AD Banner

{ads}

(نبی پاک ﷺ کا یتیم کے ساتھ حسن سلوک)

(نبی پاک ﷺ  کا یتیم کے ساتھ حسن سلوک)

  نبی پاکﷺ عید کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ چند بچے کھیل رہے ہیں اور (فيهم صبى جالس في ناحية يبكي وعليه ثياب خلقه)  ان میں ایک بچہ ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا اور اس کے بدن پر پھٹے پرانے کپڑے تھے۔ نبی پاک نے اس سے پوچھا: (ايها الصبي مالك تبكى ولا تلعب مع الصبیان)  اے بیٹا تو کیوں رورہا ہے؟ اور تو دوسرے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں کھیلتا ؟ اس بچے نے عرض کیا حالانکہ وہ بچہ نہیں جانتا تھا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں:  (خل عنی ايها الرجل فان ابي مات في غزوة كذا مع النبى فتزوجت امي بزوج غیره فاکلا مالی واخرجنى زوجها من بيته وليس لى طعام ولا شراب ولا ثياب ولا بيت اوى اليه فلما رايت الصبيان ذوى الاباء يلعبون وعليهم الثياب تجدد حزني و مصيبتى فلذلك بكيت ) اے مرد اس بات کو چھوڑ دے، اس واسطے کہ میرا والد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں گیا تھا اور وہاں وہ شہید ہو گیا۔ میری والدہ نے دوسرا شوہر کر لیا ان دونوں نے میرا مال کھا لیا اور اس شوہر نے مجھے میرے گھر سے نکال دیا، اب میرے پاس نہ کھانا ہے، نہ کپڑا ہے، نہ پینا ہے اور نہ ہی رہنے کے لیے گھر ہے۔ جب میں ان بچوں کو دیکھتا ہوں جن کے والد زندہ ہیں کہ وہ کھیل ہے ہیں اور ان کے جسم پر نئے کپڑے ہیں تو میرا غم اور پریشانی بڑھ جاتی ہے اس

وجہ سے میں روتا ہوں۔ نبی پاک نے اس لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: (اما ترضى ان اكون لك ابا و عائشه اما و فاطمه اختا و علی عما و الحسن والحسين اخوة فقال كيف لا ارضی یا رسول الله فحمله الى منزله والبسه احسن الثياب و زینه و اطعمه وارضاه فخرج ضاحكا مسرور ا بعد والی الصبیان) 

کیا تواس بات پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ بنوں اور عائشہ تیری ماں ، فاطمہ تیری بہن علی تیرا چچا اور حسن و حسین تیرے بھائی بنے۔ اس بچہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ میں راضی کیوں نہ ہوں گا۔ اس کے بعد نبی پاک اس کو اپنے گھر لے گئے اور اس کو خوبصورت کپڑے پہنائے ، خوب اس کو سنوارا، کھانا کھلایا اور خوش کیا۔ پھر وہ خوشی سے مسکراتا ہوا دوسرے لڑکوں کے پاس آیا۔

جب لڑکوں نے اس کو دیکھا تو کہنے لگے: (وانت الان كنت تبكي فمالك صرت مسرورا)  ابھی تو کچھ دیر پہلے رورہا تھا اور اب تو اتنے خوش کیوں ہے؟ اس لڑکے نے جواب دیا: (كنت جائعا فشبعت و عاريا فاكتسيت و يتيما فصار رسول الله ابی و عائشه امی و فاطمه اختی و علی عمی و الحسن والحسين اخوتی) کہ میں بھوکا تھا تو سیر ہو گیا، ننگا تھا تو اب کپڑے زیب تن کر لیے۔ اور رسول اللہﷺ میرے باپ ، عائشہ میری ماں ، فاطمہ میری بہن علی میرا چچا، اور حسن و حسین میرے بھائی بن گئے ہیں۔ تو سارے لڑکے کہنے لگے: (لیست اباء نا كلهم ماتوا فى تلك الغزوة ) کاش ہم سب کے باپ اس غزوہ میں شہید ہو گئے ہو تے۔ اس کے بعد وہ لڑکا ہمیشہ نبی پاک کی خدمت اقدس میں رہا۔ جب نبی پاک کا وصال ظاہری ہوا تو ،(ويحثوا التراب على راسه و يقول الان صرت يتيما الان صرت غريبا فضمه ابو بكر الى نفسہ) وہ لڑ کا سر پر مٹی ڈالتا ہوا گھر سے با ہر نکلا اور کہتا تھا کہ میں یتیم ہو گیا، میں غریب ہو گیا۔ پھر اس کو ابو بکر صدیق نے اپنے سا یہ شفقت میں لے لیا۔(حکایات قلیوبی صفحہ ۴۴/۴۵)


طالب دعا

ناچیز محمد ابرارالقادری



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner