AD Banner

{ads}

( سورۂ فاتحہ کاتعارف)

 ( سورۂ فاتحہ کاتعارف)

نزول:۔ترتیب کے اعتبار سے پہلی سورت ہے،اورنزول کے اعتبار سے پانچویں۔

مقامِ نزول:اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے ، اور ایک قول یہ ہے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ دو مرتبہ نازل ہوئی ،ایک مرتبہ ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں اور دوسری مرتبہ’’ مدینہ منورہ‘‘ میں نازل ہوئی ہے۔(خازن،تفسیرسورۃ الفاتحۃ، ۱ / ۱۲)

رکوع اور آیات کی تعداد:اس سورت میں 1رکوع اور 7 آیتیں ہیں۔

سورۂ فاتحہ کے اسماء:اس سورت کے متعددنام ہیں اور ناموں کا زیادہ ہونا ا س کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے،اس کے مشہور 15 نام یہ ہیں۔

(1)سورہ فاتحہ (2) ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘(3) ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘(4) ’’اُمُّ الْکِتَابْ‘‘ (5) ’’اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ‘‘ (6)’’سُوْرَۃُ الْکَنزْ،(7)سُوْرَۃُ الْوَافِیَہْ‘(8) ’’سُوْرَۃُ الْکَافِیَہْ‘‘ (9) ’’سُوْرَۃُ  الشِّفَاءْ‘‘(10)’’سُوْرَۃُ الشَّافِیَہْ‘‘(11)’’سُوْرَۃُ الدُّعَاءْ،(12) سُوْرَۃُ تَعْلِیْمِ الْمَسْئَلَہْ(13) سُوْرَۃُالسُّوَالْ(14) سُوْرَۃُ الْمُنَاجَاۃْ‘(15)’سُوْرَۃُ التَّفْوِیْضْ

ناموں کی وجہ تسمیہ:

(1)…’’سورۂ فاتحہ‘‘ سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی جاتی ہے اوراسی سورت سے قرآن پاک لکھنے کی ابتداء کی جاتی ہے ا س لئے اسے ’’فَاتِحَۃُ الْکِتَابْ‘‘ یعنی کتاب کی ابتداء کرنے والی کہتے ہیں۔

2)… اس سورت کی ابتداء’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ سے ہوئی ،اس مناسبت سے اسے ’’سُوْرَۃُ الْحَمدْ‘‘ یعنی وہ سورت جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی گئی ہے،کہتے ہیں۔

(3،4)…’’سورۂ فاتحہ‘‘ قرآن پاک کی اصل ہے ،اس بناء پر اسے ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘ اور ’’اُمُّ الْکِتَابْ‘‘ کہتے ہیں۔

(5)…یہ سورت نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے یا یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے اس وجہ سے اسے ’’اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ‘‘ یعنی بار بار پڑھی جانے والی یا ایک سے زائد مرتبہ نازل ہونے والی سات آیتیں ، کہا جاتا ہے۔

(6تا8)…دین کے بنیادی امور کا جامع ہونے کی وجہ سے سورۂ فاتحہ کو’’سُوْرَۃُ الْکَنزْ،سُوْرَۃُ الْوَافِیَہْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الْکَافِیَہْ‘‘ کہتے ہیں۔

(9،10)… ’’شفاء ‘‘ کا باعث ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الشِّفَاءْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الشَّافِیَہْ‘‘کہتے ہیں۔

(11تا15)…’’دعا‘‘ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الدُّعَاءْ،سُوْرَۃُ تَعْلِیْمِ الْمَسْئَلَہْ، سُوْرَۃُالسُّوَالْ، سُوْرَۃُ الْمُنَاجَاۃْ‘‘اور’’سُوْرَۃُ التَّفْوِیْضْ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ (خازن، تفسیرسورۃ الفاتحۃ،۱ / ۱۲، مدارک،سورۃ فاتحۃ الکتاب،ص۱۰، روح المعانی،سورۃ فاتحۃ الکتاب،۱ / ۵۱، ملتقطاً)

سورۂ فاتحہ کے مضامین:اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔ 

(1) …اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کا بیان ہے۔

(2) …اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اس کے رحمٰن اور رحیم ہونے،نیز مخلوق کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن ان کے اعمال کی جزاء ملنے کا ذکر ہے۔

(3) …صرف اللہ تعالیٰ کے عبادت کا مستحق ہونے اوراس کے حقیقی مددگار ہونے کا تذکرہ ہے۔

(4) …دعا کے آداب کا بیان اور اللہ تعالیٰ سے دین حق اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت ملنے،نیک لوگوں کے حال سے موافقت اور گمراہوں سے اجتناب کی دعا مانگنے کی تعلیم ہے۔یہ چند وہ چیزیں بیان کی ہیں جن کا ’’سورہ ٔ فاتحہ‘‘ میں تفصیلی ذکر ہے۔اور اجمالی طور پر اس سورت میں بے شمار چیزوں کا بیان ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’اگر میں چاہوں تو ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تفسیر سے ستر اونٹ بھروادوں۔ (الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثامن والسبعون۔۔۔الخ، ۲ / ۵۶۳)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’ایک اونٹ کَے( یعنی کتنے ہی) من بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر من میں کَے (یعنی کتنے) ہزار اجزاء (ہوتے ہیں ،ان کا حساب لگایا جائے تو یہ)حساب سے تقریباً پچیس لاکھ جز بنتے ہیں ، یہ فقط ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تفسیر ہے۔(فتاوی رضویہ ، ۲۲ / ۶۱۹)

سورۂ فاتحہ کے فضائل:احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔

(1)}عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ، فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ، فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ المَاءِ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ، إِنَّ فِي المَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ عَلَى شَاءٍ، فَبَرَأَ، فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَكَرِهُوا ذَلِكَ وَقَالُوا: أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، حَتَّى قَدِمُوا المَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ» (رواه البخارى)

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓکی ایک جماعت ایک بستی پر گزری تو بستی کا ایک آدمی ملا اور اس نے کہا کہ کیا تم لوگوں میں کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ہماری بستی میں ایک آدمی کو سانپ نے کاٹ لیا ہے یا کہا کہ بچھو نے کاٹ لیا ہے۔ (غالباً یہ راوی کا شک ہے) تو جماعت صحابہ میں سے ایک آدمی اُٹھ کر چل دیا اور بستی میں جا کر کچھ بکریاں بطور معاوضہ مقرر کر کے اس کاٹے ہوئے آدمی پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ بالکل اچھا ہو گیا تو صاحب ٹھہرائی ہوئی بکریاں ساتھ لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آ گئے۔ تو ان حضرات نے اس کو برا سمجھا اور ان سے کہا کہ تم نے اللہ کی کتاب پڑھنے کا معاوضہ لے لیا۔ یہاں تک کہ یہ سب حضرات مدینہ آ گئے۔ لوگوں نے مسئلہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ ہمارے فلاں ساتھی نے کتاب اللہ (سورہ فاتحہ) پڑھ کر معاوضہ لے لیا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کتاب اللہ اس کی زیادہ مستحق ہے کہ اس پر معاوضہ لیا جائے۔ (صحیح بخاری)

(2)عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ عَمِّهِ أَنَّهُ أَتَى النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم فَأَسْلَمَ ثُمَّ أَقْبَلَ رَاجِعًا مِنْ عِنْدِهِ فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ وَجَدَ عِنْدَهُمْ رَجُلاً مَجْنُونًا فَرَقَاهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ فَأُعْطِىَ مِائَةَ شَاةٍ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم- فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ « هَلْ قُلْتَ إِلاَّ هَذَا ». قُلْتُ لاَ . قَالَ « خُذْهَا فَلَعَمْرِى مَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ فَلَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ 

ترجمہ: خارجہ بن صلت اپنے چچاکایہ بیان نقل کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘ پھر وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت سے واپس جارہے تھے ‘ تو ان کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا ‘ انھوں نے ان لوگوں کے پاس ایک دیوانے شخص کو دیکھا ‘ انھوں نے اس پر سورہ فاتحہ پڑھ کردم کردیا ‘ وہ شخص ٹھیک ہوگیا ‘ انھیں ایک سو بکریاں دی گئیں۔ وہ کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور آپ کو بتایا تو نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا: کیا تم نے یہی سورہ(فاتحہ) پڑھی تھی؟ انھوں نے عرض کی: جی ہاں! نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پھر تم اسے وصول کرلو ‘ میری زندگی کی قسم! جو شخص کوئی باطل دم کرکے کچھ کھائے گا (وہ غلط ہوگا) تم نے تو اسے حق دم کرکے کھایا ہے۔( سنن دار قطنی ،شکار ‘ ذبیحہ ‘ کھانوں وغیرہ کا بیان حدیث نمبر: 4724)

(3)عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ عَمِّهٖ قَالَ: أَقْبَلْنَا مِنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْنَا عَلٰى  حَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ فَقَالُوا: إِنَّا أُنْبِئْنَا أَنَّكُمْ قَدْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِ هٰذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ فَهَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رُقْيَةٍ؟ فَإِنَّ عِنْدَنَا مَعْتُوهًا فِي الْقُيُود فَقُلْنَا: نَعَمْ، فَجَاؤُوا بِمَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً أَجْمَعُ بُزَاقِي ثُمَّ أَتْفُلُ قَالَ: فَكَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَأَعْطَوْنِي جُعْلًا فَقُلْتُ: لَا حَتّٰى أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «كُلْ فَلَعُمُرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ» (رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ)

ترجمہ:۔روایت ہے حضرت خارجہ ابن صلت سے وہ اپنے چچا سے راوی فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے پاس آئے تو عرب کے ایک قبیلہ پر گزرے وہ لوگ بولے ہمیں خبر ملی ہے کہ تم ان محبوب کے پاس سے بڑی خیر لے کر آئے ہو، تو کیا تمہارے پاس کوئی دوا یا دم درود ہے ہمارے ہاں ایک دیوانہ قید میں بندھا ہوا ہے،ہم بولے ہاں چنانچہ وہ لوگ بیڑیاں پہنے ایک دیوانہ لائے میں نے تین دن تک صبح شام اس پر سورۂ فاتحہ پڑھی کہ اپنا تھوک جمع کرتا پھر اس پر تھتکار دیتا تھا،وہ تو گویا رسیوں سے کھل گیا انہوں نے مجھے کچھ اجرت پیش کی میں بولا نہیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے پوچھ لوں، حضور نے فرمایا کھاؤ میری زندگی کی قسم یہ اجرت اسی کے لیے ہے جو جھوٹے دم سے کھائے تم نے توسچے دم سے کھایا ہے۔(مشکوۃ  اجارہ کا بیان ،حدیث نمبر 2986)

تشریح:۔اپنے عمل اور اپنی محنت کا معاوضہ لینا اجارہ ہے اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی مریض وغیرہ پر قرآن شریف یا کوئی دعا پڑھ کر دم کیا جائے یا تعویذ لکھا جائے اور اس کا معاوضہ لیا جائے۔جو لوگ کہتے ہیں نہیں لینا چاہئے وہ خطا پر ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں اور صحابہ کرام نے دم کرنے کا معاوضہ لیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز اور طیب قرار دیا ہے۔

(4)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ وَلاَ فِي الإِنْجِيلِ وَلاَ فِي الزَّبُورِ وَلاَ فِي القُرْآنِ مِثْلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلاَةِ؟ قَالَ: فَقَرَأَ أُمَّ القُرْآنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلاَ فِي الْإِنْجِيلِ وَلاَ فِي الزَّبُورِ وَلاَ فِي الفُرْقَانِ مِثْلُهَا، وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ. (رواه الترمذى)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ:کیا تمہاری خواہش ہے کہ میں تم کو قرآن کی وہ سورت سکھاؤں جس کے مرتبہ کی کوئی سورت نہ تورتت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن ہی میں؟ ابی نے عرض کیا ہاں حضور ﷺ! مجھے وہ سورت بتا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نماز میں قرات کس طرح کرتے ہو؟ ابی نے آپ ﷺ کو سورہ فاتحہ پڑھ کر سنائی (کہ میں نماز میں یہ سورت پڑھتا ہوں، اور اس طرح پڑھتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ توریت، انجیل، زبورمیں کسی میں اور خود قرآن میں بھی اس جیسی کوئی سورت نازل نہیں ہوئی۔ یہی وہ سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ (جامع ترمذی)

تشریح: ..... قرآنِ مجید میں سورہ حجر کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر اپنے خاص الخاص انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ"اور بیشک ہم نے تم کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں اور عظمت والاقرآن۔(سورہ حجر آیت نمبر ۸۷)

رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ بالاحدیث میں اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ "سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ" سورہ فاتحہ ہی ہے۔ اور یہ ایسی عظیم الشان اور عظیم البرکت سورت ہے کہ اس درجہ کی سورت کسی پہلی آسمانی کتاب میں بھی نازل نہیں کی گئی، اور قرآن میں بھی اس کے درجہ کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ یہ پورے قرآن کے مضامین پر حاوی ہے۔ اسی لئے اس کو "ام القرآن" بھی کہا جاتا ہے۔ اور اسی لئے اس کو قرآن کا افتتاحیہ قرار دیا گیا ہے، اور ہر نماز کی ہر رکعت میں اس کا پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جس بندے کو سورہ فاتحہ یاد ہے اور اخلاص کے ساتھ اس کا پڑھنا اس کو نصیب ہوتا ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی دولت اور نعمت نصیب ہے۔ چاہئے کہ وہ اس کی قدر و عظمت کو محسوس کرے اور اس کا حق ادا کرے۔

شفا اور قوتِ حافظہ کا وظیفہ: علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے  ہیں خواص القرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب سورۂ فاتحہ کو پاک برتن میں  لکھا جائے اور پاک پانی سے اس لکھے ہوئے کو مٹایا جائے اور اس پانی سے مریض کا چہرہ دھویا جائے تو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اسے شفا مل جائے گی۔ اور جب سورۂ فاتحہ کو شیشے کے برتن میں مشک سے لکھا جائے اور عرقِ گلاب سے اس لکھے ہوئے کو مٹایا جائے اور وہ پانی ایسے کُند ذہن کو سات دن تک پلایا جائے جسے کچھ یاد نہ رہتا ہو تو اس کی کند ذہنی ختم ہو جائے گی اور جو سنے گا وہ اسے یاد ہو جائے گا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۷،۴ / ۴۸۸)

۞ ۞ ۞ ۞ ۞ ۞ ۞ ۞ ۞

 ۞ ۞ ۞ ۞ ۞ ۞ ۞

 ۞ ۞ ۞ 

۞ 



हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads