AD Banner

{ads}

(بغرض علاج عورت کا ستر دیکھنا کیسا ہے؟)

 (بغرض علاج عورت کا ستر دیکھنا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید ایک بہترین ماہر ڈاکٹر ہے ساتھ ہی ساتھ پرہیزگار بھی ہے نماز کا پابند اور باشرع ہے ۔زید کے پاس سیکڑوں مرد و عورت  علاج کے لئے آتے ہیں ایسی صورت میں غیر محرم کے ستر عورت کو دیکھنا یعنی ناف کے نچیے کے حصہ کو۔آپریشن کی صورت میں ہو یا چیکپ کی صورت میں اس کے علاوہ بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو پردے کی ہیں ہے جو نہیں دیکھنی چاہئے پر  اس حالت میں ضرورت پڑتی ہے ۔تو کیسے بچا جائے ایسی صورت میں شریعت اجازت دیتی ہے کہ اس کام کو کرنے کا اور وہ رقم حلال ہوگی کہ نہین۔کیآ ڈاکٹری کا کام کیآ جائے یا چھوڑ دیا جائے حوالاجات کے ساتھ دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی:۔محمد عظمت اللہ مقام ملک پور پوسٹ رتن پور ضلع دربھنگہ بہار
  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب
طبیب کے لئے عورت کا علاج ضرورت کی بنا پر جائز ہے ایسا ہی فتاوی ہندیہ میں ہے ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘ عورت کی شرمگاہ کی طرف دیکھنا ختنہ کرنے والے کے لئے اور دایا کے لئے اورحکیم کے لئے علاج کے وقت جائز ہے البتہ وہ حسب استطاعت جہاں تک ہوسکے اپنی نگاہ کو نیچے رکھے ۔ایسا ہی سراجیہ میں وہ عورت جسکی کسی جگہ ناسور ہوگیا اور وہ ایسی جگہ ہے کہ مرد کے لئے اس جگہ دیکھنا حلال نہیں ۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی عورت کو سیکھا دے کہ وہ اس کا علاج کرے اور اگر کوئی عورت نہ مل سکے کہ اس کا علاج کرسکے اور نہ کوئی ایسی عورت مل سکے جو اسے سیکھا سکے اور اس سے بلا یاشدید درد کا یا ہلاک ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ایسی ناگزیر صورت میں اس موضع زخم کو چھوڑ کر جمیع اعضاء ڈھک دیے جائیں اور طبیب اس کا علاج کرے اور جہاں تک ہو سکے غض بصر کرے اور اس معاملہ میں محارم اور غیر محارم کا کوئی فرق نہیں ہے، کیوں کہ محرم ہونے کی وجہ سے اعضاء ستر کا دیکھنا حلال نہیں ہوجاتا ہے.  ایسا ہی فتاوی قاضی خاں میں ہے ۔(جلد ۵ ص ۳۳۰)  
ایسا ہی شرح تنویر میں ہے ومداواتھا، ینظر الطبیب الٰی موضع مرضھا بقدر الضرورة۔ اذا لضرورات تتقدر بقدرھا۔ وکذا نظر قابلة وختان۔ وینبغی ان یعلم امرأة تداویھا لأن نظر الجنس الی الجنس اخف۔ وفی الشامیة: قال فی الجوھرة: اذا کان المرض فی سائر بدنھا غیر الفرج یجوز النظر الیہ عند الدوا لأنہ موضع ضرورة۔ وان کان فی موضع الفرج فینبغی ان یعلم امرأة تداویھا، فان لم توجد وخافوا علیھا ان تھلک او یصیبھا وجع لا تحتملہ، یستروا منھا کل شیٴ الا موضع العلة ثم یداویھا الرجل ویغض بصرہ ما استطاع الا عن موضع الجرح۔۔الخ۔ فتأمل والظاھر ان ینبغی ھنا للوجوب ۔ (رد المحتار ج ۶ ص:۷۱)  
ترجمہ اور شرح تنویر میں عورت کے علاج کے سلسلے میں ہے کہ: بقدرِ ضرورت مرد طبیب عورت کی مرض والی جگہ کو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ضرورت کو مقدارِ ضرورت میں محدود رکھا جاتا ہے۔ دائی جنائی اور ختنہ کرنے والے کا بھی یہی حکم ہے کہ بقدرِ ضرورت دیکھ سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ عورت کو عورت کے علاج کا طریقہ سکھایا جائے کیونکہ عورت کا عورت کے حصہٴ مستور کو دیکھنا بہرحال اَخف ہے۔ 
شامیہ میں جوہرہ کے حوالے سے ہے کہ جب شرم گاہ کے علاوہ عورت کے کسی حصہٴ بدن میں مرض ہو تو مرد طبیب بغرضِ علاج بقدرِ ضرورت مرض کی جگہ کو دیکھ سکتا ہے۔ اگر شرم گاہ میں بیماری ہو تو کسی خاتون کو اس کا طریقہٴ علاج سمجھا دے، اگر ایسی کوئی عورت نہ ملے یا اس مریضہ کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہو، یا ایسی تکلیف کا اندیشہ ہو کہ جس کا وہ تحمل نہ کرسکے گی تو ایسی صورت میں مرد طبیب پورا بدن ڈھانپ کر بیماری والی جگہ کا علاج کرسکتا ہے، مگر باقی بدن کو نہ دیکھے، حتی الوسع غض بصر کرےممتاز الفقہا حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی قدس سرہ العزیز بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں  اجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنے میں ضرورت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ عورت بیمار ہے اس کے علاج میںبعض اعضا کی طرف نظر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ اس کے جسم کو چھونا پڑتا ہے۔ مثلاً نبض دیکھنے میں ہاتھ چھونا ہوتا ہے یا پیٹ میں ورم کا خیال ہو تو ٹٹول کر دیکھنا ہوتا ہے یا کسی جگہ پھوڑا ہو تو اسے دیکھنا ہوتا ہے بلکہ بعض مرتبہ ٹٹولنا بھی پڑتا ہے اس صورت میں موضع مرض کی طرف نظر کرنا یا اس ضرورت سے بقدر ضرورت اس جگہ کو چھونا جائز ہے ۔ــ یہ اس صورت میں   ہے کوئی عورت علاج کرنے والی نہ ہو، ورنہ چاہیے یہ کہ عورتوں کو بھی علاج کرنا سکھایا جائے تاکہ ایسے مواقع پر وہ کام کریں کہ ان کے دیکھنے وغیرہ میں اتنی خرابی نہیں جو مرد کے دیکھنے وغیرہ میں ہے۔ اکثر جگہ دائیاں ہوتی ہیں جو پیٹ کے ورم کو دیکھ سکتی ہیں جہاں دائیاں دستیاب ہوں مرد کو دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ علاج کی ضرورت سے نظر کرنے میں بھی یہ احتیاط ضروری ہے کہ صرف اتنا ہی حصۂ بدن کھولا جائے جس کے دیکھنے کی ضرورت ہے باقی حصۂ بدن کو اچھی طرح چھپا دیا جائے کہ اس پر نظر نہ پڑے۔( حصہ شانزدہم ۱۶ دیکھنے اور چھونے کا بیان / مسئلہ نمبر ۲۸) 
مذکورہ بالاتصریحات سے ظاہر وباہر ہوگیا کہ ــ اگر کوئی معالج عورت مل سکے تو اس سے علاج کرانا ضروری ہے۔اگر کوئی عورت نہ مل سکے، تو مرد کو چاہئے کہ اعضائے مستورہ خصوصاً شرم گاہ کا علاج کسی عورت کو بتادے، خود علاج نہ کرے۔ـ اگر کسی عورت کو بتانا بھی ممکن نہ ہو، اور مریضہ عورت کی ہلاکت یا ناقابلِ برداشت تکلیف کا اندیشہ ہو تو لازم ہے کہ تکلیف کی جگہ کے علاوہ تمام بدن ڈھک دیا جائے، اور معالج کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو زخم کی جگہ کے علاوہ باقی بدن سے غض بصر کرے نوٹ شرعی طور سے ڈاکٹری کورس کرنا کرانا علاج معالجہ کرنا جائز ہے اور ایسی رقم بھی حلال ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان 
الجواب صحیح والمجیب مصیب
ابوالحسنین محمد عارف محمود معطر قادری





Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner