AD Banner

{ads}

(سورہ بقرہ کاتعارف)

 (سورہ بقرہ کاتعارف)

 نزول:سورہ بقرہ ترتیب کے اعتبار سےدوسری سورہ ہے اور نزول کےاعتبار سے ستاسی (۸۷) نمبر پر نازل ہوئی ہے۔

مقام نزول:حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱ / ۱۹)

رکوع اور آیات کی تعداد:اس سورت میں 40 رکوع اور286آیتیں ہیں۔

’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے کی وجہ:عربی میں گائے کو ’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے ہیں۔

سورہ بقرہ کے فضائل:۔سورہ بقرہ کے بے شمار فضائل ہیں ذیل میں چند حدیثیں درج ہیں ملاحظہ ہوں۔

(1)عَنْ ابی مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ البَقَرَةِ مَنْ قَرَأَ بِهِمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ» (البخارى )

ترجمہ:حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورہ بقرہ کے آخر کی دو آیتیں جو کوئی کسی رات میں ان کو پڑھے گا وہ اس کے لئے کافی ہوں گی۔ (صحیح بخاری)

(2)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنْ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ"(مسلم)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس گھر میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم شریف)

تشریح:بعض سورتوں کے، اور اسی طرح بعض آیات کے کچھ خواص ہیں۔ اس حدیث میں سورہ بقرہ کی خاص برکت اور تاثیر یہ بیان فرمائی ہے کہ جس گھر میں اس کی تلاوت کی جائے وہ شیطان کے اثرات اور تسلط سے محفوظ رہے گا۔سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی بعض خاص فضیلتوں کا بیان بعض حدیثوں میں ضمناً موجودہے۔

(3)عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْکِلَابِيَّ يَقُولُا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يُؤْتَی بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ کَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ قَالَ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ کَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا " (مسلم)

ترجمہ:حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سمعان کلابی سے سنا ہے وہ فرما تے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن قرآن مجید اور ان لوگوں کو جو اس پر عمل کرنے والے تھے لایا جائے گا ان کے آگے سورت البقرہ اور سورت آل عمران ہوں گی رسول اللہ ﷺ نے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں ارشاد فرمائی ہیں جنہیں میں اب تک نہیں بھولا وہ اس طرح سے ہیں جس طرح کہ دو بادل ہوں یا دو سیاہ سائبان ہوں اور ان دونوں کے درمیان روشنی ہو یا صف بندھی ہوئی پرندوں کی دو قطاریں ہوں وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی(مسلم حدیث نمبر۱۸۷۶)

(4)عَنْ أَبِىْ أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ، وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا، اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ». ( مسلم)

ترجمہ:حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ: قرآن پڑھا کرو، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا شفیع بن کر آئے گا (خاص کر) زہراوین یعنی اس کی دو اہم نورانی سورتیں البقرۃ اور آل عمران پڑھا کراو، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کو اپنے سایہ میں لئے اس طرح آئیں گی جیسے کہ وہ اَبر کے ٹکڑے ہیں، یا سائبان ہیں، یا صف باندھے پرندوں کے پرے ہیں۔ یہ دونوں سورتیں قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے مدافعت کریں گی (آپ ﷺ نے فرمایا) پڑھا کرو سورہ بقرہ کیونکہ اس کو حاصل کرنا بڑی برکت والی بات ہے، اور اس کو چھوڑنا بڑی حسرت اور ندامت کی بات ہے،ا ور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے۔(صحیح مسلم)

تشریح:اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ: قرآنِ اپنے "اصحاب" کے لئے بارگاہِ خداوندی میں شفاعت کرے گا۔ "اصحاب قرآن" وہ سب لوگ ہیں جو قرآنِ پاک پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس سے تعلق اور شغف کو اللہ تعالی کی رضا اور رحمت کا وسیلہ یقین کرتے ہوئے اس سے خاص نسبت اور لگاؤ رکھیں، جس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ مثلاً کثرت سے اس کی تلاوت کریں، اس میں تدبر اور تفکر اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا اہتمام رکھیں، یا اس کی تعلیم ہدایت کو عام کرنے اور پھیلانے کی جدوجہد کریں، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے کہ قرآنِ ان کے حق میں شفیع ہو گا۔ ہاں اخلاص یعنی اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت شرط ہے۔

اس حدیث میں قرآنِ پاک کی قرأت و تلاوت کی عمومی ترغیب کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی تلاوت و قرأت کی خصوصیت کے ساتھ بھی ترغیب دی ہے۔ اور فرمایا کہ: قیامت میں اور حشر میں جب ہر شخص سایہ کا بہت ہی محتاج اور ضرورت مند ہو گا، یہ دونوں سورتیں بادل یا سایہ دار چیز کی طرح یا پرندوں کے پرے کی طرح اپنے اصحاب پر سایہ کئے رہیں گی اور ان کی طرف سے وکالت اور جواب دہی کریں گی۔ اور آخر میں سورہ بقرہ کے متعلق مزید فرمایا کہ: اس کے سیکھنے اور پڑھنے میں بڑی برکت ہے، اور اس سے محرومی میں بڑا خسارہ ہے۔ اور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے۔اس حدیث کے بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد ساحرینہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تلاوت کا معمول رکھنے والے پر کبھی کسی جادو گر کا جودو نہیں چلے گا۔

سورہ بقرہ کی اس خاصیت اور تاثیر کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ: جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے شیطان اس گھر سے بھاگنے پر مجبور ہوتا ہے۔

(5)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، وَسَنَامُ القُرْآنِ سُورَةُ البَقَرَةِ وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ القُرْآنِ، هِيَ آيَةُ الكُرْسِيِّ. (الترمذى)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ہر چیز کی کوئی چوٹی ہوتی ہے (جو سب سے اوپر اور بالا تر ہوتی ہے) اور قرآن کی چوٹی سورہ بقرہ ہے، اور اس میں ایک آیت (آیت الکرسی) تمام آیاتِ قرآنی کی گویا سردار ہے۔ (جامع ترمذی)

تشریح:اسلام کے بنیادی اصول و عقائد اور احکام شریعت کا جتنا تفصیلی بیان سورہ بقرہ میں کیا گیا، اتنا اور ایسا قرآن پاک کی کسی دوسری سورت میں نہیں کیا گیا۔ غالباً اسی خصوصیت کی وجہ سے اس کو قرآن مجید میں سب سے مقدر رکھا گیا ہے، اور غالبا اسی امتیاز کی وجہ سے اس کو اس حدیث میں "سنام القرآن" کا لقب دیا گیا ہے۔ 

(6)عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ خَتَمَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ بِآيَتَيْنِ أُعْطِيتُهُمَا مِنْ كَنْزِهِ الَّذِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَعَلَّمُوهُنَّ وَعَلِّمُوهُنَّ نِسَاءَكُمْ، فَإِنَّهُمَا صَلَاةٌ وَقُرْآنٌ وَدُعَاءٌ» ( الدارمى)

ترجمہ:جبیر بن نفیر تابعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو ایسی دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے جو اس نے اپنے اس خاص خزانے سے مجھے عطا فرمائی ہیں جو اس کے عرشِ عظیم کے تحت ہے۔ تم لوگ ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو سکھاؤ، کیوں کہ یہ آیتیں سراپا رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تقرب کا خاص وسیلہ ہیں، اور ان میں بڑی جامع دُعا ہے۔ (مسند دارمی)

سورۂ بقرہ‘‘ کے مضامین:یہ قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔

(1) … قرآن پاک کی صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔

(2) … قرآن پاک سے حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

(3) …قرآن پاک میں شک کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔

(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔

(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔

(6) …اس سورت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔

(7) … عبادات اور معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔

(8) …تابوت سکینہ، طالوت اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔

(9) …مردوں کو زندہ کرنے کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔

(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

(11) …اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔

٭٭٭٭٭




Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner