AD Banner

{ads}

سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کے مختصر حالات

 سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کے مختصر حالات


ضیاءالمصطفی نظامی

دارالقلم خانقاہ قادریہ برکاتیہ نظامیہ اگیاشریف،سنت کبیرنگر یوپی


خواجہ خواجگان سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی زندگی کا ہر باب اطاعت خداوندی اور اتباع سنت نبویﷺ کا آئینہ دار تھا ۔ برصغیر میں اسلام کی دلکش بہاریں آپ کی دعوت وتبلیغ اور رُشد و ہدایت کا نتیجہ ہیں ۔ 

یوں تو ہندوستان میں اسلام کا چراغ آپ کے ورودِ مسعود سے پہلے منور چکا تھا مگر آپ کے گلشن ہدایت کی ایسی ہوا چلی جس سے سرزمین ہند میں شمع اسلام کا چراغاں ہی چراغاں ہو گیا ، آپ کی نگاہ ولایت جس پر پڑی دل کی دنیا بدل گئی آپ کے خلفاء سرزمین ہند پر جہاں تشریف لے گیے کفر وشرک اور الحاد و بے دینی کا اندھیرا چھٹتا چلا گیا ۔ 

حضور خواجہ غریب نواز کی ولادت ۵۳۴ ھ کو سرزمین سجستان میں ہوئی اس لیے آپ کو سنجری کہا جا تا ہے آپ کی سن ولادت کے متعلق تذکرہ نگاروں کے مابین اختلاف ہے لیکن محققین نے ۵۳۴ ھ ہی کو ترجیح دی ہے ۔

 آپ کے والد گرامی کا نام سید غیاث الدین اور والدہ کا نام ام الورع ہے ، آپ نجیف الطرفین سید تھے آپ کا نسب نامہ پدری گیارہ واسطوں سے سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تک پہونچتا ہے ۔ 

اور نسب نامہ مادری بھی گیارہ واسطوں  سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے ۔ 

آپ کے والد ماجد حضرت سید غیاث الدین حسن بڑے متقی و پرہیز گار تھے ۔ 

 جب حضرت خواجہ غریب نواز کی عمر مبارک پندرہ سال کی ہوئی تو والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا وراثت میں ایک باغ اور پن چکی ملی جس کی آمدنی ان کا ذریعہ معاش تھا جس سے آپ کی بسر اوقات ہوتی تھی ۔ سید نظیر علی اجمیری اپنی کتاب معین الاولیاء میں حضرت خواجہ غریب نواز کی شانِ غریب نوازی کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں : حضرت خواجہ غریب نواز اپنے بچپن میں ایک عید کے موقع پر نہایت عمده لباس زیب تن کیے ہوۓ نماز دوگانہ ادا کر نے عید گاہ کی جانب تشریف لے جارہے تھے راستے میں آپ کی نگاہ ایک لڑکے پر پڑی وہ لڑکا اندھا تھا اور پھٹے کپڑے پہنے ہوئے تھا آپ اس لڑکے کو دیکھ کر رنجیدہ ہوۓ اور فوری طور پرشان غریب نوازی کو جوش آیا آپ نے اپنے کپڑے اتار کر اس غریب اور اندھے لڑکے کو دے دیئے اور خود پرانے کپڑے پہن کر اس لڑ کے کواپنے ساتھ لے گئے ۔

 حضرت خواجہ غریب نواز علوم ظاہری کی تلاش میں جنگلوں ، پہاڑوں صحراؤں ، دریاؤں کو عبور کر کے بڑی صعوبتیں برداشت کرتے ہوۓ سمرقند سے بخارا پہنچے چونکہ اس وقت بغداد سمرقند و بخارا اسلامی علوم وفنون کے مرکز تھے اور وہاں پہونچ کر اس وقت کے متبحر عالم دین مولا نا حسام الدین بخاری جیسی عظیم المرتبت شخصیت سے علوم ظاہری کی تعلیم حاصل کی ۔

 حضرت خواجہ غریب نواز کی حضور غوث اعظم سے ملاقات کے متعلق تذکرہ نگاروں کے مابین اختلاف ہے لیکن اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت خواجہ غریب نواز کی حضور غوث اعظم سے ۵۵۰ ھ میں بغداد میں پہلی بار ملاقات ہوئی ۔ حضور غوث اعظم نے حضرت غریب نواز کودیکھ کر فرمایا : یہ مردمقتداۓ روز گار ہے بہت سے لوگ اس سے منزل مقصود کو پہونچیں گے ‘ ‘ ۔

 دوران گفتگو حضرت غریب نواز نے ہندوستان کے سفر کا ارادہ ظاہر فرمایا ۔ یہ سن کر حضور غوث اعظم نے حضرت غریب نواز سے فرمایا : اے معین الدین ! ہندوستان کی سرحد پر ایک شیر بیٹھا ہے اس سے ڈرنا !

 حضور غوث اعظم کا یہ کنایہ حضرت شیخ علی ہجوری کی طرف ہے جو حضرت داتا گنج بخش کے لقب سے مشہور ہیں ۔

 آپ کا مزار مقدس لاہور میں مرجع خلائق ہے ۔

 حضرت غریب نواز ۵۵۱ ھ میں بغدا سے سفر حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوۓ ۔اور ۵۵۲ ھ میں ہارون پہونچے وہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی، ڈھائی سال تک پیرومرشد کی بارگاہ میں مصروف مجاہدہ رہے ۔ آخر کار مرشد برحق کی خدمت رنگ لائی ۔اور مرشد گرامی نے خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا ۔ حضرت عثمان ہارونی کو حضرت غریب نواز سے انتہائی محبت تھی ۔ آپ کو حضرت خواجہ غریب نواز کی مفارقت گوارا نہ تھی۔آخر کار مفارقت کی تاب نہ لا کر حضرت خواجہ عثمان ہارونی ہارون سے بغداد کے لیے روانہ ہوۓ ۔سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے آپ ایک مقام پر پہونچے جو آتش پرستوں کا مسکن تھا ۔  یہاں ایک آتش کدہ تھا ، اس آتش کدہ میں سوخردارلکڑیاں روزانہ ڈالی جاتی تھیں آگ ہر وقت جلتی تھی حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے یہاں پہونچ کر آرام فرمایا ، ایک درخت کے ساۓ میں فروکش ہوۓ ۔ نماز کا وقت ہوا مصلّٰی بچها کر نماز میں مشغول ہوئے ، اپنے خادم فخر الدین سے آپ نے فرمایا ’ ’ آگ لاکر افطار کے لیے روٹی تیار کرو حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ فخرالدین آتش کدہ پر آگ لینے گیے ۔آتش پرستوں نے آگ دینے سے انکار کیا اور کہا : یہ ہمارا معبود ہے ہم اس میں سے آگ نہیں دے سکتے فخرالدین مایوس ہوکر واپس آۓ اور سارا واقعہ خواجہ عثمان ہارونی کو سنایا ، آپ نے تجدید وضو کیا اور بہ نفس نفیس وہاں تشریف لے گیے ، وہاں جا کر آپ نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی ایک چوبی تخت پر بیٹھا ہے ، اس بوڑھے آدمی کا نام مخشیا تھا ایک آٹھ سال کا لڑکا اس کی گود میں تھا ، بہت سے آتش پرست اس کے پاس بیٹھے ہوۓ آگ کی پرستش میں مصروف تھے ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اس بوڑھے آدمی کو متوجہ کر کے فرمایا : یہ آگ پوچنے سے کیا فائدہ ؟ یہ حق تعالٰی کی ایک ادنٰی مخلوق ہے جوتھوڑے پانی سے نیست و نابود ہو جاتی ہے ۔اس خالق کی پرستش کیوں نہیں کرتے جس کی مخلوق ہے تاکہ کارآمد ہو ؟ ‘ ‘ بوڑھے نے جواب دیا : آگ ہمارے دین میں بہت بزرگ اور ہمارے لیے باعث نجات ہے ۔ حضرت عثمان ہارونی نے یہ جواب سن کر فرمایا : - " تم اس کو عرصہ دراز سے پوجتے ہو اور اس کی خدمت کر تے ہو آؤ اس میں ہاتھ ڈالو اگر یہ باعثِ نجات ہے تو تمہیں جلنے سے نجات دے گی ‘ ‘ ۔

 اس بوڑھے نے کہا : ” جلا نا آگ کی خاصیت ہے کس کی مجال جو اس میں ہاتھ ڈالے اور سلامت رہے ۔

 حضرت عثمان ہارونی نے فرمایا : " یہ حکمِ خالق کی تابع ہے ۔ کیا مجال جو بلاحکمِ ربانی ایک بال بھی جلاۓ ‘ ‘ ۔ 

یہ فرما کر حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے لڑکے کو اس بوڑھے آدمی کی گود سے اپنی گود میں لے لیا اور بسم اللّٰه الرحمن الرحیم پڑھ کر اس لڑکے کے ساتھ آتش کدہ میں داخل ہو گئے ۔

آتش کدہ والے سخت حیران و پریشان ہوۓ آہ وفغاں کرنے لگے ۔ حضرت چار ساعت آتش کدہ میں رہے چار ساعت کے بعد اس لڑکے کے ساتھ باہر تشریف لاۓ ۔

جسم مبارک پر یا لباس پر آگ کا کوئی اثر نہ تھا وہ لڑ کا بھی خوش وخرم تھا ۔ اس پر بھی آگ کا کوئی اثر نہ تھا ۔ اس بوڑھے آدمی کو اپنے لڑکے کوخوش و خرم دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اس نے لڑکے سے پوچھا ’ ’ تو نے آگ میں کیا دیکھا ؟

 لڑکے نے جواب دیا کہ میں تو شیخ کی بدولت وہاں باغ کی سیر کر رہا تھا ۔ 

ان آتش پرستوں کو بہت حیرت ہوئی ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی اس کرامت نے آتش پرستوں کو آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ اُنہوں نے آپ کے دست حق پرست پر سچے دل سے تو بہ کیا اور اِسلام میں داخل ہو گئے ۔ حضرت نے مخشیا کا نام عبداللہ اورلڑ کے کا نام ابراہیم تجویز فرمایا ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے تقریبا ڈھائی سال یہاں قیام فرمایا ۔اور رشد و ہدایت میں مصروف رہے ، لوگوں کو پیغام حق پہنچایا ۔عبداللہ نے حضرت سے خرقہ پہنا ۔ ان کے لڑ کے ابراہیم اولیاء اللہ کی صفوں میں داخل ہو گئے ۔ آتش کدہ کے بجاۓ وہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر ہوئی شیخ عبداللہ اور ابراہیم اس مسجد کے پہلو میں مدفون ہوۓ ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی سفر کی مسافت طے کرتے ہوۓ پیغام حق پہونچاتے ہوۓ اور رشد وہدایت کرتے ہوئے بغداد میں رونق افروز ہوۓ ۔ آپ کے بغداد میں تشریف فرمانے کے بعد  حضرت خواجہ غریب نواز بغداد پہونچے مرشد گرامی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور بیعت تقریب یا بیعت ثانی سے مشرف ہوئے ۔اس بیعت کی تفصیل حضرت خواجہ غریب نواز خوداس طرح رقم طراز ہیں ۔ 

” مسلمانوں کا یہ دعا گو معین الدین حسن سنجری بمقام بغداد شریف خواجہ جنید کی مسجد میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہ کی قدم بوسی سے مشرف ہوا۔اس وقت مشائخ کبار حاضر خدمت اقدس تھے جب اس درویش نے سر نیاز زمین پر رکھا مرشد گرامی نے ارشادفر مایا ‘ ‘ ۔

 ’ ’ دورکعت نماز ادا کرو میں نے ادا کی ۔ پھر فرمایا ’ ’ قبلہ رو بیٹھ میں بیٹھ گیا ۔ حکم دیا کہ ! ’ ’ سورہ بقرہ پڑھ میں نے پڑھی ۔فرمان ہوا کہ ! ’ ’ اکیس بار درودشریف پڑھ‘میں نے پڑھا ۔ پھر آپ کھڑے ہو گئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف کیا اور فرمایا ! ’ آ ‘ تا کہ تجھے خدا تک پہونچادوں ‘ ‘ ۔

 اس کے بعد مقراض لے کر دعا گو کے سر پر چلائی اور کلاہ چہارتر کی اس درویش کے سر پر رکھی کلیم خاص عطافرمائی ۔  پھر ارشاد فرمایا 

’ ’ بیٹھ جا ؤ ‘ ‘ میں بیٹھ گیا ۔

فرمایا ’ ’ ہمارے خانوادہ میں ایک شبانہ مجاہدہ کا معمول ہے تو آج رات مشغول رہ ۔ 

یہ درویش بحکم پیرومرشد مشغول رہا ۔ دوسرے دن جب حاضر بارگاہ ہوا ارشادفرمایا : 

بیٹھ جا اور ہزار بار سورہ اخلاص پڑھ ، میں نے پڑھی ۔

فرمایا : آسمان کی طرف دیکھ میں نے دیکھا استفسارفرمایا ’ ’ کہاں تک دیکھا ہے ‘ ‘ ۔ عرض کیا عرش اعظم تک ۔

 فرمایا ’ ’ زمین کی طرف دیکھ ، میں نے دیکھا ، دریافت فرمایا :

 کہاں تک دیکھتا ہے ‘ ‘ عرض کیا : ’ ’ تحت الثری تک ‘ ‘ 

فرمایا : پھر ہزار بار سورہ اخلاص پڑھ ‘ ‘ میں نے پڑھی فرمایا : پھر آسمان کی طرف دیکھ میں نے دیکھا ۔ ۔

پوچھا’’اب کہاں تک دیکھا ‘ ‘ عرض کیا ’ ’ حجاب عظمت تک ‘ ‘ ۔ فرمایا : آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلیں ۔فرمایا کھول میں نے کھولیں ، پھر مجھے اپنی انگلیاں دکھا کر استفسار فرمایا ! کیا دیکھتا ہے ؟۔ میں نے عرض کیا ہزدہ ہزار عالم دیکھتا ہوں ، اس کے بعد سامنے پڑی ہوئی ایک اینٹ کے اٹھانے کے لیے فرمایا :

 میں نے اٹھایا تو مٹھی بھر دینار برآمد ہوئے ۔ فرمایا :

 ان کو لے جا کر فقراء میں تقسیم کر ، میں نے حکم کی تعمیل کی ۔ بعد ازاں حاضر بارگاہ ہوا ارشادفرمایا:

’’چند روز ہماری صحبت میں رہو۔

عرض کیا : ’ ’ تابع فرمان ہوں ‘ ‘ ۔ حضرت خواجہ غریب نواز کو اپنے مرشد گرامی سے بہت محبت تھی ، آپ نے اپنے پیرومرشد کی جیسی خدمت کی اس کی مثال کم ملتی ہے ، بیس سال تک آپ اپنے مرشد گرامی حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے ساتھ سفر وسیاحت میں رہے ۔ یہ مدت خواجہ غریب نواز نے اپنے مرشد برحق کی خدمت میں گزاری ۔اس دوران حضرت خواجہ غریب نواز ہمہ تن ہر وقت اپنے مرشد گرامی کی خدمت میں مصروف رہتے ، آپ نے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے نفس کو آسودگی نہ دی جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی مسافرت فرماتے حضرت خواجہ غریب نواز حضرت کا جامہ خواب اور توشہ سفر سر پر لیے ہم رکاب رہے ۔

 حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے خواجہ غریب نواز کی یہ خدمت دیکھ کر آپ کو وہ نعمت عطا فرمائی جس کی حد نہیں ۔ آخر کار حضرت خواجہ غریب نواز اپنے پیرومرشد سے بغداد میں رخصت ہوئے اس وقت خواجہ غریب نواز کی عمر باون سال تھی ۔ اس موقع پر حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو خلافت و جانشینی سے سرفراز فرمایا ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے تبرکات مصطفوی جو خواجگان چشت میں سلسلہ بہ سلسلہ چلے آرہے تھے خواجہ غریب نواز کو عطا فرماۓ ۔ 

حضرت عثمان ہارونی نے خواجہ غریب نواز کو امین تبرکات کے شرف سے نوازا اور حضرت خواجہ غریب نواز کو جانشین بنایا ۔ 

جس کی تفصیل حضرت خواجہ غریب نواز یوں بیان فرماتے ہیں : 

” حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے ارشاد فر مایا : 

خواجہ معین الدین ! میں نے یہ سب کام تیری تکمیل کے لیے کیا ہے ۔ تجھ کو اس پر عمل کرنا لازم ہے ۔فرزند خلف وہی ہے جو اپنے گوش ہوش میں اپنے پیر کے ارشاد کو جگہ دے ، اپنے شجرہ میں ان کو لکھے اور انجام کو پہو نچائے تا کہ کل قیامت کے دن شرمندگی نہ ہو ۔ 

اس ارشاد کے بعد عصائے مبارک جومرشد کے سامنے رکھا تھا دعا گو کو عطا فرمایا ۔اس کے بعد خرقہ نعلین چوبیں اور مصلّٰی بھی عنایت فرما کر سرفراز کیا پھر ارشادفر مایا : یهی تبرکات ہمارے پیران طریقت رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی یادگار ہیں جو سرور کائنات ﷺ سے ہم تک پہنچے ہیں اور ہم نے تجھے دۓ ہیں ، ان کو اس طرح اپنے پاس رکھنا جس طرح ہم نے رکھا جس کو مرد پانا اس کو ہماری یہ یادگاردینا ۔ 

 ” خلق سے لالچ نہ رکھنا آبادی سے دور مخلوق سے کنارہ کش رہنا اور کسی سے کچھ طلب نہ کرنا ‘ ‘ ۔

 خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد فرما کر مرشد برحق نے معانقہ کیا سروچشم کو بوسہ دیا اور فرمایا ’ تجھ کو خدا کے حوالے کیا ۔ پھر اوراد وظائف میں مصروف ہو گیے اور میں رخصت ہوا۔

 ۵۵۷ ھ میں جب حضرت خواجہ غریب کی عمر مبارک ۲۷ سال کی تھی ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے اس وقت آپ بغداد میں مقیم تھے ۔ بغداد سے چل کر آپ ہمدان پہونچے ہمدان سے تبریز تشریف لے گئے تبریز میں آپ حضرت ابوسعید تبریزی سے ملے جوشیخ جلال الدین تبریزی کے پیر و مرشد ہیں ۔ تبریز سے آپ استر آباد کے لیے روانہ ہوئے وہاں آپ نے شیخ ناصر الدین استر آبادی سے ملاقات کی اور وہاں سے بخارا پہونچے اس سفر کے متعلق حضرت خواجہ غریب نواز بیان فرماتے ہیں کہ :

 دوران سفر بخارا میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی یہ از حد مشغول تھا لیکن نابینا تھا میں نے اس سے دریافت کیا کہ کب سے نابینا ہوۓ ؟ فرمایا : 

جب میرا کام کمالیت کو پہونچا اور وحدانیت وعظمت پر نگاہ پڑنی شروع ہوئی تو ایک دن میری نگاہ غیر پر پڑگئی غیب سے ندا آئی : 

" اے مدعی ! دعوی تو ہماری محبت کا کرتا ہے مگر غیر کی طرف دیکھتا ہے ۔ جب یہ آواز سنی تو ایسا شرمندہ ہوا کہ بات تک نہ ہوسكی بارگاہ خداوندی میں التجا کی کہ جو آنکھ دوست کے سوا غیر کو دیکھے اندھی ہو جاۓ ابھی یہ بات اچھی طرح کہنے بھی نہ پایا تھا کہ دونوں آنکھوں کی بصارت چلی گئی ‘ ‘ ۔ 

حضرت خواجہ غریب نواز وہاں سے خرقان تشریف لے گیے وہاں پہونچ کر آپ نے حضرت ابوالحسن خرقانی کے مزار مقدس پر حاضری دی اور باطنی فیوض و برکات سے سرفراز ۔ ہوۓ ۔ خرقان سے سمر قند کے لیے روانہ ہوۓ اس سفر کے متعلق حضرت خواجہ غریب خود فرماتے ہیں :

’ ’ ہنگام مسافرت میں جب میں سمرقند میں تھا وہاں ابواللیث سمرقندی کے مکان کے قریب ایک مسجد تھی اس کی محراب کے قبلہ رخ ہونے کے متعلق ایک دانش مند نے اعتراض کیا لیکن میں نے اسے محراب کے صحیح قبلہ رخ ہونے کا بالمشاہدہ اطمینان کرادیا ‘ ‘ ۔ 

سمرقند سے مدینہ تشریف لے گئے وہاں خواجہ ابوسعید ابوالخیر کے مزار مقدس سے باطنی فیوض و برکات سے شادکام ہوۓ ۔ پھر چشت ہوتے ہوۓ ہرات روانہ ہوۓ ہرات میں آپ نے مجاہدات وریاضات میں مشغول رہے حضرت شیخ عبداللہ انصاری کے مزار مقدس پر حاضر ہوکر آپ نے باطنی فیوض حاصل کیے پوری پوری رات مزار کے قبہ میں بیدار رہتے تھے ۔ دھیرے دھیرے آپ کی بزرگی اور کشف وکرامات کی شہرت ہرات میں پھیلنے لگی لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے آپ کو شہرت نام ونمود اور مخلوق کی بھیڑ نا پسند تھی پس آپ ہرات سے چل دیے اور سبزہ دار جو افغانستان میں واقع سے تشریف لے گیے سبزہ دار میں کچھ دن قیام فرما کر آپ نے ہندوستان کا رخ فرمایا شادماں فورٹ ہوتے ہوۓ آپ مورخہ ۱۰ محرم الحرام  ۲۱ ,۵ ھ مطابق ا نومبر 1145,ءملتان رونق افروز ہوئے ۔ ملتان سے لاہور تشریف لے گیے لاہور میں حضرت شیخ علی ہجوری جودا تا گنج بخش کے لقب سے مشہور ومعروف ہیں کے مزار مقدس پر اعتکاف فرمایا آپ کا حجرہ جس میں آپ نے اعتکاف فرمایا اب بھی مرجع خاص و عام ہے ۔ وہاں سے روانہ ہوتے وقت آپ

پھر لاہور سے دہلی روانہ ہوئے اور دہلی پہونچ کر راج محل کے سامنے قیام فرمایا مخلوق خدا جوق در جوق آپ کے پاس جمع ہونے لگی اور آپ کی روح پرور باتوں سے اپنی تشنگی بجھانے لگی۔آپ کے ورود مسعود کی برکتوں سے اسلام کی شعائیں پھیلیں اور پھیلتی چلی گئیں کفر و شرک کے دائرے سمٹتے گے مصطفی جان رحمت ﷺ کے غلاموں کی تعداد بڑھتی گئی ، اپنے مرید وخلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی قدس سرہ کو دہلی میں چھوڑ کر آپ دارالخیر اجمیرمعلّٰی کا قصد فر مایا ۔ شیخ محقق علامہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی قدس سره اخبار الاخیار میں تحریر فرماتے ہیں کہ اجمیر کی وجہ تسمیہ یہ ہے ۔

ہندوستان کے راجاؤں میں ایک راجہ آجا نام کا تھا آجا آفتاب کو کہتے ہیں اور میر ہندی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں ۔ ہندؤں کی تاریخ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں پہلی فصیل جو پہاڑ کی چوٹی پر بنائی گئی یہی دیواریں ہیں جو کو ہِ اجمیر کے اوپر میں اور ملک ہند میں جو پہلا تالاب کھودا گیا وہ ہے ہندو اس کی پرستش کرتے ہیں اور ہر سال چھ روز تحویل عقرب کے وقت جمع ہوکر غسل کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ قیامت اسی تالاب سے شروع ہوگی ، خواجہ خواجگان سلطان الہند سرکارغریب نواز قدس سرہ جس وقت اجمیر معلّٰی تشریف لاۓ اس وقت اجمیر کا راجہ پرتھوی راج چوہان تھا جسے  رائے پتھورا بھی کہتے ہیں اور ۵۸۷ ھ میں ورود اجمیر ہوا ۔ حضور خواجہ خواجگاں نے اجمیر میں شہر سے باہر ایک خالی قطعہ زمین پر اپنا نورانی جلوہ اتارا جہاں راجہ کے اونٹ بٹھائے جاتے تھے ۔ شام کو راجہ کے ملازمین اونٹ لے کر آۓ اور آپ کو اس مقام سے ہٹانے کی کوشش کی آپ وہاں سے ہٹ تو گیے لیکن آپ کی کرامت سے اونٹ بیٹھے تو بیٹھے ہی رہ گیے ، ہزار کوشش کی باوجود اونٹ اپنی جگہ سے نہ اٹھ سکے جب آپ نے حکم فرمایا تو راجہ کے اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ سکے ، اسی طرح آپ نے انا ساگر تالاب کا پورا پانی ایک پیالہ میں جمع فرما کر اپنی خداداد طاقت کا اظہار فرمایا ۔انا ساگر کے اوپر بنے ہوۓ بت خانوں کا سب سے بڑا مہنت رام دیو آپ کے جمال جہاں آرا کو دیکھا تو لرز نے لگا اورکلمہ پڑھ گر مشرف با سلام ہو گیا اسی طرح راجہ کے درباری جادوگر وں نے آپ سے مقابلہ کی کوشش کی تو انہیں بھی سرتسلیم خم کرنا پڑا اور خواجہ ہند کی روحانی طاقت سے متاثر ہوکر کلمہ پڑھ کرمشرف باسلام ہو گیا ۔ قیام اجمیر کے دوران آپ نے راجہ پرتھوی چوہان کو بھی اسلام کی دعوت پیش فرمایا اور فرمایا کہ تو بھی مسلمان ہو جاورنہ ذلیل وخوار ہوگا اور یہ بھی ارشادفرمایا کہ اگر یہ بدبخت ایمان نہیں لایا تو میں اس کو اسلامی لشکر کے حوالہ زندہ گرفتار کرا دونگا ، ایک دوسرے موقعہ پر آپ نے ارشادفرمایا پتھورا رازندہ گرفتیم وادادیم ۔

 حضور خواجہ خواجگاں نے تقریبا ۴۵ سال تک اپنی دعوتی تبلیغی سرگرمیاں پھیلا کر ملک ہندکو روحانیت کا عظیم مرکز بنادیا روحانیت کے عظیم مبلغ سلطان الہند سرکارغریب نواز قدس سرہ نے چھ6رجب 633ھ

16/مارچ 1236 ء کو وصال  فرمایا نماز عشاء کے بعد حجرہ پاک کا دروازہ بند ہوا اورجب نماز فجر کے لیے دروازہ کھولا گیا تو حضور خواجہ خواجگاں وصال یار کی لذت سے آشنا ہوکر غریق رحمت الہی ہو چکے ہیں اور پیشانی مبارک پر یہ غیبی تحر یرمنقش ہے هذا حبیب اللہ مات في حب اللہ ۔ 

آسی شہید عشق ہوں مردہ نہ جانیو 

مرکر ملی ہے زندگی جاوداں مجھے 

وصال پاک کے بعد اولیاء کاملین کی ایک جماعت نے حضور سرکار کائنات فخر موجودات ﷺ کی زیارت کا شرف پایا سرکارفرمارہے ہیں کہ ہم آج محبوب خدا معین الدین کے استقبال کے لیے آۓ ہیں ۔ 

رب کریم آپ کی تربت اطہر پر صبح قیامت تک رحمت و نور کی بارش فرماۓ اور مخلوق خدا کو خواجہ خواجگاں کی مبارک چوکھٹ سے مستفیض فرماۓ۔آمین.





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner