ ایک زنجیر دو سو من پختہ سونے کی جواہر بے بہا سے مرصع آویزاں اور سیکڑوں گھنٹے لٹکتے تھے۔ دو ہزار بر ہمن رات ودن ان کو بجا کر پرستش میں سر پٹکتے تھے۔ پانچ سو گانے بجانے والی عورتیں اور تین سو مرد سازندے ملازم تھے۔ پجاریوں کے سر اور داڑھی مونڈنے کے لئے تین سو تجام موجود رہتے تھے اور راجاؤں کی جوان لڑکیاں ناچنے گانے پر مامور تھیں۔ دریائے گنگا جو شہر سومنات سے چھ سوکوس کی دوری پر ہے وہاں سے ہر روز تازہ پانی آتا تھا جس سے بت کو نہلاتے تھے۔ سلطان محمودغزنوی کے بارہویں حملے ۴۱۵ھ میں جب لشکر اسلام سومنات آیا تو ایک قلعہ دریائے عمان کے کنارے پایا۔ دریا قلعے کی فصیل تک موجیں مارتا تھا۔ ہنود قلعے سے فوج کا نظارہ کرنے لگے۔ خوف و دہشت سے لرزاہ براندام تھے۔ ہر ایک سومنات کے پاس جا کر کہتا تھا کہ خداوند سومنات کے غضب سے تھوڑی دیر میں سب غارت ہو جائیں گے۔ زندہ نہ بچنے پائیں گے۔ غرضیکہ دوسرے دن لشکر اسلام نے قلعے کے نیچے شام تک لڑ کر رات کو وہیں قیام کیا۔ صبح خود سلطان محمود غازیان اسلام کے ساتھ زینہ لگا کر قلعے میں داخل ہو گیا۔ پھر تو ہر ایک اپنی زندگی سے نا امید ہو کر سومنات کی سل بغل میں دبا کر زار زار روتا تھا۔ تیسرے دن بیرم دیو نام کے ایک کا فر را جانے بے شمار فوج لا کر ہنود کو مدددی ۔ سلطان نے گھبرا کر بعد فتح سومنات کاسب مال غنیمت محتاجوں کو دینے کا ارادہ کیا۔ پھر حضرت شیخ ابو

الحسن الخرقانی رضی اللہ تعالی عنہ کا خرقہ مبارک ہاتھ میں لے کر فتح کی دعا کی اور ایک حملہ کیا فورا ایک آواز رعد کی بہت خوفناک آئی اور ایسا سخت اندھیرا چھا گیا کہ کافروں کا لشکر اندھیرے میں آپس میں لڑ کر پچاس ہزار سے زائد جہنم رسید ہو گیا۔ باقی ماندہ چار ہزار ہنود نے کشتیوں پر سوار ہو کر راہ فرار اختیار کیا۔ غازیان اسلام نے انھیں بھی مار کر فتح کا نقارہ بجایا اور اسلام کا پھر یرا قلعے کی چوٹی پر نصب کر دیا۔ سومنات کے مراتب کو زوال ہو گیا۔ پورا مندرخون سے لال ہو گیا۔ غازیوں نے پری پیکروں کو لونڈیاں بنایا۔ سومنات کی طائفہ رقاصائیں اسلام کا دم بھر کر کلمہ پڑھنے لگیں۔ اسی شب کو حضرت ابوالحسن خرقانی نے خواب میں فرمایا کہ اے محمود ! تم نے فتح سومنات پر ، بس تھوڑی سی بات پر ہمارے خرقے کی آبرو پر دھبہ لگا دیا۔ خدا کی قسم اگر پوری روئے زمین کے حق میں دعا کرتا تو خدائے تعالیٰ سب کو اسلام کی دولت سے مالا مال فرمادیتا۔ المختصر سالار مسعود نے بھی اس معرکے میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دے کر رب کائنات کی خوشنودی حاصل کی اور سلطان کو اپنے جوہر دکھلائے۔ پھر سلطان مندر میں تشریف لے گئے ۔ سومنات پر گر ز لگا کر اپنے ہاتھ سے اس کا سر پھوڑا اور بت توڑ کر ز میں بوس کر دیا ۔ یہ بت خانہ گویا قارون کا خزانہ تھا جس کی چھپن ستون طلائی لعل وزر سے مرصع تھی۔ زر سرخ کے انبار لگے تھے ۔ سومنات پتھر کی مورت تھی ، چاند جیسی صورت تھی ۔ جس کی لمبائی پانچ گز تھی ۔ جس میں سے دوگز زمین میں گڑا تھا اور تین گز زمین کے اوپر کھڑا تھا۔ اس کو اکھاڑ لیا اور گردو نواح کے قلعوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ حضرت سلطان محمود غزنوی نے چاہا کہ حضرت سالار مسعود کو غزنی دے کر پہلی دار السلطنت بنائیں لیکن اراکین دولت نے مشورہ نہ دیا۔ غرضیکہ تسلیم نامی شہزادہ کو نواح سومنات کا حاکم بنا کر مناسب خراج، بت پرستی سے انکار اور اطاعت اسلام کا وعدہ لے کر غزنی کا رخ کیا۔(سوانح مسعود غازی ص۔۴۱/ ۴۲)

طالب دعا

 محمد ابرارالقادری





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner