AD Banner

{ads}

حضرت خواجہ غریب نواز کے عہد طفولیت کے حالات و واقعات

( حضرت خواجہ غریب نواز کے عہد طفولیت کے حالات و واقعات )


حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے چار پانچ سال کی عمر میں جب ہوش سنبھالا تو والدین نے اپنے سایۂ عاطفت میں آپ کی تعلیم و تربیت شروع کی۔ اگر چہ کسی صاحب تذکرہ نے یہ نہیں لکھا کہ ابتدائی تعلیم والدین نے دی تھی مگر یہ بات قرین عقل سے معلوم ہوتی ہے، کیونکہ آپ کے والد محترم متبحر عالم اور " عارف کامل تھے۔ ایسی بزرگ ہستی کی شان سے یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ اس کا فرزند عہد طفولیت میں تعلیم و تربیت سے محروم رہے۔ والدین نے کم از کم قرآن مجید اور اخلاق کی تعلیم ضروردی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ایسے با عظمت باپ کے زیر سایہ جس بچہ کی تربیت ہوگی وہ آگے چل کر کیا کچھ نہ ہو گا۔ اس تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ تھوڑے ہی عرصہ میں کامل (ولی اللہ) بن گئے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی جس وقت عالم وجود میں تشریف لائے تو دنیا کے پردۂ اسکرین پر خونی ڈرامہ کے روح فرسا مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ آپ کی پیدائش کے وقت خراسان میں سلجوقی خاندان برسرِ اقتدار تھا۔ ان دنوں سیستان اور گرد و نواح پر تازہ مصیبت یہ آن پڑی کہ حکومت کی کمزوریوں کو محسوس کرتے ہوئے ترکوں کے ٹڈی دل لشکر نے حملہ کر دیا ۔ اس لڑائی میں وہاں کا بادشاہ مارا گیا۔ طول و عرض ملک میں فتنہ و فساد، بد امنی اور بے چینی پھیل گئی۔ ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہ تھی ۔ آئے دن کے مصائب اور پریشانیوں سے دل برداشتہ ہو کر خواجہ غیاث الدین نے رختِ سفر باندھا اور بیوی بچوں کے ہمراہ امن وسکون کی تلاش میں خراسان روانہ ہو گئے ۔ حکومت خراسان کا صدر مقام نیشا پور تھا۔ خواجہ غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اسی علاقہ میں سکونت اختیار کرلی۔ حلال معاش کیلئے باغات اور پن چکی خریدی تاکہ زندگی کے باقی ماندہ ایام آرام سے بسر کر سکیں۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک سات برس تھی۔

نیشا پور پہنچنے کے کچھ عرصہ کے بعد حضرت خواجہ غیاث الدین حسن دنیا سے رحلت فرما گئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کم سنی میں یتیم ہو گئے۔ حضرت خواجہ غیاث الدین حسن کا کفن بھی ابھی میلا نہ ہوا تھا کہ آپ  کی والدہ سیدہ بی بی ماہ نور بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ اور یوں آپ رحمۃ اللہ علیہ باپ کے سایۂ الفت اور ماں کی آغوش محبت سے محروم ہو گئے۔

حضرت سیدہ بی بی ماہ نور  حضرت خواجہ غیاث الدین کے وصال کے بعد ترکہ پدری بیٹوں میں تقسیم کر دیا ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کے حصہ میں انگوروں کا باغ اور ایک پن چکی آئی تھی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اس باغ اور پن چکی کی آمدنی سے گزر بسر کرنے لگے۔ ملکی انقلابات اور والدین کا سایہ اٹھ جانے کے بعد آپ کا دل دنیا سے بیزار ہو گیا۔ آپ اپنا زیادہ تر وقت اسی باغ میں گزارتے تھے۔ باغبانی کا کام کرتے اور باغ کی صفائی، پودوں کی دیکھ بھال کا کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پودوں کی کانٹ چھانٹ اور غرض یہ کہ ہر ممکن طریقہ سے یہ باغ کی نگرانی اور متعلقہ کام سرانجام دیتے تھے۔ یہی محبوب مشغلہ آپ کا ذریعۂ معاش تھا۔ اس باغ کی آمدنی سے ہی آپ گزر بسر کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی عمر مبارک پندرہ برس ہوگئی۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے اور آپ کی مسیں بھیگنے لگی تھیں ۔ خط کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور عہد طفولیت کے حالات و واقعات و تجربات سے آپ یہ سنجیدہ مزاج اور پختہ کاربن گئے تھے۔ باغبانی کے کام اور نماز سے فراغت کے بعد جو وقت فرصت ملتا تھا اس میں آپ نے اکثر بحر خیالات میں غوطہ زن رہا کرتے تھے۔ دل دنیائے ناپید کنار سے بیزار ہو چکا تھا۔ آپ کی حقیقت شناس نگاہیں کسی ایسے راستہ کی تلاش میں تھیں جو بندے کو اللہ عزوجل سے ملا دے۔ آپ بھی یہ سوچتے سوچتے گھبرا جاتے تھے اور گم کردہ مسافر کی طرح بھٹک جاتے تھے بالآخر ایک روز قسمت کا ستارہ چمکا اور اللہ عزوجل نے ایک مجذوب کی شکل میں آپ کی راہنمائی فرمائی۔(" حضرت خواجہ غریب نواز کے 100 واقعات ")


""طالب دعا ""

محمد معراج رضوی واحدی براہی سنبھل یوپی ہند




हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner