AD Banner

{ads}

(حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ دنیا داری کو چھوڑ کر علوم ظاہر حاصل کرنے میں لگ گئے )

 ( حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ دنیا داری کو چھوڑ کر علوم ظاہر حاصل کرنے میں لگ گئے )


ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسب معمول درختوں کو پانی دے رہے تھے حضرت شیخ ابراہیم قندوزی گھومتے پھرتے اس باغ کی طرف آن نکلے۔ حضرت شیخ ابراہیم قندوزی اسی آبادی میں رہا کرتے تھے۔ جہاں آپ مقیم تھے اور وہ اللہ عزوجل کے عشق میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ ان پر عشق حقیقی کی وجہ سے اکثر خود فراموشی کی حالت طاری رہتی تھی ۔ آبادی کے بچے اور بوڑھے انہیں مجذوب کہا کرتے تھے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جس وقت آپ کی نظر حضرت شیخ ابراہیم قندوزی پر پڑی تو سب کام چھوڑ کر آپ ان کی جانب متوجہ ہو گئے اور آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا اور دست مبارک کو بوسہ دیا۔ پھر نہایت عزت اور احترام کے ساتھ ایک سایہ دار درخت کے نیچے بٹھایا۔ ان دنوں انگوروں کا موسم تھا، کچھ پکے ہوئے انگوروں کے خوشے بیلوں سے اتار کر آپ کی خدمت میں پیش کئے اور خود با آدب ہو کر دوزانو بیٹھ گئے۔

حضرت شیخ ابراہیم قندوزی کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی مہمان نوازی کا یہ انداز بہت پسند آیا اور آپ کا یہ ادب بہت بھلا محسوس ہوا۔ حضرت شیخ ابراہیم قندوزی پہچان گئے کہ یہ بچہ نہایت ہونہار اور راہ حق کا متلاشی ہے۔

حضرت شیخ ابراہیم قندوزی  نے اپنی جیب سے ایک کھلی کا ٹکڑا نکالا اور دندان مبارک سے چبا کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے دہن مبارک میں ڈال دیا۔ وہ کھلی کا ٹکڑا شباب معرفت کا ایک جام تھا جسے پیتے ہی آپ پر خودی کی کیفیت طاری ہو گئی اور نگاہوں سے تمام حجاب دور ہو گئے، آنکھوں میں نور ہی نور چھا گیا، تعینات کے حجابات سامنے سے اٹھ گئے، جوشِ حیرت قلب پر طاری ہو گیا اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس حالت فراموشی میں کب تک آئینہ حیرت میں رہے۔ جب آپ کو ہوش آیا تو ساقی جام معرفت محفل سے اٹھ چکا تھا، دل قابو سے باہر ہو گیا تھا اور طبیعت پر جبر کر کے دامن صبر قرار تھام کر بیٹھ گئے۔ 

عشق میں صبر چونکہ انتہائی دشوار ہوتا ہے

لہذا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو بھی قرار نہ رہا اور جو جلوہ آپ کو حضرت شیخ ابراہیم قندوزی  دکھا چکے تھے اس جلوہ کو دیکھنے کے بعد اب خود پر ایک دیوانگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور دنیا اور دولت دنیا سب حقیر اور بے وقعت دکھائی دینے لگی تھی۔ آپ کے قلب میں عشق خداوندی جوش مارنے لگا اور قلب تمام دنیاوی آلائشوں سے پاک ہو گیا اور دنیا سے بے پرواہ ہو گیا۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی دیوانگی اور بڑھتی چلی گئی اور آپ نے حضرت شیخ ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں جام معرفت پینے کے تیسرے دن ہی اپنی تمام املاک فروخت کر کے اس کی رقم راہ خدا میں خرچ کر دی اور خود معمولی سا زادِ راہ لیا اور اپنے وطن، اپنے عزیز و اقارب اور رفقاء کی محبت کو خیر باد کہہ کر چل دیئے۔

محبوب حقیقی کے سچے عاشقوں کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ قرب یار پانے کے لئے سب سے پہلے علوم ظاہری کا زینہ طے کرتے ہیں۔ پھر عمل کی دشوار گزار منزلوں کو طے کر کے علوم باطنی سیکھتے ہیں تب کہیں جا کر انہیں جلوہ محبوب دکھائی دیتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے بھی اپنے مطلوب تک رسائی کے لئے یہی راستہ اختیار کیا۔

اس زمانہ میں ترکستان کی سرحد پر واقع سمرقند اور بخارا کے عظیم الشان دار العلوم عالمگیر شہرت رکھتے تھے۔ مشرق و مغرب کے ہزاروں طلباء ہر سال علم کی دولت سے مالا مال ہونے کے لئے ان دار العلوم کا رخ کرتے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے تحصیل علوم وفنون کیلئے سمرقند اور بخارا کا انتخاب کیا۔ بخارا پہنچ کر آپ علم حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے۔

اگر چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی صغیر سِنی کی تعلیم کے متعلق کسی سوانح نگار نے قلم کو جنبش نہیں دی کہ والدین نے آپ پر کو گھر میں ابتدائی تعلیم دی تھی مگر سادات خراسان کے مقتدر خاندانوں سے تعلق اور عارف و کامل صاحب فضل و کمال باپ کی گود میں پرورش پانے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی بھلا کیونکر ان پڑھ رہ سکتے تھے۔ حالات و واقعات کے سیاق و سباق میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اگر چہ زیادہ نہیں تو کم از کم قرآن مجید کی تعلیم اور علوم مروجہ کی ابتدائی کتابیں ضرور پڑھی ہوں گی اور یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ قرآن مجید کے کچھ سپارے بھی حفظ کئے ہوں۔ بہر حال بخارا پہنچنے سے پہلے آپ

نوشت و خواند سے واقف ضرور تھے ،

حضرت خواجہ معین الدین چشتی بخارا کے تمام علماء فضلاء کے حلقہ درس میں شریک ہوئے۔ تذکروں اور سوانح عمری کے مطالعہ سے یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ آپ نے کن کن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا مگر آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا حسام الدین بخاری خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے آپ کو دستار فضیلت عطا فرمائی۔ حضرت مولانا حسام الدین بخاری کی درسگاہ سے آپ نے علوم ظاہریہ کی تکمیل فرمائی ۔ ۲۳ سے ۲٤ برس کی عمر میں علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد صفائی قلب اور تزکیۂ نفس کا ضروری سامان حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو بہم پہنچ گیا تھا مگر قلب جس تسکین کا متلاشی تھا وہ نصیب نہ ہوئی اور جس محبوب کو جی بھر کر دیکھنے کی آرزو دل میں چٹکیاں لے رہی تھی اس تک ابھی رسائی نہ ہوئی تھی۔(حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے 100 واقعات)


(طالب دعا)

محمد معراج رضوی واحدی براہی سنبھل یوپی ہند






हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner