AD Banner

{ads}

(فقہ حنفی کی روشنی میں مسئلہ کفاء ت کی تنقیح )

(فقہ حنفی کی روشنی میں مسئلہ کفاء ت کی تنقیح )

استفتا ء:کیا فر ما تے ہیں علما ئے دین ومفتیا ن شر ع متین مسئلہ ذیل کے با رے میں اگر ھند ہ اپنی مر ضی سے غیرکفو میں شاد ی کر لے تو کیا ولی کو اس پر اعتراض کر نے کی شر عاًاجا زت ہے اور اگر ولی اس نکا ح کو فسخ کرانا چا ہے تو شر یعت اسکی کہا ں تک مد دکر تی ہے مو لا نا غلا م رسو ل سعید ی کراچوی نے اپنی کتا ب شر ح مسلم جلد سو م ص۹۹۱ میں لکھا ہے کہ نکاح میں کفو کا اصلاًاعتبا ر نہیں ہے لہٰذا یہاں کے لو گ تزلزل میں پڑے ہو ئے ہیں کیا حقیقۃًشر یعت مطہر ہ میں کفو کا اعتبا ر کیا گیا ہے یانہیں کیا گیا ہے شرح مسلم کو مد نظر رکھتے ہو ئے مفصل جواب عنا یت فر ما ئیں تا کہ حق واضح ہو جا ئے۔

المستفتی: مولانا محمداکبر علی لال پور سراوستی

 ۱۰؍ربیع االنور شر یف ۱۴۳۴ھ

الجــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الحمد اللہ الذی خلق من الطین بشر او جعل لہ نسبا وکفا ء وصھر اوافضل الصلوٰۃوالسلا م علی سید الا نا م والہ الکرام وصحبہ العظا م علی الدوام اھد نا الحق والصواب ۔آمین الھنا الوھاب 

اگر ھند ہ اپنی مرض سے غیر کفو میں شا دی کر لیتی ہے تو کیا ولی کو اعتراض کر نے کی شر عا ًاجا زت ہے اور اگر ولی اس غیر کفو میں کئے گئے نکا ح کو فسخ کر انا چا ہے تو شر یعت اسکی کہا ں تک مد دکر تی ہے ؟یہ مسئلہ چو نکہ متنا زعہ عر فیہ ہے اس لئے ہم اسکی تفصیل وتحقیق ذکر کر تے ہیں نیز  مو لا نا غلا م رسو ل سعید ی کی شر ح کا جا ئزہ لیتے ہوئے حق کو ظا ہر کرتے ہیں مولو ی سعید ی کراچوی کے بکواس کا جواب تحر یر کر تے ہیں ۔

سب سے پہلے (کفو )کی تعر یف پیش خد مت ہے 

’’والکفو النظیر والمسا وی ومنہ الکفا یۃ فی النکا ح وھو ان یکو ن الزوج مسا وی للمراۃ فی حسبھا ودینھا ونسبھا وبیتھا وغیر ذالک وتکا فو لشیئا ن تما ثلا ‘‘

تر جمہ:مسا وی اور مثل کو کفو کہتے ہیں او ر اسی سے نکا ح میں کفو ہو نا بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خا وند اپنی بیو ی کے سا تھ حسب ،دین ،نسب ،اور رہا ئش وغیر ہ میں ہم پلہ ہو ۔دو چیز یں جب ایک دوسر ے کی مثل ہوں تو اسکو (تکا فو ) کہتے ہیں  لسا ن العر ب للعلا مہ جما ل الد ین ابن منظور  مصر ی جلد اول ص۱۳۹مطبوعہ بیروت

کفو کے معنی شر عاًیہ ہیں کہ مذہب ،یا نسب ،یا پیشہ ،یا چا ل چلن میں ایسی کمی ہو کہ اس کے سا تھ اس کا نکا ح اس کے اولیا ء کے لئے با عث ننگ وعا ر ہو نہ کہ بعض جاہلانہ خیا لا ت پر بعض عوام میں دستور ہے کہ خا ص اپنی قو م (ہم قو م )کو اپنا کفو سمجھتے ہیں۔دوسری قو م والے کو اگر چہ ان سے کسی با ت میں کم نہ ہو غیر کفو کہتے ہیں اس کا شرعاًلحا ظ نہیں جیسا کہ شیخ صد یقی ہو وہ شیخ فا روقی کو اپنا کفو نہ جا نے یا سید ہو اور وہ شیخ صدیقی یا فا ورقی یا قر یش کو اپنا کفو نہ سمجھے ۔حا لا نکہ حد یث میں آچکا ہے ’’قر یش بعضھم اکفا ء بعض۔رد المحتا ر میں ہے ۔فلو تزوجت ھا شمیۃ قر شیا غیر ھاشمی لم یر د عقد ھا‘‘ (فتا وی رضو یہ شر یٖف جلد پنجم مطبوعہ ممبئی ص۴۶۳)  

قا ر ئین کرام :صا حب لسان العرب نے(کفو)کے جو معنی بیان کئے ہیں وہ نظیر ،مسا وی بطور حسب ونسب اور دین ،رہا ئش کے ہیں ۔

اور علیٰ حضرت کنزالکرامت مجد د اعظم اما م احمد رضا خاں رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے کفو کے شر عی معنی یہ بتائے ہیں ۔مذہب ،نسب ،پیشہ اور چا ل چلن میں برابر ہونا ۔اگر ان میں سے کو ئی چیزایسی نہ پا ئی جا ئے جو ولی کے لئے با عث شر م اور ننگ وعا ر ہو تو نکاح جائزہے ۔اسی طرح بددین گھٹیا نسب والا ،بد معا ش وغیر ہ یہ وہ امو ر ہیں جو ولی کے لئے با عث ننگ وعا ر ہیں لہٰذااگر کو ئی عورت ان با تو ں کی پرواہ کئے بغیر کسی سے نکاح کر لیتی ہے تو ولی اعتراض کا حق رکھتاہے لہٰذا وہ قا ضی اسلا م کے ہاں درخواست دے کر نکا ح فسخ کرواسکتا ہے 

اس موضو ع پر فقیہ دھر علا مہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ نے چند با تیں ذکر فرمائیںان کا تر جمہ ملاحظہ ہو 

کیا ولی کی اجا زت سے عورت غیر کفو میں نکا ح کر سکتی ہے؟

حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک عورت نے اپنی بیٹی کا نکا ح اسکی رضا مند ی سے کہیں کر دیا اس کے اولیا ء نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پا س مقد مہ در ج کرادیا۔انہوں نے اس نکا ح کو جا ئز قرار دے دیا ۔اس میں یہ دلیل ہے کہ جب کو ئی عورت اپنا نکا ح خو د کر ے یا غیر ولی کو اپنا نکاح کر انے کے متعلق کہے ،اس نے کرادیا تو یہ نکاح جا ئز ہے ۔امام ابو حنیفہ کا اسی روایت پر عمل ہے خواہ وہ عورت کنواری ہو یا غیر کنواری اور جب اس نے اپنا نکا ح کر لیا تو اس کا نکا ح جا ئز ہے ۔خواہ اس کا خا وندا س کے کفو کا ہو یا نہ ہو یہ نکا ح صحیح ہے البتہ اگر اس کا خاوند کفو کا نہیں ہے تو اس عورت کے اولیا ء کو اس نکا ح پر اعتراض کا حق ہے اور حسن رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اگر اس کا خا وند اس کا کفو ہے تو نکا ح جا ئز ہے اور اگر کفو نہیں ہے تو یہ نکا ح نا جا ئز ہے ۔امام ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ سے پہلا قول یہ تھا کہ اگر عورت کا ولی ہو تو وہ از خوداپنا نکا ح کفو میں کر ے تو جا ئز ور نہ نہیں ۔ اس کے بعد اما م ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ نے اس قو ل سے بھی رجو ع کر لیا اور کہا عورت کا از خود نکا ح کر نا صحیح ہے خواہ کفو میں کر ے یا غیر کفو میں ۔اما م طحا وی نے اما م ابو یو سف کا قول اس طرح  ذکر کیا ہے ۔اگر زوج کفو میں سے ہے تو قا ضی ولی کو حکم دے کہ وہ عقد کی اجا زت دے دے ۔اگر ولی نے اجا زت دے دی تو عقد جا ئز ہے اور اگر ولی نے اجا زت نہیں دی تو عقد فسخ نہیں ہو گا اور قا ضی کے اجازت سے جا ئز ہو جا ئے گا اور اما م محمد رحمۃاللہ علیہ کا یہ قو ل ہے کہ اگر عورت نے از خو د نکا ح کیا تو وہ ولی کی اجازت پر مو قوف ہے اگر اس نے اجا زت دے دی تو جا ئز ور نہ نہیں خواہ یہ نکا ح کفو میں ہو یا غیر کفو میں ہو ۔ البتہ اگر کفو میں نکاح کیا اور ولی اجا زت نہ دے تو قا ضی دوبارہ عقد کر سکتا ہے ۔(المبسوط جلد ۵ ص ۱۰ با ب النکا ح بغیر ولی مطبوعہ بیروت )

مذکورہ حوالہ سے ثا بت ہو اکہ اما م اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نز دیک عورت خود نکا ح کرے یا غیر ولی کو وکیل بنا کر اس کے ذر یعہ کہیں نکا ح کر ے ۔دو نو ں صورتوں میں نکا ح جا ئز ہے پھر یہ نکا ح کفو میں ہو ا یا غیر کفو میں ہواجا ئز پھر بھی ہے لیکن اگر غیر کفو میں عورت نے نکا ح کیا تو اس کے اولیا ء با پ داد ا، بھا ئی ،چچا ، وغیر ہ کو اعتراض کا حق ہے لہٰذا وہ قا ضی سے درخواست کر کے یہ نکا ح فسخ کرواسکتے ہیں 

اما م ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ کا آخر ی قول یہ ہے کہ مذکو رہ صورتو ں میں نکا ح درست ہے لیکن اگر غیر کفو میں کیا تو قا ضی اس کے ولی کو حکم دے گا کہ نکا ح کے جا ئز ہو نے کا اعلا ن کر دو ۔ اگر اس نے ایسا کر دیا تو نکا ح جا ئز ہو جا ئے گا اور اگر ولی ایسا نہیں کر تا تو نکا ح فسخ نہیں ہو گا بلکہ قا ضی کی اجا زت سے جا ئز رہے گا گو یا اما م ابو یو سف کے نز دیک عورت کا نکاح اس وقت نا جا ئز ہو گا جب غیر کفو میں کیا ہو اور ایسا کر نا اس کے ولی کے لئے ننگ وعا ر کا با عث ہوا ور ولی راضی نہ ہو ۔ گو یا اما م ابو یو سف اور امام اعظم ابو حنیفہ تقر یبا ًاس با رے میں متفق ہیں اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی مذہب با لآ خر یہی قرار پا تا ہے البتہ اما م حسن بن زیا دذر امختلف ہیں وہ فر ما تے ہیں کہ اگر عورت ولی کی اجا زت کے بغیر غیر کفو میں نکا ح کر تی ہے تونا جا ئز اورکفو میں کر تی ہے تو جا ئز ہے جس کا معنی یہ ہوا کہ اگر ولی کی اجازت کے سا تھ بھی عورت غیر کفو میں نکا کر ے تب بھی امام حسن بن زیا د کے نز دیک نکا ح نہیں ہو گا ان کا یہ قول احتیا ط پر مبنی ہے کیو نکہ ہر آدمی قا ضی کی عدالت میں جا نے کی صلا حیت نہیں رکھتا اور قا ضی بھی بعض عا دی نہیں ہو تے۔

 سید نا اما م شا فعی tکا مذہب اور ان کے دلا ئل 

 حضرت اما م شا فعی رضی اللہ عنہ وغیر ہ کا قو ل ہے کہ عورت کا ازخود نکا ح کر نا با طل ہے اور عورت کا اپنے آپ کیا ہو انکا ح اصلاً منعقد نہیں ہو تا خواہ اپنا کر ے ، اپنی بیٹی کا کر ے اپنی لو نڈی کا کر ے یا کسی شخص کو اپنے نکا ح کا وکیل مقرر کر ے ۔جن فقہاء کرام (حضرت اما م شا فعی وغیر ہ ) نے نکا ح صحیح ہو نے کے لئے ولی کی شر ط لگا ئی ہے ان کا قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال ہے’’ فلا تعضلو ھن ان ینکحن ازواجھن‘‘ تر جمہ :۔اور عورتوں کو اپنے خاوندوں کے سا تھ نکا ح کر نے سے منع نہ کرو ۔ حضرت اما م شا فعی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیںکہ قرآن کریم کی مذکورہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بغیر ولی نکا ح جا ئز نہیں کیو نکہ اللہ تعا لیٰ نے ولی کو منع کر نے سے منع فر ما یا ہے اور ولی کو نکا ح سے منع کر نا اس وقت متحقق ہو گا جب نکا ح کا معا ملہ ولی کے اختیا ر میں ہو اور ام المو منین سید ہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا ’’ایما امراۃ نکحت بغیر اذن ولیھا فنکا حھا با طل با طلباطل ‘‘یعنی جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح کرتی ہے اس کا نکاح با طل باطل باطل ہے ،تو اسکو مہر دینا ہو گا نہ کم نہ زیادہ اور یہ جسم کو حلا ل استعمال کر نے کا معا وضہ ہے اور اگر وہ جھگڑا کر یں تو جس کا کو ئی ولی نہ ہو ۔اس کا سلطا ن ولی ہے اور حدیث مشہو ر میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا ’’لا نکا ح الا بولی‘‘ یعنی ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما بیان کر تے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا جس نکا ح میں چا ر امور نہ ہوں، وہ زنا ہے ۔ نکا ح کا پیغا م دینے والا، ولی اور دو گواہ ، اور حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے ارشا دفر ما یا کہ عورت کسی عورت کا اورنہ ہی اپنا نکا ح کر ے ۔ صر ف زنا کر نے والی عورت ہی اپنا نکا ح خود کر تی ہے (یعنی متعہ) حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہانکا ح کی تقر یب میں شر یک ہوتیں اور نکا ح کا پیغا م دیتیں فر ما تی تھیں عقد کر و کیو نکہ عورتیں عقد نہیں کر تیںاور اس کا مطلب یہ ہیکہ عورتیں اپنے قصو ر فطر ی کی بنا پر عقد نہیں کر سکتیں کیو نکہ نکا ح ایک عقد عظیم ہے ۔اس کے مقا صد بہت بلند ہیں اور اسکی قد ر ومنزلت بہت زیا دہ ہے یہی وجہ ہے کہ عقود کے بر خلا ف شریعت نے نکا ح میں دو گواہوں کی شر ط عا ئد کی ہے اور اسکی اہمیت کو ظا ہر کر نے کے لئے نکا ح کے معا ملہ کا اختیا ر مر دوں کو دیا جن کی عقل اور رائے عورتوں کی نسبت کا مل اور پختہ ہو تی ہے کیو نکہ از روئے حد یث عورتوں کا دین انکی عقل نا قص ہو تی ہے اور عورتیںاپنی عقل میں کمی کی وجہ سے صغیرہ کے قا ئم مقام ہیں ۔ اس لئے اما م محمد نے فرمایا کہ عورت کا کیا ہو اعقد ولی کی اجا زت پر مو قو ف ہے جس طر ح صغیر ہ کا کیا ہوا عقد ولی کی اجا زت پر مو قو ف ہو تا ہے اور اما م شا فعی رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں عورت کاکیا ہوا نکاح اصلا ًمنعقد نہیں ہو تا جس طر ح ان کے نزدیک نا با لغہ کا تصرف ا صلا معتبر نہیں ہے اسکی دلیل یہ ہے کہ عورت اگر غیر کفو میں نکاح کر ے اس پر عورت کے اولیا ء کو اعتراض کا حق ہے ۔اگر عورت اس عقد کے تصرف میں خود مختار ہو تی تو اس کے عقد پر اعتراض کا حق نہ تھا۔ جس طر ح مرد کے کئے ہو ئے عقد پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہو تا نیز عورت کوحق ہے کہ وہ ولی سے اپنے نکا ح کا مطا لبہ کرے اگر وہ خود مختا ر ہو تی تو ایسا نہ ہو تا اور عورت کے نا قص العقل ہو نے کی بنا پر عقد نکاح کے ارتفاع یعنی طلا ق کا اختیا ر عورت کو نہیں دیا گیا بلکہ یہ معا ملہ کلیتاً مر د کے اختیا ر میں ہے۔ (المبسوط جلد ۵ص۱۰؍۱۱ با ب النکاح بغیر ولی مطبوعہ بیروت)

عبارت مذکورہ میں فقیہ اجل علامہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ نے اما م شا فعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے مسلک کی تا ئید میں جو دلا ئل پیش کئے ۔وہ تقر یبا نو عد د ہیں جن سے وہ ثا بت فر ما تے ہیں کہ عورت کا نکا ح ولی کے بغیر نہیں ہو تا ۔ ان دلا ئل کو مختصر طور پر ہم یو ں بیاں کر سکتے ہیں :

(۱) آیت کر یمہ ولا تعضلو ھن ان ینکحن ازواجھن 

(۲) ایما امراۃ الخ ،جو عورت ولی کے بغیر نکاح کر تی ہے اس کا نکا ح با طل باطل با طل ہے 

(۳) لانکاھ الا بو لی ۔ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہے ۔الحد یث 

(۴) جس عورت میں چا ر چیزیں نہ پا ئی جا ئیں وہ زنا ہے ،نکاح کا پیغا م دینے والا ، ولی کی اجازت ، دوگواہ ،الحد یث 

(۵) عورت نہ اپنا نکا ح کر سکتی ہے اور نہ کسی کا کراسکتی ہے ورنہ وہ متعہ شما رہو گا ۔

(۶) عورت نا قص العقل والدین ہے لہٰذا وہ نا بالغہ کے حکم میں ہے اس لئے دونوں کا ولی کی اجا زت کے بغیر نکا ح نہیںہو سکتا۔ 

(۷) غیر کفو میںعورت کے نکا ح کر نے پر ولی کو اعتراض کا حق حا صل ہو نا بتلا تا ہے کہ عورت خود مختا ر نہیں ہے ۔

(۸) عورت اپنا نکاح کر وانے کے لئے ولی سے مطا لبہ کر سکتی ہے جو اس کے خو د مختا ر ہو نے کی نفی کر تا ہے ۔

(۹) نا قص العقل ہو نے کی وجہ سے اسے طلا ق دینے کا اختیا ر نہیں سو نپا گیا ۔

یہ ہیںوہ دلا ئل کہ جن کی وجہ سے اما م شا فعی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ اوراما م ما لک رضی اللہ عنہ ودیگر حضرات یہ کہتے ہیں کہ عورت خواہ باکرہ ہو خواہ ثیبہ اذن ولی کے بغیر نکا ح نہیں کر سکتی ۔ اگر کر تی ہے تو نکا ح با طل ہو گا۔

مذکورہ دلا ئل کے جوابات اور مسلک احنا ف کے دلائل

جو فقہا ء کرام ولی کے بغیر عورت کا نکاح کیا ہوا جا ئز قراردیتے ہیں انکی ایک دلیل قرآن کر یم کی آیت ہے اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے ’’لا جنا ح علیھن فیما فعلن فی انفسھن ‘‘یعنی عورتوں پر کو ئی گنا ہ نہیں اس تصر ف میں جو انہو ں نے اپنے با رے میں کیا ۔ دوسر ی دلیل یہ آیت ہے ’’حتی تنکح زوجا غیر ہ ‘‘یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور مر د سے نکاح کرے ۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فعل (عقد)کی نسبت عورتوں کی طرف فر مائی اور انہیں اس کا فا عل بنا یا ، جس سے معلوم ہوا کہ وہ اپنا نکا ح کر نے میں خو د مختا ر ہے ’’لا تعضلو ھن ان ینکحن ازواجھن‘‘کا جواب یہ ہے کہ ان عورتوں کو حسی طور پر منع نہ کر و با یں طور کہ ان کو گھروں میں بندکردیا جا ئے اور نکا ح کر نے سے روک دیا جا ئے ۔ا س آیت میں عورت کے اولیا ء کو خطاب نہیں بلکہ ان کے سا بق شوہر مخا طب ہیں ۔کیو نکہ آیت کا بتدائی حصہ واذاطلقتم النسا ء جب تم عورتوں کو طلا ق دے چکو ، بتا تاہے کہ خطا ب شو ہروں کو ہو رہا ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جس مرد نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی پھر اس نے اپنی عدت مکمل کر لی تواب اسکے سا بق شو ہر کویہ جا ئز نہیں کہ وہ اس عورت کو کسی اور مر د سے شا دی کرنے سے منع کر ے۔ احا دیث سے استد لا ل کا ہما را طر یقہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایم )اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیا دہ اختیا ر رکھنے والی ہے اور( ایم ) وہ عورت ہے جس کا خا وند نہ ہو ۔ وہ خو اہ کنواری ہو یا بیو ہ ۔ اس لفظ کا اہل لغت نے یہی معنی کیا ہے اور اما م کر خی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی نظر یہ ہے انہو ں نے کہا کہ( ایم )عورتوں میںسے ایسی عورت ہے۔ جیسا مردوںمیں سے( اعذب) ہے (اعذب کا معنی تنہا ، بیو ی کے بغیر) البتہ اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ (ایم )سے مراد بیو ہ لیتے ہیں اور ہم نے شرح الجا مع میں اس کا بیا ن کر دیا ہے اور رسو ل کر یم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ۔’’لیس للو لی ما لثیب امر‘‘نکا ح کے مقا بلے میں بیو ی پر ولی کا حکم لاگو نہیں ہوگا‘‘اورخنسا ء نامی عورت نے عورتوں کو بتلا نے کے لئے رسو ل کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہا ’’لیس الی الا با ء من امور بناتھن شیٔ‘‘ بیٹیوں کے با ر ے میں ان کے با پ دادوں کو اختیا ر نہیں ہے اور جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو پیغام نکا ح بھیجا تو انھو ں نے یہ عذرپیش کیا کہ اس وقت ان کے اولیاء موجود نہیں ہیں اس پر رسو ل کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا تمہا رے اولیا ء میں سے کو ئی ایک بھی ایسا نہیں جو میرے سا تھ تیرے نکاح کر نے میں نا خوش ہو ۔ عمر وکھڑے ہو اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سا تھ اپنی ماں کا نکا ح کر و ۔ آپ نے یہ حکم عمروابن ابی سلمہ کودیا تھا اور ان کی عمر اس وقت سا ت سا ل تھی ۔ حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ بغیر ولی نکاح جا ئز ہے اور حضرت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بھتیجی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالر حمن کا نکاح منذ ربن زبیر سے کر ایا حا لا نکہ اس وقت عبد الرحمن گھر مو جود نہ تھے ۔ جب وہ واپس گھر آئے تو انہوں نے شکا یتہ کہا مجھ جیسے شخص کی غیر مو جو د گی میں اور پو چھے بغیر اس کا نکا ح کیا جا سکتا ہے ؟حضرت عا ئشہ ام المو منین رضی اللہ عنہا نے فرما یا ۔کیا منذر کو نا پسند کر تے ہو ؟ قسم بخدا تم خود بھی اس کے سا تھ اپنی بیٹی کا معا ملہ کر دیتے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ سے جو اس کے بر خلا ف احا دیث مروی ہیں وہ غیر صحیح ہیں کیونکہ جب کسی روای کا فتو یٰ اسکی روایت کے خلا ف ہو تو یہ اس با ت کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ روایت ضعیف ہے اور مخا لفین کی حد یثوں کا دار ومدار زہری پر ہے اور زہری ولی کی شر ائط کا انکا ر کر تے ہیں اورولی کی اجا زت کے بغیر نکاح کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔با لفر ض اگر یہ روایت ’’ لا نکاح الا بولی ولی کے بغیر نکا ح نہیں ‘‘ صحیح ہو تو یہ لونڈی پر محمول ہو گی کیو نکہ لو نڈی کا اپنے مو لیٰ کی اجا زت کے بغیر نکا ح درست نہیں یا صغیر ہ یا مجنونہ پر محمول ہے کیو نکہ ولی کی اجا زت کے بغیر ان کا نکاح بھی صحیح نہیں ۔ اس سلسلہ میں جس قد ر احا دیث بیا ن کی گئی ہیں ۔ ان سب کا یہی محل ہے یا پھر یہ حدیث استحبا ب پر محمو ل ہے ۔ یعنی مستحب یہ ہے کہ کو ئی عورت ازخو د ولی کے بغیر نکا ح نہ کرے۔کیو نکہ یہ خا لص عورت کا حق ہے اور عورت کے سوا کسی اور کو اس کا ضررو نقصا ن لا حق نہیں ہو تا ۔اس لئے اس عقد میں اس کاتصر ف اس طر ح نا فذہو گا جیسا کہ ما ل میں اس کا  تصرف نا فذہو تا ہے اور اگر عورت کے نا قص العقل ہو نے کا اس کے عقد میں دخل ہوتا تو اس وجہ سے اس کا کیا ہوا نکا ح درست نہ ہو تا اور اس کا خاوندکو اختیا ر کر نا اور نکا ح کا اقرار بھی صحیح نہ ہوتا اوراگر عورت بمنز لہ صغیر ہ ہو تی تو اس کا اقرار نکا ح صحیح نہ ہوتااور ولی کے تصرف میں عورت کی رضا مند ی شر عا ً معتبر ہو تی اور اگر عورت بمنز لہ صغیر ہ ہو تی اسکی رضا مندی کا اعتبا ر نہ ہوتا اگر عورت اپنے ولی سے نکاح کا مطا لبہ کر ے تو ولی پر اس کا نکاح کر نا واجب ہے اور اگر وہ بمنز لہ صغیر ہ ہو تی تو یہ مطا لبہ پوراکرناواجب نہ ہوگا۔ولی سے نکاح کامطالبہ بھی اس لئے ہے کہ عورت اگر بغیر ولی کے از خو د نکا ح کر ے تو یہ اسکی روایتی شر م وحیا اور تہذیب کے خلاف ہے اور اس کو معا شرہ میں معیو ب سمجھا جا تا ہے تا ہم وہ اگر اپنا عقد خو د کر لے تو یہ شر عاً درست اور نا فذالعمل ہو گا ۔البتہ اگر عورت بغیر کفو کے نکاح کرے تو اس سے اس کے اولیا ء کو ضرر اور  عا ر لا حق ہوگی ۔ چنا نچہ دفع ضر ر کے لئے انکو اس عقد پر اعتر اض کا حق دیا گیا جیسا کہ شفیع کو دفع ضرر کی وجہ سے شفعہ کا حق دیا گیا ہے اور کیو نکہ طلب کفو حق او لیاء کے لئے ہے تو نہ فر ض کیاجا ئے گا ان کے حق کو سا قط کر نے پر اور یہ منع نہیں کر تا عقد کے اصل وجود کو اس کے نفس کے حق میں مثل شر یکین میں سے ایک شر یک کے کہ جب اس نے مکا تب بنا یا غلام کو تو دوسرے کے لئے حق حا صل ہے کہ اسکو اپنے نفس پرسے ضرر دور کر نے کے لئے فسخ کر دے۔ (مبسو ط سر خسی جلد ۵ ص۱۱؍۱۲مطبو عہ بیروت) 

قا رئین کرام علامہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام دلا ئل کا بھر پور طر یقہ سے جواب دیا جو اما م شا فعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم نوااپنے مسلک کی تا ئید میں پیش کر تے ہیں۔ ان جو ابات کے سا تھ سا تھ علامہ مو صو ف نے مسلک احنا ف پر جو دلا ئل پیش کئے ہیں وہ بھی آپ نے ملا حظہ فر ما لئے ۔ان کا پھر سے ذکر کر نا با عث طوالت ہو گا ۔ صرف ان تمام دلا ئل کا خلاصہ پیش خد مت ہے۔ 

شا فعی المسلک حضرات عورت کو اپنا نکا ح از خود کر نے کا اختیار نہیں دیتے ۔ اگرکسی عورت نے ولی کے بغیر اپنا نکا ح کر لیا تو ان کے نزدیک وہ با طل ہے۔

احنا ف کے نز دیک ہر قسم کی عورت (با کر ہ ثیبہ با لغہ ) اگر ولی کی اجا زت کے بغیر نکا ح کر لیتی ہے تو وہ نکا ح درست ہے ۔ اس کی پھر چند صورتیں ہیں ۔پہلی صورت یہ کہ اس نے اپنا نکا ح اپنے کفو میں کیا ۔ اب ولی کو اعتراض کا حق نہیں ہے ۔اور اگر اعتراض کر ے گا تو قا ضی اس نکاح کو نا فذ کر دے گا ۔ دوسر ی صو رت یہ ہے ۔کہ اس نے اپنا نکاح غیر کفو میں کیا ۔ اب ولی کو اعتراض کا حق حا صل ہے کیو نکہ اس کے لئے عا روننگ کا سبب ہے لہٰذا وہ قا ضی کے ذریعہ اس نکا ح کو فسخ کر و اسکتا ہے ۔ اس بنا ء پر احنا ف کہتے ہیں کہ عورت کو اگر چہ نکا ح کر نے کا اختیا ر ہے لیکن صورت ثا نیہ میں لزوم نکا ح ولی کی رضا مند ی پر مو قو ف ہے۔مختصر یہ کہ شو افع حضرات عورت کے نکا ح کا معاملہ ولی کے اختیار میں دیتے ہیں ۔ مگر احنا ف با کرہ با لغہ اور ثیبہ کے نکاح کا معا ملہ ولی کے ہا تھ میں نہیں دیتے ہا ں عد م کفو کی صورت میں ولی کو حق دیتے ہیں ۔ کہ وہ قاضی کے ذریعہ نکا ح فسخ کر واسکتا ہے ۔ان تما م دلا ئل سے معلو م ہو اکہ کفو کا مسئلہ برحق ہے اور کچھ لو گ ایسے بھی منظر عا م پر آئے ہیں جو شوا فع اور احنا ف کے مسلک کے خلا ف ایک تیسرا مذہب پیش کر تے ہیں ۔ ان کے دما غ میں کچھ فتو ر ہے یا وہ اپنی ڈیڑ ھ اینٹ کی الگ مسجد بنا نا چا ہتے ہیں۔ ان کے نزدیک کفو (خا ندان ) کو ئی اہمیت ہی نہیں بلکہ یہاں تک کہہ گئے کہ سید زادوں کا نکا ح غیر سید سے مطلقا جا ئز ہے لہٰذا ولی کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس پرا عتراض کر ے جیسا کہ اس دور کے نئے مجتہد’’ مو لو ی غلام رسو ل سعید ی ‘‘ کا مسلک ہے سعیدی نے اسلا ف کرام کی عبا رتو ں کو تو ڑمو ڑ کر اپنی تا ئید میںپیش کر نے کی کو شش کی اور حنفی کہلانے کے با وجود احنا ف کی مخا لفت کی۔ صحیح مسلم ،کی شر ح میں کتا ب الرضا ع کے تحت ایک عنو ان یہ با ند ھا۔

(مسئلہ کفا ء ت پر مصنف (مو لانا غلا م رسول سعیدی ) کا مؤقف)

کفا ء ت کے سلسلہ میں ہم نے بہت طو یل بحث کی ہے اور قرآن مجید ، احادیث آثا ر اور مذاہب ار بعہ کے فقہا ء کے اقوال سے استد لا ل کیا ہے ، قرآن مجید ، احا دیث صحیحہ اور آثا ر صحابہ سے یہی ثا بت ہو تا ہے کہ نکا ح میں کفو کا اصلا ً اعتبا ر نہیں ہے حضرت عمر ، حضرت ابن مسعو د ، عمر بن عبد العزیز ، سفیا ن ثو ری ، ابن سیر ین ، اما م مالک ــ‘اورفقہائے احناف میںسے اما م ابوالحسن کرخی اما م ابو بکر جصا ص اور مشا ئخ عراق کا یہی مسلک ہے اور یہی حق اور صواب ہے ،اما م شا فعی ، جمہور فقہا ء احنا ف اور اما م احمد کا مختا ر قو ل یہ ہے کہ غیر کفو میں نکاح کے لزوم کے لئے ولی کی اجا زت شر ط ہے اور بعض ضعیف الا سنا د احا دیث اور آثا ر سے اس نظر یہ کی تا ئید ہو تی ہے شر ح مسلم جلد سو م ص ۹۹۱ مطبوعہ مر کز اہل سنت بر کا ت رضا پو ر بندر گجرات ۔ سن اشا عت ۱۴۲۳ھ؁

قا رئین کرام مذکورہ اقتباس اور اس کے عنوان کو با ربا ر پڑ ھیں تو اس کے پڑھنے سے آپکو دو با تیں نظر آئیں گئی ۔اس لئے سب سے پہلی با ت ہم کہے دیتے ہیں کہ اس شا رح کو ’’ حنفی ‘‘ہو نے پر نا ز ہے اب ہم مو لا نا سعید ی کے اقتبا س کے اہم با تو ں کی طر ف آتے ہیں۔

اول: نکا ح میں کفو کا اصلا اعتبا ر نہیں ۔ یہی حق وصواب ہے قرآن کریم ،احا دیث صحیحہ اور آثا ر اسی کی تا ئید کر تے ہیں۔ 

دوم: اما م شا فعی اور جمہو ر فقہا ئے احنا ف اوراما م احمد کا مختا ر قو ل یہ ہے کہ غیر کفو میں نکاح کے لزوم کے لئے ولی کی اجا زت شر ط ہے اس نظر یہ کی جواحادیث تا ئید کر تی ہیں وہ ضعیف الا سنا د ہیں۔

ان دو نو ں با توں یا دعا وی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اما م شا فعی ،جمہور فقہا ئے احنا ف اور امام احمد کا مسلک حق وصواب نہیں کیو نکہ اسکی تا ئید ضعیف الا سنا د احا دیث سے ہو تی ہے اور اس کے خلاف کی تا ئید قرآن کریم احا دیث صحیحہ اور اثا ر سے ہو تی ہے (مو لو ی سعید ی ) حنفی کہلا نے کے با وجود اپنا موقف جمہو ر احنا ف کے خلا ف اپنا ئے ہو ئے ہیں ۔ احنا ف کہتے ہیں کہ کفو کا اعتبا ر ہے (سعید ی حنفی کہتے ہیں ) میں بھی حنفی ہوںلیکن کفو کا اعتبار نہیں کر تے کیو نکہ قرآن اوراحا دیث صحیحہ کفو کے معتبر ہو نے کو نہیں ما نتے گو یا کفو کاا عتبا ر کر نے والو ں کو نہ قرآن سمجھ آیااور نہ ہی احا دیث صحیحہ نظر آئیں، لے دے کر چند ضعیف الا سنا د احا دیث پر ان کا تکیہ ہے دیکھو ،میں نے قرآن سمجھا احادیث صحیحہ پڑھیں پڑھا ئیں ، ان سے مجھے حق اور صواب جو ملا وہ یہی ہے کہ کفو کا کوئی اعتبا ر نہیں ہے آئیے ہم پہلے ذکر کر دیں کہ احنا ف کے نزدیک کفو کاا عتبا رہے ۔

علامہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ نے المبسو ط میں ایک مستقل باب با ندھا ،باب الا کفا ء اس با ب کی ابتد اعلا مہ سر خسی نے ان الفا ظ سے کی’’ قا ل اعلم ان الکفا ء ۃ فی النکا ح معتبرۃ‘‘ نکا ح میں کفا ء ت کا اعتبار کیا گیا ہے (جلد ۵ ص ۲۲ مطبوعہ بیروت )

رہا سعید ی کا یہ دعویٰ کہ کفا ء ت کے معتبر ہو نے پر بعض ضعیف الا سنا داحا دیث دلا لت کر تی ہیں یعنی کو ئی صحیح حد یث اس مو قف پر پیش نہیں کی جا سکتی تو یہ دعو ی بھی سراسرغلط اور عد م تحقیق  کا آئینہ دار ہے اور احنا ف کے نظر یہ کوحق وصواب کے خلا ف ثا بت کرنے کی ایک بچکا نہ کو شش ہے ۔ چو نکہ ایک حد یث بھی صحیح مو جو د ہو تو دعو یٰ کی تکذیب کے لئے کا فی ہو گی ۔

اس لئے ہم بطو ر اختصا ر چند احا دیث ہی ذکر کریں گے جن کی صحت کی تصر یح کتب احا دیث میں مو جود ہے ۔

’’ان محمد ابن عمر بن علی بن ابی طا لب حد ثہ عن ابیہ عن جد ہ علی ابن ابی طالب ان رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال ثلا ث یا علی لاتو خر وھن الصلوٰۃ اذااتت والجنا زۃ اذا حضرت والا یم اذاوجد ت کفواھذاحدیث عز یب صحیح ولم یخر جا ہ‘‘

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یاتین باتوںمیں اے علی تاخیرمت کرو نمازجب کہ اس کا وقت ہو جا ئے ۔جنا زہ جب کہ حا ضرہو جا ئے اور بیو ہ کے نکاح میں تا خیر نہ کر و جب اسکو کفو مل جا ئے یہ حد یث غر یب صحیح ہے اور بخا ری ومسلم نے اسے ذکرنہیں فر ما یا۔ (مستد رک للحا کم جلد ۳مطبوعہ بیروت ص۱۰۱۱کتا ب ا لنکاحبیہقی جلد ۱۰ص۳۴۲)

امام ذہبی نے بھی اس حد یث کے بعد لکھا  صحیح ہے گو یا صا حب مستد ر ک حا کم اور ذہبی دو نو ں اس حد یث کو صحیح کہہ رہے ہیں ۔ حا کم نے جو اس کے لئے غریب کا لفظ استعما ل فر ما یا ۔ اس با رے میں اہل فن بخو بی جا نتے ہیں کہ صحیح حد یث کے لئے غر یب ہونا کو ئی نقص پیدا نہیں کر تا یعنی یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حد یث خبرمشہور یا متو اتر بلکہ خبر واحد ہے لیکن اس کے صحیح ہو نے میں کو ئی شک اور کو ئی اعتراض نہیں ہے ۔’’عن عا ئشۃ ام المو منین ان رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قا ل تخیر والنطفکم فا نکحو الا کفا ء وانکحو االیھم ھذا حد یث صحیح ولم یخرجا ہ ‘‘

ام المو منین سید ہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا ، اپنے نطفے کے لئے اچھے مقا م کواختیا ر کر و لہٰذا کفو میں نکا ح کر و اور کفو والوں کو ہی نکا ح کرکے دو یہ حد یث صحیح ہے اور اما م بخا ری اور مسلم نے اسکی تخریج نہیںفرما ئی۔(مستد رک للحا کم جلد۳مطبوعہ ص۱۰۱۱، بیہقی جلد ۱۰ ص ۳۴۳)

نوٹ ان دو نو ں احا دیث کو اما م بیہقی نے سنن کبر ی جلد ۱۰ ص ۳۴۳پر ذکر فر مایا اور ان پر کسی قسم کی کو ئی جر ح ذکر نہیں فر ما ئی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دونو ں احادیث صحیح الا سنا دہیں۔

قا ل عمر لا ینبغی لذوات الا حساب تزوجھن الا من الا کفا ء قا ل الشیخ وقد جعل الشا فعی المعنی  فی اشتر اط الو لا یۃ فی النکاح کیلا تضیع المراۃ نفسھا فقا ل لا معنی لھا اولی بہ من ان لا تزوج الا کفوا 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ اہل حسب عورتوں کی صرف کفو میں نکاح کرنا چا ہیے ۔شیخ نے کہا کہ امام شا فعی رضی اللہ عنہ نے اسکو نکا ح میں ولا یت کی شر ط کے معنی میں لیا ہے تا کہ عورت اپنی ذات کو ضائع نہ کر دے اور شیخ نے فر مایا کہ اس روایت کا بہتر ین معنی یہی ہو سکتا ہے کہ کو ئی عورت کفو کے بغیر نکا ح نہ کر ے ۔(بیہقی شر یف جلد ۱۰ص ۳۴۴مطبو عہ بیروت با ب اعتبا ر الکفا ء )

’’عن معا ذ بن جبل قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم العر ب بعضھا الکفا ء لبعض والمو الی بعضھا اکفا ء لبعض رواہ البزار وفیہ سلیما ن بن ابی الجون ولم اجد ذکر ہ وبقیۃ رجا لہ رجا ل صحیح‘‘

حضرت معا ذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل کر یم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے رشا د فر ما یا ، عر ب آپس میں بعض بعض کے کفو ہیں ، اسے بزار نے روایت کیا اور اسکی سند میں سلیما ن بن ابی الجون ہے ۔ میں نے اس کا ذکر نہیں پا یا اور اس کے با قی روای صحیح روای ہیں  (مجمع الزوائد جلد ۴ ص ۲۷۵ باب الکفا ء ۃ مطبو عہ بیروت )

جب سلیمان سے آگے روایت کر نے والے اور اس کے شیو خ سبھی ثقہ ہیں تو پھر اسکی روایت میں کوئی قبا حت نہیں رہتی۔ 

’’اخبر نا ابو حنیفۃ عن رجل عن عمر بن الخطا ب انہ قا ل لا منعن فر وج ذوات الا حساب الا من الا کفا ء قا ل محمد وبھذانا خذا ذاتزوجت المراۃ غیر کفؤ فر فعھا ولیھا الی الاما م فر ق بینھما وھو قول ابی حنیفۃ رحمۃ اللہ‘‘ 

حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ میں حسب ونسب ولی عورتوں کو کفو کے بغیر نکاح کرنے سے ضرور روکو ں گا اما م محمد کہتے ہیں ہما ر ااسی پر عمل ہے کہ جب کو ئی عورت غیر کفو میں شا دی کر لیتی ہے پھر اس کا ولی اس با ت کو قا ضی یا ا مام کے پا س لے گیا تو ا ما م ان دو نوں کے در میان تفر یق ڈال دے یہی قو ل اما م ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔(کتا ب الا ثا ر جلداول ص ۴۵۸مطبوعہ دیو بند )

’’قا ل عمر رضی اللہ عنہ ابن الخطا ب لا منعن فروج ذوات الاحساب الا من الا کفا ء‘‘ حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ میں کفو کے بغیرحسب ونسب والی عورتو ں کوشا دی کر نے سے ضرور رو کو ں گا ۔(مصنف عبد الر زاق جلد ۶ص۱۵۲ مطبوعہ بیروت)

’’عن الثو ری قا ل لو ان رجلا اتی قو ما فقا ل انی عربی فتزوج الیھم فو جد ہ مو لی کا ن لھم ان یردو انکا حہ وان قا ل انا مو لی کان لھم فو جدوہ نبطیار د النکا ح ‘‘

حضرت ثوری فر ما تے ہیں کہ ایک شخص کسی قوم میں آیا اور اپنے متعلق کہا کہ میں عر بی ہو ں پھر ان میں اس نے شا دی کر لی بعد میں معلو م ہو اکہ وہ عر بی نہیں ہے تو ان لو گو ں کو نکاح رد کر نے کا حق ہے اور اگر اس نے کہا تھا کہ میں مو لیٰ ہوں اور نکلا نبطی تو بھی اسکا نکا ح ردکیا جا ئے گا ۔(مصنف عبد الر زاق جلد ۶ ص ۱۵۴ مطبو عہ بیروت )

لمحۂ فکر یہ

قا رئین کرام:غو ر فر ما ئیں کہ نا م نہا د مجتہد مو لو ی سعیدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ’’کفو ‘‘کا نکاح میں معتبر ہو نا جن احا دیث سے ثا بت ہے وہ ضعیف الا سنا د ہیں ۔ یہ وہ احا دیث ہیں جن کو محد ثین کرام نے صحیح کہا ۔ کتا ب الا ثا ر ،کی روایت نے تو صراحتاً حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ کا یہ ا علا ن ذکر کیا کہ ذی حسب عورتوں کو کفو کے بغیر نکاح کر نے میں ہم لا زما اورہر صو رت میں روکیں گے ۔ اگر کفو کا اعتبار نہ ہو تا تو فا ورق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ اعلا ن نہ ہو تا ۔ اسی لئے  اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فر ما یا کہ یہی ہما را مسلک ہے اوراما م ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی فر ما تے ہیں کہ عورت اگر غیرکفو میں نکاح کر لے تو ولی کو فسخ کر انے کا اختیا ر ہے لہٰذا احا دیث صحیحہ سے ثا بت ہواکہ کفو کااعتبا ر ہے اگر کفو کا اعتبا ر نہ ہو تا تو (مصنف عبد الر زاق ) کی روایت میں نہ آتا کہ اگر کسی نے اپنے آپ کو عربی بتا کر کسی عر بی عورت سے نکا ح کیا پھر وہ غیر عر بی نکلا تو کفو نہ ہو نے کیو جہ سے اس عورت کے اولیاء کونکا ح فسخ کرانے کاحق ہے ۔ مسئلہ کفو کے معتبر ہونے پر احنا ف کی بکثر ت کتا بیں شا ہد ہیںجیسا کہ شا می،فتح القد یر اور بحر الرائق وغیرہ 

اما م بیہقی کی روایت اور اس سے بھونڈ ااستدلا ل 

مو لاناغلا م رسو ل سعید ی نے شر ح مسلم میںجلد ۳ص ۹۷۰ پرایک واقعہ بحوالہ بیہقی نقل کیا وہا ں سید ہ زینب بنت جحش کے نکا ح کاذکرکر تے ہو ئے لکھا کہ آپ نے زینب بنت جحش کا نکا ح ایک غلا م سے کر ایا اور حسب ونسب کے سا رے سہارے بدل ڈالے لیکن کمال چا لا کی سے اما م بیہقی کا اس روایت کے با رے میں اپنا فیصلہ گول کر دیا گیا ۔ اما م بیہقی لکھتے ہیں ’’وان کا ن اسنادہ لاتقو م بمثلہ حجۃ ‘‘اگر چہ اس حد یث کی اسنا د اس درجہ کی نہیں کہ ان سے حجت پکڑی جا سکے ،سعید ی کے اسی استدلا ل کو صا حب فتح القدیر ابن ہما م رحمۃ اللہ علیہ نے بطو ر اعتراض نقل کر کے پھر اس کا ر د فر مایا ملا حظہ ہو ۔

اگر تم اعتراض کر و کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فا طمہ بنت قیس کا نکا ح با و جود قر یشیہ ہو نے کے اسا مہ بن زید سے کر دیا حالانکہ اسامہ قر یشی نہیں تھے۔

اس کا جواب یہ ہے :ان وقو ع ھذہ لیس یستلز م کون تلک النساء الصغائر بل العلم محیط با ن ھن کبا ئر خصو صا بنت قیس کا نت ثیباکبیرۃ حین تزوجھا اسا مۃ وانماجا زلا سقا طھن حق الکفا ء ۃ ھن واولیاء ھن ھذا

اس واقعہ کاہو جا نا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ عورتیں صغیر ہ یعنی کم عمر تھیںبلکہ یقینی با ت ہے کہ وہ سب بڑی تھیں ۔ خا ص کر فا طمہ بنت قیس ثیبہ ، کبیر ہ تھیں، جب ان سے حضرت اسامہ نے شا دی کی ، اس نکاح کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ ان عو رتوں نے خو د بھی اور ان کے اولیا ء نے بھی کفا ء ت کا حق سا قط کر دیا تھا ۔( فتح القدیرجلد سوم ص۲۸۳ مطبوعہ دیو بند فصل فی الکفاء ۃ ) 

معلو م ہو اکہ فقہا ئے احنا ف کے نزدیک کفو کااعتبا ر ہے اورسعیدی نے خو د سا ختہ حنفی مسلک کو ثا بت کر نے کے لئے فقہا ئے احنا ف کی عبا رات کو تو ڑ مو ڑ کرپیش کیا  جس سے وہ با ور کرانا چا ہتے ہیں کہ مسلک حنفی وہی ہے جو میرا ہے حا لا نکہ اس کا اور احناف کا مسلک با لکل جدا ہیں ا ب ہم چند نمو نے سعیدی کی عبا رات سے پیش کر تے ہیں کہ جن کو انہوں نے اپنی تا ئید میں نقل کیا ہے۔

علامہ سر خسی لکھتے ہیں : رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا تما م لو گ کنھگی کے دند انو ں کے طرح ہیں کسی عر بی کو کسی عجمی پر کو ئی فضیلت نہیں ہے فضیلت صرف تقویٰ سے حا صل ہو تی ہے ۔ یہ حد یث قرآن مجید کی اس آیت کے مو افق ہے ۔ ان اکر مکم عند اللہ اتقاکم ۔ تم میں سے جو شخص سب سے زیا دہ اللہ سے ڈرنے والاہے وہ اللہ کے نزدیک سب سے زیا دہ معزز ہے ، رسو ل کر یم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا تم سب آدم کی اولا د ہو ۔ علا مہ سر خسی فر ما تے ہیں یہ دلا ئل مسا وات پر دلالت کرتے ہیںاور فضیلت کا مدا رعمل پر ہے جو شخص عمل میں تا خیر کر تا ہے اس کا نسب اسے جلد ی مرتبہ نہیں دلا سکتا ، حضرت ابو طیبہ (حجا م ) نے بنو بیا ضہ کی ایک عورت کو نکاح کا پیغا م دیا اس کے گھر والوں نے اسکو یہ رشتہ دینے سے انکا ر کر دیانبی صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا ’’ زوجو اابا طیبۃ الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفسا د کبیر فقا لو انعم وکر امۃ ‘‘ ابو طیبہ سے شا دی کر و اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فسا د برپا ہوگا تو انہوں نے کہا کہ ہم بخوشی ایسا کریںگے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے عرب کی ایک قوم میں نکاح کا پیغام دیا تو رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلا ل سے فرمایا تم ان لوگوں سے کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ (مطلوبہ عورت کے ساتھ ) میری شادی کردو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرکی صاحبزادی کو نکاح کا پیغام بھیجا انہوں نے قبول کرلیا اور نکاح کرنے کا پروگرام بنایا مگر بعد میں کسی اور رکاوٹ کی وجہ سے نکاح نہ ہوسکا۔علامہ سرخسی نے جو کچھ بیان کیا ہے یہی اسلامی تعلیمات کی روح ہے ۔(شرح مسلم جلد سوم ص۹۶۵مطبوعہ گجرات)

قارئین کرام !اگر آپ کے پاس علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف (المبسوط) ہو تو اس کو سامنے رکھیں اور تحریر بالا کوبھی سامنے رکھکر دونو کا موازنہ کریں ۔اس سے آپ کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی واضح ہو جائے گا ۔ایک نہیں کئی خیانتوں سے تحریر بالا مزین کی گئی اور پھر آخر میں بڑی بھولی بھالی صورت بنا کر لکھ دیا کہ علامہ سرخسی نے جوکچھ بیان کیا یہی اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سعیدی نے جو دلائل اپنا مدعاثابت کرنے کے لئے مبسوط سے نقل کئے علامہ سرخسی نے جہاں اپنا مسلک ذکرکیا ہے وہ ان دلائل کا ردہے صاحب مبسوط نے عنوان یہ باندھا ہے۔ باب الاکفا ء ۔اس کے بعد ابتدا یوںفرمائی ۔

ان الکفائۃ فی النکاح معتبرۃ من حیث النسب الا علی قول سفیان ثوری ۔

اور اس کے بعد انہوں نے سفیان کے دلائل ذکر فرمائے ۔ وحجتہ فی ذلک قولہ علیہ السلام الناس سواسیۃ کاسنان المشط لافضل لعربی علی عجمی ۔

یعنی کفو کا نکاح میں اعتبار کیاگیا ہے ہاں جناب سفیان ثوری کا قول ہے کہ کفو معتبر نہیں اور انکی دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابرہیں کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اسی طرح سرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جناب سفیان ثوری کے وہ دلائل ذکر فرمائے جن کو وہ مسلک کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ان کامسلک آپ پڑھ چکے ہیں گویا کفو کے غیر معتبرہونے کے تمام دلائل جناب سفیان ثوری کی طرف سے صاحب مبسوط نے ذکر فرمائے ۔ان دلائل کو سعیدی نے ذکر کرنے کے بعد لکھ دیا کہ علامہ سرخسی نے جو کچھ لکھا ہے یہ اسلامی تعلیمات کی روح ہے گویاسفیان ثوری کے وہ دلائل جو علامہ سرخسی کے مسلک کے خلاف ہیں ۔سعید ی صاحب نے انہیں اس رنگ میں پیش کیا کہ یہ خود علامہ سرخسی کا مسلک ہے ۔اس سے آپ حضرات بخوبی سمجھ چکے ہونگے کہ یہ کیسا انداز استدلال ہے اور لوگوں کو دھوکا میں رکھنے کی کیسی گھنائونی تصنیفی سازش ہے ؟ جناب سفیان ثوری کے دلائل ذکر فرمانے کے بعد علامہ سرخسی ان کے جواب یوں تحریر فرماتے ہیں ۔

وحجتنا فی ذالک قو لہ علیہ السلام قر یش بعضھم اکفا ء لبعض بطن ببطن والعر ب بعضھم اکفا ء لبعض قبیلۃ بقبیلۃ والمو الی بعضھم اکفاء لبعض رجل بر جل وفی حد یث جا بر رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم قا ل الا لا یزوج النسا ء الا الا ولیا ء ولا یزوجن الا من الا کفا ء وما زالت الکفا ء ۃ مطلو بۃ فیما بین العرب حتی فی القتا ل بیا نہ فی قصۃ الثلا ثۃ الذین خر جو ایو م بد ر للبر ازعتبۃ وشیبۃ والو لید فخر ج الیھم ثلا ثۃ من فتیا ن الا نصا ر فقا لو الھم انتسبو افا نتسبو افقا لو اابنا ء قو م کر ام ولکنا نر ید اکفا ء نا من قر یش فر جعو االی رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم فا خبر وہ بذالک فقا ل صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم صد قو افا مر حمزۃ وعلیا وعبید ۃ بن الحا رث رضوان اللہ علیھم اجمعین با ن یخرجوا الیھم فلما لم ینکر علیھم طلب الکفا ء ۃ فی القتا ل ففی النکا ح اولی وھذا لان النکا ح یعقد للعمر ویشتمل علی اغر اض و مقا صد من الصحبۃ والا لفۃ والعشرۃ وتا سیس القر ابا ت وذالک لا یتم الا بین الا کفا ء وفی اصل الما لک علی المرأۃ نو ع  ذلۃ وفیہ اشا ر رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم فقا ل النکا ح رق فلینظر احد کم این یضع کر یمتہ واذلا ل النفس حرام قال صلی اللہ تعا لٰی علیہ وسلم لیس للمؤمن ان یذل لنفسہ وانما جوز ما جوز منہ لاجل الضرورۃ وفی استفراش من لا یکا فئھا زیادۃالذل ولا ضرورۃ فی ھذھ الزیادۃفلھذااعتبرت الکفاء ۃ والمراد من الاٰثار التی رواھا فی احکام الآخرۃوبہ نقول ان التفاضل فی الاٰخرۃ با لتقویٰ‘‘   

ترجمہ:کفو کے معتبر ہونے میں ہم احناف کی حجت و دلیل حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کایہ قول مبارک ہے قریش بعض ان کے بعض کفو ہیں قبیلہ بمقابلہ قبیلہ کے طور پر اور عرب ایک دوسرے کا کفو ہیں۔باعتبار قبیلہ کے اور موالی باعتبارمردکے ایک دوسرے کا کفو ہے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار عورتوں کی شادی صرف ان کے اولیا ہی کریں اور کفوکے بغیر ان کی شادی ہرگز نہ کریںکفائت عرب معاشرت میں ہر دور کے اند ر مطلوب رہی حتی کہ لڑائی میں بھی اس کا خیال رکھا جاتاتھا اس کا بیان ان تین آدمیوں کے واقعہ سے ہوتا ہے جو غزوہ بد ر میں کفار کی طرف سے میدان میں لڑنے کے لئے نکلے یعنی عتبہ شیبہ اور ولید ان کے مقابلہ کے لئے تین انصاری نوجوان نکلے تو ان کفار نے کہا ذر ا اپنا نسب بیان کرو تو انصاری حضرات نے اپنا نسب بیان کیا تو کہنے لگے کہ تم واقعی معزز قوم کے افراد ہو لیکن ہم اپنے کفو قریش میں سے چاہتے ہیں کہ ہمارے مقابلہ میں اتریں یہ تینوں انصاری حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس واپس آگئے اور اس بات کو عرض کیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کفار نے ٹھیک کہا ہے پھر آپ نے حضرت حمزہ علی المرتضیٰ اور عبیدہ بن حارث کو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلنے کا حکم دیا تو جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کفار کے مطالبہ کفو کا انکار نہ کیا جو لڑائی کے لئے انہوں نے طلب کیاتھا توکفو کا اعتبار نکاح میں تو کہیں اس سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ نکاح عمر بھر کے لئے منعقد ہوتا ہے اور اس میں بہت سے اغراض اور بہت سے مقاصد ہوتے ہیں مثلاً صحبت الفت عشرت اور رشتہ داری کی بنیاد وغیرہ اور یہ باتیں کفو کے درمیان ہی مکمل ہو سکتی ہیں اور عورت کا مالک ہونا اس میں در اصل ایک قسم کی عورت کے لئے ذلت ہے اسی بات کی طرف حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا اور فرمایا کہ نکاح غلامی ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو خوب غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنی بیٹی کو کہاں بیاہنا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو ذلیل کرنا حرام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے اور شریعت نے جو طریقہ اس بارے میں جائز قرار دیا وہ ضرورت کی خاطر ہے اور عورت کا کسی ایسے مرد کے ماتحت ہونا جو اس کا کفو نہ ہو زیادہ ذلت کا باعث ہوتا ہے اس ذلت کی زیادتی کی کوئی ضرورت بھی نہیں اس لئے کہ کفاء ت کا اعتبار کیا گیا ہے اور وہ آثار جن کو سفیا ن ثوری رضی اللہ عنہ نے ذکر فرمایا ان کا تعلق آخرت کے احکام کے ساتھ ہے اور ہم بھی قائل ہیں کہ آخر ت میں فضیلت اور بڑائی کا مدار تقویٰ پر ہی ہے ۔(المبسوط للسرخسی جلد سوم ص ۲۳ مطبوعہ بیروت)

سادات لڑکیوں کا غیر سادات سے نکاح کاجواز از روئے احادیث وآثار 

علامہ الہیثمی روایت کرتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ پروحی فرمائی تھی کہ میں اپنی صاحبزادیوں کا نکاح (یکے بعددیگرے) حضرت عثمان سے کردوں(دوسری روایت علامہ الہیثمی کی نقل کی ہے ) جس میںمذکور ہے کہ ام کلثوم بنت علی المرتضیٰ کے عقد کا عمرفاروق کے ساتھ ہونا ان دوحدیثوں کے ذکر کرنے کے بعد سعید ی نے یوں نتیجہ نکالا ۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر کفو میں رشتہ کرنے کے لئے لڑکی کے عام اولیا اور ورثا کا راضی ہونا ضروری نہیں ہے ۔صرف ولی اقرب کی رضا مندی ضروری ہے اور یہ کہ لڑکی اور اس کا ولی اقرب راضی ہو تو سید زادی کا نکاح غیر کفو میں ہو سکتا ہے ۔(شرح مسلم ازسعید ی جلد سوم ص ۹۷۵؍۷۷ ۹)

اس قسم کی روایات وآثار لکھنے کے بعد سعید ی صاحب اپنا مؤقف بیان کرتے ہیں 

مسئلہ کفاء ت میں مصنف کا موقف 

کفاء ت کے سلسلہ میں ہم نے بہت طویل بحث کی ہے اور قرآن واحادیث اور آثار اور مذاہب اربعہ کے فقہا ء کے اقوال سے استدلال کیا ہے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں کفو کا اصلاً اعتبار نہیں ہے (شرح مسلم از سعید ی جلد سوم ص۹۹۱)

سادات لڑکیوں کا غیر سادات سے نکاح ۔اس عنوان کے تحت دوحدیثی واقعات جناب سعید ی صاحب نے نقل کی ہے ۔ایک کا تعلق حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں اور حضرت عثمان کے ساتھ ہے اور دوسرے کا تعلق حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہے ان دونوں رشتوں کے بعد سعید ی صاحب لکھتے ہیں ۔

غیر کفو میں رشتہ کرنے کے لئے لڑکی کے عام اولیا اور ورثا کا راضی ہونا ضروری نہیں ہے الخ۔گویا ان دونوں رشتوں میں سعیدی صاحب کے نزدیک کفو نہیں ہے ان میں کفو کی نفی کرنا۔

 حد یث صحیح و صر یح کی مخا لفت ہے کیو نکہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے واضح طورپر فر ما یا کہ قر یش بعض بعض کے کفو ہیں اب ہم ان دو نو ں رشتو ں کے طر فین کو دیکھتے ہیں ان میں سے پہلا رشتہ ہے جس میں ایک طرف حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم کی صا جزادی ہے ان کا قر یشیہ ہو نا مسلم ہے اور دو سری طر ف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ان کا بھی قر یشی ہو نا امر یقینی ہے تو اس رشتہ کو غیر کفو میں قراردینا کو نسی علمی خدمت ہے؟ دوسر ا رشتہ حضرت علی المر تضی رضی اللہ عنہ کی صا حبزادی کا ہے جو قر یشیہ ہیں اور ادھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی قر یشی ہیں ۔جب قر یش ایک دوسرے کے کفو ہیں تو پھر اس رشتہ کو غیر کفو میں ہو نا کس طرح درست ہے قراردیا جائے ۔ لہٰذا عنوان جو باندھااسکے تحت جن احادیث وواقعات سے اس عنوان کو ثا بت کر نے کی کو شش کی گئی وہ غلط اور فر یب دہی پر مبنی ہے ہا ں ان احا دیث کے نتیجے میں ایک با ت سعیدی سے بے خیا لی میں درست بھی نکل گئی ۔ وہ یہ کہ ولی اقرب کی رضا مند ی سے غیر کفو میں نکا ح ہو سکتا ہے ، اس کا صا ف مطلب یہ کہ غیر کفو میں ولی اقر ب کی رضا مند ی کاا عتبا ر ہے اگر ولی اقرب اس نکا ح پرراضی نہ ہو تو وہ اسے فسخ کر و اسکتا ہے لیکن خو د نتیجہ نکا لنے والے مصنف کا اپنا موقف یہ ہے کہ ، نکا ح میں کفو کا اصلا اعتبا ر نہیں ہے ۔ اس مطلق نفی اور عا م انکا ر کا مطلب یہ ہے کہ نفس نکا ح کے جو از کے لئے اور لزوم نکا ح کے لئے کسی کے لئے بھی کفو کا ہو نا شرط نہیں ہے اور سعید ی صا حب کا یہ مسلک ائمہ اربعہ کے مسلک کے خلا ف ہے اور پھر انہو ں نے ہر دو عنوان قا ئم کر کے آل سا دات کی بچیوں کے نا م لے کر غیر کفو میں جواز نکاح کا عنوان با ند ھا اور پھر مذکورہ مثا ل سے غیر کفو میں نکا ح ثا بت کر نااور آخر میں کہنا کہ مصنف کا موقف یہ ہے کہ نکاح میں کفو کا اصلا اعتبا ر نہیں اس میںایک تو ائمہ اربعہ کے مسلک کی مخا لفت ہے اور اس میں بے ادبی کا پہلو بھی نکلتا ہے اس لئے میںنے یہ دوسر ی مثا ل پیش کی ہے کہ احا دیث سے جن دو نکاحو ں کا ذکر کیا گیا ان کو غیر کفو میں ہو نا قرار دینا اور ان سے نتیجہ اور آخر میں اپنا موقف بیا ن کرنا کہ نکا ح میں اصلا کفو کا اعتبا ر نہیں اس میںجو خیانت کی گئی وہ ہر انصا ف کر نے والے مسلما ن پر عیاں ہے جو ادھر خو د سعید ی صا حب نے فقہا ء اربعہ کے مذاہب بیا ن کر تے ہو ئے ۔شر ح مسلم جلد سو م ص۹۹۰ پر لکھا ہے ، جمہو ر علماء نے کفو کو نکا ح کے لزوم کے لئے شر ط قرار دیا ہے ، بلکہ سب کے جو اقوال نقل کئے ہیں ان سے یہی واضح ہو تا ہے کہ لزوم نکا ح کے لئے کفو کا اعتبا ر کیا گیا ہے ۔

نو ٹ سعیدی صا حب نے شر ح مسلم جلد ۳ ص۹۸۷ پر ایک عنو ان با ند ھا نو ادر کی روایت سے غیر کفو میں نکا ح کے بطلا ن پر استدلا ل کی تحقیق ، علامہ شا می کا قو ل نقل کیا کہ ظاہر روایت کے مطا بق نکا ح کے لزوم میں کفا ء ت معتبر ہے اورحسن کی روایت یہ ہے کہ کفا ء ت نکا ح کی صحت کی شر ط ہے اوریہی مفتی بہ ہے بہر چند کہ ظاہر الروایۃ میں صحت نکا ح میں کفو کا اعتبا رنہیں لیکن نو ادر کی روایت جو حسن بن زیا د سے مروی ہے اس میں صحت نکا ح کے لئے کفو کی شر ط ہے ۔

قا رئین کرام! غور فر ما ئیں شا می کی عبا ر ت منقو لہ یہ ہے ظا ہر الر وایۃ کے مطابق نکا ح کے لزوم میں کفا ء ت معتبر ہے گو یا لزوم نکاح کے لئے کفو کے ہو نے کااعتبا ر کیا گیا ہے ۔

پھر خو د نتیجہ نکا لا کہ ’’ہر چند کہ ظا ہر الر وایہ میں صحت نکا ح میں کفو کااعتبا ر نہیں ’’ حالانکہ یہی سعید ی صا حب ص۹۹۰ پر لکھ چکے ہیں ۔

کہ جمہو ر علما ء نے کفو کو نکا ح کے لزوم کے لئے شر ط قراردیا ہے ،، اس سے واضح ہوا کہ لزوم نکاح کے لئے کفو کا ہو نا صرف معتبر ہی نہیں بلکہ شر ط ہے۔ بہر صو رت کفو خواہ لزوم نکاح کے لئے شر ط ہو یا بر وایت حسن بن زیا د ہ صحت نکا ح  کے لئے شر ط ہو۔ کفو کے نا معتبر ہو نے کا کو ئی بھی قا ئل نہیں کفا ء ت کا اصلا معتبر نہ ہونا صر ف اور صرف سعید ی کا اجتہاد ہے ۔ اس لئے اگر ہم انکی سا ری بحث کا خلاصہ یو ں بیا ن کر یں تودرست ہو گا وہ یہ کہ سید زادی کا غیر سید سے نکاح بہر طو ر جا ئز ہے کیو نکہ نکا ح میں ان کے نزدیک کفا ء ت کااصلا ًاعتبار نہیں ۔گویا لزوم نکاح اور صحت نکا ح دونوں متحقق ہو گئے یہ مسلک ائمہ اربعہ کے مسلک کے با لکل خلاف ہے لہٰذا با لکل غلط ہے۔

نہ جا ئے رفتن نہ پا ئے ما ند ن 

سعیدی صا حب نے حسن بن زیادہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی تر دید ظا ہر الروایہ سے کی اورظا ہر الروایہ کی اہمیت بیان کرتے ہو ئے علا مہ شا می اور دوسر ے مشائخ کے با رے میں یو ں تنقید کی کہ ظا ہر الروایہ کے مقا بلہ میں روایت نو اد ر پرفتویٰ دینا یعنی حسن ابن زیاد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت پرفتویٰ دینا اصو ل کے خلا ف ہے اور صحیح نہیں ہے شر ح مسلم جلد ۳ص۹۸۷پرلکھا ہے کہ اما م شا می نے خو د رد المختا ر جلد ۱ ص۶۱پر لکھا ہے ۔’’الفتو یٰ اذاا خلتفت کا ن التر جیح بظا ھر الر وایۃ‘‘ یعنی کسی فتو یٰ کا جب ظا ہر الروایہ سے تعا رض آجا ئے تو تر جیح ظا ہرا لر وایہ کوہوتی ہے نیز علامہ شامی نے لکھا ہے کہ غیر ظاہرالروایۃ وہ کتا بیں ہیں جنکے با رے میں یہ صحت سے ثا بت نہیں ہو سکا کہ یہ اما م محمدکی تصنیف ہیںیا وہ اما م محمد کی تصنیف نہیں ہیں بلکہ حسن بن زیا دہ کی تصنیف ہیں۔

سعید ی صا حب کے مذکو رہ کلام کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علامہ شا می اور دوسر ے مشائخ نے جو ظا ہر الر وایہ کے خلاف فتو یٰ دیا ہے یہ اصو ل کے خلاف ہے ۔پھر اپنا مؤقف جو لکھا یعنی نکاح میں کفو کا اصلا ً اعتبا ر نہیں یہ بھی ظا ہر الر وایۃ کے با لکل خلا ف ہے اب سو چنے کا مقام ہے کہ علامہ شا می وغیر ہ اگر بقو ل سعید ی صا حب ظا ہر الر وایۃ کے خلا ف فتو یٰ دیں تو وہ اصو ل کے خلاف ہواور جب اپنی با ری آئے اور ظا ہر الر وایۃ کے خلاف اپنا مؤقف پیش کر یں تو یہ عین اصو ل کے مطا بق ہو ۔ بر یں عقل ودانش بباید گر یست ۔ حقیقت یہ ہیکہ سعیدی صا حب نے شا می کا رد کر نے کیلئے ظا ہر الر وایہ کی اہمیت بیان کی اس میں نہ تو وہ شا می کے معتقد اور نہ ہی ظا ہر الروایۃ کے پا بند ہیں اگر علا مہ شا می کے معتقد ہو تے تو انھو ں نے اپنی شہرۂ آفا ق کتا ب ۔ردالمحتار کے مقدمہ ص۷۰ میں علا مہ سر خسی کے متعلق ان خیا لا ت کا اظہار کیا ہے۔ 

’’واعلم ان کتب مسا ئل الا صو ل کتاب الکا فی للحا کم الشھید وھو کتا ب معتمد فی نقل المذھب شرحہ جما عت من مشائخ منھم شمس الا ئمۃالسر خسی وھوالمشہوربمبسوط السرخسی قا ل العلامۃ الطر طو سی مبسو ط السر خسی لایعمل بما یخالفہ ولا یر کن الا الیہ ولا یفتی ولا یعول الا الیہ‘‘ 

معلو م ہو نا چا ہیئے کہ اصو ل کے مسا ئل جن کتابو ں میں درج ہیں ان میں سے کتا ب الکا فی بھی ہے جو علامہ حا کم شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے اورریہ وہ کتا ب ہے جو مذہب حنفی کے نقل کر نے میں قا بل اعتما د ہے اس کی بہت سے مشا ئخ نے شرحیں لکھیں ۔ ان میں سے ایک شر ح شمس الا ئمہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جو مبسو ط للسر خسی کے نا م سے مشہو رہے۔علامہ طر طو سی رحمۃ اللہ علیہ نے فر ما یا کہ علامہ سر خسی کی مبسو ط کے خلاف فتویٰ نہیں دیا جاتا اور اس کے خلاف قو ل پر نہ عمل ہو تا ہے اور نہ ہی ادھر کو ئی ما ئل ہو تا ہے ۔ سب کی نظر یں اسی پر پڑ تی ہیں ۔(ردالمحتا ر جلد اول ص۷۰ مطلب رسم المفتی)

علامہ شا می رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ سرخسی کی کتنی اہمیت بیا ن فر ما ئی ۔ اگر سعیدی صا حب شا می کے معتقد ہو تے تو انکے ممدوح کی ہر گز مخا لفت نہ کرتے کیو نکہ علامہ سرخسی نے۔المبسو ط۔ با ب الا کفا ء جلد۵ ص۲۲ پر دوٹو ک الفا ظ میں لکھا ہے ۔

’’اعلم ان الکفا ء ۃ فی النکاح معتبر ۃ‘‘ 

نکاح میں کفا ء ت کا اعتبا ر کیا گیا ہے ۔ لیکن سعیدی صا حب نکا ح میں کفو کے سرے سے منکرہیں اور نہ ہی یہ شا رح ظا ہر الر وایۃ کے معتقد ہیں کیو نکہ اگر ظا ہرا لروایہ کو واقعۃ ً اور حقیقۃً قا بل فتو یٰ سمجھتے تو اسکے خلا ف ہر گز فتو یٰ نہ دیتے اور نہ ہی اپنا مو قف بالکل اسکے خلاف بیان کر تے ۔ تو معلوم ہوا کہ ظا ہر الر وایۃ کا سہا رالیکر علامہ شا می اور دیگرمشا ئخ کی تر دید کر کے اور پھر ظا ہر الر وایۃ کے خلا ف اپنا مو قف اپنا کر در اصل انھوں نے اپنے مجتہد مطلق ہو نے کا دعو یٰ کیا ہے کیو نکہ آج کل اجتہاد کا یہی طر یقہ رہ گیا ہے ۔

غلا م رسو ل سعید ی صا حب نے اپنا مو قف ثا بت کر نے کیلئے علامہ کا سا نی صا حب ۔ البد ئع والصنا ئع ۔ کے کلام سے بھی استد لا ل کیا ہے ۔ ان کی عبا رت یہ ہے، مو لا نا کا سا نی کا بھی جمہور فقہا ء حنفی کی طرح یہی مسلک ہے کہ غیر کفو میں لزوم نکا ح کے لئے ولی کی اجا زت شر ط ہے اسکے با وجو د انھو ں نے اما م ابو لحسن کر خی کا نظر یہ بڑی فراخ دلی سے بیان کیا ہے لکھتے ہیں کہ جمہو ر علما ء نے کفو کو نکا ح کے لزوم کے لئے شر ط قراردیا ہے اور اما م کرخی نے کہا ہے ۔ کفو نکا ح کے لئے اصلا ً شر ط نہیں اما م ما لک سفیان ثو ری حسن بصر ی کا بھی یہی قو ل ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو طیبہ نے بنی بیاضہ کو نکا ح کا پیغا م دیا انہوں نے نکا ح سے انکا ر کر دیا رسو ل کر یم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا ابو طیبہ سے نکا ح کر و اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت فتنہ اور فساد ہو گا اور روایت ھیکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے انصا ر کی ایک قو م کو نکا ح کا پیغام دیاا نہوں نے حضرت بلا ل کو رشتہ دینے سے انکا ر کر دیا رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایاان سے جاکرکہوکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تم کو حکم دیتے ہیں کہ میر ے سا تھ اپنی لڑکی کا نکا ح کر دو حا لا نکہ حضرت بلا ل غیر کفو تھے اگر نکاح میں کفو شر ط ہو تا تو آپ حضرت بلا ل کو غیر کفو میں نکا ح کا حکم نہ دیتے اور حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے ارشا د فر مایا کسی عر بی کو عجمی پر فضیلت حا صل نہیں ہے سوائے پر ہیزگا ری کے اور یہ اس پر نص صر یح ہے کہ نکا ح میں کفو شر ط نہیں ہے ۔ اگر کفاء ت شر ط ہو تی اسکا سب سے زیا دہ اعتبا ر قصا ص میں کیا جا تا کیو نکہ جتنی احتیا ط قصا ص کے با ب میں ہو تی ہے اور کسی با ب میں نہیں ہوتی ۔ اسکے با وجو د ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ شخص کو ادنیٰ شخص کے بد لہ میں قتل کر دیا جا تا ہے (تر جمہ بد ائع الصنا ئع )

اسکے بعد خو د اپنی طر ف سے سعیدی صا حب لکھتے ہیں ۔ در اصل اسلام میں مسلمانوں کے در میان ادنیٰ واعلیٰ کا کو ئی تصور نہیں ہے آپ نے فر ما یا سب مسلمان بر ابر ہیں۔(شر ح مسلم ازسعیدی جلد ۳ ص ۹۹۰)

علامہ کا سا نی نے اما م کرخی کا نقطۂ نظر نقل کر کے اسکا رد کیا کیو نکہ یہ جمہور کے مسلک کے خلاف تھااور سعید ی صا حب اسے گو ل کر گئے ۔

قا رئین کرام !سعیدی صا حب چو نکہ اپنے اجتہادکے اثبات کے در پے ہیں اس کے لئے خواہ انھیں حنفی کہلا نے کے با وجو د جمہور احنا ف کے مسلک کی تر دید کر نا پڑے تو اس سے بھی در یغ نہیں کر تے بلکہ اما م محمد اور امام اعظم رضی اللہ تعا لیٰ عنہما کے مسلک پر بھی انہیں اعتما د نہیں ہے ۔

اما م کر خی کے نظر یہ کے دلا ئل پر اکتفا کر نا اور انکے مقا بلہ میں جمہو ر کے دلا ئل اور اما م کرخی کے دلا ئل کا رد ذکر نہ کر نا دراصل قا رئین کویہ با ورکر اناہے کہ جمہور کے پاس قوی دلا ئل نہیں جس کی وہ تصر یح بھی کر چکے ہیں کہ کفو کااعتبار جن دلا ئل اور آثا ر سے ثا بت ہو تا ہے وہ کمزور اور ضعیف ہیں اما م کر خی کا نظر یہ اور انکے دلا ئل سعیدی صا حب کی زبا نی ۔ بدائع الصنا ئع سے آپ ملا حظہ کر چکے ہیں چو نکہ سعیدی صاحب کا موقف ان دلا ئل سے ملتا جلتا ہے اس لئے تصویر کا ایک رخ دکھا کر گزر گئے آئیے اسی بدائع الصنا ئع سے اما م کر خی کے دلا ئل کاجواب ملا حظہ کر یں اور اسکے تنا ظر میں سعیدی صاحب کا مو قف بھی پرکھیں۔ 

ولنا ما روی عن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لایزوج النسا ء الاالاولیا ء ولا یزوجن الا من الاکفا ء ولامھر اقل من عشر ۃ در اھم ولا ن مصا لح النکاح تختل عند عدم الکفا ء ۃ لانھا لاتحصل الا با لا ستفر اش والمراۃ تستنکف عن استفراش غیر الکفو وتعیر بذالک فتخبشل المصا لح ولان الزوجین یجری بینھما مبا سطا ت فی النکاح لا یبقی النکاح بدون تحملھا عا دۃ والتحمل من غیر الکفو امر صعب یثقل علی الطبا ئع السلیمۃ فلایدوم النکاح مع عد م الکفا ء ۃ فلزم اعتبار ھا ولاحجۃ لھم فی الحدیثین لا ن الامر با لتزویج یحتمل انہ کا ن ند بالھم الی الا فضل وھو اختیا ر الدین وترک الکفا ء ۃ فیما سواہ والا قتصا ر علیہ وھذا لا یمنع جواز الامتناع وعند نا الافضل اعتبا ر الدین والا قتصا ر علیہ ویحتمل انہ کا ن امر یجا ب امر ھم با لتزویج منھما مع عدم الکفا ء ۃ تخصیصاً لھم بذالک کما خص ابا طیبۃ با لتمکین من شر ب دمہ صلی اللہ علیہ وسلم وخص خز یمۃ بقبو ل شھا دتہ وحد ہ ونحو ذالک ولا شرکۃ فی مو ضع الخصو صیۃ حملنا الحد یثین علی ماقلنا تو فیقا بین الدلا ئل واما الحد یث الثا لث فا لمراد بہ احکام الا خرۃ وبہ نقول والقیاس علی القصا ص غیر سد ید لا ن القصا ص شرع لمصلحۃ الحیوۃ واعتبا رۃ الکفا ء ۃ فیہ یودی الیٰ تقو یت ھذہ المصلحۃ لا ن کل احد یقصد قتل عد وۃ الذی لا یکا فئہ فتفوت المصلحۃ المطلوبۃ من القصا ص وفی اعتبا ر ۃ الکفا ء ۃ فی با ب النکاح تحقیق المصلحۃ المطلو بۃ من النکاح من الو جہ الذی بینا‘‘

اور ہما ری دلیل وہ روایت ہے جو رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے مر وی ہے آپ نے ارشا د فر ما یا عورتوں کی شا دی صرف انکے اولیاء ہی کریں اور وہ بھی صر ف کفو میں کر یںاور دس در ہم سے حق مہر ہر گز کم نہیں ہے اور کفو کا نکاح میں ہو نا اسلئے بھی ضروری ہے کہ نکا ح کی مصلحتیں کفو کے نہ ہو نے کی وجہ سے خلل میں پڑ جا تی ہیں کیو نکہ عورت سے ہمبستر ی کے بغیر وہ مصلحتیں نہیں مل سکتیں اور عورت غیر کفو کے لئے فر ش بننے سے منھ چڑاتی ہے اور اسے اپنے لئے ننگ وعا ر جا نتی ہے لہٰذا کفو نہ ہو نے کی وجہ سے مصلحتیں حا صل نہ ہو سکیں گی اور اسلئے بھی کفو ضروری ہے کہ میا ں بیو ی کے در میان نکا ح کے ذریعہ بے تکلفی آجا تی ہے اور عا دۃ ًانکو بر داشت کئے بغیر نکاح کے با قی نہیں رہتا اور غیر کفو سے انکابر داشت کر نا ان کا نہا یت مشکل ہو تا ہے اور وہ سلیم الطبع لو گو ں پر گراںگزرتا ہے لہٰذا عدم کفو کی صورت میں نکاح میں دوام نہیں رہتا اسلئے کفا ء ت کا اعتبا ر لاز م ہے اور مخالفین کے لئے مذکورہ دو احا دیث میں کو ئی حجت ودلیل نہیں ہے کیو نکہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم کا ان کو شا دی کر دینے کا حکم احتما ل رکھتا ہے کہ وہ لوگ ازروئے استحباب وہ ند ب افضل با ت کومد نظر رکھیں اور وہ ہے کسی کے دل کو پسند کر نا اور اسکی خا طر کفا ء ت پر اصرار نہ کر نا اور اس سے امتنا ع کا جواز ممنو ع نہیں ہوگا اور ہمارے نزدیک بھی دین کالحا ظ کر نا اور اسی پر اکتفا ء کر نا افضل ہے ۔ دوسرا احتمال ان احا دیث میں یہ بھی یہ ہو سکتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انھیں وجوبی حکم دیا ہو کہ ان دونو ں سے شا دی کردو اگر چہ با ہم کفا ء ت نہیں ہے یہ مخصو ص ان لو گوں کیلئے ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو طیبہ کو اپنا خو ن شر یف پینے کی اجا زت مرحمت فر مائی تھی اور حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے تنہا ہو تے ہو ئے گو اہی قبو ل کر نے کو مخصوص فر ما یااور بھی کئی مثا لیں ہیں اور جہاں خصو صیت آجا ئے وہ دوسر وں کی شرکت کا مقام نہیں رہتا ۔ہم نے مذکو رہ دواحا دیث کو ان معا نی پر محمول اسلئے کیا ہے تاکہ دلا ئل کے در میان تو فیق ہوجا ئے ۔ رہا تیسری حد یث کا معاملہ تو اس سے مراد احکام آخرت میں بر تری ہے اور اسکے ہم بھی قائل ہیں اور کفو کو قصا ص پرقیاس کر نا درست نہیں ہے کیو نکہ قصا ص کی مشر وعیت زندگی کیلئے ہے اور کفاء ت کا اعتبا ر قصا ص میں اگر کیا جا ئے تواس مصلحت کے فو ت ہونے پر منتج ہوگا ۔ اسلئے کہ ہر شخص یہی چا ہتا ہے کہ وہ اپنے اس دشمن کو ما ر ڈالے جو اسکا کفو نہیں ہے اسلئے قصا ص میں کفو کے اعتبا ر کر نے سے مطلوبہ مصلحت فو ت ہو جا ئے گی اور نکا ح کے معا ملہ میں کفا ء ت کا اعتبا ر کر نا اسکی مصلحت کو پختہ کر نا ہے جس کی وجہ ہم بیان کر چکے ہیں ۔(البد ائع والصنا ئع جلد ۲ ص۳۱۷فصل ومنھا کفا ء ہ الزوج مطبوعہ بیروت لبنا ن )

قا ر ئین کرام!امام کر خی کا مسلک اورانکے دلا ئل چو نکہ جمہو ر احنا ف کے نظر یہ کے خلاف تھے اس لئے صا حب البد ائع والصنا ئع نے پہلے ان کا نظر یہ پھر انکے دلا ئل اوراسکے بعد جمہور کی طر ف سے ان دلا ئل کا جواب ذکر فرما یا لیکن سعیدی صا حب اگر اما م کر خی کے دلا ئل کا ذکر کر نے لگے تھے تو ازراہ انصا ف انھیں چا ہیئے تھا کہ علامہ کا سانی کی وہ عبا رت بھی لکھتے جوان دلائل کے جواب میں تھی ۔سعید ی صا حب نے سوچا اگرایسا کر دیا گیا توکئے کرائے پر پا نی پھر جائیگا اوراپنے جدید نظر یہ کی سب پر قلعی کھل جا ئے گی ۔ائمہ اربعہ میںسے کسی کاوہ مو قف نہیں ہے جو سعیدی صا حب نے گھڑا زیا دہ سے زیا دہ ان سے یہ ملتا ہے کہ صحت نکا ح کیلئے کفو شرط نہیں ہے لیکن اسکے معتبر ہونے کا کسی نے بھی انکا ر نہ کیا لیکن سعیدی صاحب شرط کی نفی کو اپنے مخصوص نظریہ کے ثا بت کر نے کے لئے عوام کی آنکھوں میں مٹی ڈال کر یہ تا ثر دینا چا ہتے ہیں کہ نکا ح میں کفو کا اصلاً اعتبا ر نہیں حا لا نکہ ذی علم جا نتے ہیں کہ عدم شرط سے عد م اعتبار لازم نہیں آتا ۔ ادھر تمام ائمہ حضرات نے لزوم نکاح کے لئے ولی کی رضا کو شرط قرار دیا ہے۔ فا عتبر وایا اولی الابصا ر

 سعیدی صا حب نے کفو کے غیر معتبر ثا بت کر نے کے لئے احا دیث کفو پر جر ح کر نے کیلئے یہ عنوان با ند ھا(احا دیث کفو کی فنی حیثیت ،شرح صحیح مسلم )

اس عنوان سے قبل سعیدی صا حب نے دواحا دیث نقل کیں ایک مجمع الزوائد جلد ۴ص۲۷۵ با ب الکفا ء ت سے ہے جسکا تر جمہ انکے الفا ظ میں یہ ہے ۔حضرت جا بر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ عورتوں کانکا ح صرف انکے کفو میں کیا جا ئے اور ان کا نکاح صرف انکے اولیا ء ہی کر یں اور ان کا مہر دس در ہم سے کم نہ ہو ۔ اس حد یث کو اما م ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کی روایت کا ایک راوی مبشر بن عتیک ہے جو کہ متروک ہے ۔

دوسر ی حد یث المستدرک جلد ۲ ص۱۶۳سے نقل کی گئی ہے جسکا تر جمہ یہ ہے ۔ حضرت ام المؤمنین عا ئشہ روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا اپنی اولا د کیلئے رشتہ پسند کرو خود بھی کفو میں نکا ح کرواور کفو میں رشتہ دوعکرمہ بن ابراہیم نے بھی اس حد یث کوروایت کیا ہر چند کہ حا کم نیشا پوری نے اسکو صحیح قرار دیا لیکن تصحیح حدیث میں حا کم کاتسا ہل مشہور ہے ۔علامہ ذھبی لکھتے ہیں یہ حد یث حا رث سے مروی ہے اوروہ متہم ہے اور عکرمہ نے اسکی متا بعت کی ہے اور اسکو محد ثین نے ضعیف قراردیا ہے۔ (شرح مسلم ازسعید ی جلد ۳ص۹۸۱)

ان دو نوں احا دیث پر سعیدی صا حب اپنا فیصلہ یو ں سنا تے ہیں یہ وہ دونوں ضعیف الاسناد احا دیث مرفو عہ ہیں جن پر کفو کے اس عظیم الشا ن مسئلہ کی بنیا د رکھی گئی ہے ۔ اسکے بعد انہوں نے مند رجہ با لا عنوان با ند ھا اور پھر فنی حیثیت کو ان الفا ظ سے بیان کیا ہے ۔

صا حب ھدایہ نے اعتبا ر کفو کیلئے جو حد یث پیش کی ہے وہ پہلی حد یث ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا عورتوں کا نکاح صر ف انکے کفو میں کیا جا ئے حا فظ ذھبی اس حد یث کی سندپر بحث کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ اس حد یث کی سند میں ایک مبشر بن عتیک ہے دار قطنی نے کہا کہ مبشر بن عتیک متروک الحد یث ہے اسکی حد یث کا کوئی متا بع نہیں ہے ۔ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ مبشر بن عتیک کی روایت جھوٹی اور موضو ع ہوتی ہیں ابن حبان نے کہا کہ یہ ثقا ت سے مو ضو عا ت روایت کرتا ہے ۔ سوائے اظہار تعجب کے اسکی حد یث کو کتا ب میں لکھنا جا ئز نہیں ۔ عقیلی نے بھی اما م احمد بن حنبل سے نقل کیا کہ اسکی احا دیث مو ضو عہ ہیں بیہقی نے کہا کہ جو احا دیث کفو کے بارے میںوارد ہو ئی ہیں ان میں سے اکثر حجت نہین ان روایا ت میں حضرت علی کی یہ روایت ۔ثلاثۃ لاتوخر ھا وفیہ الایم اذاوجد ت کفوا ۔یعنی تین چیزوں میں تا خیر نہ کرنا اور اس میں یہ بھی ہے کہ غیر شا دی شدہ عورت کا کفو مل جائے تو اسکے نکاح میں تا خیر مت کرو۔

 اس حد یث کو ترمذی نے روایت کرکے کہا۔ما اراہ اسنا د ہ متصلا۔ میرے خیال میں یہ حد یث منقطع ہے حا کم نے اس حد یث کو روایت کر کے کہا کہ اما م بخا ری اور مسلم نے اسکو روایت نہیںکیا لیکن یہ حد یث صحیح ہے صا حب ھدایہ نے بھی اس حد یث سے کفو کے اعتبار ہو نے پر استدلال کیا ہے ابن جوزی نے کفاء ت کے اعتبار پراس حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ تخیرو النطفکم وانکحو االاکفاء۔ اپنی اولاد کیلئے رشتو ں کو پسند کرواور کفو میں انکا نکاح کر ویہ حد یث جتنی اسانید سے مر وی ہے وہ سب ضعیف ہیں حا فظ ذھبی کی ایک بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اعتبار کفو کے سلسلہ میں حضرت علی کا یہ اثر سند صحیح سے مر وی ہے ۔ تین چیزوں میں تاخیر مت کر و جب غیر شا دی شدہ لڑکی کا کفو مل جا ئے اس کے نکا ح میں تا خیر مت کرو۔( شر ح مسلم ازسعید ی جلد ۳ ص۹۸۱ ۔ ۹۸۲)

کفو کے معتبر ہو نے کے با رے میں پہلی حد یث جو پیش کی جا تی ہے وہ مبشر بن عتیک راوی کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ دوسری حدیث کا ایک راوی حا رث متہم ہے۔اسے بھی محد ثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور تیسری روایت حضرت علی مر تضیٰ کا اثر چو نکہ متصل الا سنا د نہیں لہٰذا یہ بھی ضعیف ٹھہرا ۔انہی روایا ت پر کفو کے اعتبار کادار ومدار تھا جو قا بل استدلا ل نہیں ہیں لہٰذا کفو کا معتبر ہو نا بھی قا بل اعتبار نہیں ۔

فنی حیثیت کو مکر وفر یب کے فن سے آراستہ کیا گیا

’’تخیر والنطفکم وانکحولا کفا ء‘‘ ۔یہ وہ روایت ہے جسکی سعیدی صا حب ۔فنی حیثیت ،ان الفا ظ میں بیان کر تے ہیں ۔اس میں حا رث نا می راوی متہمم ہے اور عکر مہ نے اسکی متا بعت کی ہے اور اسکو محد ثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسکی تمام اسانید ضعیف ہیں ۔

ہم اس فنی حیثیت کوفن رجا ل کے ماہرین کے سا منے پیش کرتے ہیں تا کہ قا رئین کرام کو معلوم ہو جا ئے کہ اس حد یث کی فنی حیثیت وہی ہے جو سعیدی صا حب نے بیا ن کی یہ ان کا اپنا فن تھا اور محققین احنا ف کچھ اور لکھتے ہیں ملاحظہ ہو۔

قلت اخر جہ الحا کم فی المستد رک فی النکاح کذالک وقال صحیح الا سنا د ولم یخر جا ہ انتھی والمصنف استد لا ل بھذالحدیث علی اعتبا ر الکفا ء ۃ ولم یتعر ض لاشتر اطھاولاذکرالخلاف فیہ والحدیث ظاہرفی اشتراطہا قا ل البیھقی فی المعر فۃ قا ل الشا فعی واصل الااکفا ء ۃ مستنبط من حد یث بر یر ۃ لا نہ علیہ السلام انما خیر ھا لا ن زوجھا لم یکن کفواًانتھی واستد ل ابن جو زی فی التحقیق علی اشتراطھا بحد یث عا ئشۃ عنہ علیہ السلام قال تخیر والنطفکم وانکحواالاکفا ء وھذا روی من حدیث عا ئشۃ ومن حد یث انس ومن حدیث عمر بن الخطاب من طرق عد یدۃ کلھا ضعیفۃ استو فینا ھا والکلام علیھا فی کتاب الاسعاف۔

(علامہ زیلعی کہتے ہیں ) میں کہتا ہو ں کہ اما م حا کم نے اسے مستد رک میں ذکر کیا ہے اور کہا کہ یہ حد یث صحیح الا سنا د ہے اور بخا ری ومسلم نے اسے ذکر نہیں کیا اور مصنف نے اس حد یث سے نکا ح میں کفو کے معتبر ہو نے پر استد لا ل کیا ہے اور کفو کے شر ط ہونے کی با ت نہیں کی اورنہ ہی اس میں اختلا ف کاذکر کیا اور حد یث پا ک کفو کے نکا ح میں شر ط ہو نے پر ظا ہراً دلالت کر تی ہے ۔ بیہقی نے معر فۃً میں کہااما م شا فعی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کفو کا ہو نا اسکی اصل حد یث بر یرہ سے مستنبط ہے کیو نکہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے اسے اسلئے اختیا ر دیا تھا کہ اسکا خاوند اسکا ہم کفو نہ تھا ۔ انتہی۔ابن جو زی نے التحقیق میں کفو کے شر ط ہو نے پر سید ہ عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا کی مر وی حد یث سے استد لال کیا ہے فر ما تی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فرما یا ۔اپنے نطفہ کے لئے اچھا رحم تلا ش کر و اور کفو میں نکا ح کرو اور یہ حد یث عا ئشہ ۔ حد یث انس اور حد یث عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم سے مختلف اسنا د سے مر وی ہے اور تمام روایات ضعیف ہیں ہم نے کتاب ۔اسعا ف ۔  میں ان پر بھر پو ر گفتگو کی ہے ۔( نصب الر ایہ جلد ۳ص۱۹۷کتاب انکا ح فصل فی الکفا ء ۃ)

سید ہ عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا سے مر وی حد یث پا ک کے با رے میں حوالہ با لا میں لکھا کہ یہ حد یث مختلف طرق سے مر وی ہے جو سبھی ضعیف ہیں تو اس با ر ے میں اصو ل حد یث کا ایک اصل یہ ہے کہ ایک حد یث ضعیف جب مختلف طر یقوں سے منقول ہو تو اسکا ضعف جا تا رہتا ہے ۔لہٰذا یہ حدیث ۔ حدیث صحیح کے در جہ میں آجا ئے گی ۔ دوسری با ت یہ ہیکہ سیدہ عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مر وی حدیث با لا تفا ق ضعیف نہیں کیو نکہ حا کم نے اسے صحیح قراردیا ہے اور ابن جو زی ایسے نا قد نے جو تعدیل وجر ح میں انتہا ئی سخت ہیں ۔اس حد یث سے نکاح میں کفو کا ہو نا ۔شر ط قرار دیا ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ اگر ابن جو زی کے نزدیک یہ حد یث با لا تفا ق ضعیف ہوتی تو اس سے کفوکا نکا ح میں شر ط ہو نا استنبا ط نہ فر ما تے 

قا رئین کرام!آپ نے دیکھا کہ سعیدی صا حب نے اسی حد یث عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کواپنے مفر وضہ مقصد کے ثا بت کرنے کے لئے کس طر ح نا قابل عمل قرار دیا اور اس کی فنی حیثیت جو بیا ن کی اس میں کہا ں تک صداقت ہے اور وہ کتنی حقا ئق پر مبنی ہے ؟بہرکیف جس طر ح انہو ںنے اسے نا قابل اور متر وک عمل قراربنا یا ان کے لئے تو ایسا کر نا مفید ہو سکتا ہے لیکن حقا ئق اسکے بر عکس ہیں اورفقہا ئے احنا ف نے اسے قا بل استدلا ل اور حجت سمجھتے ہو ئے یہ مسئلہ اسی سے اخذفر ما یا ہے کہ کفو کا ہونا نکا ح میں شر ط ہے ۔

سیدنا علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ کے اثر کے با رے میں سعیدی صا حب نے لکھا کہ اسکی اسنا د چو نکہ متصل نہیں ہیں لہٰذا عد م اتصا ل کی بنا ء پریہ قابل حجت نہیں ہے یہ بھی انکی اپنی تحقیق ہے حقیقت حا ل یہ ھیکہ اولا ًاس اثرکا عد م اتصال متفق علیہ نہیں ہے اور ثا نیاً اگر کو ئی تا بعی کسی صحابی سے روایت کرے اوراس روایت کااتصال ثابت نہ بھی ہو پھربھی وہ روایت غیر معتبر نہیں ہو تی جیسا کہ اصو ل حد یث میںمو جو د ہے ۔ حضر ت علی مر تضیٰ رضی اللہ عنہ کے اثر کے با رے میں فتح الربا نی کی عبا رت ملا حظہ ہو۔ 

(والکفو) فی النکاح ان یکو ن الر جل مثل المراۃفی الاسلا م والحریۃ والصلا ح والنسب والحسن والکسب (تخر یجہ)(جہ حب ک وھذا ) وقا ل ھذا حدیث غر یب وما اری اسنا دہ بمتصل واعلال التر مذی لہ بعد م الاتصا ل لا نہ من طر یق عمر بن علی ابیہ علی ابن ابی طا لب رضی اللہ عنہ قیل ولم یسمع منہ وقد قا ل ابو حاتم انہ سمع منہ فا تصل الا سنا د وقد اعلہ التر مذی ایضا بجھا لۃ سعیدبن عبد اللہ الجھنی ولکنہ عد ہ ابن حبا ن فی الثقا ت‘‘ 

نکا ح میں کفو کا مطلب یہ ہے کہ مر د اسلا م ۔ حر یت ۔ اصلا ح اور حسن وکسب میں عورت جیسا ہو ۔ اس حد یث کی تخر یج میں ابن ما جہ ۔ صحیح ابن حبا ن ، حا کم نے مستدرک میں اورتر مذی نے کی ہے اور تر مذی نے اسے حد یث غر یب کہا اور کہا کہ اسکی اسنا د کو میں نے متصل نہیں پایا اور اما م تر مذی نے اسکے عد م اتصا ل پردلیل یہ پیش کی ہے کہ علی المر تضیٰ کے صا حبزادے عمر جو اس حد یث کے راوی ہیں ۔ انکے با رے میں کہا گیا ہیکہ انکا حضرت علی المرتضیٰ سے سما ع ثا بت نہیں ۔ ابو حا تم نے کہا کہ انکا سما ع ثا بت ہے لہٰذا یہ متصل الا سنا د ہو ئی اور دوسر ی دلیل اما م ترمذی نے یہ دی کہ اسکا ایک راوی سعید بن عبد اللہ جہنی مجہو ل ہے لیکن ابن حبان نے اسے ثقہ راویوں میں شما ر کیا ہے۔ (فتح الر با نی تبو یب مسنداما م احمد بن حنبل شیبا نی جلد ۷ص۹۹ البا دۃ الی تجھیز ا  لمیت وقصنا دینہ )

قا رئین کرام! فتح الر با نی کی درج با لا عبا رت سے آپ نے ملا حظہ فرما یا کہ حدیث علی المر تضی رضی اللہ عنہ با لا تفا ق غیر متصل نہیں بلکہ عدم اتصا ل کی جو وجہ اما م ترمذی نے بیا ن کی وہ خو د کمزرو ہے ۔آپ نے دیکھا کہ انکی پہلی دلیل یہ تھی کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عمر نا می بیٹے کا سما ع ان سے ثا بت نہیں لیکن ابو حا تم ایسے نا قد نے ان کا سما ع تسلیم کیا اور متبادر الی الفہم بھی یہی ہے کہ بیٹا جب باپ سے کوئی با ت نقل کرتا ہو تو اس نے یہ با ت سنی ہوگی ۔ بہر حا ل اتصا ل اورعدم اتصا ل میں سعیدی صا حب نے جو عد م اتصا ل کو تر جیح دی وہ لا ئق اعتبار نہیں اسی طر ح امام تر مذی کی دوسری دلیل ایک راوی سعید بن عبد اللہ کے مجہو ل ہو نے کی بنا پر تھی لیکن یہ بھی بالاتفاق مجہو ل نہیں کیو نکہ جب ابن حبا ن نے انکو ثقہ شما ر کیا ہے (تو جہا لت با لا تفا ق کے ہو تے ہو ئے ثقا ہت کا قو ل کیسے کیا جا سکتا ہے ؟)مختصر یہ کہ حضرت علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ کے مذکو رہ اثر سے فقہا ء احنا ف نے نکا ح میں کفو کا ہو نا شر ط قرار دیا ہے۔ اس پر بہت سی اور احاد یث اورآثا ر حجت ہیں لیکن سعید ی صا حب نے کفو کے غیر معتبر ہونے پر جود و عد داحا دیث اورایک اثر پیش کیا وہ خو د مختلف فیہ ہیں جس کی بنا پرقا بل حجت نہیں۔ 

قا ر ئین کرام !سعید ی صا حب کا کفو کے اعتبار پر صرف تین روایا ت کو ذکر کے یہ کہنا کہ صرف اس مسئلہ پریہی تین روایا ت ہیں اور وہ بھی ضعیف الا سنا د ہیں بلکہ یہاں تک کہ تمام روایات کو ضعیف الا سنا د کہہ دیا یعنی انکو ملی تو تین تھیں وہ تو انکے فن کے مطا بق ضعیف ہو گیں اور انکے علا وہ جو نہ ملیں یا ذکر نہ کیں انکو اسی حکم میں داخل کرکے قا رئین پر دھا ک بھٹا نے کی کو شش کی یہ انکی انتہا ئی زیا دتی ہے ۔ ہم اور سعید ی صا حب جب اما م ابو حنیفہ کے مقلد کہلاتے ہیں اور اما م اعظم رضی اللہ عنہ کے کفو کے معتبر ہو نے پر آخر احا دیث سے استدلال کیا ہے اور مذکو رہ احا دیث کے راوی مبشر بن عتیک اور حا رث وغیر ہ کے با رے میں ہم ان سے در یا فت کر سکتے ہیںکہ اما م اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ حد یثیںجب پہنچیں تو انکے روایت کر نے والو ں میں یہ حضرات بھی تھے ۔

ان راویوں کا زما نہ تو اما م صا حب کے دور کے بہت بعد کا ہے روایا ت مذکو رہ کو ان کی وجہ سے ضعیف الاسناد قرار دیا گیا جب یہ لو گ مو جو دنہ تھے پید ابھی نہیں ہوئے تھے تو بھی ان روایا ت کے مفہو م پر عمل ہو اور وہ یہی عمل کہ نکا ح میں کفا ء ت کا اعتبا ر ہے لہٰذا کفا ء ت کا اعتبار کرنا ان روایا ت کے پیش نظر اس وقت بھی تھا جب یہ ضعیف راوی ابھی پید ا بھی نہ ہوئے تھے اسلئے ان ضعیف راویوں کی پید ائش سے قبل ان احادیث میں ضعف کیسے آگیا ؟

سعیدی صاحب کو یہ ثا بت کرنا چا ہئے تھا کہ راویت سر ے ہی سے ضعیف الاسناد ہے اوریہ پو ری محنت سے بھی نہ ثا بت کر پا ئیں گے ۔

گزشتہ سطو ر میں آپ سعیدی صا حب کا مؤقف پڑھ چکے ہیں اور ان کے بزعم انکا مؤقف ظا ہر الر وایۃ کے مطابق ہے جسے انھو ں نے علا مہ شا می وغیر ہ پر اعتراض کرتے ہو ئے اختیا ر کیا تھا ۔ا ب احا دیث کی فنی حیثیت بیا ن کر نے چلے تو ظا ہر الروایہ کو بھی پس پشت ڈال گئے ظا ہر الر وایۃ اما م محمد کی وہ تصا نیف ہیں جو انکی ثا بت ہیںاگران میں کفو کے معتبر ہونے پر روایا ت مل جا ئیں تو پھر از ر اہ انصا ف ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دورخی چھو ڑ کر ایک مضبو ط مؤقف پر آجا ئیں گے ۔ مسئلہ کفو کے معتبر ہو نے پراما م محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اما اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایا ت ذکر فر ما ئیں جن میں ضعف کااحتما ل نہیں ہے۔ کتب ظا ہر الر وایۃ سے چند روایا ت پیش خد مت ہیں ۔

’’محمد عن یعقو ب عن ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ قا ل قر یش بعضھم اکفا ء لبعض والعرب بعضھم اکفا ء لبعض ومن کا ن لہ ابو ان فی الا سلا م فصا عدامن الموا لی فھم اکفا ء ولا یکو ن کفو افی شئی ان لم یجد مھرا ولانفقۃ ‘‘

اما م محمد کہتے ہیں کہ مجھے یعقو ب نے اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے بیا ن کیا فر ما یا کہ قر یش بعض انکے بعض کیلئے کفو ہیں اور عرب بعض بعض کیلئے کفو ہیں اور جس شخص کے والدین یا اس سے زائد لوگ مو الی میں سے مسلما ن ہو ں وہ بھی کفو ہیں اور اگر مر د حق مہر اور نا ن ونفقہ نہیں پایا تو اسکا اور عو رت کاکفو نہیں ہو سکتا۔ (جا مع الصغیر مطبوعہ دیو بند ص با ب ما جا ء فی الا کفا ء )

قا رئین کرام ! کفو کے معتبر ہو نے پر سعیدی صا حب نے جن احا دیث کو منتخب کیا چو نکہ ان میں کچھ قیل وقا ل تھی اسلئے وہ اپنا مو ٔقف وہ انہیں سے ثا بت کر سکتے تھے کفو کے بارے میں جا مع الصغیر کی مذکو رہ روایت اس کتا ب سے نقل کی گئی ہے جو اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ کی یقینی تصنیف ہے اور اسے تما م نے ظا ہر الر وایۃ میں شا مل ما نا ہے اگر مسئلہ کی تصحیح تحقیق اور اس با رے میں روایت کی صحیح فنی حیثیت معلو م کرنا ہو تی تو یہ روایت بھی سا منے رکھی جا تی۔ روایت مذکو رہ میںاگرچہ اما م ابوحنیفہ رحمۃا للہ علیہ کی اسنا د ذکر نہیں فر ما ئیں لیکن اتنی با ت ضرور ہے کہ آپ نے یہ حد یث کسی صحا بی سے یا تا بعی سے لا زماً سنی ہو گی اور انکی ثقا ھت یقینی اور متفق علیہ ہے ۔

’’محمد قا ل اخبر نا ابو حنیفۃ عن رجل عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ انہ قا ل لا منعن فر وج ذوات الا حسا ب الا من الا کفا ء قا ل محمد وبھذا نا خذاذا تزوجت المراۃ غیر کفؤ فر فعھا ولیھا الی الاما م فر ق بینھما  وھو قو ل ابی حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ‘‘

اما م محمد بیا ن کر تے ہیں کہ ہمیں اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے اور اس شخص نے عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا فرما یا کہ ہم ضرور با لضر ور حسب ونسب والی عورتو ں کوبغیرکفو کے نکا ح کر نے سے روکیں گے اما م محمد کہتے ہیں کہ ہما را یہی مسلک ہے جب کو ئی عورت بغیر کفو میں شا دی کر لیتی ہے پھر اسکا ولی ا سکو قا ضی یا اما م کے پا س لے گیاتو قاضی ان دو نوں میا ں بیو ی کے در میان تفر یق کر دے اور یہی قو ل اما م ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ (کتاب الآ ثا ر جلد اول ص۴۵۸ مطبو عہ دیو بند )

یہ روایت بھی سعیدی صا چھو ڑ گئے ۔ظا ہرالر وایہ کی کتا ب سے ہے ۔اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ایک واسطہ سے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیا ن فر ما رہے ہیں جسکا صا ف صا ف مطلب یہ ہیکہ وہ شخص مجہول کو ئی تا بعی ہے اور قرون فاضلہ کاکوئی راوی ہے اگر مجہول بھی ہو تو اسکی بنا پر روایت کو یہ کہنا درست نہیں ہو تا کہ یہ حدیث حجت نہیں ہے ۔ احنا ف کا قا عد ہ ہے ’’والمجہو ل فی القر ون الفا ضلۃ حجۃ عندنا‘‘ قرون فا ضلہ میں مجہول ہما رے احنا ف کے نزدیک حجت ہے۔

اس کتاب الآ ثا ر کی روایت کواما م محمد اور ابو حنیفہ رضی اللہ عنہمانے اپنا مسلک قراردیا ہے ۔اب سعیدی صا حب اما م صا حب کے مسلک کونہیں مان رہے تو معلو م ہواکہ نکا ح میں کفو کا اعتبار اما م اعظم اور امام محمد کے نزدیک مسلم ہے انکے مسلک کو چھوڑ کر کفو کو اصلا ًنا معتبر کہنا ایک مجتہد انہ نظر یہ ہے جس سے سعیدی صا حب اپنے اجتہاد کو انکے مقا بلہ میں قوی قرار دیکر کفو کا مطلق انکا رکر رہے ہیں ۔

’’ولو اسلم ھذا التغلبی المعتق فتزوج عربیا من بنی تغلب لم یجر علیھا رق فلم یکن کفوالھا وللا ولیا ء ان یفر قو ابینھما‘‘ 

اگر کو ئی آزاد شدہ تغلبی اسلام لے آیا پھر اس نے ایک تغلبیہ عورت سے شا دی کر لی جو کبھی لو نڈی نہ رہی تو وہ اس عورت کا کفو نہیں اور عورت کے اولیا ء کو حق ہے کہ ان دو نو ں کے در میان تفر یق کر وادیں (زیادات الزیا دات ص ۱۱۸مطبوعہ مدینہ )

’’ان من جری علیہ الر ق من نبی تغلب لیس بنظیر لمن لم یجر علیہ الر ق‘‘

بنی تغلب میں سے جو کبھی غلام رہا ہو وہ اس تغلبی کا کفو نہیں ہو سکتا جو کبھی بھی غلام نہ رہا ہو۔ (زیا دات الزیا دات ص ۱۱۸مطبوعہ مدینہ )

نوٹ : زیا دات الزیا دات ۔کی مذکو رہ عبا رت کے تحت علامہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا :

’’لا نہ لما جر ی علیہ حکم رق صا ر حکمہ حکم المو لی والمولٰی لایکو ن کفو اللعر بی‘‘ 

کیونکہ جب اس تغلبی پر غلا می کا حکم لگا تو اسکا معا ملہ غلام کا سا ہو گیا اور غلام خالص عر بی کا کفو نہیں ہو سکتا ۔

کفو کے معتبر ہو نے پر ایک حد یث صحیح اور ایک اثر صحیح 

’’قا ل عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لا ینبغی لذوات الا حسا ب تزوجھن الا من الا کفا ء (قا ل الشیخ ) رحمۃ اللہ علیہ وقد جعل الشافعی رحمۃ اللہ علیہ المعنی فی اشتر اط الولا ء فی النکا ح کیلا تضیع المر اۃ نفسھا (ء) فقال لامعنی لہ اولی بہ من ان لا تزوج الا کفوا‘‘

حضرت عمررضی اللہ نے فر ما یا ۔ صا حب نسب عورتوں کو اپنے کفو میں ہی شا دی کرنی چا ہیے ۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فر ما یا کہ امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ نے نکا ح میں ولایت کی شر ط اسلئے لگا ئی تا کہ عورت اپنے آپ کو ضا ئع نہ کر بیٹھے فر ما یا اثر کا معنی صرف یہی ہے کہ صرف کفو میں ہی شا دی کر یں ۔(بیہقی جلد ۱۰ ص ۳۴۳کتا ب النکا ح باب اعتبار الکفا ء ۃ مطبوعہ بیروت )

عن معا ذبن جبل قا ل قال رسول اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم العر ب بعضھا اکفا ء لبعض والمو الی بعضھم اکفا ء لبعض رواہ البزار وفیہ سلیمان بن ابی الجو ن ولم اجد من ذکر ہ وبقیۃ رجالہ رجا ل الصحیح وعن سلمان الفا رسی قا ل نھا نا رسو ل اللہ علیہ وسلم ان ننکح نسا ء العرب رواہ الطبرانی فی الاوسط ولہ فی الکبیر نفضلکم بفضل رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم یعنی العر ب لاننکح نسا ء کم ورجا ل الکبیر ثقا ت ومن الثا بت البنا نی ان ابا الدرد اء ذھب مع سلمان الفا رسی یخطب امراۃ من بنی لیث فدخل فذکر فضل سلما ن سا بقتہ واسلامہ وذکر ان یخطب الیھم فتاتھم فلا نۃ فقالو ااماسلما ن فلانزوجہ ولکنا نزوجک فتزوجھا ثم خرج فقا ل انہ قد کا ن شئی وانی استحی ان اذکرلک ما ذاک فا خبر ہ ابود رد اء با لخبر فقا ل سلمان انا احق انا استحیی منک ان اخطبھاوکان قد قضا ہا لک رواہ الطبرانی ورجا لہ ثقا ت الاان ثا بتا لم یسمع من سلمان ولا من ابی الدرداء‘‘

حضرت معا ذبن جبل رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا عر ب بعض ۔بعض کفو کے ہیں اور غلام آپس میں کفو ہیں اسے بزارنے روایت کیا اسکی سند میں سلیمان ابی الجون راوی کا مجھے کہیں اتہ پتہ نہیں ملتا ۔ اسکے علاوہ بقیہ تمام راوی حدیث صحیح کے راوی ہیں سلمان فا رسی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے ہمیں عر بی عورتوں سے شا دی کر نے کی مما نعت کر دی تھی اسے طبرانی نے اوسط میں ذکر کیا ہے اور طبرانی نے کبیر میں ان الفاظ میں اسے روایت کیا کہ ہم عر بیوں کو اپنے اوپر اس لئے فضیلت دیتے ہیں کہ رسول کر یم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم افضل ہیں ۔ یعنی عر بی عورتوں سے ہم نکا ح نہیں کر یں گے اسکے راوی ثقہ ہیں ۔ثا بت بنا نی بیان کر تے ہیں کہ حضرت ابو درداء جنا ب سلمان فا رسی کے سا تھ بنو لیث کی ایک عورت سے شا دی کیلئے گئے ۔ اند ر گئے اور گھر والوں سے سلمان فا رسی کی سبقت فی الا سلام وغیر ہ خو بیاں بیا ن کیں اور فر ما یا کہ وہ تم سے فلا ں نو جوان عورت کا رشتہ ما نگتے ہیں ان لوگو ں نے کہا سلمان کوتو ہم رشتہ نہیں دیں گے ہاں تم کر سکتے ہو تو حضرت دردا ء نے شا دی کر لی پھر با ہر تشریف لائے اور فر ما نے لگے کچھ با ت چیت ہو ئی لیکن آپ کو بتا نے سے مجھکو شر م آتی ہے سلمان فا رسی نے کہا بتا دو کوئی حر ج نہیں تو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے با ت بتائی ۔ سلمان فا رسی بو لے کہ میرا حق بنتا ہے کہ میں تم سے شر م کر وں میں نے اس عورت سے رشتہ کر نا چا ہا لیکن وہ تیری قسمت میں تھی ۔ اسے طبرانی نے روایت کیا اور اسکے تما م راوی ثقہ ہیں مگر ثا بت بنا نی نے نہ تو سلمان فا رسی اور نہ ہی ابو درداء سے سما ع کیا۔(مجمع الزوائد جلد ۴ ص۲۷۵ مطبوعہ با ب الکفا ء ت )

قا رئین کرام !مجمع الزوائدکی تین احا دیث آپ نے ملاحظہ فر ما ئیں انکے تما م راوی ثقہ ہیں اور جوان پر جر ح کی گئی ہے وہ ایسی نہیں کہ ان احا دیث کی صحت پر اثر انداز ہو اور احا دیث مذکورہ قا بل استد لا ل نہ رہیں ۔طبرانی کی کبیر والی روایت جر ح سے خا لی ہے اور اسکے بعد والی تیسر ی حد یث بھی صحیح ہے صرف یہ با ت ہے کہ تا بعی حضرت ثا بت بنا نی کا صحا بی (سلمان فا رسی ابو درداء ) سے سماع ثا بت نہیں لیکن یہ صحت حد یث کیلئے مضر نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفا ت جو کہ ظاہر الروایۃ کہلاتی ہے اور بکثرت احا دیث صحیحہ اور آثا ر اس با ت پر دلا لت کر تی ہیں کہ نکا ح میں کفا ء ت کا اعتبار ضروری ہے ان تصر یحا ت ونصو ص کے ہو تے ہو ئے اگرمولانا غلا م رسو ل سعید ی مصر ہیں کہ نکا ح میں کفو کا اصلا ً اعتبار نہیں تو یہ ان کا اپنا اجتہاد ی اختراع ہے ۔ جسکا ائمہ مجتہدین وفقہا ئے احناف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بانی مسلک حنفی اور آپکے شا گر د ان رشید کا مسلک جو ظا ہر الروایۃ سے معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ نکا ح میں کفو معتبر ہے اور اگر عورت کفو کا اعتبار کئے بغیر غیر کفو میں نکا ح کرلیتی ہے تو اسکے اولیاء کو حق ہے کہ وہ قا ضی سے درخواست کر یں اور اس نکاح کو فسخ کرو ادیں اسی مسئلہ سے سعیدی صا حب نے اپنے قا رئین کو یہ بتا نے کی کو شش کی کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک نکا ح میںکفو اصلاً معتبر نہیں پھر اپنی اس نئی تحقیق کے آخر میں لکھااس مسئلہ کی تحقیق میں ان صفحا ت پر جو سیا ہی خرچ ہو ئی ہے وہ یقینا میرے گنا ہوں کی سیا ہی سے کم ہے مگر اللہ کے عفو وکرم کا اسلوب اور طر یقہ ہے کہ وہ نیکی کے ایک قطرہ سے گنا ہوں کی اتنی سیا ہی دھو ڈالتا ہے کہ جس کے دھو نے کے لئے تما م سمند ر وں کا پا نی نا کا فی ہو تا ہے ۔ اس عبا رت سے اٹھتی سا دگی کو مؤ ثر کر نے کی لطا فت اس قا تل کی طر ح ہے جو قتل کر کے گر کر سجدہ میں رورہاہو اور اپنے گنا ہون کی سیا ہی کو دھو نے کیلئے نہیں بلکہ لو گو ں کو دکھلا وے کیلئے ایسا کر رہا ہو سعید ی صا حب نے اپنے اما م اور اپنے مسلک کی نہیں ائمہ اربعہ بلکہ آثا رواحا دیث صحیحہ کی مخا لفت میںجو تحقیق کی ہے ا سے وہ اپنی نیکی بتا رہے ہیں ۔جو تما م گنا ہوں کو دھو ڈالے گی جنکے دھو نے کیلئے تمام سمندروں کا پا نی بھی کا فی نہیں تھا ۔ افسو س صد بار افسو س ۔ احا دیث کی مخا لفت آثا ر کی تر دید اور اپنے مسلک پر تیشہ زنی کو کس سا دگی کے سا تھ عظیم نیکی کہا جا رہا ہے اور لو گو ں کی آنکھو ں میں دھو ل جھو نکنے کے برابر ہے اللہ تعا لیٰ حق کو حق کہنے کی تو فیق عطا فر ما ئے ۔

فا عتبر وایا اولی الا بصا ر 

سعید ی صا حب کی اعلیٰ حضرت سے عقید ت اور مخا لفت کی جھلک 

سعید ی صا حب نے اعلیٰ حضرت مو لا نا الشا ہ احمد رضا خا ن بر یلو ی قد س سر ہ کے بارے میں ایک رسا لہ لکھا جسکا نا م فا ضل بر یلوی کا فقہی مقا م ہے ۔ اس رسا لہ سے چند عبا رات ہم نقل کرتے ہیں جس سے سعیدی صا حب کے نزدیک اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام معلوم ہوجا ئیگا ۔

فقہ اصو لیین کے آئینہ میں 

اصو لیین کی تعر یف کے اعتباسے فقہ کی تعر یف صرف مجتہد ین پر لا زم آتی ہے ۔ 

ہم اعلیٰ حضرت کے با رے میں اجتہا د مطلق کا دعویٰ تو نہیں کر تے لیکن یہ با ت یقینی طو ر پر کہی جا سکتی ہے کہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت میں واضح طور پر اجتہاد کی جھلک نظر آتی ہے ۔ آپ نے بے شما ر ایسے قواعد مقر ر فر ما ئے اگر وہ سید نا ابو حنیفہ کے سا منے پیش کئے جا تے تو وہ یقینا انکی تحسین فر ما تے ۔ آپ نے متعد د ضوابط ارقام فر ما ئے جو کتب فقہ میں کہیں نہیں ملتے لیکن ان کا وجو دنا گزیر ہے کیونکہ فقہ کی بے شما ر جزئیات اپنے انطبا ق کیلئے ان قواعد کی مر ہو ن منت ہے ہم انشا ء اللہ اس مضمو ن میں ان قواعد وضوابط کی نشا ند ہی کر یں گے کیونکہ اعلیٰ حضرت الشا ہ اما م احمد رضا خا ن صا حب نے ان تما م قواعدکا کتاب وسنت سے اقتبا س کیا ہے اسلئے یہ با ت بلا خوف کہی جا سکتی ہے کہ اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلوی کی شخصیت اجتہا د ی شا ن کی حا مل تھی ۔(مقا لا ت سعیدی ص ۶۴۱؍۶۴۲)

عبا رت مذکو رہ اس با ت کی صا ف صا ف خبر دیتی ہے کہ سعیدی صا حب کے نزدیک اعلیٰ حضرت یقینا اجتہا دی صلا حیت وبصیر ت کے حا مل تھے کیو نکہ آپ نے قرآن وحد یث سے بہت سے ایسے قواعد وضوابط کا استنباط فر ما یا جو نا گزیر تھے ۔ اگر چہ بقو ل سعیدی صا حب آپ کو مجتہد مطلق تو نہیں کہا جا سکتا لیکن مجتہد فی الشر ع کی تعریف ان پرمنطبق ہو تی ہے ۔ مجتہد فی الشر ع کی تعریف خو د سعیدی صا حب اپنے مقا لا ت میں( ص ۶۵۲) پر یہ کر تے ہیںیہ وہ لو گ ہیں جو قواعد واصول مقرر فرما تے ہیں اور احکام فر عیہ کو اصو ل اربعہ سے مستنبط کر تے ہیں ۔یہی خو بی اور وصف سعید ی صا حب نے اعلیٰ حضرت کا بیا ن کیا ہے لہٰذا معلو م ہو ا اما م اہلسنت مو لا نا الشا ہ اما م احمد رضا خان صا حب قد س سر ہ اول درجہ کے فقہا ئے کرام میں سے ہیں اور مجتہد فی الشرع کے درجہ پر فا ئز ہیں ۔

ذالک فضل اللہ یو تیہ من یشا ء 

دین پر بصیرت 

دین عقا ئد اورا عمال کا نا م ہے اور اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلوی رحمۃ اللہ ان دونو ں پر مجد دانہ بصیرت رکھتے تھے ۔ چنانچہ آپکے زما نہ میں جن عقا ئد واعمال پر ضا ئغین اورمبتد عین کے زیغ اور بد عت کی دھند چھا گئی تھی آپ نے علم ربا نی اور نو ر یزدانی کی فیض آفر ینیو ں اور ضیا ء پا شیو ں سے اس دھند کو زائل کر کے حق کو صیقل کر دیا ۔(مقالا ت سعیدی ص۶۴۸)

سبحان السبوح،تو حید ایمان، حسا م الحر مین ، الکوکبۃ الشہا بیۃ ، خا لص الا عتقا د ، انبا ء المصطفیٰ ، تجلی الیقین ، اور اعما ل صا لحہ کے اعما ل کے لئے فتا ویٰ رضو ی کی با رہ جلدیں آپ کی مجلد انہ بصیرت پر شا ہدعا دل ہیں ۔ اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت کی شا ن کا اندازہ ایک مثا ل سے کیا جا سکتا ہے ۔ استحا لہ کذب پرتما م مقد مین علما ء نے پا نچ دلیلیں ارقام فر ما ئیں اور اکیلے اعلیٰ حضرت نے اصل مسئلہ پر پچیس دلیلیں بیان فرمائیں ۔چنا نچہ سبحا ن السبوح کی ص ۱۵ پر تحر یر فر ما تے ہیں کہ فقیر غفر اللہ تعا لیٰ بتو فیق مو لا سبحا نہ وتعالیٰ ان مختصر سطور میں بلحا ظ ایجازکذب با ری اسمہ کے محا ل صر یح پر اور تو ہم امکا ن کے با طل قبیح ہو نے پرصرف تین دلیلیں ذکرکرتا ہے جن میں سے پا نچ اولیٰ کلمات الطیبات ائمہ کرام عظام علیھم رحمۃ الملک المنعا م میںارشا د وانعا م ہوئیں اور باقی پچیس با ری اعزواجل کے فیوض ازل سے ادنی قلب پر القا کی گئیں ۔( مقا لا ت سعیدی ص۶۴۸)  

 فقہی مبا حث میں جو طبعی اور ریا ضی کے مسا ئل آگئے ان پر ایسے اچھو تے انداز میں بحث کی ہے کہ فا رابی اور شیخ بھی دبے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔ انصا ف اور دیا نت کی نظر سے دیکھا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے فقہ میں وہ مقام حا صل کیا جسکی نظیر صدیو ں پیچھے نہیں ملتی ۔(مقالا ت سعیدی ص۶۶۸)

مذکو رہ چا ر عدد عبا رات کا خلا صہ یہ کہ 

(۱) مجتہد فی الشر ع کی تعر یف آپ پر منطبق ہو تی ہے لہٰذا مجتہد فی المذھب اور مجتہد فی المسا ئل آپ یقینا ہیں ۔

(۲) عقا ئد اور اعمال دونو ں میں مجد دانہ بصیر ت رکھتے ہیں اور ان میں تجد ید کی صلا حیت بد رجہ اتم مو جو د تھی۔ 

(۳) جزئیا ت میں آپ کی فضیلت ایسی کہ متقد مین میںصد یو ں پیچھے تک کو ئی آپ سا نظر نہیں آتا ۔

(۴) اللہ تعا لیٰ نے مسا ئل واصو ل کے ضمن میں آپ کو حل کر نے کیلئے نو ر بصیرت اور علم ربا نی سے نو ازا۔

اس مختصر تعر یفی تعا رف کے بعد قا رئین کرام سمجھ چکے ہو نگے کہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت کی یہ تعر یف سعید ی صا حب سے ہم نے نہیں کر وائی بلکہ یہ انکے اپنے مطا لعہ اور اعلیٰ حضرت کی کتب بینی کا حا صل ہے ۔ مسئلہ زیر بحث چو نکہ عقا ئد سے متعلق نہیں بلکہ یہ ایک فقہی جز ئی ہے اور فقہی عملی جزئیا ت کے با رے میں اعلیٰ حضرت کے فتا ویٰ کی سعید ی صا حب سے آپ تعر یف سن چکے ہیں لہٰذا اس نابغۂ روزگا ر مجتہد فی الشر ع کے اوصا ف کاحا مل اور عقا ئد واعمال کا مجتہد سنیئے اس مسئلہ کفو کے با رے میں کیا فر ماتا ہے۔ وبا للہ التو فیق ۔

مسئلہ : ایک شخص کا فر ما ن ہے ۔ سید آل نبی کی دختر ہر ایک کو پہو نچ سکتی ہے یعنی مسلمان سے عقد جا ئز ہے ۔ دوسر ے نے جواب دیا اگر جا روب کش مسلمان ہو جا ئے تو بھی جا ئز ہے ؟اس نے جواب دیا ۔کچھ مزائقہ نہیں 

جواب :شخص مذکو ر جھوٹا کذاب اور بے ادب گستا خ ہے ۔ سا دات کرام کی صا جزادیا ں کسی مغل پٹھان یا غیر قریشی شیخ مثلاً انصا ر ی کو بھی نہیں پہو نچ سکتیں جب تک کہ وہ عا لم دین نہ ہوں ۔ اگر چہ یہ قو میں شر یف گنی جا تی ہیں مگر سادات کا شر ف اعظم واعلیٰ ہے اور غیر قر یش قریش کا کفو نہیں ہو سکتا تو رذیل قو م والے معا ذاللہ کیونکرسا دات کے کفو ہو سکتے ہیں ؟یہاں تک کہ اگر با لغہ سید زادی خود اپنا نکاح اپنی خوشی ومر ضی سے کسی مغل پٹھا ن یا انصا ری شیخ غیر عالم دین سے کر ے گی تو نکاح سرے سے ہو گا ہی نہیں۔جب تک اسکا ولی پیش ازنکاح مر د کے نسب پر مطلع ہو کر صراحۃً اپنی رضا مندی ظاہر نہ کر دے اگر نابالغہ ہے تو اس کا نکا ح باپ داد اکے سوا کو ئی ولی اگر چہ حقیقی بھا ئی ما ں ایسے شخص سے کر دے وہ بھی محض با طل اور مردود ہو گا اور باپ دادا بھی ایک ہی با ر ایسا نکا ح کر سکتے ہیں دوبارہ اگر کسی دختر کا نکا ح ایسے شخص سے کریں گے تو ان کا کیا ہو انکا ح با طل ہو جا ئیگا ۔’’کل ذالک معروف فی کتب الفقہ کدر المختار وغیر ہ من الا سفار وقدفصلنا القو ل فیہ فی فتاوٰنا‘‘۔یعنی یہ تما م مذکورہ صورتیں کتب فقہ میں مشہور ہیں جیسا کہ درمختا ر وغیر ہ عظیم کتا بو ں میںہے اور ہم نے اسکی مکمل تفصیل اپنے فتا وی میں کر دی ہے(فتاوی رضویہ کتاب النکاح جلد ۵ ص۴۵۴مطبوعہ ممبئی )

اعلیٰ حضرت قد س سر ہ العزیز کی مذکورہ عبارت فتو یٰ سے چند با تیں زیر بحث مسئلہ کے متعلق معلوم ہو ئیں ۔

(۱)  سید زادی کا نکاح جار وب کش مسلمان سے جا ئز کہنے والا کذاب بے ادب اور گستا خ ہے ۔

(۲)  اگر سید زادی اپنی رضا ء ورغبت سے غیر کفو میں نکاح کرلیتی ہے اور اسکا خاوند عالم دین نہیں تو نکا ح سر ے سے با طل ہو گا ۔

(۳)  غیر قر یش ۔ قر یش کا کفو نہیں ۔

(۴) نا با لغہ سید زادی کا نکا ح صر ف با پ یاداد اایک مرتبہ غیر کفو میں کر سکتے ہیں ۔ دوبارہ یہ بھی کر یں گے تو نکا ح با طل ہو گا ۔

    ان چا ر با تو ںکو با ر با ر پڑھیںاور پھر ان با تو ں کے قا ئل اعلیٰ حضرت عظیم المر تبت کا مقا م جو سعید ی صا حب نے تسلیم کیا ہے ۔ اسے سا منے رکھکر فیصلہ کریں کہ سعیدی صا حب کا مو قف  ۔ نکا ح میں کفو کا اصلاً اعتبار نہیں ۔ کہاں تک حقیقت پر مبنی ہے اعلیٰ حضرت ایسے قا ئل کو کذاب بے ادب اورگستا خ فر ما رہے ہیں یا تو اعلیٰ حضرت کے فقہی اورتجد ید ی مقام کو صحیح قرار دیکر سعیدی صا حب خو د اعلیٰ حضرت کے بقو ل مذکورہ تین اوصا ف کے مو صو ف ہو نگے یاپھر خود اپنے آپ کو اعلیٰ حضرت سے بلند و بالا مقام پر فا ئز سمجھتے ہیں اور اعلیٰ حضرت کی تحقیق کو غلط اور نا قص قرار دیکر احنا ف کو یہ باورکرا نا چا ہتے ہیں کہ جو کچھ میں نے نچوڑ نکا لا وہ درست ہے لیکن پھر مصیبت یہ آپڑے گی کہ جب کئی صد یوں سے اعلیٰ حضرت ایسی شخصیت نظر نہ آئی تو یہ شخصیت جو انکی غلطیاںنکا ل رہی ہے ۔ کہاں سے آگئی ؟ اسلئے نتیجہ یہی نکلے گا کہ سعیدی صا حب نے نکا ح میں کفو کا اصلا ً اعتبار نہ کر کے اپنے آپ کو ائمہ اربعہ اور اعلیٰ حضر ت کا مدمقابل ٹھہرالیا

مسئلہ:کیا فر ما تے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ھند ہ نے اپنی دختر نا با لغہ کا نکا ح خا لد کے سا تھ جو غیر کفو تھا لاعلمی میں کر دیا بعد بلو غ زوجہ اور علم غیر کفو ہو نے زوج کے زوجین میں نا اتفا قی اور ھند ہ بھی بعد علم کے نہایت نا راض ہے اوردختر کی مفارقت چا ہتی ہے مگر خا لد محض ایذ ارسا نی کی وجہ سے اسکو طلا ق نہیں دیتا ۔ اس صورت میں نکا ح فسخ ہو سکتا ہے کہ نہیں اور زوجہ مذکو رہ کو نکا ح ثا نی کر نے کا اختیار ہے کہ نہیں ؟ بینو اوتوجروا۔

جو اب : سا ئل نے بعد استفسار اظہار کیا کہ عورت پٹھا ن ہے اور خا لد قو م کا دھنہ ہے اور اس نے اپنے آپ کو پٹھا ن ظا ہر کر کے براہ فر یب نکا ح کر لیا منکو حہ مذکورہ کے بو قت نکا ح با پ دادا کو ئی نہ تھاہا ں جوان بھا ئی مو جو د تھا مگر کسی وجہ سے جلسہ نکا ح میں شر یک نہ ہوا نہ ما ں نے اس سے اجا زت لی پس صو رت مستفسرہ میں شرعا ً یہ نکا ح ہواہی نہیں فسخ کیسے کیا جا ئے دختر ھند ہ کو اختیار ہے کہ جس سے چا ہے نکاح کرے درمختا ر میں ہے 

ان کا ن المزوج غیر الا ب وابیہ ولو الا م لا یصح النکاح من غیر کفو اصلا وما فی صد ر الشر یعۃ صح ولھما فسخہ وھم ردالمحتا ر میں زیر قو ل شا رح تعتبر الکفا ء ۃللزوم النکاح فر ما یا ۔ای علی ظا ھر الر وایۃ ولصحتہ علی روایۃ الحسن المختا ر ۃ للفتو یٰ ۔ در مختار میں ہے لوزوج الا بعد حا ل قیام الا قر ب تو قف علی اجا زتہ۔رد المحتا ر میں بحر الر ائق سے ہے ۔انھم قا لو اکل عقد لا لامجیز لہ حا ل صد ورہ فھو با طل لا یتو قف فتح القد یر سے ہے ۔ ما لا مجیز لہ ای ما لیس لہ من یقد ر علی الا جا زۃ یبطل واللہ سبحا نہ وتعالیٰ اعلم ۔ (فتا ویٰ رضو یہ جلد ۵ کتاب النکاح  ص۴۵۵)

اعلیٰ حضرت کے اس فتو یٰ کا حا صل یہ ہے کہ پٹھا ن عورت کا دھنہ قو م کے مرد سے جو بظا ہر پٹھا ن بنا ہوا تھا با پ دادا اور بھا ئی کی غیر مو جو دگی میں نکاح کر لینا اور ما ں نے بھی اس لڑکی سے اجا زت نہ لی ۔ یہ نکا ح سر ے سے ہواہی نہیں کیو نکہ بحوالہ درمختا ر ۔ با پ دادا کی عد م مو جو دگی میں غیر کفو میں اصلا ً نکا ح نہیں ہوتا ۔بحر الر ائق میں ہے کہ نکا ح کے ہو تے وقت وہ شخص وہا ں مو جو د نہ ہوجو اسکی اجا زت دینے کی ازروئے شر ع قدرت رکھتا ہے تو نکاح با طل ہے ۔ معلوم ہوا کہ نکا ح میں کفو کا اعتبار بہت ضروری ہے اور غیر کفو میں نکا ح کر نے کیلئے باپ داداکی رضا مندی ضروری ہے یہ تو احنا ف کا مسلک ہے جسے اعلیٰ حضرت نے ذکر فر ما یا اور ایک مو قف سعیدی صا حب کا ہے کہ نکا ح میں کفو کا اصلاً اعتبا ر نہیں ۔

مسئلہ:زید حر امی ہے مگر مسلمان دیند ار ہے شر عاًاسکے لڑکا لڑ کی سے نکا ح والے اسکے لڑکی لڑ کا سے نکا ح کرسکتے ہیں کہ نہیں ۔

جواب : نکا ح میں کفا ء ت معتبر ہے اور کفا ء ت کا مدار عر ف پر ہے اگر ان سے رشتہ با عث نتگ وعا ر ہو تو احترازکیا جا ئے خصو صا ً دختر میں۔ (فتا ویٰ رضویہ جلد ۵ کتاب النکاح  ص۴۶۱ ) 

اعلیٰ حضرت نے کفو میں مزید وسعت کا ذکر فر ما یا یعنی اگر قو م کااختلا ف نہ بھی ہو لیکن کو ئی اور عیب مو جو د ہو جس کی وجہ سے عا م لوگ ایسے شخص سے شا دی کر نا یا اس کی کسی عورت سے شا دی کر نا با عث ننگ وعا ر سمجھتے ہو ں تو اسکی رعا یت بھی کر لینی چاہیے یعنی ہم قو م ہو نے کا تو اعتبار ہی ہے اسکے اچھے اوصاف بھی کفو میں لئے جا سکتے ہیں تو معلوم ہو اکہ ہم قو م ہو نے کے با وجو د کسی عیب کی وجہ سے وہ کفو نہ رہا لہٰذا کفو کا نکاح میں اعتبار ضروری ہے ۔

مسئلہ : کیا فر ما تے ہیں علما ئے دین شر ع متین اس مسئلہ میں ایک شخص نے ایک یتیم سید زادی لے کر پا لی اور اسی نا با لغی میں اس کا نکا ح ایک پٹھا ن سے کر دیا ۔ اسکا با لغ بھائی تھا ۔ اسے اطلا ع بھی نہ دی بو جہ نا با لغی رخصت نہ ہو ئی ۔ اب وہ شخص مفقود الخبر ہے ۔ اور لڑکی با لغہ ہو گئی ہے ۔ اب اس صو رت میں وہ اپنا نکاح دوسری جگہ کر سکتی ہے یا نہیں ۔ بینواوتوجروا۔

جواب : اگر یہ بیانا ت واقعی ہیں وہ نکاح اصلاً نہ ہوا لڑکی کو اختیار ہے جس اچھی جگہ چا ہے اپنا نکا ح کر لے ۔( فتا ویٰ رضو یہ جلد ۵ کتاب النکا ح جلد ۲ ص۱۸۷)

مسئلہ:کیا فر ما تے ہیں علما ئے دین شر ع متین اس مسئلہ میں کہ ھند ہ کو یقین دلا کر کہا کہ تمہا را نکا ح شو ہر محمو د جو۔ نجیب الطر فین اور تمہا راکفو ہے کر دیا گیا لیکن بعد نکاح ثا بت ہو اکہ شو ہر یعنی محمود غیر کفو ہے اب ھند ہ اور اسکے عزیز واقا رب اپنے کفو میں غیر کفوکا داخل عا ر سمجھتے ہیں اورھند ہ ایسے شو ہر غیر کفو کو خو د بھی شو ہر بنا نا ننگ وعار خاندان سمجھتی ہے نیز اس کا اصل با پ یعنی زید بھی اس تعلق غیر کفو ی سے نا راض ہے پس ایسی حا لت میں نکا ح فسخ ہوسکتا ہے کہ نہیں ۔ یا غیر کفو کی حا لت میں نکاح فسخ ہی مانا جا ئے ھند ہ با لغہ ہے ۔بینو اوتو جروا 

جواب : جبکہ ھند ہ با لغہ ہے اور نکا ح غیر کفو سے ہوااور زید پدرہند ہ نے قبل نکا ح اسے غیر کفو جا ن کر اس سے نکا ح کی اجا زت نہ دی تو نکا ح سرے سے ہواہی نہیں فسخ کی کیا حا جت ؟در مختا ر میں ہے ۔ ویفتی فی غیر الکفو بعد م جوازہ اصلا بلا رضا ء ولی بعد معر فتہ ایا ہ ۔ یعنی غیر کفو میں فتو یٰ اصلاً نا جا ئز ہو نے کا دیا گیا ہے جبکہ ولی اسے جانتا ہو کہ نکاح غیر کفو میںہو رہا ہے اور وہ راضی نہ تھامگر غیر کفو کے معنٰی شر عی یہ ہیں کہ مذہب یانسب یاپیشہ یا چا ل چلن میں ایسا کم ہو کہ اسکے سا تھ اسکا نکا ح اسکے اولیا ء کیلئے واقعی با عث ننگ وعا رہو نہ کہ بعض جا ھلا نہ خیالات پر ۔ بعض عوام میں دستور ہیکہ خاص اپنے ہم قو م کو اپناکفو سمجھتے ہیں ۔دوسری قوم والے اگر چہ ان سے کسی با ت میںکم نہ ہوں غیر کفو کہتے ہیں ۔ اسکا شر عاً لحا ظ جیسے شیخ صدیقی ہو وہ شیخ فا روقی کو اپنا کفو نہ جا نے یاسید ہو اور وہ شیخ صدیقی یا فا روقی یا قریشی کو اپنا کفو نہ سمجھے ۔ حا لا نکہ حد یث میں ہے ۔قر یشی بعضھم اکفا ء بعض۔ روالمحتا ر میں ہے ۔ ولو تزوجت ھا شمیۃ قر یشیاغیر ھا شمی لم یر د عقد ھا ۔ یعنی اگر ھا شمیہ نے ایک قر یشی غیر ھاشمی سے نکاح کیاتو یہ نکا ح رد نہیںکیا جائیگاواللہ تعا لیٰ اعلم۔(فتا ویٰ رضو یہ جلد ۵ کتا ب النکا ح ص۴۶۳) 

غیر کفو ہو نے کی وجہ سے اگر عورت کے والد یا عزیز واقارب کو اس شا دی سے ننگ وعار ہو تی ہے اور والد کی اجا زت کے بغیر عورت نے یہ نکا ح کر لیا تو اعلیٰ حضرت فر ما تے ہیں کہ اس نکا ح کو تو ڑ نے کی ضرورت ہی نہیں کیو نکہ یہ سر ے سے ہو اہی نہیں ہے ۔ اس سے صا ف ظا ہر ہے کہ نکا ح میں کفو کا اعتبا ر ہے اور پھر آپنے کفو کے با ر ے میں ایک عا م غلطی کی نشا ند ہی فر ما ئی جس میں بہت سے نا دان لو گ گر فتا ر ہیں کفو کے معتبر ہو نے پر حد یث پا ک پیش فر ما ئی کہ قر یش با ہم ایک دوسرے کے کفو ہیں ۔

مسئلہ : زید نے اپنے آپ کو پٹھا ن ظا ہر کیا اور بکر سے کہا کہ تو اپنی دختر کا نکاح میر ے سا تھ کر دے بکر نے اپنی دختر کا نکاح زید سے کر دیا بعد نکا ح ہو جا نے کے بکر کو معلو م ہواکہ زید قوم کا پٹھا ن نہیں ہے دھو کہ دیکر نکا ح کیا اور قوم کا فقیر تکیہ دارقبرستا ن ہے کہ جس سے میرے خاندان میں حقا رت ہو گی اورسخت بے عزتی ہوگی بکر نے اپنی دختر کو رخصت کر نے سے انکا ر کر دیا اور بعد نکا ح کے رخصت نہیں کی اور بکر قوم کا سیدہے؟

جواب : دختر با لغہ تھی یا نا با لغہ کیا عمر تھی عارضہ مہواری آتا تھا یا نہیں بوقت نکاح دختر سے اذن لیا یا نہیں ؟ سب حا ل مفصل لکھاجا ئے کہ سوال لا ئق جواب ہو۔

عالی جا ہ ! وقت نکا ح دختر کی عمرتیرہ سا ل دوما ہ تھی عارضہ ماہواری آتا تھا ۔اذن لڑ کی سے لیا گیا تھا لیکن اس نے جواب دیا میں کچھ نہیں جا نتی اس پر مجبور اًاسکی چچی نے اجازت دی اجا زت لڑکی کے باپ کی تھی بلکہ لڑکی کابھا ئی اور باپ نکا ح گواہ تھے فقط۔

جواب : صورت مستفسرہ میں ظاہر ہے کہ زید کسی طر ح سا دات توسا دات کسی مغل پٹھا ن کا بھی کفو نہیں ہو سکتا اور لڑکی با لغہ تھی اور اس نے اذن لینے پر لفظ یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جا نتی ۔ظا ہر ہے کہ یہ صا ف اذن نہیںبلکہ اس معا ملہ میںاپنا دخل نہ دینا بحسب منطو ق مستفا د ہو تا ہے اور کبھی بحسب قر ینہ دوسر وں کے اختیار پر چھوڑ نا بھی مفہو م ہو تا ہے یعنی مجھے بحث نہیں تم جیسا جا نو کر و ۔ بر تقد یر دوم یہ نکاح دختر کی اجازت سے قرار پا ئے گا اور با لغہ جو ولی رکھتی ہے اپنا جونکا ح اگرغیر کفو سے کر ے جس سے پیش ازنکا ح غیر کفو جا ن کر ولی نے صراحۃ ً اجا زت نکا ح نہ دی ہو وہ نکاح محض با طل ہے۔ (فتا ویٰ رضو یہ جلد ۵ کتا ب النکا ح ص۴۶۵)

ہم نے اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلو ی کے چھ عد د فتا ویٰ من وعن نقل کئے جوار دومیں تحر یر ہیں اسلئے ہم ان پر مزید حا شیۂ آرائی کی ضرورت محسو س نہیں کرتے ان تما م فتا ویٰ سے صا ف صا ف ظا ہر ہے کہ نکاح میں کفو کا اعتبا ر احنا ف کا مسلک ہے اور اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ا سے اپنا اور اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا مسلک قراردیا ہے اسلئے سعیدی صا حب کی حنفیت قدر ے کمزورہے اور مزید یہ کہ ایسا کر نے سے گنا ہو ں کی مغفر ت ہوجا ئیگی اور مخا لفت میں جو سطورسیا ہ کیں انکی سیا ہی گنا ہوں کو دھو ڈالے گی بھلاسیاہی میں جب سیا ہی ملے تو وہ اور سیا ہ ہو جا تی ہے ہم نے اختصا ر کے سا تھ مسئلہ کفو پر گفتگو کی ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ سعیدی صا حب کے نئے اجتہا د اور اپنے ائمہ کی مخالفت پر لوگو ں کومطلع کیا جا ئے ہماری ان چند گزار شا ت سے قا رئین کرام صحیح موقف اور سعید ی مو قف میں ضرور فر ق جا ن چکے ہو نگے اور امید ہیکہ قا رئین کرام آئندہ بھی سعیدی صا حب ایسے محققین کی انو کھی اور اچھو تی تحقیق کے خد وخا ل جا ن لیا کر یں گے ہم اس بحث کے آخر میں ابن حجر مکی کا ایک فتو یٰ ذکر کر تے ہیں جس سے آل سا دات کی عزت وعظمت واضح ہو تی ہے‘‘ 

’’ماالحکمۃ فی خصو ص اولا دفا طمۃ با لشرف دون غیر ھم من بنا تہ صلی اللہ علیہ وسلم فا جاب بقو لہ الحکمۃ فی ذالک واللہ اعلم ۔ ما اختصت بہ فا طمۃ رضی اللہ عنھا من المزایا الکثیرۃ علی اخواتھا منھا ماوردان اللہ زوجھا لعلی کرم اللہ وجھہ فی السماء قبل ان یتزوجھا فی الارض ومنھا تمیزھا علیھن بانھا سیدۃ نسا ء اھل الجنۃ ومنھا تمیزھا علیھن بتسمیتھا الزھرا ء امالعدم کونھا لا تحیض من غیر علۃ فکانت کنساء الجنۃ واما کونھا علی الو ان نسا ء الجنۃ اولغیر ذالک وھذ ہ المذکورات ونحوھا مما امتازت بہ من الفضا ئل لا یبعد ان تکو ن ھی الحکمۃ فی بقا ء نسلھا فی العالم امنا لہ من عموم الفتن والمھن کما اخبر الصا دق المصد وق صلی اللہ علیہ وسلم بذالک بانھم فی ذالک کا لقران بقو لہ انی تا ر ک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی لن تضلو امااستمسکتم بھما ابد اواما الشر ف النا شی عما فیھم من البضعۃ الکر یمۃ فلایختص با الا ولا دالفا طمۃ فقد صرح المحققو ن با نہ لوعا ش نسل زینب عن ابی العاص اورقیۃ اوام کلثوم من عثمان رضی اللہ عنھم لکان لھما من الشرف والسیاد ۃ ما لنسل فاطمۃ رضی اللہ عنھا اثم اذاتقر ر ذالک ومن علمت نسبتہ الی ال البیت النبی والسر العلوی لایخر جہ عن ذالک عظیم جنا یتہ ولا عظم دیا نتہ وصیا نتہ ومن ثم قا ل بعض المحققین ما مثا ل الشر یف الزانی اوالشا رب اوالسا رق مثلا اذااقمنا علیہ الحد الا کا میر اوسلطان تلطخت رجلا ہ بقذر فغسلہ عنھما بعض خدمتہ ولتد بر فی ھذالمثا ل وحقق‘‘ 

حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم کی دوسر ی صا جزادیوں کے مقا بلے میں سید ہ فا طمہ رضی اللہ عنہا کی شر افت کی وجہ تخصیص کیا ہے؟ اسکے جواب میں فر ما یا اللہ بہتر جا نتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سید ہ فا طمۃ الزھر اء رضی اللہ عنہا کو کچھ ایسی خو بیاں عطا فر ما ئی گئیں جو ان کی ہمشیر گا ن میں نہ تھیں ۔ان میں سے ایک یہ ہیکہ انکی شا دی اللہ نے حضرت علی المر تضیٰ کے سا تھ زمین سے پہلے آسمان پر کر دی تھی ۔ دوسر ی یہ ہیکہ آپ جنتی عورتوں کی سردا ر تھیں ۔تیسری یہ ہیکہ انکا نام زہر ا رکھا گیا ۔ یہ نا م یا تو اسلئے تھا یا تو انھیں بیما ری کی وجہ سے نہیں بلکہ قد رتی طور پر حیض نہ آتا تھا تو اس معا ملہ میں آپ جنتی عورتو ں کے مشا بہ ہو گئیں یا پھر یہ نا م اسلئے کہ آپ کا رنگ وروپ جنتی عورتوں کا سا تھا ۔ وغیر ہ ذالک اور ہم نے جو یہ فضا ئل بیان کئے ہیں اور اس جیسے دیگر مخصو ص فضا ئل ان با توں میں سے ایک ہو سکتے ہیں کہ جن کی وجہ سے سیدہ فا طمہ رضی اللہ عنہا کی نسل پا ک کو کائنات میں با قی رکھا گیا ہواور ہر قسم کی فتنوںاور تکالیف سے انھیںمحفوظ رکھا گیا ہو  جیسا کہ حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم صا دق ومصد وق نے اسکے با رے میں خبر دی جو قرآن کریم کے مانند ہے ۔ فر ما یا میں تم میں دو عظیم چیزیں چھو ڑے جا رہا ہو ں اللہ کی کتاب اور اپنی عتر ت جب تک تم نے انکو مضبوطی سے پکڑ ے رکھا تو کبھی بھی راۂ راست سے نہیں بھٹکو گے ۔ رہا یہ شر ف جو آپکے جسم اقدس کا ٹکڑا ہو نا سید ہ فا طمہ زھرا ء میں مو جو د ہے ۔ تو یہ معا ملہ صرف حضرت فا طمہ کی اولا د کیلئے مخصوص نہیں ۔محققین نے تصر یح فر ما ئی ہے اگر سید ہ زینب کی ابو العا ص سے نسل اور سیدہ ام کلثو م اور رقیہ کی نسل حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے با قی رہتی تو ان کا شر ف اور انکی سیا دت بھی وہی ہو تی جو سید ہ فا طمہ رضی اللہ عنہا کی نسل کیلئے ہے ۔ پھر جب یہ با ت ذہن نشین ہو گئی اور معلوم ہو جا ئے کہ کسی کی نسبت آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ ہے اور اس عظیم خا ندان سے تعلق ہے تو وہ آدمی اگر بہت بڑی جنایت یا بہت بڑے گنا ہ اور بدد یا نتی کا مر تکب بھی ہو جا ئے تو اس سے وہ آپ کی آل سے ہر گزہرگز خا رج نہیں ہو گا اسی لئے بعض محققین نے فرمایاکہ ایک شریف سید کو جب زنا یا چوری یا شراب خوری کی حد لگا ئی جا تی ہے تو وہ اس با د شا ہ اور امیر کی ما نند ہے جسکے پاؤں کیچڑ سے لت پت ہو گئے ہوں یا گندگی سے آلودہ ہو گئے ہوں تو اسکے غلاموں میں سے کو ئی غلا م انھیں دھو ڈالتا ہے تو یہ اسکی خد مت ہو گی جن محققین نے یہ کہا انہوں نے نہا یت سچی اور تحقیقی با ت ارشا د فرمائی ۔(فتا ویٰ حد یثیہ ص۱۴۲ مطبوعہ مصر الحکمۃ فی خصو ص اولا د فا طمۃ )

لمحۂ فکر یہ 

آپ نے مذکورہ حوالہ اس شخصیت کا پڑھا جومحد ثین و محققین کا سر خیل ہے ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے آل رسو ل کی جو شا ن بیان فر ما ئی اس کو پڑھکر یہی کہنا پڑے گا کہ سا دات حضرات میں سے کو ئی سید کتنا بڑاگناہ کیوںنہ کر لے اسکے با وجود وہ قا بل احترام ہے کیو نکہ گنا ہ کے ارتکا ب سے اسکی وہ نسبت منقطع نہیں ہو تی جو سر کا ر دو عالم صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم کے سا تھ ہے اگر سر ے سے کو ئی سید (معا ذاللہ ) ایما ن سے دست بردار ہو کر مر تد ہو جا تا ہے یا ایمان قبو ل ہی نہ کیا اور اسی حا لت میں وہ مر گیا تو اب وہ جہنمی ہے ۔مو من سید لا کھ گنہگا ر سہی لیکن محترم رہے گا ۔ سید پر کسی گنا ہ کی حد لگا نے کو جس پیا رے اند ازسے اور جس ادب کو ملحو ظ رکھکر اما م  ابن حجر مکی نے بعض محققین کا قو ل پیش کیا ہے وہ واقعی ادب واحترم کی عظیم صورت ہے ۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کیچڑ صا ف کر نے کی مثا ل کے بعد ایک اور مثا ل سے اسکو واضح فر ما یا ۔ فر ما تے ہیں کہ اگر کسی کا بیٹا نہا یت بد کا ر شرابی زانی اور ہر عیب میں ملوث ہو لیکن ہو مو من تو اپنے والد کے انتقا ل کے بعد وہ میراث سے محروم نہیں ہو گا ۔کیو نکہ اسکے گنہگا ر ہو نے سے نسبت منقطع نہ ہو گی تو جس طر ح یہا ں گنا ہ نسبت کو ختم نہیں کر تے لو گ اسے مرنے والے کا بیٹا ہی کہتے ہیں ۔ اسی طر ح سید کی نسبت بھی گنا ہو ں کی وجہ سے منقطع نہ ہو گی ۔ وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آل ہی کہلا ئے گا ۔ ایک اور مثا ل اس فقیر سے بھی سن لیجئے ۔ وہ خو ش بخت وہ خو ش نصیب حضرات جنہیں سر کا ر دوعا لم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحا بی ہو نے کا شر ف ملا ان حضرات میں سے اگر کسی سے کو ئی گنا ہ کبیرہ سر زد ہو جا ئے تو اسکی وجہ سے وہ مقا م صحا بیت سے محروم نہیں ہو تا سید نا حضرت ما عز رضی اللہ عنہ سے صد ورزنا ہوا ان پر اسکی حد لگی اسکے با وجو د یہ محتر م ومکرم ہیں اور صحابی ہو نے میں ذرہ بھر کمی نہ آئی ۔ شیخ مجد د الف ثا نی رحمۃ اللہ علیہ مکتو با ت میں اسی عظمت ونسبت کو بیان فر ما تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ زما نہ کفر میں حضرت حمزہ سید الشھد اء کے قتل کر نے والے ہیں جب مشر ف با سلام ہو گئے اور حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم کے صحا بی بن گئے ایک طر ف انکو لیا جا ئے اور دوسر ی طرف تا بعین کرام میں سے حضرت اویس قر نی کولیں یہ وہ شخصیت ہیں جنکے متعلق خود حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ ان کی شفا عت سے میر ی امت کے لوگ جنت میں جا ئیں گے جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی اور بنی کلب کے بکر یو ں کے برابر انکی شفا عت سے بہراور ہونگے ۔ اس عظمت کے باوجو د وہ وحشی رضی اللہ عنہ کے مقا م ومر تبہ کو نہیں پا سکتے ۔

قا رئین کرام!ہم اہل سنت کا مسلک تما م تر نسبت پر قا ئم ہے اگر کسی امتی کو حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم کے سا تھ ایما نی نسبت ہے تو وہ خواہ کتنا ہی گنہگا ر کیوں نہ ہو با لا خر جنت میں جا ئیگا ۔   

اسی طر ح سید زادہ خواہ کتنی ہی بد کا ر گنہگا ر ہو وہ سید ہی رہے گا ۔ اسکی نسبت ہر گز منقطع نہ ہو گی اور اسکا ادب واحترام با قی رہیگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اما م اہلسنت اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کوجھو ٹا کذاب اور بے ادب وگستا خ کہا جو یہ نظر یہ رکھتا ہے کہ سید زادی کا نکا ح ہر ایک سے جا ئز ہے اس سے سعیدی صا حب کو اس مسئلہ کفوپر نظر ثا نی کر نی چا ہئے بلکہ رجو ع کر لینا چا ہئے ۔

خلا صہ کلام یہ ہیکہ نکا ح میں کفو کا اعتبا ر ہے اور اسکا بہر حا ل لحا ظ رکھنا چاہئے کفو کا نکا ح میں اصلاً معتبر قرار نہ دینا ایک نیا اور بعض پہلو ؤں سے گستا خا نہ نظر یہ ہے۔ بہر کیف مو قعہ ملا تو اس پو ری شر ح مسلم کا تر دید ی جواب شا ئع کروں گا انشا ء اللہ تا کہ مسلما نو ں کو اس زہر یر یلی شر ح سے بچا یا جائے اللہ تعا لیٰ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپکے صحا بہ اور آپکی آل اطہا ر وامجا د کا ادب واحترام کر نے کی تو فیق عطا فر ما ئے اور سلف صا لحین کا خا دم رکھے۔ آمین بجا ہ سید المر سلین صلی اللہ علیہ وسلم 

فا عتبر وایا اولی ا لا بصا ر 

’’کذا لک العذاب ولعذاب ا لاٰ خر ۃ اکبر لو کا نو ایعلمون وصلی اللہ تعا لیٰ علیٰ سید نا مو لا نا محمد والہ وصحبہ اجمعین ۔ والحمد للہ رب العلمین‘‘

کتََََـــبہ

 العبد الضعیف محمد معین الدین خا ن رضو ی حنفی ہیم پوری 

خادم التدریس والا فتا ء دارالعلوم اہل سنت حشمت العلوم گا ئیڈیہہ چمر وپو ر اترولہ بلرامپور یو ی

۱۵؍ربیع النور شریف ۱۴۳۴ھ




Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads